قومی سیاست میں دینی قیادت

تحریر : مولانا زاہد الراشدی
وقت اتنی تیزی سے گزر جاتا ہے اور حالات اس طرح بھی بدل جاتے ہیں ۔اس کے بارے میں سن تو بہت کچھ رکھا تھا۔مگر رفتار زمانہ نے عمل و تجربہ کی دنیا میں احساس دلایا ہے تو اس کا صحیح اندازہ ہوا ہے۔ابھی کل کی بات ہے کہ قومی سیاست میں حضرت مولانا مفتی محمودؒ کی شب و روز سرگرمیاں اور ان کی حکمت و تدبرہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔بلکہ ان کے ساتھ شریک کار تھے۔مگر آج جب وقت کا حساب لگایا ہے تو زمانے کی بے رحم رفتار نے بتایا کہ انھیں ہم سے رخصت ہوئے پنتیس برس گزر گئے ہیں۔میری حضرت کے ساتھ عملی رفاقت دس بارہ سال رہی ہے۔1968ء سے 1975 ء تک جمعیۃ علمائے اسلام کے ضلعی اور صوبائی سطح کے عہدیدار کی حیثیت سے اور 1975 سے 1980 تک مرکزی سیکرٹری اطلاعات کے طور پر رفیق کار خادم کی حیثیت سے ان کی دینی سیاسی سرگرمیوں میں شرکت کی سعادت حاصل رہی ہے۔ وہ میرے باقاعدہ استاذ نہیں تھے۔لیکن میں نے ہمیشہ انھیں اپنے اساتذہ کی صف میں ہی سمجھاہے۔بلکہ جب یہ دیکھتا ہوں کہ میں نے ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کئے بغیر کیا کچھ سیکھا ہے تو ’’ شاگرد ‘‘ کا لفظ بہت ہلکا دکھائی دینے لگتا ہے۔

آج سے چھ عشرے پہلے کی طرف دیکھتا ہوں تو قومی سیاست میں دینی قیادت کی مسلسل پیش رفت اور نفاذ اسلام کی جدوجہد میں آگے بڑھنے کامنظر نگاہوں کے سامنے آجاتا ہے۔اور مولانا مفتی محمود اس پیش قدمی کی قیادت کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔یہ وہ دور ہے جب 1956ء کے دستور میں ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھا گیاتھا۔مگر اس کے باوجود جمعیۃ علمائے اسلام اس پہ مطمئن نہیں تھی اور ان دستوری اقدامات کو ناکافی سمجھ رہی تھی۔اگر 1956 ء کے دستور پر جمیعۃ علمائے اسلام کی قائم کردہ کمیٹی جو مولانا شمس الحق افغانی ، مولانا مفتی محمود۔ شیخ حسام الدین اور علامہ ڈاکٹر خالد محمود پہ مشتمل تھی۔اس نے دستور پر باقاعدہ تنقیدات مرتب کیں تھیں جو جمیعۃ علماء اسلام کی طرف سے شائع بھی ہوئیں تھی۔اگر ان تنقیدات کے مطبوعہ رسالے کو کہیں سے تلاش کرکے ایک بار پھر قومی پریس کی زینت بنایا جا سکے تو صحیح طور پہ اندازہ ہو جائے گا کہ مولانا مفتی محمود اور ان کے رفقاء کی ٹیم نفاذ اسلام کے حوالے سے کیا اھداف رکھتی تھی؟۔اور ہماری آج کی قناعت پسندی کا ان اھداف کے ساتھ فاصلہ کتنی تیزی سے بڑھتا جارہا ہے۔

پھر 1962ء کے دستور میں ملک کے نام سے اسلامی کا لفظ حذف کرکے اس کے لئے ’’ جمہوریہ پاکستان‘‘ کا نام تجویز ہوا تو مولانا عبد اﷲ درخواستی ، مولانا مفتی محمود ،مولانا غلام غوث ہزاروی،مولانا سید گل شاہ اور مولانا عبیداﷲ انور کے قافلے کے اضطراب اور بے چینی کا عالم کیا تھا ؟ جب تک حکمرانوں کو یہ تبدیلی واپس لینے اور دوبارہ اسلامی جمہو ریہ پاکستان کی شناخت واپس کرنے پر مجبور نہیں کر دیا گیا یہ بے چینی اور اضطراب ملک بھر کی سڑکو ں اور مساجد و مدارس میں مرغ بسمل کی طرح تڑپتا دکھائی دیتارہا مگر آج ملک کی اسلامی شناخت کو دھیرے دھیرے مدھم کر تے چلے جانے پر یہ اضطراب سڑکوں اور مساجد توکجا زبانوں بلکہ دلو ں میں بھی تلاش کرنے کی نوبت آگئی ہے ۔

