زندگی کسی خواب کے تعاقب میں

 کسی اچھے خواب کو پانے کی جدوجہد زندگی کو حسین اور با معنی بنا دیتی ہے۔ طبعی میلان کے برعکس کام اور مقصد حیات کی عدم مو جو دگی بے مقصدیت اور بے کیفی کو جنم دیتی ہے۔ تقدیر اپنی جگہ ایک حقیقت لیکن ہدایت اور روشن اسی کو ملتی ہے جو تن من سے ہدایت کا طلب گار ہو۔ مشکلات اور کٹھن حالات زندگی کا لازمی حصہ ہے لیکن سچاخواب پرست صحیح سمت کا مسافر ہونے کے سبب مشکلات کو انجوا ئے کرتا ہے جبکہ یہی مشکلات اور تکالیف بے مقصد زندگی گزارنے والے کی زندگی اجیرن کر کے بے کیف بنا دیتی ہے ۔

زندگی میں ایک ایسے خواب یامقصد حیات کا تعاقب لازم ہے جو ہمیں اظہار ذات کے مواقع فراہم کرے اور جو ہمارے طبعی میلان کے عین مطابق ہو ۔ اس طرح ا ظہار ذات کی خوشی ہمیں اس قابل بناتی ہے کہ راستے کی مشکلات اور تکالیف کو بھی ہم انجوائے کر نے لگتے ہیں۔ہم یہ حقیقت مثالوں سے سمجھ سکتے ہیں۔ علامہ اقبال نے وکالت کی تعلیم حاصل کی مگر انکی اصل تقدیر شاعرمشرق بننا تھا۔اقبال کو ادراک تھا کہ اپنی شاعری کے زریعے اظہار ذات سے قوم کی خدمت کر سکتے ہیں۔لہذا وکالت کا راستہ چھوڑ کر اپنے حسین خواب کی سمت سفر شروع کیا اور شا عر مشرق بنے۔ راستے میں بے روزگاری ، بیگم کے طعنے اور دیگرگھریلو حالات مسائل کی دیواریں کھڑی ہو گیئں لیکن وہ پورے اعتماد اور بہادری کے ساتھ اپنی منزل پہ پہنچے۔دوسری مثال منٹو کی ہے۔ انکے دماغ میں کہانیاں تھیں۔ انھوں نے جان لیا تھا کہ وہ تخلیق کا کام اچھی طرح کر سکتے تھے۔ وہ زندگی گزارنے کے دوسرے زرائع کی طرف نہ مڑے۔ مشکلات کے پہاڑ آڑے آئے لیکن انھوں نے سفر جاری رکھا۔سب کو معلوم ہے کہ حالات سے گھبرا کر اگر منٹو اپنی بیگم کے مشورے پہ جنرل سٹور کھول لیتے تو ممکن تھا کہ و ہ اپنے علاقے کے ایک معمولی دکاندار بن جاتے لیکن بر صغیر کے عظیم افسانہ نگار کبھی نہ بن پاتے۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اوائل عمری میں ہی اپنے اندر جھانک کر ، اپنی نو زائد صلاحیتوں کا جائزہ لیتے ہیں اور تقدیر کا اشارہ دیکھ کر اپنے خواب کے تعا قب میں بے دھڑک چل پڑتے ہیں۔یہ لوگ اپنے خواب کے لئے جیتے جاگتے ہیں ۔ خواب کی راہ میں ، قیمت کے طور ہر طرح کے تکالیف اور صعوبتوں کو جھیلتے ہیں او ر اپنے خواب کی تعبیر پانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔

ہر انسان کو قدرت نے مختلف صلاحتوں سے نوازا ہے۔ لیکن ایک دو ایسی صلاحتیں ہوتی ہیں جو زندگی کو با معنی اور حسین بنا سکتی ہے ۔ اس سلسلے میں قدرت بھی اپنے انداز سے انسان کو ان صلاحتوں سے روشناس کرانے کے لئے اشارے دیتی رہتی ہے۔ انسان اپنے اندر جھانک کر یہ جان سکتا ہے کہ در اصل وہ زندگی میں کیا چاہتا ہے ؟ اسکا خواب کیا بننا ہے؟ اظہار ذات کے لئے وہ کس سمت میں سفر شروع کرنا چاہتاہے ؟ اس سلسلے میں قدرت بھی ہماری رہنمائی کرتی رہتی ہے۔ اگر ہم اپنی زندگی کا بغور مشاہدہ کریں تو قدرت کے اس مہربانی کو محسوس ہیں۔ جو انسان ان اشاروں اور علامتوں کو بھانپ کر اس سمت میں پور ی یکسو ئی کے ساتھ سفر شروع کر لے، وہی اپنے خواب کا تعاقب کر رہا ہوتا ہے ۔ اس طرح زندگی با مقصد اور حسین بن جاتی ہے۔ قدرت اپنے خواب کے لئے جدو جہد کرنے والے کی مد د طرح طرح سے کرتی ہے ۔مثلاََ اچھے اُستاد کا دست شفقت میسر آنا ، اچھے دوست کا ساتھ ہونا ، اور صبر و استقلال کا نصیب ہونا وغیرہ۔

