محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دیس میں

یہ مضمون راقم پاکستان میں ھجرت کرکے آنے والوں کی یاد میں پیش کررھا ھے

الگ وطن ہمارے لیے بہت ضروری ہے.اب ھم اکھٹے نہیں رہ سکتے...کیوں؟

دیکھو بھائی ہم اس ملک میں غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں.اگر انگریز ھندوستان کو آزاد کر بھی دیں تو ھم ھندووں کی غلامی میں آجائیں گے اور کانگرس بھی یہی چاہتی ہے.

دوسری بات دیکھو ہمارے رہن سہن ،لباس ان سے الگ،ھمارے شادی بیاہ،اٹھنے. بیٹھنے ،ملنے ملانے اور دیگر رسم و رواج ھندوؤں سےبلکل الگ ہیں،ان کی عبادات ھم سے الگ ھم تو اللہ کے آگے جھکتے ہیں اس سے مانگتے ہیں لیکن ھندو اپنے بتوں کے آگے جھکتے ہیں ان سے مانگتے ہیں.ہمارےہا ں خاوند کی وفات کےبعد عورت کی عدت ہوتی ھے لیکن ھندووں کے ھاں عورت کو بھی ساتھ زندہ جلا دیا جاتا ہے.اور سب سے اھم بات ھم گاے کو زبح کرتے ہیں اس کا گوشت کھاتے ہیں لیکن ہندو گاےکی پوجا کرتے ہیں اس کو اپنی ماں کہتے ہیں.اس کا پیشاب ان کے نزدیک متبرک ہے لیکن ھمارے نزدیک آب زم زم متبرک ہے.ہم مسجدوں میں جاتےہیں وہ مندروں میں.

ھندوستان میں مسلمانو ں کی نمائندہ تنظیم آل انڈیا مسلم لیگ (جسکی بنیاد 1906ء میں بنگال میں نواب وقارالملک نے )کے مرکزی لیڈر علامہ محمد اقبال نے 1930ء میں آلہ آباد کے اجلاس میں مسلمانوں کو الگ وطن بنانے کی تجویز پیشکی. جس کا کھل کر اعلان 1940ء میں 23مارچ کو منٹوپارک میں قائد اعظم محمد علی جناح نے کی.اس کا نام چودھری رحمت علی خان نے نے اپنے کتابچے Now or Never میں '"پاکستان" تجویز کیا.تحریک المجاھدین اور آل انڈیا مسلم لیگ کے جوانوں نے پورے برصغیر میں ایک ہی صدا لگادی.
لے کے رہیں گے. .........پاکستان
بن کے رہے گا ............پاکستان
پاکستان کا مطلب کیا؟.....لاالہ الا اللہ

پورے مسلمانان برصغیر میں ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا ہوگیا.ہر کو ئ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دیس دیکھنا چاہتا تھا.لیکن مسٹر گاندھی کو یہ بات گوارا نہیں تھی کسی طریقے مسٹر گاندھی نے محمد علی جناح سے ٹائم لیا. ملاقات شروع تھی گا ندھی صاحب کہنے لگے ہم ایک ھی ملک میں مل کر رہیں گے. قائد اعظم نے کہا ایک گلاس پانی مگوا یا جاے قائد اعظم نے آدھا گلاس پی کر گاندھی کو گلاس تھماتے ہوے کہا باقی پانی تم پیو گاندھی نے کہا میں کیوں کسی مسلے (مسلمان) کا جھوٹھا پیوں قائد اعظم نے کہا جس طرح تم میرا چھوڑا پانی پینے کےلیے تیار نہیں تو ہم ایک ملک میں ملکر کیسے رہ سکتے ہیں.؟.

قائد اعظم گاندھی کی سازشوں کو بھانپ چکے تھے ان سازشوں کے باوجود،کلمے کے نام پر نظریہ اسلام پر بننے والاملک 14 اکست 1947ء کو ہزاروں قربانیو ں کے باوجود دنیا کے نقشے پر ابھر آیا.

ایک عورت پاکستان کی جانب چل پڑی واہگہ بارڈر سے کچھ میل پیچھے تھی.راستے میں سکھوں کے جتھے نے روک لیا .عورت کے پاس 3 بچے بھی تھے.کہنے لگے بی بی! پاکستان جاتی ہو. عورت کہنے لگی ہاں پاکستان جاتی ہوں.سکھ ظالم کہنے لگے اگر تو پاکستان جانا چاھتی ہے تو پھر پاکستان مردہ آباد کا نعرہ لگادے بی بی ھم تجھے کچھ بھی نہیں کہیں گے.

عورت سوچنےلگی ساری زندگی پاکستان زندہ باد کہتی رہی لیکن اب میں مردہ باد کہو ں یہ مجھے گوارا نہیں. عورت نے کہا نہیں میں پاکستان مردہ باد نہیں کہوں گی.ظالموں اس کا ایک بچہ چھینا اور اس شہید کردیا اور کہنے لگے بی بی ابھی دو باقی ہیں پاکستان مردہ باد کہہ دے لیکن عورت نے نہ کہا انہوں نے اسے دوسرا چھینا وہ بھی شہید کردیا اور پھر وہی کہنے لگے لیکن اس مومنہ نے پھر بھی پاکستان مردہ باد کہنا گوارا نہ کیا اور تیسرا بھی اللہ کے حضور پیش کردیا.سکھوں نے تینوں بچوں کو شہید کرنے کے بعد کہا جا اب تو جا سکتی ہے.عورت مہاجر کیمپ میں پہنچی. آج محمد علی جناح دورے کےلیے آئے ہوئے تھے عورت کبھی روتی کبھی مسکراتی. محمد علی جناح نے پوچھا یہ عورت کیوں روتی ہے اس کا کیا معاملہ ہے.ساتھی کہنے لگے یہ پاگل ہے جب اس نے یہ سنا تو کہنے لگی "میرے ہوش و ہواس قائم ہیں ".لوگ کہنے لگے پھر کیوں تو کبھی روتی ہے کبھی مسکراتی ہے.کہنے لگی: "روتی اس لیے ہو بچوں کی یاد آتی ہے مسکراتی اس لیے ہوں کہ اللہ تیرا شکر ہیں میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دیس میں ہوں.

رام پور کے نواحی گاؤں میں ایک خوشحال خاندان رهتا تھا .محمد دین کی بیوی خوش بختاں ,چار بیٹے اور دو بیٹیاں رهتی تھیں.تحریک آزادی زوروں پر تھی محمد دین صاحب کا بڑا بیٹا بھی شهید کردیا گیا قافله پاکستان کی جانب رواں دواں تھا.جب مائی خوش بختاں پاکستان مهاجر کیمپ پهنچی تو کهنے لگی کیا صلی اللہ علیہ وسلم کا دیس آگیا هے.

آج ھم اپنے بڑوں کی داستانوں کو بھلا دیا.جب پاکستان بنا تب کانگرس کے راهنما نے بولا هم ثقافت کے زریعے پاکستان پر حمله کریں گے.یهی وجه هے آج هم سے سب کچھ چھین لیا گیا.نصابوں سے اسلامی اور تاریخی اسباق کو حذف کرلیا گیا نوجوانوں کو اسلامی ثقافت کی بجاے مغربی ثقافت پر لگا دیا گیا.
الله اس دھرتی کو قائم اور دائم رکھے
کالم نگار"حفص عبداللہ"

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

hafs abdullah
About the Author: hafs abdullah Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.