سال 2015 کی ایسی ایجادات جو دنیا بدل دیں گی

دنیا کے پہلے 9 ڈالرز کے کمپیوٹر سے لے کر اٹھارہ دن میں بلند و بالا عمارت کی تعمیر تک، 2015 ایسی ایجادات سے بھرپور رہا ہے جو ہمیں اچھے مستقبل کی نوید سناتی ہیں۔ درحقیقت سائنس دانوں نے رواں برس کے دوران کئی ایسے شعبوں میں پیش رفت کی ہے جس کا پہلے تصور تک نہیں کیا گیا تھا۔ دنیا میگزین کے توسط سے رواں برس کی ایسی ہی چند اہم ایجادات کے بارے میں جانیے جو ہماری زندگیوں کو تبدیل کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں۔
 

خون لمحوں میں رک جائے:
ویٹی جل ایک پودے سے تیار کیا گیا جل (Gel)ہے جو محض بارہ سیکنڈ کے اندر خون کے بہنے کو روک سکتا ہے۔ یہ آئندہ کچھ عرصے میں عام استعمال کے لیے پیش کردیا جائے گا اس سے پہلے اس کے مزید تجربات بالخصوص انسانوں پر بھی کیے جائیں گے۔ اسے بائیو ٹیک کمپنی سن یری نے تیار کیا ہے اور یہ جیل بہت تیز رفتاری سے زخموں کو بند کر کے خون کا بہنا روک دیتا ہے، یہ خاص طور پر ان افراد کے لیے بہترین ہے جو ٹراما کے مریض ہوتے ہیں۔ کمپنی کے سی ای او جوئے لینڈولاینا صرف سترہ سال کے تھے جب انہوں نے یہ جیل تیار کیا۔ اب پانچ سال بعد یہ کمپنی اس کی پہلی کھیپ متعارف کرانے کے لیے تیار ہے۔ ویٹی جیل میں روزمرہ کے پھولوں اور پتوں سے محروم پودے میں پائے جانے والے فائبر کو استعمال کیا گیا جسے زخموں کے اندر داخل کردیا جاتا ہے۔ یہ فائبر ایک دوسرے سے لیگو بلاکس کی طرح چند سیکنڈوں میں جڑ جاتے ہیں اور لیک پروف سیل بناکر خون بہنے کا سلسلہ روک دیتے ہیں۔ ویٹی جیل سے خون کے لوتھڑے بننے کا خطرہ نہیں ہوتا اور یہ متاثرہ ٹشوز کے اندر جذب ہوجاتا ہے یعنی اسے صاف کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔

image


نو ڈالرز کا کمپیوٹر:
ہارڈ ویئر مہنگے ہوسکتے ہیں مگر چِپ نہیں۔ دنیا کا پہلا نو ڈالر کا کمپیوٹر جو جلد فروخت کے لیے پیش کیا جارہا ہے، کو ہر کام کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے یعنی مختلف چیزوں کو ایڈٹ کرنے سے لے کر کوڈ سیکھنے تک۔ آپ کو کرنا بس یہ ہے کہ اسے کسی مانیٹر، کی بورڈ اور ماؤس سے منسلک کرنا ہوگا، اسے نیکسٹ تھنگ کو کے سی ای او ڈیو روچ ورک نے اسے ایجاد کیا ہے۔ ان کا ہمیشہ سے ارادہ تھا کہ وہ ایسا کمپیوٹر تیار کریں جو بہت سستا ہو۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے ایک گیگاہرٹز کی پروسیسر چپ کو استعمال کیا جب کہ اس کمپیوٹر میں 512 میگا بائیٹ ریم اور چار جی بی اسٹوریج کی گنجائش موجود ہے۔ نیکسٹ تھنگ کمپنی نے اس کی شپنگ کا آغاز اکتوبر میں ویب سائٹ کک اسٹارٹر پر کیا تاکہ لوگوں کے مشورے سے مزید پیش رفت کی جاسکے۔