اس معاملے میں لاکھوں کروڑوں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں ادنیٰ مقاصد کے حصول کے لئے زندگی کھپا دیتے ہیں۔ اگر چہ ہر نیا دن نئی نئی راہیں کھولتا ہے ۔ لیکن ایسے لوگ برسہا برس اپنی معیشت کو سدھانے، کھانے پینے،اور سونے جاگنے کی جدوجہد میں اپنی صلاحیتوں کو برباد کر کے اپنے خواب کا قتل کرتے ہیں ۔یوں برس بیت جاتے ہیں۔ آخر اُکتا کر چیخ اُٹھتے ہیں ، ’’غلط راستے کا انتخاب کیا تھا۔ زندگی ضائع ہوگئی‘‘ وہ بے چینی اور بے کیفی کا شکار رہتے ہیں کیو نکہ وہ اپنی زندگی کے شب و روز اس کام میں کھپا رہے ہو تے ہیں، جسکا انکو معا وضہ تو ملتا ہے لیکن باطنی طور پر جس میں انکا دل نہیں لگتا۔ وہ کام میں مشغول تو ہوتے ہیں ، لیکن اس کام میں وہ ’’اظہارذات‘‘ کی نعمت سے محروم ہوتے ہیں۔ یہی وہ محرومی ہے جو ایسے لوگوں کو بے کل اور نا خوش رکھتی ہے ہم میں سے بہت سے اس عمل کا شکار ہیں۔ پھر یہ بے سمت سفر ہمارے وجودکا حصہ بن جاتا ہے جو کسی بڑے اور قابل ذکر تخلیقی کام کو وجود میں لانے سے قا صر رہتا ہے۔

خواب اور مقصد حیات کے تعاقب کے سلسلے میں ایک اور پہلو کا ذ کر بھی لازم ہے وہ یہ کہ اگر خواب کا تعاقب کرنا ہے تو اظہار ذات ایک وقت میں ایک کام کے اصول کا تقاضا کرتا ہے اسکی وجہ شائد یہ ہے کہ جب ہم خواب کے تعاقب کے ساتھ ساتھ اپنے طبعی میلان کے برعکس کسی دوسرے کام میں بھی وقت لگا رہے ہو تے ہیں تو ہماری توانائی اور صلاحیت بکھرنے لگتی ہیں جس سے خواب کے حصول کا سفر ڈگمگانے لگتا ہے جو یکسوئی، توجہ، ارتکاز اور ایک ہی سمت میں مسلسل محنت کا تقا ضا کرتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ بیک وقت دو کشتیوں میں پاؤں رکھنے سے خواب کا حصول نا ممکن ہو جاتا ہے جو پچھتاوے کو جنم دیتا ہے۔

خواب کی تعبیر اور اظہار ذات کے راستے کی ایک بڑی رکاوٹ’’ خوف ‘‘ کا ذکر بھی ضروری ہے۔ ’’خو ف‘‘ ہمیں پیشقدمی سے بار بار روکتا ہے۔اسی خوف کی وجہ سے ہماری زندگی کا سفرغلط سمت میں برباد ہونے کے امکانات ہوتے ہیں۔ دو طرح کے خوف ہمیں گھیرتے ہیں ایک ناکامی اور دوسرا روزی روٹی چھن جانے کا خوف۔ یہ خوف کہ خواب کے راستے پر چل کے ناکام نہ ہوجاؤں ؟ ناکام ہوا تو کیا ہوگا؟ دنیا کیا کہے گی؟ حقیقت یہ ہے کہ معروف رستے پہ جانا آسان لیکن اپنے لئے انفرادی اوربے نشان راستے کا چناؤ مشکل عمل ہے لیکن یہ بھی تاریخی سچائی ہے کہ بڑی کامیابی، ناموری اور ترقی انفر ادیت کے راستے قدم رکھنے میں ہے ۔ امریکی قومی شاعر رابرٹ فراسٹ کی ایک مشہور نظم ہے ’’دی روڈ ناٹ ٹیکن‘‘۔ اس نظم میں وہ کہتا ہے کہ جو لوگ غیر معروف راستوں پر چلتے ہیں وہی کامیاب رہتے ہیں جس سے فرق پڑتا ہے ا ور جس سے انفرادیت ملتی ہے۔
اسی طرح روزی روٹی کا معا ملہ ہے ۔ یہ سوچ کہ کھاؤں گا کہاں سے؟ موجودہ کام یا پیشہ جس میں میرا دل نہیں لگتا، جس میں اظہار ذات سے قاصر ہوں، جس میں میری زندگی ضائع ہو رہی ہے، لیکن اگر اس کام ، اس پیشہ ، اس نوکری کو چھوڑ دیا تو کھاؤں گا کہاں سے؟ اس طرح روزی چھن جانے کا یہ خوف ہمیں اپنے خواب کے تعاقب سے روکتا ہے۔ رزق جسکی بہم رسانی اﷲ کا ذمہ ہے لیکن ہم رزق چھن جانے کے ڈر سے وہ ، پیشہ وہ کام جاری رکھنے پر خود کو مجبور کرتے ہیں جو ہمارے طبعی میلان سے مطابقت نہیں رکھتا۔ جو ہمیں ہمارے خواب کے راستے سے بہت دور لے جاتا ہے۔

