نظام تعلیم کا المیہ……!

 گذشتہ دنوں وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے ملتان خانیوال موٹروے کے افتتاح کے بعد قریب واقع شام کوٹ کے گورنمنٹ گرلز سکول کا اچانک معائنہ کیا ۔ دیہات کے گرلز سکول میں ان کی اچانک تشریف آوری پر یہاں زیر تعلیم طالبات حیران رہ گئیں ، اوروزیر اعظم پاکستان کو اپنے درمیان پا کر ان کے حق میں نعرے بلندکرتی رہیں۔ مذکورہ گرلز سکول کے وزٹ کے دوران وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے دیہات کے سرکاری سکولوں میں طرز تعلیم کا از خود مشاہدہ کیا اور معلمات سے سکول کے مسائل معلوم کئے۔ اور انتظامیہ کو فوری طور پر سکول کی اپ گریڈیشن، اور سٹاف پورا کرنے کے احکامات صادر فرمائے۔وزیر اعظم پاکستان کے احکامات کی روشنی میں گذشتہ روز کمشنر ملتان ڈویژن نے اس سرکاری سکول کا تفصیلی معائنہ کیا اور اپ گریڈیشن کے لئے رپورٹ اعلیٰ حکام کو بھجوادی ہے۔ امید کی جارہی ہے کہ وزیر اعظم پاکستان کو دیہات کے سرکاری تعلیمی اداروں کی کارکردگی بارے یقینا آگاہی حاصل ہوئی ہوگی، اور ان کے از خود مشاہدے کے بعد طالبات کے اس ایک سرکاری سکول کی حالت تو یقینا بہتر ہوجائے گی۔

معاشی ترقی اور شرح خواندگی میں اضافے کے لیے دنیا بھر کے جن ممالک میں کوششیں کی جارہی ہیں بلاشبہ پاکستان ان میں شامل ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق مجموعی طور پر پاکستان کا لٹریسی ریٹ اس وقت 57 فیصد بیان کیا جاتا ہے، جن میں 69 فیصد مرد اور 45 فیصد خواتین شامل ہیں۔ ملک خداداد پاکستان کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہاں شرح خواندگی علاقہ جات کی نسبت تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ اب یہی دیکھ لیں کہ اسلا م آباد میں خواندگی کی شرح 96 فیصد ہے اور بلوچستان تک پہنچتے پہنچتے یہ شرح صرف 28 فیصد رہ جاتی ہے۔ افراد کی عمر کی بات کی جائے تو 55 سے 64 برس کی عمر کے افراد میں شرح خوندگی 38 فیصد،45 سے 54 برس کی عمر والے افراد میں 46 فیصد،25 سے 34 برس کی عمر والے افراد میں 57 فیصد اور 15 سے 24 برس کی عمر والے افراد میں 72 فیصد تک ہے۔ ہر سال تقریباً پونے دو کڑوڑ افراد تعلیمی اداروں میں داخلہ لیتے ہیں جن میں سے 1.2 کڑوڑ افراد پبلک سیکٹر اور پاقی تقریباً 50 لاکھ افراد پرائیویٹ سیکٹر کے ذریعے آتے ہیں۔ان میں 56 فیصد مرد جبکہ 44 فیصد صنف نازک سے تعلق رکھتے ہیں۔ہر سال پاکستان میں 4 لاکھ پینتالیس ہزار افراد یونیورسٹی یا کالج سے گریجوایٹ ہوتے ہیں اور ان تمام میں سے ہر سال دس ہزار افراد صرف کمپیوٹر سائنس کے گریجوایٹ ہوتے ہیں۔ آپکو یہ جان کر بھی یقینا خوشی ہوگی کہ پنجاب حکومت کا ارادہ ہے کہ تعلیمی اخراجات کے لئے کل جی ڈی پی کا 7 فیصد مختص کر دیا جائے۔

یہ تو خیر وہ تمام باتیں ہیں جو پاکستانی تعلیم کے بارے میں ہیں لیکن سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان تمام فیکٹس اینڈ فگرز دیکھنے کے بعد بھی ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے اسکولوں اور خاص کر پبلک سیکٹر کے تعلیمی اداروں میں وہی کچھ ہو رہا ہے جس کے لئے ان کی بنیاد رکھی گئی تھی……؟ کیا تعلیمی ادارے تعلیم ہی کی فروغ کے لئے کام کر رہے ہیں……؟ سوال سادہ ہے جواب مبہم ہے۔ یعنی اگر کوئی مجھ سے یہ سوال کرے تو میرا یہی جواب ہوگا۔۔۔۔۔’’شاید‘‘۔شہر کے پبلک سیکٹر سکولوں کی بات کی جائے تو ہم کسی حد تک کہہ سکتے ہیں کہ وہاں تعلیم کا کام نسبتاً بہتر حالت میں ہے لیکن اگر ہم ذرا شہر سے ہٹ کر کسی چھوٹے قصبے یا دیہات کے کسی پبلک سیکٹر اسکول پر نظر ڈالیں تو حالت نہایت خراب ہے۔ یہاں یہ بات بھی نوٹ کی جانی چاہئے کہ چھوٹے قصبوں بالخصوص دیہاتی علاقوں میں پرائیویٹ سیکٹر کے سکول نہ ہونے کے برابر ہیں اس لئے حکومت کو یہاں پبلک سیکٹر کے اسکولوں کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہئے۔