image


پہلی تھری ڈی پرنٹڈ دوا منظرعام پر:
رواں سال موسم گرما کے دوران امریکی ادارے ایف ڈی اے نے دنیا کی پہلی تھری ڈی پرنٹڈ دوا کی منظوری دی جسے اسپریٹم کا نام دیا گیا ہے۔ میساچوسٹس انسٹیٹوٹ آف ٹیکنالوجی کے ماہرین نے اس دوا کو تیار کیا ہے اور ان کے خیال میں یہ ادویہ سازی کے شعبے کے لیے سنگ میل ثابت ہوگی، اب آپ اسی چیز سے لاکھوں گولیاں بناسکتے ہیں اور یہ تھری ڈی ٹیکنالوجیز میں تاریخ ساز ثابت ہوگا۔ تھری ڈی پرنٹر سے بننے والی ادویات کا ایک فوری فائدہ یہ ہے کہ محض پانی کے ایک گھونٹ سے منہ میں گھل جاتی ہیں اور اس سے ان افراد کو فائدہ ہوگا جنھیں چیزیں نگلنے میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں تھری ڈی پرنٹنگ سے ادویات کی تیاری ایک سستا ذریعہ ثابت ہوسکتا ہے۔

image


شمسی توانائی سے اڑنے والا طیارہ جو دنیا کو انٹرنیٹ کی سہولت پہنچائے گا:
فیس بک کی جانب سے ترقی پذیر ممالک میں انٹرنیٹ کی سہولت پہنچانے کے لیے دو اہم اعلان کیے، ایک تو سورج کی توانائی سے اڑنے والا طیارہ جو انٹرنیٹ پہنچائے گا اور لیزر شعاع جو فی سیکنڈ 10 گیگا بائٹس ڈیٹا اس طیارے کو ٹرانسمیٹ کرے گی۔ یہ دونوں مل کر دنیا کے دور دراز خطوں تک بھی وائرلیس انٹرنیٹ کی سہولت پہنچا سکیں گے۔ اکیویلا نامی یہ طیارہ کسی الیکٹرک کار کے مجموعی وزن کا ایک تہائی بھی نہیں اور یہ تین ماہ تک بلاتعطل اتنی بلندی پر پرواز کرسکتا ہے جہاں تک عام کمرشل طیارے نہیں اڑتے جب کہ لیزر کی مدد سے نیچے لوگوں کو انٹرنیٹ سے منسلک کرسکے گا۔ فیس بک کے انجنیئرنگ ڈائریکٹر یائیل میگیور کے مطابق ہم نے ایسی نئی ٹیکنالوجی کی تیاری پر کام کیا ہے جس کے ذریعے دور دراز خطوں کے باسیوں کو بھی انٹرنیٹ سے منسلک کیا جاسکے۔ فیس بک کے مطابق اس طیارے کی آزمائشی پروازیں رواں سال کے آخر تک شروع ہوجائیں گی۔

image


جینز کے بلاکس کو ان لاک کرنا:
رواں برس سائنسدانوں نے کریسپر (ایک جینز ایڈیٹنگ ٹول) کی مدد سے زندگی کو تشکیل دینے والے جینیاتی بلاکس کو ان لاک کیا جس سے ڈی این اے کو دوبارہ لکھنے کی اہلیت انسانوں کے ہاتھ میں آگئی ہے اور اس سے امراض کی روک تھام اور خاتمے کے لیے ایک نئے عہد کا آغاز بھی ہوا ہے۔ کریسپر سی اے ایس نائن سسٹم کو ایم آئی ٹی نے رواں صدی کے دوران حیاتیاتی ٹیکنالوجی کی سب سے بڑی دریافت قرار دیا ہے جو کہ جینوم کو سرچ اور بدلنے کا ٹول ہے۔ اس کو تیار کرنے والی ٹیم کا کہنا ہے کہ ہم بنیادی طور پر جینومز کا مالیکیولر نشتر تیار کرنے کے قابل ہوگئے ہیں، جبکہ ماضی کی تمام تر ٹیکنالوجیز اس کے مقابلے میں ایک ہتھوڑے کی طرح تھی، مگر اس نئے ٹول سے سائنسدانوں کو انتہائی طاقتور کام کرنے کی اہلیت مل گئی ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ جینیز کی ایڈیٹنگ یا تدوین کینسر سے متعلق تحقیق اور دماغی سائنس سے لے کر کیمیکل انجنیئرنگ اور توانائی کی پیداوار تک کو بدل کر رکھ دے گی۔

