مالدیپ کا سیاسی بحران اسلام پسندوں کے غلبے کا نتیجہ

مالدیپ بحرہند میں واقع ایشیاکاسب سے چھوٹا ملک ہے جو چاروں طرف سے سمندر سے گھراایک جزیرہ نما ہے یہ دراصل 26نسبتاً بڑے جز یروں کامجموعہ ہے جنکے درمیان تقریباً ۸۰ چھوٹے چھوٹے جزیرے ہیں اور 1100کے قریب ٹیلہ نما چٹانیں ہیں جوسمندر کے اندر سے ابھرآئی ہے ۔ سر ی لنکا اور ہندوستان کے لکشدیپ کے قریب واقع اس ملک کی آبادی تقریباً چار لاکھ ہے جو تقریباً سبھی سنی مسلم ہیں ۔ مالدیپ کا سرکاری مذہب بھی اسلام اورعدلیہ کا نظام بھی نظام شریعت پر مبنی ہے ۔ مالدیپ کی آبادی سری لنکا کے سنہالی، تمل ناڈاورکیرلا نژاد اورعرب نژادلوگوں پرمشتمل ہے سمندر وں کے درمیان واقعی یہ جزیرے قدرتی حسن کے اعتبار سے انتہائی حسین مقام ہے اور دنیا بھر کے سیاحوں کا مرکز ہے ۔ مچھلی بانی ،سیاحت اور زراعت ہی وہاں کی معیشت کااہم حصہ ہے ایک لمبے عرصے تک مالدیپ زیرسلطنت رہا مگر 1887 میں اس پر برطانیہ کا قبضہ ہوگیا تھا اور یہ ملک اس کے زیر محافظت رہا اور 1965میں آزادی حاصل کی ۔ 1968سے یہ دستور ی پر ایک جمہوری ملک بن گیا اور تب سے ایک مسلم جمہوریہ کی طرز پر قائم ہے ۔تیس سال مامون عبدالقیوم اسکے صدر رہے ۔ ان کے زمانے تک مالدیپ میں صرف ایک ہی سیاسی جماعت ہوتی تھی اور اس کے صدر خود مامون عبدالقیوم ہی تھے اور ہر پانچ سال میں جمہوریت کے نام پر وہ ایک استصواب رائے کرواکے صدر منتخب ہوتے رہے انکی پارٹی کا نام مقامی زبان میں DRPتھا جس کا اردو ترجمہ قومی پارٹی کہا جاسکتاہے ۔لیکن 2003کے بعد سے کچھ گروہوں کی جانب سے اصل جمہوریت کی بحالی اوردستوری ترامیم کولیکر اجتماعی مہم کا آغاز ہوگیا جو بڑھتا ہی چلا گیا اور بالآخر 2008میں یہ احتجاج کامیاب ہوئے اور مالدیپ نے کثیر جماعتی جمہوریہ کی صورت اختیار کی اور باقاعدہ جمہوری انتخابات عمل میں آئے جسمیں مالدیپ ڈیمو کریٹک پارٹی کے ترقی پسند رہنما محمد نشید کامیاب ہوئے اور ۲۰۱۲ ء تک مالدیپ کے صدر رہے اس دوران مالدیپ میں احیاء اسلام کی تحریکیں بھی بلند ہوئیں جمہوری پارٹی ،عدالت پارٹی اور مالدیپ اسلامی پارٹی وغیرہ بھی وجود میں آئیں۔ عوامی سطح پرا سلام پسندوں کو بتدریج غلبہ حاصل ہونے لگا ۔اسی وجہ سے 2012کے انتخاب میں پروگریسیو پارٹی آف مالدیپ جو ماڈرن اسلامک پارٹی سمجھی جاتی ہے اقتدار میں آگئی ۔حالانکہ اس سے قبل چونکہ انتخاب میں اس پارٹی کو50فیصد سے زائد ووٹ حاصل نہیں ہوئے تھے جو حکومت سازی کے لئے ضروری ہے اسی لئے دوسرے راؤنڈ ووٹنگ کی ضرورت پیش آئی جس کوبعد میں وہاں کے سپریم کورٹ نے موخر کردیا ۔اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہاں کے سپریم کورٹ کے سامنے واضح ثبوت پیش کئے گئے تھے جس ووٹر لسٹ کی بنیاد پر الیکشن ہوا اسمیں بہت سی خامیاں موجود تھیں ۔ بس یہیں سے مالدیپ کے مسائل کا آغاز ہوتاہے ۔

