شادی کی خرافات اور امام احمد رضا کا قلمی جہاد

رسولِ گرامی وقار صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے فرمانِ عظیم کے مطابق ہر صدی میں مجدد تشریف لاتے رہیں گے اور تجدیدِ دین اور احیاے اسلام کا اہم ترین فریضہ انجام دیتے رہیں گے۔ چودہویں صدی عیسوی میں مصطفی جانِ رحمت صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی بھولی بھالی امت کے ایمان وعقیدے کے تحفظ کے لیے اور علماے اسلام کی قیادت کے لیے اﷲ رب العزت نے ۱۵؍ شوال المکرم ۱۲۷۲ھ بمطابق ۱۴؍ جون ۱۸۵۶ء کو محلہ جسولی شہر بریلی میں امام احمد رضا قدس سرہ العزیزکی شکل میں ایک عظیم مصلح ، قائد، رہنما اور مجدد پیدا فرمایا۔

آج بعض لوگ امام احمد رضا علیہ الرحمہ کو مجدد کہنے کی بجائے بدعات ومنکرات ومنہیات کا موجد کہتے ہیں جب کہ تصانیفِ اعلیٰ حضرت کا مطالعہ کرنے سے یہ بات شہزادۂ خاور کی طرح روشن ہوجاتی ہے کہ اعلیٰ حضرت نے جتنا بدعتوں کا رد فرمایاہے ان کے ہم عصر علما میں دو سرا کوئی نظر نہیں آتا۔ صرف ایک مثال کے ذریعے ہم اس حقیقت کو عیاں کرنے کی کوشش کریں گے۔ سرکار اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ والرضوان کی خدمت میں خرافاتِ نکاح وشادی کے احکام دریافت کیے گئے۔ آپ نے خدا ورسول (عزوجل وصلی اﷲ علیہ وسلم) کی عطا کردہ بے پناہ صلاحیتوں سے اس سوال کا جواب انتہائی مدلل اور مفصل تحریر فرمایا جو ایک مستقل رسالے کی شکل اختیار کرگیا اور ’’ہادی الناس فی رسوم الاعراس‘‘ (لوگوں کا رہنما شادیوں کی رسموں کے بارے میں) کے نام سے منصہ شہود پر جلوہ گر ہوا۔ آپ نے اس رسالے میں نکاح وشادی کے جائز طریقوں کے فوائداور غیر اسلامی طریقوں کے نقصانات کو اجاگر فرمایا۔ اکثر وبیشتر جشن شادی میں اور کئی جگہوں پر اسلامی تہواروں میں آتش بازیاں کی جاتی ہیں اس بدعت پر روک لگاتے ہوئے سرکار امام احمد رضا تحریر فرماتے ہیں:
’’آتش بازی جس طرح شادیوں اور شبِ برأت میں رائج ہے بے شک حرام اور پورا جرم ہے کہ اس میں تضیےعِ مال (مال برباد کرنا) ہے۔ قرآنِ مجید میں ایسے لوگوں کو شیطان کے بھائی فرمایا۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: ترجمہ: اور فضول نہ اڑا بے شک اڑانے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے۔ (پ: ۱۵، ر:۳، ترجمہ کنزالایمان) ( ہادی الناس فی رسوم الاعراس: ص:ـ۵)