image


اومنی پروسیسر صاف پانی کی فراہمی کے لیے انقلابی اقدام:
انسانی فضلے کو ری سائیکل کرکے صاف پانی کا یہ منصوبہ بل گیٹس کے ادارے کے تعاون سے مکمل کیا گیا ہے اور انہوں نے خود اس کو پی کر بھی دیکھا۔ جانکی بائیو انرجی نے پانی صاف کرنے والی یہ مشین تیار کی ہے جو انسانی فضلے کو پینے کے قابل پانی اور قابل قدر توانائی میں تبدیل کردیتی ہے۔ اومنی پروسیسر نامی اس مشین کو افریقی ملک سینیگال میں آزمایا گیا اور اس کے فل سائز پروسیسر کی مدد سے 14 ٹن کچرے کو بجلی اور پانی کی شکل میں روزانہ تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ یہ مشین اگلے سال سے سینیگال کے دارالحکومت ڈاکار میں مکمل طور پر کام شروع کردے گی اور اس سے توقع ہے کہ یہ غریب ملک توانائی پیدا کر کے قیمتی زرمبادلہ بھی حاصل کرسکے گا۔ بل گیٹس فاؤنڈیشن کے مطابق ترقی یافتہ ممالک میں حکومتیں نہیں بلکہ کمپنیاں لوگوں کو خدمات فراہم کررہی ہوتی ہیں اور اس پروسیسر کی مدد سے انہیں منافع کے ساتھ لوگوں کو درپیش پینے کے صاف پانی کے حصول کے مسئلے پر قابو پانے میں بھی مدد ملے گی۔

image


ایسے برتن جو الزائمر مریضوں کے لیے کھانا آسان بنادیں گے:
ایٹ ویل برتنوں کا ایسا سیٹ ہے جس میں شوخ رنگ، فعلیات پیمائی اور عقلمندانہ ڈیزائن رکھا گیا ہے جو دماغی تنزلی کے شکار افراد کے لیے خوراک کو کھانا آسان بنادیتے ہیں۔ان برتنوں کو گزشتہ سال اسٹینفورڈ ڈیزائن چیلنج کا فاتح بھی قرار دیا گیا تھا اور اب رواں برس اکتوبر میں انہیں لوگوں کے لیے پیش کردیا گیا ہے۔ 2050 میں توقع ہے کہ دنیا میں الزائمر امراض کے شکار افراد کی تعداد کروڑوں میں ہوگی اور یہ ایسا مرض ہے جس کا فی الحال کوئی علاج بھی میسر نہیں مگر برتنوں کے اسمارٹ ڈیزائن کی بدولت ان میں ایسا اعتماد ضرور پیدا کیا جاسکتا ہے جو اس کی شدت کو کم کرسکتا ہے۔ سا یاؤ نے ان برتنوں کو ڈیزائن کیا ہے جس میں کھانے کو ایک طرف رکھا جاتا ہے جس کی وجہ سے انہیں چمچ سے اٹھانا آسان ہوجاتا ہے۔ اس کے چمچ ایسے ڈیزائن کیے گئے ہیں جو انسانی ہاتھ میں فٹ ہوجاتے ہیں اور کپوں کو وسیع اور گہری بنیاد جیسے ڈیزائن کی مدد سے تیار کیا گیا ہے۔ ڈیزائنر نے ان برتنوں کے لیے نیلے، سرخ اور زرد رنگوں کا انتخاب کیا ہے کیونکہ ایک تحقیق کے مطابق شوخ رنگوں میں کھانا فراہم کیے جانے پر الزائمر کے شکار افراد معمول سے زیادہ خوراک استعمال کرپاتے ہیں۔