یوں ہم اپنے اپنے کاموں سے مجبوراََ جُڑے رہتے ہیں۔ ناکامی اور روزی روٹی چھن جانے کا خوف ہماری زندگی کے قیمتی سال کھا جاتا ہے۔ خوف کے اس زنجیر کے ساتھ سفر زست کٹ تو جاتا ہے لیکن جسم کے ساتھ ساتھ روح بھی گھائل ہو جاتی ہے۔خو اب کے حصول، اظہار ذات اور مقصد حیات کے لئے خوف کی زنجیر کو توڑنا لازم ہوتا ہے۔

خواب کے تعاقب کے سلسلے میں ا یک تقدیر کا پہلو بھی قابل توجہ ہے۔خواب کی تعبیر پانے اور اظہار ذات کے لئے درکار ہمت، محنت، توجہ اور تسلسل میں ناکام لوگ تقدیر کا شکوہ کرتے نظر آتے ہیں۔

جبکہ سچ یہ ہے کہ جب ہم اپنے خواب کے تعا قب اور اظہار ذات کے سفر پر چل پڑتے ہیں تو تقدیر بھی ہمارا ساتھ دیتی ہے۔ ہم اس سفر میں جان گھسل مصائب اور گوناگو مشکلات کا سامنا کرتے ہیں لیکن انہی مشکلات کے اس پار جا کر ہی ہم اپنے نصیب یا تقدیر کو پا سکتے ہیں۔ زیادہ ہے ۔ ہم اپنے اندر موجود صلاحیت کے خام سونا کو مشکلات کے آگ میں جھونک کر خالص سونا بنا کر اپنی تقدیر چمکا سکتے ہیں اور یوں ہم اپنے خواب کی منزل تک پہنچ سکتے ہیں ۔ تقدیر کا ملک ہمارا رب ہے اور اﷲ کی مرضی یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی حقیر مقاصد کے حصول میں ضائع کرنے کی بجائے کسی اچھے خواب کے لئے جدوجہد میں صرف کر دیں۔اقبال نے کہا تھا ، ’’تقدیر کے پابند ہے نباتات و جمادات‘‘۔ انسان تو اشرف لامخلوقات ہے وہ اپنی فطری صلاحیتوں کے اظہار کے لئے کوشش کرنے کے لئے پیدا ہوا ہے۔

زندگی کسی خواب کے تعاقب سے حسین بن جاتی ہے ۔لہذا ہماری زندگی میں خو بصورت محبوب جیسا کوئی با مقصدخواب ہونا چاہئے جس کے تعاقب میں مشکلات ہمیں اچھے لگے، جسکا احساس ہمیں پُرجوش بنائے، جس سے اپنی ذات کا اظہار کر سکیں، جس کے حصول کی خاطر ہم خوف اور کم ہمتی کی ہر دیوار کو توڑ سکیں۔ ہم اب بھی اپنے اندر جھانک کر اپنے خواب کے لئے اپنے طبعی میلان کے مطا بق صحیح راستے پر چل کر توجہ اور یکسوئی سے خوشی، ترقی اور ناموری کا ’’نیروان‘‘ پا سکتے ہیں -
akbarkhan
About the Author: akbarkhan Read More Articles by akbarkhan: 10 Articles with 13773 views I am MBA Marketing and serving as Country Sales Manager in a Poultry Pharmaceutical Pakistani Company based at Karachi. Did BA from Punjab University... View More