دفاعِ پاکستان اور افکارِ رضا

پروفیسر دلاور خاں

پاکستان آج داخلی اور خارجی طور پر تاریخ کے انتہائی نازک دور کے نشیب و فراز سے گزر رہا ہے۔ اسلام دشمن قوتیں پاکستان کی سالمیت اور خود مختاری کو نقصان پہنچانے کے لیے نت نئے بہانے گھڑ کر ہماری ملکی غیرت و حمیت کو للکار رہی ہیں۔ ڈرون حملوں، ایبٹ آباد آپریشن اور نیوی ائیربیس حملے کے زخم ابھی بھرنے نہیں پائے تھے کہ جنرل مولن نے پاکستان پر حملے کی دھمکی دے دی۔

ماضی میں ہماری مشرقی سرحدیں غیر محفوظ تصوّر کی جاتی تھیں، مگر آج ہماری مغربی سرحدیں بھی محفوظ نہیں۔ گزشہ تین سالوں میں نیٹو کے ۷ سے ۸ حملوں میں افسران سمیت ۷۲ پاکستانی فوجی اہلکار شہید اور ۲۵۰ سے زائد جوان زخمی ہوچکے ہیں، جو مشرقی سرحدوں پر ہونے والی ہلاکتوں سے زیادہ ہیں۔ نیٹو کے طیارے کئی بار پاکستان کی سرحدوں کی خلاف ورزی کرچکے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے قبائلی جنوبی وزیرستان کے صدر مقام وانا سے ۳۰ کلو میٹر دور افغان سرحد کے قریب نیٹو طیاروں نے پاکستان کے اندر کارروائی کرتے ہوئے ایک مکان کے اندر موجود ۲۱ افراد کو ہلاک کردیا،جس میں بچے اور خواتین بھی شامل تھے۔ ان تمام و اقعات پر صرف اظہارِ افسوس ہر ہی اکتفا کیا گیا اور پاکستانیوں کے قاتلوں کو عبرت ناک سزا دینا تو درکنار اپنے کیے پر معافی مانگنا بھی گوارا نہیں کیا گیا۔

پاکستان نے افغانستان میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی مسلط کی ہوئی جنگ میں ان سے بڑھ کر قربانیاں دی ہیں۔ ہمارے ۵ ہزار سے زائد فوجی جوان ، افسر اور ۳۵ ہزار سے زائد بے گناہ شہری اس جنگ میں شہید ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ سو ارب ڈالر کا مالی نقصان الگ ہے، جو ملکی بجٹ کے مجموعی حجم سے بھی زیادہ ہے۔ اتنا جانی اور مالی نقصان تو امریکا اور اس کے سارے اتحادیوں نے مل کر بھی نہیں اٹھایا۔ روس کی طرح امریکا افغانستان سے راہِ فرار اختیار کرنے اور اپنی ناکامیابیوں پر پردہ ڈالنے کے بہانے تلاش کر رہا ہے۔ اس کا سارا نزلہ پاکستان پر ڈالنا چاہتا ہے۔ ۲۶ نومبر کا دِن پاکستان کی تاریخ کا ایک سیاہ ترین دن تھا، جب مہمند ایجنسی میں پاکستان کی سرحدوں کے دو تین کلو میٹر اندر ہماری سرحدی پوسٹوں پر نیٹو افواج کا حملہ اور پاک فوج کے ۲۶ جوان اور افسروں نے جامِ شہادت نوش کیا اور ۱۵ زخمی ہوئے۔ پاکستانی چیک پوسٹوں کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی بڑے منظم طریقے سے کی گئی۔ نیٹو کے پاس ان چوکیوں کامکمل نقشہ موجود تھا، حملہ آور ہیلی کاپٹرز جن سے میزائل داغے گئے انہیں جنگی طیاروں کی بھی مدد حاصل تھی، اگران ہیلی کاپٹروں پر حملہ کیا جاتا تو یہ جنگی طیارے جوابی کار روائی کرتے۔پاک فوج کو جب ان ۲ پوسٹوں پر حملے اور شہادتوں کی اطلاع موصول ہوئی تو فوراً نیٹو کے نمائندوں کو اس کار روائی سے متعلق آگاہ کیا گیا، مگر کار روائی جاری رہی۔ ۳ گھنٹےتک نیٹو کے ہیلی کاپٹرز ہمارے فوجیوں کو شہید کرتے رہے، مگر افسوس کہ ہماری طرف سے کسی بھی قسم کا جوابی قدام نہیں اٹھایا گیا۔