تعلیماتِ اسلامی سے دوراورمغربی ماحول سے متاثر افراد شادی بیاہ کے موقع پر رقص وسرور کی محفلوں کو منعقد کرتے ہیں، موسیقی کے سُر اور تال پر تھرکتے ہیں، اپنی بزم میں گانے باجے، ڈھول اور تاشے کا اہتمام کرتے ہیں، ایسے اعمال قبیحہ کے متعلق آپ تحریر فرماتے ہیں:
’’اسی طرح یہ گانے باجے کہ ان بلاد (شہروں) میں معمول ورائج ہیں بلا شبہ ممنوع وناجائز ہیں۔ خصوصاً وہ ناپاک ملعون رسم کہ بہت خسران بے تمیز، احمق جاہلوں نے شیاطینِ ہنود، ملاعین بے بہبود سے سیکھی یعنی فحش گالیوں کے گیت گوانا اور مجلس کے حاضرین وحاضرات کو لچھے دار سنانا، سمدھیانے کی عفیف پاک دامن عورتوں کو الفاظِ زنا سے تعبیر کرانا، خصوصاً اس ملعون بے حیا رسم کا مجمع زناں میں ہونا، ان کا اس ناپاک فاحشہ حرکت پر ہنسنا، قہقہے اڑانا، اپنی کنواری لڑکیوں کو یہ سب کچھ سنا کر بدلحاظیاں سکھانا، بے حیا، بے غیرت، خبیث، بے حمیت، مردوں کو اس شہد پَن کو جائز رکھنا۔کبھی برائے نام لوگوں کے دکھاوے کو جھوٹ سچ ایک آدھ بار جھڑک دینا مگر بندوبست قطعی نہ کرنا۔یہ وہ شنیع گندی مردود رسم ہے جس پر صدہا لعنتیں اﷲ عزوجل کی اترتی ہیں اس کے کرنے والے، اس پر راضی ہونے والے، اپنے یہاں اس کا کافی انسداد (روک) نہ کرنے والے سب فاسق فاجر، مرتکبِ کبائر، مستحقِ غضبِ جبار وعذابِ نار ہیں۔ والعیاذ باﷲ تبارک وتعالیٰ۔ اﷲ تعالیٰ مسلمانوں کو ہدایت بخشے۔‘‘ (مرجع سابق، ص؍۶)

اورایسی شادیوں کے متعلق امام احمد رضا علیہ الرحمہ یوں تحریر فرماتے ہیں:
’’جس شادی میں یہ حرکتیں ہوں مسلمانوں پر لازم ہے کہ اس میں ہر گز شریک نہ ہوں۔ اگر نادانستہ شریک ہوگئے تو جس وقت اس قسم کی باتیں شروع ہوں یا ان لوگوں کا ارادہ معلوم ہو سب مسلمان عورتوں پر لازم ہے کہ فوراً فوراً اسی وقت اٹھ جائیں اوراپنی جو رو، بیٹی، ماں، بہن کو گالیاں نہ دلوائیں، فحش نہ سنوائیں ،ورنہ یہ بھی ان ناپاکیوں میں شریک ہوں گے اور غضبِ الٰہی سے حصہ لیں گے۔ والعیاذ باﷲ رب العالمین۔ زنہار زنہار! اس معاملے میں حقیقی بہن بھائی بلکہ ماں باپ کی بھی رعایت ومروت روانہ رکھیں کہ لَاَ طَاعَۃَ لِاَحَدٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ اللّٰہِ تَعَالیٰ۔‘‘ (اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی کے کام میں کسی کی فرماں برداری نہیں۔) (مرجع سابق: ص؍۶)

ایک جگہ مزیدتحریرفرماتے ہیں:ہاں شرعِ مطہر نے شادیوں میں بغرضِ اعلانِ نکاح صرف دف کی اجازت دی ہے جب کہ مقصود شرع سے تجاوز کرکے لہوِ مکروہ و تحصیلِ لذتِ شیطانی کی حد تک نہ پہنچے، لہٰذا علما شرط لگاتے ہیں کہ قواعدِ موسیقی پر نہ بجایا جائے ،تال سم کی رعایت نہ ہو، نہ اس میں جھانج ہوکہ خواہی نہ خواہی مطرب وناجائز ہیں۔ پھر اس کا بجانا بھی مردوں کو ہر طرح مکروہ ہے، نہ شرف والی بی بیوں کے مناسب بلکہ نابالغہ چھوٹی چھوٹی بچیاں یا لونڈیاں باندیاں بجائیں اور اگر اس کے ساتھ کچھ سیدھے سادے اشعار یا سہرے سہاگ ہوں جن میں اصلاً نہ فحش ہو، نہ کوئی بے حیائی کا ذکر، نہ فسق وفجور کی باتیں، نہ مجمعِ زنان یافاسقان میں عشقیات کے چرچے ،نہ نامحرم مردوں کو نغمۂ عورات کی آواز پہنچے۔ غرض ہر طرح منکراتِ شرعیہ ومظانِ فتنہ سے پاک ہوں تو اس میں بھی مضائقہ نہیں، جیسے انصار کرام کی شادیوں میں سمدھیانے جاکر یہ شعر پڑھا جاتا تھا۔
اَتَیْنَاکُمْ اَتَیْنَاکُمْ فَحَیَّانَاوَحَیّاکُمْ
(ترجمہ)’’ہم تمہارے پاس آئے ہم تمہارے پاس آئے۔اﷲ ہمیں زندہ رکھے تمہیں بھی جلائے‘‘