image


نئی ایبولا ویکسین :
رواں برس تیار کی جانے والی نئی ایبولا ویکسین کی ابتدائی آزمائش سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ سو فیصد کے قریب کامیاب ہے۔ گزشتہ برس ایبولا ایک وباء کی طرح پھیل، اس نے افریقہ میں 28 ہزار افراد کو اپنا شکار بنایا جس میں سے گیارہ ہزار سے زائد اپنی زندگیوں سے محروم ہوگئے جبکہ پوری دنیا خوفزدہ ہوگئی اور اس کی روک تھام کے لیے کام شروع ہوگیا۔ اس نئی ویکسین کو فارماسیوٹیکل کمپنی مرک نے تیار کیا ہے جبکہ اس کو اسپانسر عالمی ادارہ صحت نے کیا ہے۔ اس ویکسین کو رواں برس موسم گرما میں گیانا میں چار ہزار سے زائد بار آزمایا گیا اور کسی بھی فرد میں اس جان لیوا مرض کی تصدیق نہیں ہوئی۔ ابھی اس ویکسین پر مزید تجربات کیے جارہے ہیں تاکہ جانا جاسکے کہ طویل المعیاد بنیادوں پر یہ کس حد تک تحفظ فراہم کرسکتی ہے۔

image

بلند و بالا عمارت اٹھارہ دن میں تعمیر ہوگی:
جنوبی چین میں منی اسکائی سٹی نامی 57 منزلہ عمارت کو محض 18 دن میں تعمیر کیا گیا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ بلند و بالا اسٹرکچر کو حیرت انگیز رفتار سے تعمیر کرنا بھی ممکن ہے۔ براڈ سسٹین ایبل بلڈنگ نامی کمپنی منی اسکائی سٹی کی تعمیر کے پیچھے تھی جس نے تعمیر کا کام رواں برس شروع کیا اور اسے کسی لیگو بلاک کی طرح ایک ایک پیس میں فیکٹری میں تیار کیا گیا اور پھر مذکورہ مقام پر اسے اکھٹے جوڑ دیا گیا۔ اس طرز تعمیر کو ماڈیولر کنسٹرکشن کا نام دیا گیا ہے جسے اکثر عمارات کی تعمیر کے لیے استعمال کیا جاتا ہے مگر چینی کمپنی کے بانی زینگ یوئی زیادہ بلند ماڈیولر عمارات تعمیر کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں جسے اسکائی سٹی کا نام دیا جائے گا۔ زینگ اس 220 منزلہ عمارت کو صرف 7 ماہ میں تعمیر کرنے کے خواہشمند ہیں (چار ماہ بنیاد کے لیے جبکہ تین ماہ عمارت کے لیے)۔ یہ عمارت تعمیر ہونے کے بعد دنیا کی سب سے بلند عمارت ہوگی، تاہم ایسا نہیں بھی ہوتا تو بھی منی اسکائی سٹی یہ ضرور یاد دلاتی رہے گی کہ شہر ہمارے تصورات سے بھی زیادہ تیزی سے پھیلنے کے قابل ہوچکے ہیں۔

image

موسم کی درست ترین پیشگوئی ممکن ہوئی:
سیٹلائیٹ کمپنی اسپائر موسم کا ایسا ڈیٹا فراہم کرنے کی تیاری کررہی ہے جو ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھا ہوگا۔ یہ کمپنی یہ کام چھوٹے سیٹلائیٹس کی فوج کی مدد سے کرے گی جن میں سے 20 کو زمین کے مدار پر رواں سال کے آخر تک جبکہ مزید سو کو مستقبل قریب میں بھیجا جائے گا۔ یہ چھوٹے اور سستے سیٹلائیٹس 10 ہزار ڈیٹا ریڈنگز رواں سال کے اختتام تک بھیجنے لگیں گے اور اس میں پانچ گنا اضافہ ہوگا۔ زیادہ بہتر ڈیٹا کے ساتھ موسم کی زیادہ درست پیشگوئی ممکن ہوسکے گی یعنی اگر کوئی سمندری طوفان پیدا ہوگا تو یہ جاننا ممکن ہوگا کہ وہ کتنا تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔ ان سیٹلائیٹس میں جی پی ایس ریڈیو احتجاب (Occultation) ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے اور ان کو جی پی ایس ریڈیائی لہریں موصول ہوگی جو درجہ حرارت، دباؤ اور نمی کا ڈیٹا فراہم کرے گی جس سے ماہرین موسمیات پیشگوئیوں کے لیے استعمال کرسکیں گے۔