ساتھ ہی ساتھ یہاں چائلڈ لیبر کی بات کی جائے تو ہم سب یہی چاہتے ہیں اور کرتے ہیں کہ تعلیمی اداروں کو فروغ ملے تا کہ ملک سے کم عمری کی مشقت کا صفایا ہو سکے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے دیہی اسکولوں میں جن افراد کو تعلیم کے مقرر کیا گیا ہے اور جن کو ہم اساتذہ کے نام سے جانتے ہیں وہی اپنے کام کو دیانتداری سے انجام دینے کو تیار نہیں ہیں۔ جن ماں باپ نے اپنے بچوں کو اس لئے اسکول میں داخل کروایا کہ ان کا بچہ بڑا ہوکر کوئی ڈاکٹر یا انجینئر بنے گا ان کو اگر پتا چلے کہ جس سکول کوانہوں نے اپنے بچے کے مستقبل کا ضامن بنایا ہے وہاں اس کو تعلیم نہیں دی جاتی بلکہ الٹا اس سے سکول کی صفائی اور اساتذہ کے ذاتی کام کروائے جاتے ہیں تو شاید وہ یہی بہتر سمجھیں کہ بچے کو اسکول سے ہٹا کر کسی محنت مزدوری کے کام پر لگا دیا جائے، چلو چار پیسے تو ہاتھ آئیں گے۔

ہماری غلطی یہی ہے کہ جو چیز ہمارے پاس پہلے سے موجود ہے ہم اس کو ٹھیک کر کے استعمال کرنے کو تیار نہیں ہیں۔پنجاب ہی میں پچاس سے ساٹھ فیصد اسکولوں کی حالت اسی قسم کی ہے، اور اگر آپ کبھی کسی دیہی اسکول کو دیکھنے چلے جائیں تو وہاں کی حالت بھی اس سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ ہم نے اربوں روپے خرچ کر کے دانش اسکول تو بنا لئے لیکن جہاں لاکھوں خرچ کر کے کڑوڑں بچوں کی تعلیم کو یقینی بنایا جا سکتا تھا وہاں ہم نے ایک روپیہ خرچ نہیں کیا، یا اگر ایسا ہوا بھی تو فنڈز ایسے ہاتھوں میں دئیے گئے جنہوں نے اپنا الو سیدھا کر دیا اور لاکھوں بچوں کا مستقبل داؤ پر لگ گیا۔حکومت یا تو ایسے کاموں کے لئے چیک اینڈ بیلنس کا کوئی سسٹم رکھے جو وقتاً فوقتاً ان تمام امور کو دیکھتے رہیں تا کہ کہیں کسی ایسی بڑی غلطی کی صورت میں اس کو درست کیا جا سکے یا اگر حکومت ان کاموں کو نہیں سنبھال سکتی تو ان کی نجکاری کا بندو بست کر دے۔ غلطی کہاں ہے یہ تو ہم سب جانتے ہیں۔ ہم لوگ بس اس کام کو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں کہ حکم دیدیا اور کام ہو گیا، کیا واقعی کام ہو جاتا ہے یہ جاننا ہمارے لئے اہم نہیں ہے۔

اسکولوں میں پڑھتے بچے قوم کے معمار ہوتے ہیں، مستقبل میں قوم اور ملک کو چلانے کی ذمہ انہوں نے ہی اٹھانی ہے اگر ہم ان کو اسکول میں داخل کرنے کے بعد بھی ان سے محنت مشقت کا کام لیں گے تو کل جب قوم کو ڈاکٹر اور انجینئرز کی ضرورت پیش آئے گی تو شاید ہمیں وہ نہ ملیں۔ یہ ایک المیہ ہے جو قوم کو ترقی یافتہ ہونے سے ہمیشہ روکے رکھے گا۔ شعور اور آگہی ہرکسی کا پیدائشی حق ہے اور ہم کسی کو یہ حق حاصل کرنے سے نہیں روک سکتے۔ پورے پاکستان میں ہزاروں ایسے اسکول موجود ہیں جہاں مناسب سہولیات تو دور کی بات اسکول کے لئے عمارت بھی موجود نہیں ہے۔حکومت کو چاہئے کہ ان امور پر توجہ دے، یہ مسائل روٹی، کپڑا، مکان یالیمپ اور لیپ ٹاپ سے زیادہ اہم ہیں اگر کوئی سمجھے تو۔
Rana Aijaz Hussain
About the Author: Rana Aijaz Hussain Read More Articles by Rana Aijaz Hussain: 995 Articles with 719501 views Journalist and Columnist.. View More