ہندوستان اور مالدیپ کے ہمیشہ ہی بہت گہرے دوستانہ تعلقات رہے ہیں ۔ہندوستان کے تقریباً 26ہزار لوگ جن میں سے اکثر کا تعلق تمل ناڈ اور کیرلا سے ہے وہاں کام کی غرض سے مقیم ہیں ۔ہندوستان کے بہت سے تجارتی مفادات بھی مالدیپ کے ساتھ وابستہ رہے ہیں اس کے علاوہ سلامتی ، کمیونی کیشن وغیرہ کے زمرے میں بھی ہند مالدیپ ایک دوسرے کے قریب رہے ۔ مامون عبدالقیوم کے زمانے کے بعد محمدنشید کے زمانے میں تک بھی یہ تعلقات بہت خوشگوار رہے ۔ انہیں اچھے تعلقات کیوجہ سے 2003میں مالدیپ کے اور محمد نشید نے مالے ہوائی اڈے کی تعمیر نو اور اس کے انتظام وانصرام کا ٹھیکہ ایک ہندوستانی کمپنی GMRکے سپرد کردیا گیا ۔اس کمپنی نے طے کیا کہ وہ فی مسافر 25ڈالر اوردو ڈالر مزید ٹیکس وصول کرے گی ۔ا س شق پر مالدیپ کی بہت سی سیاسی جماعتوں کواعتراض تھا ان کا کہنا تھا کہ مالدیپ کی حکومت خود اس کا انتظام کر سکتی ہے توکسی غیر ملکی کمپنی کو یہ ٹھیکہ کیوں دیا جائے تنازعہ جب بہت بڑھاتو محمدنشید کے پیش رو جو وحید جو ایک عوامی انقلاب کے ذریعے صدر بنے تھے نے اس معاہدے کو منسوخ کریا ۔یہ معاہدہ 25سال کے لئے تھا اس سے مالدیپ حکومت کو ڈیڑ دو ملین ڈالر ملتے جبکہ حزب اختلاف کاکہناتھا کہ اگر حکومت خو د اس کاانتظام کرے تو ملک چار ملین ڈالر کماسکتی ہے ۔اس معاہدے کی تنسیخ کوسنگاپور تک کی عدالت میں چیلنج کیاگیا مگر کمپنی مقدمہ ہار گئی ۔معاہدے کی یہ تنسیخ ہند مالدیپ تعلقات کے مابین تنازعہ کی ظاہری وجہ بن گئی ۔اور تنازعہ اس قدر بڑھا کہ 2012کے مالدیپ کے نام انتخاب میں جب محمد نشید کوکم ووٹ ملے اور دوبارہ لیکشن کاموقع آیا اور سپریم کورٹ نے اسے موخر کیاتھا تو ہمارے وزیرخارجہ سلمان خورشید نے امریکی وزیر خارجہ ۔یواین او اور دیگر عالمی طاقتوں کے سربراہان کو رجوع کرکے جلد ازجلد انتخاب کرانے محمد نشید کی بحالی کے لئے لابنگ شروع کردی جس نے وہاں کے ٖحزب اختلاف کو ہندوستان کے خلاف چراغ پا کردیا ۔ اس دوران محمدنشید کے خلاف تحقیقاتی کمیشن قائم ہوا اوران پر بدعنوانی کے الزامات ثابت ہوئے اور موجود صدر یامین عبدالقیوم نے ان کو جیل بھیج دیا ۔ محمد نشید کی پارٹی کیلئے بھی سلمان خورشید عالمی طاقتوں کے رابطے میں رہے یہاں تک کہ محمد نشید نے اپنی بحال کے لئے ہندستانی فوج کشی تک کامطالبہ کرڈالامگر یامین عبدالقیوم نے کسی بھی عالمی دباؤ کے سامنے سرخم کرنے سے یکسر انکار کردیا ۔اورکھلے لفظوں میں کہہ دیاکہ ملک کے داخلی معاملات میں کسی بھی عالمی طاقت کی دخل اندازی یا فوج کشی برداشت نہیں کریں گے ۔