image

مچھر امراض کے خلاف لڑیں گے:
اوکسٹیک نامی کمپنی مچھروں میں جنیاتی تبدیلی لانے کے حوالے سے جانی جاتی ہے اور اس کی مدد سے وہ ڈینگی اور دیگر وبائی امراض کا مقابلہ کرنا چاہتی ہے۔ یہ کمپنی مچھروں کو ایک لیبارٹری میں لے جاکر ان میں اضافی ’’خودکار ٹائمنگ‘‘ والے جینز شامل کردیتی ہے جس کے بعد انسانوں کو نہ کاٹنے والے نر مچھروں کو ویران علاقوں میں چھوڑ دیا جاتا ہے جہاں وہ مادہ مچھر کو تلاش کرتے ہیں جو ان کے اندر بیماریاں منتقل کرنے کی صلاحیت کو ماند کردیتے ہیں۔ یہ اگلی نسل میں ایسے جینز وراثت میں منتقل کرتے ہیں جو بڑا ہونے سے قبل ہی ان کو مرنے پر مجبور کردیتی۔ اگر یہ تجربہ کامیاب رہا تو مچھروں کی آبادی میں نمایاں کمی آئے گی اور انسانوں کے لیے وبائی امراض کا خطرہ کم ہوجائے گا۔ اب تک دس کروڑ سے زاید ایسے ’’دوست مچھر‘‘ پانامہ، برازیل اور کے مین آئی لینڈز میں چھوڑے جاچکے ہیں اور اب تک وہاں مچھروں کی آبادی میں نوے فیصد تک کمی آئی ہے۔ اب امریکا میں بھی محکمہ صحت ان جینیاتی طور پر تبدیل مچھروں کا جائزہ لے کر انہیں فلوریڈا کے ان علاقوں میں چھوڑنے کا ارادہ رکھتا ہے جہاں 2009 اور 2010 میں ڈینگی کی وباء نے سر اٹھایا تھا۔

image

گوگل ٹرانسلیٹ سفر کو زیادہ بہتر بنا دے:
رواں برس جولائی میں گوگل نے ایک نیا فیچر اپنی ٹرانسلیٹ اپلیکشن کے لیے جاری کیا تھا جو بیس سے زائد زبانوں میں فوری تصویری ترجمہ فراہم کرتا ہے جس سے آپ کے لیے کسی انجان ملک میں وہاں آس پاس کے بارے میں سب کچھ جاننا لگ بھگ ممکن ہوجاتا ہے۔ اس اپ ڈیٹ سے قبل صارفین اپنے اسمارٹ فون کو کسی تحریری بورڈ کے سامنے لے جاتے جس کا وہ ترجمہ چاہتے، تصویر کھینچتے اور پھر انتظار کرتے مگر اس نئے فیچر نے اس مشکل کو ختم کردیا۔ اب صارفین کو بس اپنے فون کے کیمرے کو اس تحریری بورڈ کی جانب کرنا ہے اور جادوئی انداز سے تحریر کو ترجمہ ہوتے دیکھنا ہے۔اب غیرملکی زبان میں کھانے کا مینیو جاننا چند سیکنڈوں کا کام ہے اور بورڈ پر لکھا سمجھ نہیں آتا تو وہ بھی سمجھنا فوری طور پر ممکن ہے۔ گوگل ٹرانسلیٹ کے سربراہ باراک ٹوروسکی کے مطابق مستقبل میں ہم اس فیچر میں جن زبانوں کا ترجمہ فراہم کررہے ہیں، اس کا معیار بہتر کریں گے جبکہ مزید زبانوں کو بھی اس کا حصہ بنایا جائے گا۔ ان کے بقول ہم زبان کی بندش توڑنے کے لیے کام کررہے ہیں اور ہم بتدریج جس حد تک ہوسکا زبانوں اور تحریری علامات کو اس میں شامل کریں گے۔

