موت کا دھندہ

 ارے اے ہاشو کہاں مر گیا۔۔اماں نے میرا مختصر سا نام لیکر پُکارا۔۔کیا بات ہے اماں۔۔میں نے ادب اور پیا رکے لہجے میں اماں سے سوال کیا۔۔۔پیار کے رد عمل میں اماں نے بھی پیار سے کہا۔۔میرا پیارا بیٹا مجھ کو بازار سے بغیر لگے پان لا دے۔۔یہ سنتے ہی میرا پارہ چڑھ گیااور غصے سے سے مخاطب ہوا۔۔کیا ہر وقت پان کھاتی رہتی ہو مت کھایا کرو پان وان ۔۔اماں پیر کے نیچے سے چمڑے کی چپل نکالتی ہوئے بولیں۔۔پان لا کر دیتا ہے یا منہ لال کر دوں چپل سے۔۔خود تو پان کھا کر منہ لال کر لو گی اورمیرا منہ چپل سے لال کرو گی واہ ۔۔میں نے انکے ہاتھ سے آٹھ آنے کا سکہ چھینا اور پاؤں پٹختا ہو اپان لینے چلا گیا۔۔والدہ محتر مہ پان کی شیدائی تھیں ، ا ماں جب بھی بیمار پڑتی تھیں خواہ ان کو نزلہ ہی کیوں نہ ہوا ہو ان کو چڑانے کے لئے میں کہتا تھا ـ"اماں پان مت کھایا کریں" بس پھر کیا تھا اماں کی صلواتیں ہوتی تھیں اور میرے قہقے۔رات کے 2بج رہے تھے اماں کی کھانسی کی آواز نے مجھ کو گہری نیند سے بیدار کر دیا۔۔کیا ہوا اماں؟۔۔مسلسل کھانستی ہوئی اماں سے میں نے سوال کیا۔اماں نے ہاتھ کے اشارے سے پانی مانگاکھانسی رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی انکا چہرہ سرخ ہو رہا تھا آنکھیں باہر کو اُبل رہی تھیں پانی لا کر میں نے اپنے ہاتھوں سے پلایااور اماں کے قریب بیٹھ گیا ۔۔تیزی سے پیٹھ کو سہلاتا رہا ۔۔میں نے کہا تھا ناپان نہ کھایا کریں ۔۔میں نے اماں کی پیٹھ کو مزید تیزی سے سہلاتے ہوئے کہا۔۔جواب میں اماں نے ہلکا سا ہاتھ میرے گال پہ پیار سے ما را اور بستر پہ لیٹ گئیں ،والد صاحب اور بہن بھائی گھر کے تمام افراد پلنگ کے ارد گرد جمع ہو گئے تھے سب کی آنکھوں سے آنسووں کا سمندر اُمڈ رہا تھا اب کھانسی کا زور ٹوٹ گیا تھا آہستہ آہستہ کھانستی ہوئی اماں کا جسم ٹھنڈا ہوتا چلا گیااسکے ساتھ ہی اُنکی روح قفس عنصری سے پروازکر گئی ، اﷲ انکو جنت نصیب فرمائیں ،موت سے قبل انکو کافی بیماریوں کا سامنا کرنا پڑا تھا،راتوں کو کھانسا کرتیں تھیں،سینے اور گلے کی شدید تکلیف میں مبتلا رہیں اور یہ تمام صعوبتیں اُنھیں بے تحاشہ تمباکو والے پان کھانے کے سبب جھیلنا پڑیں۔میرے خیال میں پان نقصان دہ نہیں تھا بلکہ نقصان دہ تمباکو تھا جسکو وہ ڈبیہ سے نکال کر پان پر چھڑکتی تھیں-

پان کی تاریخ کوئی پانچ ہزار سال پرانی ہے۔کہا جاتا ہے ہندووں کے بھگوان کرشن نے اپنے ہونٹوں کو خوبصورت بنانے کے لئے پان کھایا،اسکے بعد سے پان ہندوستان کی ثقافت میں پیوست ہو گیا، دوسو سال قبل پان کو مہمانوں کے سامنے بڑے ادب و احترام سے خوبصورت طشتری میں رکھ کر پیش کیا جاتا تھا ،پان کو منہ کی خوشبو اور منہ کو ترو تازہ رکھنے کے لئے نوش فرمایا جاتا تھا (یاد رہے کہ پان کھانا آج کی اصطلاح ہے) بادشاہوں کے دربار میں ،نوابوں کے کوٹھی میں اور طوائفوں کے کوٹھے پر پان بڑے ادب اور احترام کیساتھ پیش کیا جاتا تھا "کھائی کے پان بنارس والا "پان کھائے سیاں ہمار"نیچے پان کی دوکان اوپر گوری کا مکان "ان