بس اس قسم کے پاک وصاف مضمون ہوں۔ اصل حکم میں تو اس قدر کی رخصت ہے مگر حالِ زمانہ کے مناسب یہ ہے کہ مطلق بندش کی جائے کہ جہّالِ حال خصوصاً زنانِ زماں سے کسی طرح امید نہیں کہ انہیں جو حد باندھ کر اجازت دی جائے اس کی پابند رہیں اور حدِ مکروہ وممنوع تک تجاوز نہ کریں۔ لہٰذا سرے سے فتنے کا دروازہ ہی بند کیا جائے ،نہ انگلی ٹیکنے کی جگہ پائیں گے ،نہ آگے پاؤں پھیلائیں گے۔ خصوصاً بازاری فاجرہ فاحشہ عورتوں، ڈومینوں کو تو ہر گز ہرگز قدم نہ رکھنے دیں کہ ان سے حدِ شرعی کی پابندی محالِ عادی ہے۔ وہ بے حیائیوں فحش سرائیوں کی خوگر ہیں، منع کرتے کرتے اپنا کام کر گزریں گی بلکہ شریف زادیوں کا ان آوارہ بدوضعوں کے سامنے آنا ہی سخت بیہودہ و بے جا ہے۔ صحبتِ بد زہرِ قاتل ہے اور عورتیں نازک شیشیاں جن کے ٹوٹنے کو ادنیٰ ٹھیس بہت ہوتی ہے۔ (ہادی الناس فی رسومِ الاعراس: ص؍۷،۸)

جو لوگ شادی کی رسومات کی تکمیل کی خاطر قرض لیتے ہے ان کے متعلق قلمِ رضا کا یہ اقتباس پڑھیئے:
آج اکثر لوگ بیٹی کے بیاہ کے لیے بھیک مانگتے ہیں اور اس سے مقصود رسومِ مروجۂ ہند کا پورا کرنا ہے حالانکہ وہ رسمیں اصلاً حاجتِ شرعیہ نہیں تو ان کے لیے سوال حلال ہو نہیں سکتا ہاں! مسلمانوں کو مناسب ہے کہ حاجت مند بیٹی والے کی اعانت کریں۔ حدیث میں اس کی مدد کرنے اسے قرض دینے کی طرف ارشاد ہوا ہے۔ (احسن الدعاء: صفحہ نمبر؍ ۱۳۲، بحوالہ: عالمی سہارا کا اعلیٰ حضرت نمبر، صفحہ نمبر؍ ۷۸)

شادی کی بے جا رسومات کی بہت بے شمار جاہلانہ رسومات ہیں جن کی اصلاح سرکار اعلیٰ حضرت نے فرمائی۔ آپ کے زیادہ تر قلمی آثارقوم وملت کی فلاح وبہبود، اسلام اور مسلمانوں کے تحفظ وبقا کے لیے ہی صفحۂ قرطاس پر نقش ہوئے ہیں اور آپ کی حیاتِ مبارکہ کا ہر لمحہ اسلام کی سربلندی اورباطل عقائد ونظریات کی تردید میں ہی صرف ہوا ہے۔آ پ کی حیات وخدمات کے مطالعے سے اندازہ ہوتاہے کہ آ پ نے بدعات ومنکرات کی تردیداورا س کے ازالے کے لیے حددرجہ کوششیں فرمائی ہیں ان کی بیشترتحریریں ہمارے ا س دعوی پرشاہدعدل ہیں۔تفصیلی معلومات کے لیے مولانایٰسین اخترمصباحی کی کتاب ’’امام احمدرضااورردِبدعات ومنکرات ’’کامطالعہ کافی ہوگا۔

Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 670565 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More