جامعہ فیس بکیا و گوگلیہ العا لمیہ

کسی کے کافر، مسلمان ، یہودیوں کا ایجنٹ ہونے یا واجب القتل ہونے کے فیصلے انہیں چبوتروں سے صادر کئے جاتے تھے۔ اس چبوترا سائنس نے اس قدر ترقی کی کہ وہ خواتین و حضرات جو ان چبوترا مدارس یا چبوترا عدالتوں سے بہرامند نہ ہو پاتے تھے ان کی مشکل فیس بک نے حل کر دی۔ اب نہ استاد ، نہ کتاب ، اور نہ ہی زیادہ محنت ومشقت کی ضرورت رہی۔

ہم مسلمانوں کی ہمیشہ سے ہی بد قسمتی رہی کہ ہمارے اسلامی مباحثے جامعات و مدارس میں نہ ہوتے ہوں جس قدر فیس بک یا گوگل پر شائع کئے جاتے ہیں۔ فیس بک ہمیشہ سے نہیں مگر میں نے شروع میں جو لفظ (ہمیشہ) استعمال کیا وہ اس لئے کیا کہ اس سے پہلے یہ فلسفیانہ و علمی کارنامے گلی کے چبوتروں پر بیٹھ کر سامنے سے گزرتی عورتوں کا الٹرساونڈ کرتی نگاہوں ، پان گٹکے کی پیک منہ میں بھر کے انجام دیئے جاتے تھے۔ سونے پہ سہاگہ اس موقع پرمفت الٹرساونڈ کی رپورٹ کسی بھی خاتون کےلئےمثبت نہیں آتی تھی۔

کسی کے کافر، مسلمان ، یہودیوں کا ایجنٹ ہونے یا واجب القتل ہونے کے فیصلے انہیں چبوتروں سے صادر کئے جاتے تھے۔ اس چبوترا سائنس نے اس قدر ترقی کی کہ وہ خواتین و حضرات جو ان چبوترا مدارس یا چبوترا عدالتوں سے بہرامند نہ ہو پاتے تھے ان کی مشکل فیس بک نے حل کر دی۔
اب نہ استاد ، نہ کتاب ، اور نہ ہی زیادہ محنت ومشقت کی ضرورت رہی۔

تاریخ کی کتب ، علم القرآن، علم حدیث ، علم فقہ ، فلسفہ قوانین شریعت سے نہ واقف فیس بکیا عالم اپنے ذاتی خیالات کو اسلام و دین کے نام سے با آسانی شائع کرنے پر قادر ہو گیا۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ایسے عالم و مفکر حضرات کی سہولت کےلئے جامعہ گوگلیہ العالمیہ اپنی خدمات انجام دیتا ہے۔ اگر اس عالم و مفکر کو اپنے مطلوبہ مواد کی تلاش کےلئے کچھ الفاظ ( کی ورڈز ) معلوم ہوں تو کیا ہی کہنا پھر تو یہ حضرات گوگل سے جبری مفتی ہونے کی سند بھی حاصل کر لیتے ہیں اور پھر یہ خود پسند افراد اپنی پوسٹس پر آئے ہوئے تعارفی کومنٹس کی تصاویر اسناد کےطور پر اپنے البم میں لگا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ دین کی خدمت کر رہے ہیں ، اب یہ گوگلیہ مفتی کسی کےمتعلق بھی مسلم یا کفر کا فتوا صادر کرنے پر قادر ہوتے ہیں۔

ان فیس بکی علما کو صرف چند ایک مضامین سے ہی دل چسپی ہے ان کی ساری کی ساری گوگلیا جہدوجہد صرف انہیں موضوعات کے گرد گھومتی ہے جن میں ۱۲ ربیع الاول کے جلسے جلوسوں ، مزارات پر جانا، نذرو نیاز کرنا ،محرم میں مجالس و ماتم پر اعتراضات پر ہی مشتمل ہوتی ہے۔

ایسے علما کا فیس بک پر سوال پوچھنے کا انداز بھی بہت دلچسپ ہوتا ہے حالانکہ ایسے سوالات میں پہلے سے ہی ان کا نظریاتی فیصلہ چھپا ہوتا ہے ۔ مثال کے طور پر جامعہ فیس بکیا سے تعلق رکھنے والے ہمارے فاضل دوست نے سوال داغ دیا کہ مزارات پر جانا شرک ہے لہذا آپ یہ مشرکانہ فعل کیوں انجام دیتے ہیں ؟ جس کہ جواب میں ہم صرف یہی عرض کر سکے کہ جب آپ پہلے ہی طے کر چکے کہ یہ مشرکانہ فعل ہے اور ہم شرک کے مرتکب ہو رہے ہیں، اب ہم یہ بتائیں کہ ہم مزارات پر کیوں جاتے ہیں یا پہلے اپنے آپ کو دائرہ شرک سے خارج ثابت کریں۔ اب ان کو کون بتائے کہ بھائی مجھے مشرک یا اس مشرکانہ فعل کا فیصلہ کرنے سے پہلے مجھ سے دریافت تو کرلیتے، اس کے بعد فیصلہ صادر کرتے۔ (گو کہ پھر بھی ان کو فیصلہ کا کوئی حق ہی نہیں)

اب اگر کسی نے اپنی صفائی میں کوئی دلیل پیش کی تو فوراً ایک اور سوال فائر ہوتا ہے جناب قرآن سے ثابت کریں اب جواب دینے والا بھی علم القرآان سے بے بہرا اور سوال پوچھنے والا بھی لا تعلق اسی اصناع میں فرینڈز لسٹ میں شامل ایک اور مفتی صاحب فوراً کسی ایک فریق کے کافر ہونے کا نعرہ بلند کرتے ہیں۔ اب مفتیوں کے اس جنگل میں کوئی اکیلا تو ہوتا نہیں لہذا اس کافر فریق کا کوئی چاہنے والا کفر کا فتوا دینے والے کی ماں بہن کی شان میں گستاخی کر دیتا ہے پھر تو سب ہی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے بھری بس میں کوئی بد قسمت جیب کترا لوگوں کے ہتھے چڑھ جائے تو بس میں سوار ہر چور ،شرابی، رشوت خور، بجلی چور ، بغیر ٹکٹ سفر کرنے والا، جورو کا غلام گو ہر سطح کا چور اس بے چارے جیب کرتے کی پٹائی کرنے کا ثواب حاصل کرتا ہے۔ اسی طرح فیس بک میں بھی ہر سطح کا عالم فاضل ماں بہن ایک کر رہا ہوتا ہے۔

Majid Hussain
About the Author: Majid Hussain Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.