گانوں اور کہاوتوں سے آپ پان کی اہمیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں ، لیکن بعد میں اس میں تمباکو کا استعمال شروع ہوا تو اس نے نشے کی صورت اختیار کر لی پان کی لت پڑنے کے بعد اسکو چھوڑنا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے ،پاکستان بننے کے بعدمہاجرین کے ہمراہ ہندوستانی ثقافت پاکستان میں داخل ہوئی یہاں بھی پان کھانا رواج بن گیا لڑکیوں کو جہیز میں اب بھی پاندان دینے کا رواج کچھ خاندا نوں میں مو جود ہے لیکن اب اس میں کمی واقع ہو گئی ہے۔ پاکستان بننے سے قبل یہاں حُقہ ،بیڑی اور سگریٹ کا استعمال تھا ۔ اب تو یہ حالت ہے کہ پاکستان کے گلی کے ہر کونے پہ پان کی دوکان موجود ہے۔پاکستان ،بھارت،بنگلا دیش ،سری لنکا اور چین میں پان کی کاشت کی جاتی ہے ۔ پاکستان میں خصوصاً کراچی میں پان کثرت سے کھایا جا تا تھاکراچی والوں کی پان پہچان بن گیاتھا پھر پان نے اپنے قدم پورے پاکستان میں جمانا شروع کئے پاکستان میں لا تعداد پان کی دوکانوں میں اضافہ ہوا پیشتر پان کی دکانوں میں پان کھانے والوں کا جم غفیر دیکھا گیا بعض دوکانوں میں پان پر چاندی کے ورق لگا کر بڑے خوبصورت انداز سے رکھا جاتا ہے کراچی،لاہور میں ایک پان 5روپے سے 200روپے تک بھی دستیاب ہے پان کے کثرت سے استعمال اور درآمد کی کمی نے پان کو قیمتی بنا دیا ۔ تقریباً 25سال قبل پرانی بات ہے ہماری دوستی بھی ایک پان والے سے ہو گئی وہ بڑا ہی دلچسپ شخصیت کا مالک تھا ایک دن اس نے ہم سے کہاـ"آؤ تمھیں کتھا بنانا سیکھاوں ـ "ہم نے بھی دلچسپی کا اظہار کر دیا(ہم سے مراد میں اور میرا دوست)اور ایک دن اسکے گھر جا کر کتھا بنتے ہوئے ہم نے دیکھا پھر میں نے خود کئی دفعہ اس سے کتھے کا سامان لے جا کر اپنے گھر میں اسکی دُکان کے لئے کتھا بنایا ،آپ کو یہ سن کر حیرانگی ہو گی کہ ایک دفعہ مجھ سے کتھا اسکے کتھے کے مطابق گا ڑھا ہو گیا تھا تو اسنے سخت ناراضگی کا اظہار کیا،کتھے میں تیار ی کے جو لوازمات استعمال کئے جا تے تھے وہ بھی سن لیں1۔چار قسم کے کتھے ،کالا کتھا،گنڈیری کتھا،کانپوری کتھااوررنگونی کتھا 2۔گوند3۔اسفغول4۔گُڑ 5۔گلاب کی سوکھی پتیاں ان اجزا میں کوئی بھی چیز ایسی نہیں تھی جو صحت کے لئے نقصان دہ ہو ان تمام اجزا کو ایک بڑے دیگچے میں پانی بھر کر تقریباً 5سے 6گھنٹے تک پکایا جاتا تھا یہ پھر پان کے مہنگا ہونے کے سبب اس کاروبار میں چند مافیا زسرگرم ہوئے اور انھوں نے گٹکا روشناس کرایا گٹکا پان کا نعم البدل تو ثابت ہوا لیکن اسنے گٹکاکھانے والے عادی افرادمیں مہلک بیماریوں کو جنم دیا جسمیں گلے ،جبڑے،پھیپھڑوں کا کینسر عام ہے۔کینسر کا شکار ہونے والوں کی اکثریت گٹکے کے عادی خواتین و افراد کی ہے ۔اس عادت میں مبتلا افراد کی اکثریت کا تعلق سندھ اور بلوچستان کے غریب افراد سے ہے۔ گٹکے کی وہ شکل جسے پان کے نعم البدل کے طور پر روشناس کروایا گیا تھا اتنی خطرناک نہیں تھی جتنی انڈیا میں استعمال ہونے والے گٹکے کی شہرت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہاں بنائی گئی ۔