حقیقت میلاد النبی - ارسٹھواں حصہ

کیا علاقائی ثقافت کا ہر پہلو بدعت ہے؟ :-

ہم اپنی روز مرّہ زندگی میں جو کچھ کرتے ہیں اُسے قرآن و سنت کی روشنی میں شرعاً ثابت کرنے پر زور دینا ہمارا مزاج بن چکا ہے۔ ہم ہر چیز کو بدعت اور ناجائز کہہ دیتے ہیں۔ اس میں میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلوس اور بہت سے مستحسن اُمور جو ہمارے ہاں رواج پا چکے ہیں ان کو معترضین بدعت سے تعبیر کرتے نہیں تھکتے۔ کچھ چیزیں اصلاً دینی ہوتی ہیں ان کی اصل توضیح اور استدلال کو کتاب وسنت میں تلاش کرنا چاہیے کہ وہ احکامِ دین کا حصہ ہوتی ہیں۔ اس کے ثبوت یا عدمِ ثبوت پر تو حکم شرعی ہونا چاہیے کہ ثابت ہے تو حکم ہے اور اگر غیر ثابت ہے تو حکم نہیں اور باقی چیزوں کی تقسیم کر سکتے ہیں :

اَوّلاً : کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ ان میں علاقائی اور سماجی رواج شامل ہوجاتے ہیں۔ یہ ایک اہم اور نئی جہت ہے کہ علاقائی رواج دینی اُمور نہیں بن جاتے اور وہ چیزیں کلچر یعنی تہذیب و ثقافت کا رُخ اختیار کرلیتی ہیں۔

ثانیاً : کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو وقتی مصالح، بدلتے ہوئے حالات، لوگوں کے رُجحانات اور اجتماعی میلانات کی آئینہ دار ہوتی ہیں۔

ثالثاً : بعض علاقائی، سماجی اور کلچرل ضرورتیں اور تقاضے بعض چیزوں کو ناگزیر بنا دیتے ہیں۔

1۔ ثقافتی اِعتبار سے دورِ صحابہ رضی اللہ عنھم:-

صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا دور ثقافتی اِعتبار سے سادہ تھا۔ اس دور کا ثقافتی اور تاریخی نقطہ نظر سے جائزہ لیں تو اس دور میں مسجدیں سادگی سے بنائی جاتی تھیں، گھر بھی بالعموم سادہ اور کچے بنائے جاتے تھے، کھجور کے پتوں اور شاخوں کو استعمال میں لایا جاتا، جب کہ خانہ کعبہ پتھروں سے بنا ہوا موجود تھا۔ وہ چاہتے تو مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی پختہ بنا سکتے تھے مگر اس دور کے معاشرے کی ثقافت اور رسم رواج سادہ اور فطرت سے انتہائی قریب تھے۔ ابتدائی تہذیب کا زمانہ تھا۔ کپڑے بھی ایسے ہی تھے جیسے انہیں میسر تھے۔ کھانا پینا بھی ایسا ہی تھا۔ یعنی ہر ایک عمل سادگی کا انداز لیے ہوئے تھا۔ ان کے کھانے پینے، چلنے پھرنے، رہن سہن الغرض ہر چیز میں سادگی نمایاں طور پر جھلکتی نظر آتی تھی۔ تو جب ہر چیز میں یہ انداز واضح طور پر جھلکتا تھا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی منانے میں بھی اُن کا اپنا انداز اس دور کے کلچر کی انفرادیت کا آئینہ دار تھا۔

2۔ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ثقافتی مظاہر:-

ہم یومِ پاکستان اور یومِ قائدِ اعظم مناتے ہیں، اس موقع پر جلوس نکالتے ہیں۔ یہ ہمارے علاقائی رسم و رواج کا حصہ ہے، اسے شرعی نہیں بلکہ ثقافتی نقطہ نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد شریف پر خوشی منانا قرآن و سنت سے ثابت ہے اور اس کا تقاضا ہے کہ مومن کا دل خوشی و انبساط سے لبریز ہوجائے، البتہ اس کے اظہار کے مختلف ثقافتی طریقے ہیں جن کا وقت کے ساتھ ساتھ بدلنا ناگزیر ہوتا ہے۔

میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر جلوس نکالنا ثقافت کا حصہ ہے:-

اگر یومِ پاکستان منانا ثقافتی نقطہ نظر سے درست ہے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کا دن جو انسانی تاریخ کا اہم ترین دن ہے کیوں نہ منایا جائے؟ اگر یومِ آزادی پر توپوں کی سلامی دی جاتی ہے تو میلاد کے دن کیوں نہ دی جائے؟ اس طرح اور موقعوں پر چراغاں ہوتا ہے تو یومِ میلاد پر چراغاں کیوں نہ کیا جائے؟ اگر قومی تہوار پر قوم اپنی عزت و افتخار کو نمایاں کرتی ہے تو حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے دن وہ بہ طور اُمت اپنا جذبہ افتخار کیوں نمایاں نہ کرے؟ جس طرح ان ثقافتی مظاہر پر کسی اِستدلال کی ضرورت نہیں اُسی طرح میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلوس کے جواز پر بھی کسی اِستدلال کی ضرورت نہیں۔ خوشی اور احتجاج دونوں موقعوں پر جلوس نکالنا بھی ہمارے کلچر کا حصہ بن گیا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد پر اگر ہم جلسہ و جلوس اور صلوٰۃ و سلام کا اہتمام کرتے ہیں تو اس کا شرعی جواز دریافت کرنے کی کیا ضرورت ہے؟

