سنتے رہے ہر صدا!

 دسمبر کا بہت زکر سنا ہے۔ اکثر لوگ اسے خاموشی سے تشبیہ دیتے ہیں ۔ ایک حد تک یہ بات ہے بھی۔ یہ کیا ہوا ؟ اب تو اکتوبر بہی سنا جانے لگا۔ لیکن کیوں ؟؟؟

یہ تو ابدی خاموشی لاتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسا پہلی بار تہوڑی ہوا ہے۔پورے دس سال بعد ایک اور زلزلہ ۔ زلزلہ آیا زمین جہولی اور رک گئ۔ ٢٦ اکتوبر ٢٠١٥ کا دن تہا: ٢ بج کر نو منٹ ہوئے تو ٨ اعشاریہ ایک کی شدت سے زلزلہ آگیا۔ یوں لگا جیسے کوئی زمیںن کو پکڑ کر زور زور سے جھنجھوڑ رہا ہو۔ زمین ہلی تو انسان بھی جاگے اور دیکہا کے کہیں یہ خدا کا عذاب تو نہیں ؛ زیادہ فکر کی ضرورت نہیں بس یہ خیال ہی آیا۔ان کا کوئی قصور نہیں یہ تو وہ زلزلے کا شدید جھٹکا تھا۔ جس نے موت کی تو یاد دلا دی مگر افسوس! نصیحت نا پکڑ سکے۔ بس پھر کیا تھا جو بچ گئے وہ بھول بھی گئے۔ جو زمین بوس ہوئے وہ لٹ گئے ۔کسی کا گھر نا رہا تو کسی کا زندگی بھر کا سہارا ہی نا رہا۔ کسی بہن کا بھائی نہ رہا تو کسی ماں کا جگر گوشہ ، کوئی بچوں سے مرحوم ہوا تو کوئی بھائی اپنے بھائی کو اکیلا کر گیا۔ سلسلہ یہاں ختم نہیں ہوا۔ سہارے چھین گئی سر پر سائباں بھی نہ رہا پہنے کو کپڑا نہ رہا سونے کو بستر نہ بچا،کھانا تو نہ مل سکا تھا۔ یہاں تو زخمی دل کو اک بول تسلی کا بھی نہ مل سکا۔ کچھ خوش نصیب تھے جن کو مسیحا مل گئے ۔کچھ بدنصیبوں کو تو فوٹو سیشن بھی نہ ملا۔ ہماری حومت نے امداد کا اعلان کر دیا۔ یہ ان کی خوشقسمتی ہے کہ کب پہنچتی ہے۔ یہ سارا معاملہ تو ہو گیا ۔ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ ہمارے گناہ بھی ملوث ہیں ۔ اس کی لازوال مثالیں موجود ہیں:۔ جھوٹ بولے بغیر کھانا ہضم نہیں ہوتا،نہ تنقید کرے بغیر ہٹ ا گر گالی نا دین تو ہمیں کوریج ،رشوت کے بغیر نوکریاور بڑے اسکینڈل کے بغیر شہرت نہیں ملتی۔ یہ ہمارے معزز تریں معاشرے کی صرف چند ایک خوبیاں ہیں۔کوئی ایک کام مسلمانوں والا نہیں کرتے اور خود کو مسلمان کہلوتے ہوئی ذرا شرم محسوس نہیں ہوتی۔ کیا ہمارے مذہب میں بے عمل زندگی کی کوئی گنجائش ہے۔

ہماری بے عملی کو دیکھ کر اسلام دشمن قوتیں زوع پکڑ رہی ہیں ۔ یہ دس محرم الحرام کا قابل مزمت واقہ ہی دیکھ لو۔ سینئر کشمیری راہنما سیدعلی گیلانی نے پکستان کے ایک نجی چینل پر فون کے ذریعے بات کرتے ہوے بتایا کہ ہندؤں نے ہمارے لوگوں کو اپنا مذہبی دن بھی نظربندی،گولیوں اور گرفتاریوں میں گزارنے پر مجبور کردیا۔ انہوں نے مزید بتایا کے کسی کم ذات ہندؤ نے قرآن مجید کی بے حرمتی کی تھی۔

اس نے تو اپنی گندی دہنیت دیکھا دی۔ لیکن افسوس ہمارے حکمرانوں نے اس کی مذمت نہیں کی۔اور میڈیا پر بھی کوئی تبصرہ نہیں سنا۔ شاید پم اپنے پیارے نبی کا یہ فرمان بھول گئے ۔جس میں آپ نے قرآن مجید اور اپنی سنت پر عمل کر نے کی صورت میں کامیابی کی نوید سنائی تھی۔

یہ ھمں تو ٹھیک ہیں لیکن کہیں ایسا تو نہیں ھوا کے ہماری چپ کی وجہ سے زمین کو ہی غرت آگئی ہو۔

زلزلہ آیا دیکھتے ہی دیکھتے کئی علاقوں کو ویران کر گیا۔ ہزاروں بے بس ہوئے۔فلاحی کام جاری ہیں ۔ایک چیز کی مجھے با ذات خود سمجھ نہیں آئی کہ اتنی شدت کے باوجود ہم بچے کیوں ؟ آخر میں یہ نظم چھوڑے جا رہی ھوں۔

ایسے منظر دیکھے پہلے تو نا تھے
دور دین سے ہم اتنے تو نا تھے
بے خبر زندگی معں منتظر عذاب کےتو نا تھے
آج بوجھ عسیاں پرمستحق ثواب کے تو نا تھے
دیہائی پہلے گزری جو قیامت فقط ناآشنا تو نا تھے
مسجد،محل،چمن و آشیانے کل ایسے تو نا تھے
مل و دولت رہے سلامت خیر خواہ انسانوں کے تو نا تھے
لبوں پر آئے جو الفاظ استغفار کے تو نا تھے
کل والوں کے لاشیے بے گورو کفن تو نا تھے
آج جو نکلے گھروں سے پہلے بے گھر تو نا تھے
آہ و زاری یہ دل خراش سناٹے کل تک تو نا تھے
کیو ں نہ جھنجھوڑ سکے تیرا ضمیر اے میم
سنتے رہے ہر صدا خود غرض اس قدر تو نا تھے

Haboor
About the Author: Haboor Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.