image

گینڈے کے سینگ کی لیبارٹری میں تیاری:
2015 میں ایک بائیو ٹیکنالوجی کمپنی پیمبینٹ نے لیبارٹری کے اندر گینڈے کے حقیقی سینگوں کو تیار کرنے کا تجربہ کیا تاکہ بقا کے خطرے سے دوچار اس جانور کو تحفظ دیا جاسکے۔ گینڈے کے سینگوں کو روایتی چینی ادویات میں ہزاروں برسوں سے استعمال کیا جارہا ہے اور موجودہ عہد میں تو یہ اسٹیٹس سمبل بن چکے ہیں۔ صرف جنوبی افریقہ میں ہی گینڈوں کے شکار میں 2007 کے بعد سے سات ہزار فیصد اضافہ ہوا ہے۔ پیمبینٹ کے مطابق ایسے خلیات کو استعمال کرکے ایسے سینگ بنائے گئے ہیں جو گینڈوں کے سینگوں کی طرح ہیں، ان کیراٹین سینگوں کو گینڈوں کے ڈی این اے کے ساتھ جوڑ کر تھری ڈی پرنٹر کی مدد سے پرنٹ کیا گیا ہے اور ان میں وہ تمام جنیاتی خصوصیات موجود ہیں جو کسی گینڈے کے سینگ میں ہوسکتی ہیں۔

image

ڈینگی بخار کا خاتمہ:
رواں برس فرنچ فارماسیوٹیکل کمپنی سنوفی پیسٹیور کو توقع ہے کہ اسے بیس ممالک میں ڈینگی ویکسین کا لائسنس مل جائے گا جو کہ مچھروں سے کاٹنے سے پھیلنے والے مرض کے نتیجے میں اموات کی شرح کو 2020 تک 50 فیصد تک کم کرنے کے حوالے سنگ میل ثابت ہونے والا اقدام ہوگا۔ اس کمپنی نے گزشتہ سال موسم سرما میں اس ویکسین کی تیاری کا اعلان کیا تھا جس کے لیے بیس سال تک تحقیق کی گئی اور اس سے بچوں اور بڑوں میں ایک سال کے اندر ڈینگی کیسز کی تعداد کو ساٹھ فیصد تک کم کیا جاسکتا ہے۔ اس وقت دنیا کی نصف آبادی ڈینگی کے خطرے سے دوچار ہے اور اس کے لیے اب تک کوئی موثر ویکسین سامنے نہیں آسکی ہے۔ اگرچہ اس کمپنی کے مطابق اس ویکسین سے وائرس کے خاتمے کا آغاز ہوگا مگر اس کی مکمل ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ تاہم اس نے ویکسین کی تیاری شروع کردی ہے اور دنیا بھر کے کروڑوں افراد کو اس تکلیف دہ مرض سے بچانے کے لیے تیار ہے۔

image

پاس ورڈ رخصت ہونے کو ہے:
اگر آپ اب بھی پاس ورڈ یاد کرنے کی کوشش کررہے ہیں تو ہم افسوس ہی کرسکتے ہیں۔ اب متعدد ٹیکنالوجیز اکھٹے ہوکر ویب پاسورڈ کو ختم کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔ اسمارٹ فونز میں فنگر پرنٹس لاگ ان اب عام ہوچکا ہے اور اسے تیز رفتار و محفوظ طریقہ سمجھا جاتا ہے جس سے آن لائن خریداری اور سوشل میڈیا سائٹس کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔ بہت مختصر وقت میں یہ فیچر موبائل ڈیوائسز کا لازمی حصہ بن چکا ہے۔ گزشتہ سال صرف ہیواوے اور ایپل کے پاس یہ ٹیکنالوجی تھی مگر اب سام سنگ، ایچ ٹی سی، سونی اور ایل جی وغیرہ سب اسے اپنے موبائل فونز کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ چہرے کو شناخت کرنے والے پاس ورڈ ایک اور حل ہیں، مائیکروسافٹ کی ونڈوز ہیلو میں اس کو آزمایا جارہا ہے جو آپ کے چہرے، انگلی یا آنکھ کی مدد سے لاگ ان ہونے میں مدد دیتی ہے۔ اور جو ویب سائٹس اب بھی پاس ورڈز پر انحصار کرتی ہیں ان کے لیے زیادہ سے زیادہ لوگ پاس ورڈ منیجر جیسے 1 پاس ورڈ پر جارہے ہیں اور ایک بار آپ وہاں چلے گئے تو اس کے بغیر زندگی گزارنا مشکل ہوجائے گا۔

image
YOU MAY ALSO LIKE:

From the first-ever $9 computer to lab-grown rhino horns, this year has been filled with innovations that give us hope for the future. The TI Innovation team compiled a list of our favorite world-changing products and ideas that made significant progress over the last year. We saw scientists make progress on some of the most intractable diseases, buildings become smarter, and gender take center stage.