یہ پوچھا جاتا ہے کہ عرب کیوں جلوس نہیں نکالتے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ عرب کے کلچر میں جلوس نہیں، جب کہ عجم کے کلچر میں ایسا ہے۔ متحدہ عرب امارات اور مصر وغیرہ میں لوگ میلاد مناتے ہیں لیکن جلوس نکالنا ان کے کلچر میں بھی نہیں، جب کہ ہمارے ہاں تو ہاکی کے میچ میں کامیابی پر بھی جلوس نکالنا خوشی کا مظہر سمجھا جاتا ہے۔ جیتنے والی ٹیموں اور الیکشن جیتنے والے امیدواران کا استقبال جلوس کی شکل میں کیا جاتا ہے۔

لہٰذا جو عمل شریعت میں منع نہیں بلکہ مباح ہے اور ثقافتی ضرورت بن گیا ہے اور اس کا اصل مقصد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی منانا ہے تو اس پر اعتراض کرنے کی کیا گنجائش اور ضرورت ہے؟

محفلِ میلاد میں کھڑے ہو کر سلام پڑھنا ثقافت کا حصہ ہے:-

برصغیر پاک و ہند میں لوگ محافل کے دوران میں کھڑے ہو کر صلوۃ و سلام پڑھتے ہیں جب کہ اہلِ عرب کے ہاں اکثر بیٹھ کر صلوۃ و سلام پڑھا جاتا ہے، لیکن مکہ مکرمہ میں اکثر لوگ قیام بھی کرتے ہیں۔ لہٰذا اِس پر بلا جواز اعتراض کرنا اور اسے باعثِ نزاع بنانا کوئی مستحسن اقدام نہیں۔ بحالتِ قیام صلوۃ و سلام کا اگرچہ شرعی جواز موجود ہے مگر اس کا دوسرا پہلو علاقائی اور ثقافتی ہے۔ یہ اپنے اپنے ذوق کی بات ہے، کوئی کھڑے ہو کر سلام پڑھتا ہے، کوئی بیٹھ کر سلام پڑھتا ہے۔

میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آرائش و زیبائش ثقافت کا حصہ ہے:-

قرونِ اُولیٰ میں لوگوں کی طبیعت کے اندر نیکی اور خیر کے پہلو اتنے غالب ہوتے تھے کہ انہیں کسی اِہتمام کی ضرورت نہیں پڑتی تھی بلکہ حکم ہی کافی تھا۔ لیکن آج صورت حال بدل چکی ہے۔ حکم کے وہ اَثرات نہیں رہے اس لیے جامد طبعیتوں کو نیکی کی طرف راغب کرنے کے لیے مسجدیں خوبصورت بنانے کا رُحجان زور پکڑ گیا ہے، جب کہ مساجد کی زیب و زینت کا قرآن و حدیث میں کہیں حکم نہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ اس لیے ہے کہ ظاہری اَسباب رغبت کا باعث بنتے ہیں۔ اسی لیے فرمایا :

يَا بَنِي آدَمَ خُذُواْ زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ.

’’اے اَولادِ آدم! تم ہر نماز کے وقت اپنا لباسِ زینت (پہن) لیا کرو۔‘‘

الأعراف، 7 : 31

اس پہلو کا تعلق اَحکامِ شریعت سے نہیں ثقافت سے ہے۔ داڑھی کے بال سنوارنا، سرمہ ڈالنا، سر میں تیل لگانا، اچھے کپڑے زیب تن کرنا اَعمالِ سنت ہیں، اور ظاہری رغبت دلانے والی چیزیں ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِن اَفعال کی ترغیب دلائی ہے۔ اِسی لیے فرمایا :

من أکل من هذه البقلة فلا يقربن مساجدنا، حتي يذهب ريحها يعني الثوم.

’’جو شخص اِس ترکاری (یعنی لہسن، پیاز) کو کھائے وہ ہماری مساجد میں نہ آئے یہاں تک کہ اِس کی بو (اُس کے منہ سے) ختم ہو جائے۔‘‘

1. مسلم، الصحيح، کتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب نهي من أکل ثوماً أو بصلاً أو کراثاً أو نحوهما، 1 : 394، رقم : 561
2. أبو داود، السنن، کتاب الأطعمة، باب في أکل الثوم، 3 : 160، 161، رقم : 3824، 3825

کیا لہسن، پیاز کھانے والا کسی قبیح جرم کا مرتکب ہوگیا ہے کہ اسے مسجد میں آنے سے روکا گیا ہے؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ظاہری اَسباب کی بناء پر ہی فرمایا کہ اگر کوئی لہسن، پیاز کھا کر مسجد میں آئے گا تو مسجد میں بیٹھے لوگوں کی طبیعت میں اِنقباض پیدا ہوگا۔ جسمانی آرائش و زینت سے متعلقہ یہ اور اِس موضوع کی حامل دیگر احادیث ثابت کرتی ہیں کہ اسلام میں ظاہری اَسباب پیدا کیے جانے کو قرینِ حکمت اور قرینِ مصلحت سمجھا جاتا ہے۔

جاری ہے---
Mohammad Adeel
About the Author: Mohammad Adeel Read More Articles by Mohammad Adeel: 97 Articles with 92622 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.