62ء کے دستور کے تحت اسمبلیا ں اور حکومتیں وجود میں آئیں تو یہ عشرہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں مولانا مفتی محمود، مولانا غلام غوث ہزاروی اور پیر محسن الدین احمد کی مسلسل صدا اور للکار کا دور تھا جو پورے اس دور میں حالات کے جبر کے ساتھ سمجھو تا کرنے کی بجائے کے سامنے کھڑے نفاذاسلام کا نعرہ مستانہ بلند کرنے میں مصروف رہے ۔

70ء کے انتخابات کے نتیجے میں نئے دستو ر کی بات ہوئی تو اب دستور سازی کے محاذ پر مولانا مفتی محمود قائدانہ حیثیت سے کھڑے تھے انہیں مولانا عبدالحق ، مولانا غلام غوث ہزاروی ، مولانا شاہ احمد نورانی ، پروفیسر غفور احمد ، مولانا محمد ذاکر اور مولانا ظفر احمد انصاری جیسے زعماء کی رفاقت حاصل تھی مگر انہوں نے جس تدبر و جراء ت کے ساتھ دستورسازی کا رخ لبرل ازم اور سوشلزم سے اسلامی جمہوریہ پاکستان اور قراداد مقاصد کی طرف موڑا وہ بلاشبہ ان کی قائدانہ صلاحیتوں کا کرشمہ تھا۔آج دستور کا رخ پھر سے لبرل ازم بلکہ سیکولراز م کی طرف موڑا جارہا ہے مگر ان بزرگوں میں کوئی بھی وہاں دکھائی نہیں دے رہا۔
مولانا مفتی محمود نے نفاذ اسلام میں پیش رفت کے لئے جمہوری اسمبلیوں کی طرح جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کوبھی ذریعہ بنانے سے گریز نہیں کیا۔جس کے نتیجے میں قرارداد مقاصد دستور کا باقاعدہ حصہ بنی، وفاقی شرعی عدالت قائم ہوئی، اسلامی نظریاتی کونسل فعال ہوئی اور حدود آرڈینینس کا نفاذ عمل میں آیا مگر آج یہ ساری چیزیں نظر ثانی کی زد میں ہیں۔کچھ اس کی نذر ہوچکی ہیں ۔اور کچھ باقی امور اپنی اپنی باری کا انتظار کررہے ہیں۔

یہ حالات کی تیز رفتار تبدیلی کا کرشمہ ہے کہ مولانا مفتی محمود کے دور میں آج سے چار عشرے قبل نفاذ اسلام کے اقدامات کے حوالے سے ہم پیش رفت کی پوزیشن میں تھے اور مسلسل پیش قدمی کرتے جارہے تھے۔مگر اب ہم صرف دفاع پہ قناعت کئے ہوئے ہیں۔اگر کچھ دوست ناراض نہ ہوں تو یہ عرض کرنے کو جی چاہتا ہے کہ ہم سے یہ دفاع بھی نہیں ہو پارہا۔مفتی محمود کی وفات کے بعد ہماری اس پوزیشن میں تبدیلی کیسے آئی ہے اور ہم کہاں کہاں پیش قدمی کے بجائے پسپائی پہ مجبور ہوئے ہیں اس کا حساب لگانے کی ضرورت ہے۔اس کے اسباب کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے اوراس کی تلافی کے راستے تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ورنہ مجھے ڈر لگ رہا ہے کہ کل سامنا ہونے پر مولانا مفتی محمود کہیں یہ نہ کہہ دیں کہ ’’ چھوڑو یار! تم سے تو ہماری کمائی کی حفاظت بھی نہ ہو سکی‘‘ ۔
Rizwan Ullah Peshawari
About the Author: Rizwan Ullah Peshawari Read More Articles by Rizwan Ullah Peshawari: 162 Articles with 189124 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.