اگر اسی طرح کا حملہ پاکستانی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے افغانستان کے علاقے میں کیا جاتا، جس میں نیٹو کے اتنے ہی فوجی مارے جاتے تو یہ معاملہ صرف اظہارِ افسوس اور انکوائری کمیٹی کی رپورٹ پر ختم نہیں ہوجاتا؛ بلکہ یہی اتحادی اسے اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں لے جاتے، پاکستان پر عملی انتقامی کار روائی کی جاتی؛ پابندیاں عائد کی جاتیں، کیوں کہ ان کے نزدیک صرف ان کے فوجیوں کی جانیں عزیز ہیں۔ پاکستان کے غیرت مند اور غیور سوادِ اعظم اہلِ سنّت وجماعت پاک فوج کے جوانوں کے قاتلوں کو باور کرانا چاہتے کہ ہمارے فوجیوں کا خون اتنا ارزاں نہیں کہ صرف اظہارِ افسوس سے کام چل جائے گا؛ بلکہ جب تک ہمارے جوانوں کے قاتلوں کو سزا نہیں دی جاتی اس وقت تک ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ ایک ایک غیرسنیّ پاکستان کے دفاع میں افواجِ پاکستان کے شانہ بشانہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند کھڑا ہوگا۔ نیٹو سپلائی کی معطلی، بون کانفرنس کا بائیکاٹ اور شمسی ائیربیس کے انخلا سے آگے بھی کوئی قدم اٹھا نے کی ضرورت پڑے تو اٹھایا جائے کیوں کہ پوری سوادِ اعظم اہلِ سنّت میں اس بات پر کوئی دورائے نہیں کہ پاک فوج اور پاکستان کے دفاع کے لیے کسی بڑی سے بڑی قربانی دینے سے گریز نہیں کیا جائے گا۔ پوری دنیا اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ پاکستان سوادِاعظم اہلِ سنّت کے اکابرین اور خلفائے اعلیٰ حضرت کی تحریک کا نتیجہ ہے؛ اس کی بنیادوں میں ہمارا خونِ جگر شامل ہے جو پاکستان بنانا جانتے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ان میں اتنی صلاحیت موجود ہے کہ وہ دنیا کو پھر ایک بار بتا دیں گے کہ پاکستان کا دفاع کس طرح کیا جاتا ہے علما مشائخ نے پاکستان کے استحکام کے لیے جو قربانیاں دی ہیں وہ تاریخِ پاکستان کا روشن باب ہیں۔