پھر اسکے ساتھ ہی مین پوری ، ماوا،پان پراگ کو بھی اسکے اقسام میں شامل کردیا گیا۔ سستا ملنے کے سبب اسکے استعمال میں انتہائی تیزی سے اضافہ ہوا ،منہ کیلئے انتہائی ضرر رساں ہونے کے باوجود دو روپے میں گٹکے کا رحجان تیزی سے بڑھا اور بڑھ رہا ہے اور ساتھ ہی کینسر کا مرض بھی۔ حالیہ دنوں میں تقریباً 500افراد کے منہ بند ہوگئے ہیں انکا منہ ایک سینٹی میٹر سے بھی کم کھلتا ہے جناح ہسپتال کراچی کےENTوارڈ میں روزآنہ دو سے تین منہ کے کینسر میں مبتلا افراد نظر آتے ہیں دیگر علاقوں کی صورتحال اس بھی زیادہ ہولناک ہے کیونکہ یہاں گٹکے کی تیاری کا عمل انتہائی غلیظ ہے اس میں کتھا،چونا،تمباکو کے کچرے کا مرکب ہوتا ہے تینوں اجزا کا میعار انتہائی گھٹیا ہوتا ہے گٹکے کو لیسدار کرنے کے لئے اسمیں اسفغول،گوند کے بجائے گائے کا تازہ خون ،کلف پاوڈر،ملتانی مٹی اسکے علاوہ سری لنکا سے درآمد کردہ چھالیہ کی ایک ممنوعہ قسم کا سفوف ڈالا جاتا ہے حیران کن بات یہ ہے کہ گٹکے میں بیٹری کا پانی اور افیم بھی استعمال ہوتا ہے 2روپے کی پُڑیا میں ہر وہ چیز موجود ہے جسکے مجموعے کو زہر کہا جا نا غلط نہیں ہو گاان موت کا کاروبار کرنے والوں کی پشت پناہی پولیس اور سیاسی پارٹیوں کے غنڈے بڑے احسن طریقے سے انجام دیاکرتے ہیں ۔ ایک نجی ٹی وی چینل کے مطابق صرف کراچی میں گٹکا بنانے کی 80سے زائدفیکٹریاں ہیں جو گھروں کے اندر موجود ہیں۔ پولیس اور دیگر افراد واداروں کو ان فیکٹریوں سے ماہانہ کروڑوں کا بھتہ دیا جاتا ہے ہر کارخانے میں روزانہ ڈیڑھ لاکھ گٹکے کی پڑیاں تیار کی جاتیں ہیں سندھ بلوچستان میں گٹکا استعمال کرنے والوں کی تعداد3کروڑ افراد سے تجاوز کر گئی ہے ایک مقا می ڈاکٹر کے مطابق ہر سال کم سے کم 20سے25افراد کی اموات گٹکا کھانے کے سبب ہوتی ہے۔ اور ہر سال اس میں اضافہ ہی ہورہا ہے اسوقت اضافے نے بتدریج ترقی کی اور وہ اپنی سنچری کے جانب گامزن ہے ۔اس خوفناک صورتحال اور اعداد و شمار کے باوجود اس زہر کو کھانے کا رحجان تیزی سے بڑھ رہا ہے اور آگے مزید بڑھنے کے امکان ہیں ،کیونکہ نہ خود گٹکا کھانے والوں کو اپنی صحت کی فکر ہے اور نہ ہی محکمہ صحت کواور نہ حکمرانوں کو ۔یوں تو ہر شے جو نشہ بن جائے وہ مہلک بیماریوں کو دعوت دیتی ہیں لیکن گٹکا اور ہیروین ہماری نسل کی تباہی کا سامان اور درد سر بنی ہوئی ہیں متعلقہ ادارے فیکٹریاں بند کروانے سے قاصر ہیں اور دعوؤں کے باوجود اسکی فروخت بند نہیں کروائی جاسکی۔ میں موجودہ حکومت ،عدالت عظمی اور عسکری قیادت سے مودبانہ گزارش کرونگا کہ فوری طور پر گٹکا فیکٹریوں کو بند کروا کر نوجوانوں کو مہلک بیماریوں سے نجات دلائیں اور موت کے سوداگروں کے خلاف جہاد کریں۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Sheikh Muhammad Hashim
About the Author: Sheikh Muhammad Hashim Read More Articles by Sheikh Muhammad Hashim: 77 Articles with 91222 views Ex Deputy Manager Of Pakistan Steel Mill & social activist
.. View More