بات سننے میں عجیب لگتی ہے کہ ایک ہوائی اڈے کے ٹھیکے کے لئے اور وہ بھی ایک پرائیویٹ کمپنی کے نام پر ہوتو اسمیں سرکار اور وزیر خارجہ کو اس قدر دل چسپی کیوں ہے یقیناً اس کے در پر دہ بھی عوامل کا رفر رہے ہوں گے ۔ جیساکہ اوپر کہا گیاکہ گذشتہ دس سال میں مالدیپ میں اسلام پسندوں کا غلبہ بڑھاہے موجودہ صدر یامین عبدالقیوم بھی اسی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں حالانکہ حال ہی میں دوسری اسلام پسند جماعتوں جیسی جمہوری پارٹی اور عدالت پارٹی کے تعاون سے محروم ہونا پڑا ہے ۔ لیکن بہرحال یہ حقیقت ہیکہ 2003سے 2012کے بیچ اسلام پسندی کی ایک لہر مالدیپ میں چلتی رہی ہے اس لئے اتنی تیزی کے ساتھ اسلام پسندپارٹیاں اقتدار کے اتنے قریب پہونچ سکیں ۔ان اسلام پسندوں کے تعلقات کی ترجیح میں ہندوستان کے بجائے چین اورپاکستان شامل ہوگئے ہیں ۔ مالے میں چین کے سفارت خا نے کھولنے پربھی ہندوستان کو اعتراض ہوا ۔علاوہ ازیں مالدیپ نے اپنے جزیرروں میں سے ایک علٰحدہ قسم کا جزیرہ بھی 100سالل کی لیز پر چین کے حوالے کردیا جس سے بحر ہند میں ہندوستان کے مفادات کو مستقبل میں متاثر ہونے کا خطرہ ہے ۔

دراصل مالدیپ بحرہند میں جنوب ایشیا ئی ممالک کے لئے ایک سمندر ی چوکی کی حیثیت رکھتا ہے اور اس خطے کا 80%مال جو براہ سمندر منتقل ہوتا ہے وہ مالدیپ کے قریپ سے ہوکر ہی گزرنا پڑتا ہے اس نقطہ نظر سے بحرہند کے اس حصے رپر اگر چین بٹھا ہوتو یقیناً ہندوستانی مفادات کو ضرب پہونیچے گی ۔ یہ وجہ ہیکہ ہوائی اڈے کے ٹھیکے کی تنسیخ کے پردے میں ہندوستان کو مالدیپ کی سیاست میں دخل اندازی کرنی پڑی ۔حالانکہ اس کے لئے جو طریقہ کار اختیار کیا گیا وہ عالمی سفارتکار ی کے ضابطوں کے خلاف تھا ۔ چین کے بڑھتے اثرات کے علاوہ اسلام کے بڑھتے اثرات بھی ہندوستان کے لئے مستقل تشویش کا باعث بنے ہوئے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ مارچ 2015 میں وزیر اعظم نریندر مودی کے جن چار سمندری ممالک کا دورہ کرنا تھا اس میں سے مالدیپ کو خارج کردیا گیا ۔ ہندوستان کا کہنا ہے مالدیپ کے دو ر دراز اور غیر آباد جزیروں میں اسلامی انتہاء پسندوں کے ٹریننگ کیمپ بن رہے ہیں۔ داعش اور القاعدہ کے لڑاکے ان جزیروں میں بتدریج پناہ گزیں ہوتے جارہے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ القاعدہ اور داعش کے مابین برتری کی جنگ انہیں جزیروں لڑی جائے ۔ ان دونوں کی اس خطے میں اسقدر زیادہ موجودگی اور وہ بھی ایک اسلام پسند حکمراں کے زیر انتظام مسلم ملک میں اس پورے خطے کی سلامتی کے لئے ایک بڑا خطرہ بن جائے گی ۔ اسی خطرے کے پیش نظر ایک لبرل اورسیکولر قسم کے حکمراں کی صورت میں ہندوستانی حکومت محمد نشید کی اس طرح حمایت کر رہی ہے ۔حالانکہ اسکے دوسرے طریقے بھی ممکن ہوسکتے تھے ۔ یہ وہ تمام حالات میں جن کے تحت گذشتہ ہفتے مالدیپ میں ایمر جینسی لگا نی پڑی ایمرجینسی کے اعلان سے قبل مالدیپ کے صدر یامین عبدالقیوم کی کشتی میں بم دھماکہ ہواتھا جس میں انکی بیوی معمولی سی زخمی ہوگئی تھیں ۔بعد ازاں صدارتی محل کے باہر بھی ایک دھماکہ ہواتھا ۔ نیز محمدنشید کی رہائی کے لئے حزب اختلاف کی جانب سے ایک بڑی ریلی کا انعقاد گذشتہ جمعہ کوہونے والا تھا ان حالات میں ریلی کو ناکام بنانے کے لئے یامین عبدالقیوم نے منگل کے روز ہی ایمرجینسی کا اعلان کرکے پولیس کو لامحدوداختیار دے دیئے تھے ، لیکن پھر ایک مرتبہ مالدیپ کے صدر کوزبردست عالمی دباؤ کاسامناکرناپڑا ۔اور یہ کہاگیا کہ ایمرجینسی کیوجہ سے مالدیپ کی سیاحت متاثر ہوگی جس سے پورے ملک کی معیشت متاثر ہونے کا خطرہ تھا ۔ اس دباؤ کے پیش نظر محض ایک ہفتے کے اندر ایمرجینسی اٹھانی پڑی ،حالات ابھی معمول پر ہیں مگر ہندوستان سمیت دیگر عاملی طاقتیں محمد نشید کی رہائی کے مطالبے کے ساتھ مالدیپ میں ایک غیر مستحکم سیاسی صورتحال پیدا کرنے کے حالات پیدا کررہی ہیں ۔اب محسوس ہوتاہے کہ یوروپی ممالک میانمار میں آن سانگ سوچی کو پلانٹ کرنے میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اس خطے کے سمندروں میں اپنی پکڑ مضبوط بنانے اور چین کو اس علاقے سے بالکل ہی بے دخل کرنے کے لئے مالدیپ کو نشانہ بنارہی ہیں اور امریکہ و یوروپ کے ساتھ ہندوستان بھی ایک موثر حلیف ہے معاملہ صرف اقتصادیات اور سیاست تک محدود رہے تو بھی صبر کیا جاسکتاہے لیکن امریکہ اوراسکے تمام حلیف تو در اصل سیاسی اسلام کے مخالف ہیں۔ انڈونیشیا، ملیشیا، مشرقی تیمور، بنگلہ دیش اور پاکستان کے بعد مالدیپ بھی اگر اسلام پسندوں کے قبضے میں رہا تو پورا جنوبی ایشیا اور جنوبی چینی سمندر تک تمام خطہ میں یوروپی مفادات منفی طور پر متاثر ہوں گے۔مالدیپ کی سیاسی رسہ کشی کو اس پس منظر میں دیکھے جانے کی ضرورت ہے۔

Dr Tasleem Ahmed Rehmani
About the Author: Dr Tasleem Ahmed Rehmani Read More Articles by Dr Tasleem Ahmed Rehmani: 41 Articles with 24421 views I m Chief Editor of Mission Urdu Weekly New Delhi, President Muslim Political Council of India lives in Delhi a political strategist and profound writ.. View More