اس صورتِ حال میں نہایت ضروری ہے کہ پاک فوج اور پاکستان کے دفاع کے لیے اعلیٰ حضرت کے ان افکار سے زیادہ سے زیادہ فائد اٹھا کر پاکستان کو ناقابل شکست خطہ بنایا جاسکتا ہے۔
(۱) مفکرِ اسلام امامِ سوادِ اعظم اہلِ سنّت والجماعت احمد رضا خاں محدث حنفی فرماتے ہیں: ’’ہر سلطنتِ اسلام، نہ صرف ہر سلطنت، ہر جماعتِ اسلام، نہ صرف جماعت، ہر فرد کی خیر خواہی ہر مسلمان پر فرض ہے۔ (فتاویٰ رضویہ جلد، ۱۴، ص۱۳۳)
(۲) آپ مزید فرماتے ہیں کہ کمزوری میں کسی کی مدد چاہنے کا یہی مطلب ہوتا ہے کہ اس کے بل بازو سے ہمیں قوت ملے گی؛ ہماری کمزوری و ذلت غلبہ و عزت سے بدلے گی اللہ عزوجل فرماتا ہے یہ ان کی بد عقلی ہے۔ کافروں کی مدد سے غلبہ و عزت کی تمنا ہوس باطل ہے۔ (فتاویٰ رضویہ، جلد ۱۴، ص۴۹۲)
(۳) اس سلسلے میں اعلیٰ حضرت یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ عبادہ بن صامت کے کوئی یہودی حلیف تھے؛ غزوۂ احزاب میں انہوں نے عرض کی یارسول اللہ! میرے ساتھ ۵۰۰ (پانچ سو) یہودی ہیں۔ میری رائے ہے کہ دشمن پر ان سے مددلوں اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی کہ:
’’مسلمان غیر مسلم کو مدد گار نہ بنائے کیونکہ یہ مسلمانوں کو حلال نہیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو منع فرمایا کہ رشتےخواہ یارانے، خواہ نرے میل کے باعث کافروں سے دوستانہ برتیں یا ان سے لطف و نرمی کے ساتھ پیش آئیں اور اللہ کے لیے محبّت اور اللہ کے لیے عداوت ایک عظیم باب اور ایمان کی جڑ ہے۔
٭ آپ تفسیر مدارک کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں کہ رب عزوجل فرماتا ہے کہ کافروں کو دوست نہ بناؤ کہ تم ان کے معاون بنو اور ان سے اپنے لیے مدد چاہوا،نہیں بھائی بناؤ دنیوی برتاؤ ان کے ساتھ مسلمانوں کا سا رکھو اس سب سے منع فرماتا ہے۔ (فتاویٰ رضویہ، جلد ۱۴، ص۴۹۳)
٭ تفسیرِ کبیر سے نقل فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو حکم فرماتا ہے کہ صرف مسلمان ہی کو اپنا دوست اور مدد گار بنائیں کافروں کی مدد اور یاری پر اعتماد مت کرو (فتاویٰ رضویہ، جلد۱۴، ص۴۳۹)
٭ تفسیر ابی مسعود کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ مسلمان منع کیے گئے ہیں کافروں کی دوستی سے، خواہ وہ رشتہ داری ہو یا اسلام سے پہلے کا یارانہ یا کسی سبب یاری خواہ میل جول کے سبب اور منع کیے گئے ہیں کہ اس سے جہاد یا دینی کام میں کافروں سے مدد حاصل کریں۔ (فتاوٰی رضویہ، جلد ۱۴، ص۴۹۴)
٭ آپ مزید تفسیر بیضادی سے نقل فرماتے ہیں کہ ان (کافروں) سے بالکل دور رہو اور ان کی دوستی و مدد کچھ نہ قبول کر۔ (فتاوٰی رضویہ، جلد۱۴، ص۴۹۵)
اب یہود و نصاریٰ کی دوستی اور مدد کے نتائج قوم کے سامنے آچکے ہیں، جس نے پاکستان کی صلاحیت اور استحکام کو خطرات سے دوچار کردیا ہے۔ یہ صورتِ حال قرآنِ حکیم کے اس ارشاد کی صداقت کو عیاں کرتی ہے، جس کا مفہوم یہ ہے: ’’یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست مت بناؤ، یہ تمہارے دوست نہیں ہوسکتے، بلکہ یہ (تمہارے خلاف) ایک دوسرے کے دوست ہیں۔‘‘
آگئے ہیں تنگ بمباری سے ہم
ختم یہ برسات ہونی چاہیے
رکھ کے اب ہر مصلحت بالائے طاق
فیصلہ کن بات ہونی چاہیے
Syed Wajahat Rasool
About the Author: Syed Wajahat Rasool Read More Articles by Syed Wajahat Rasool: 5 Articles with 3757 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.