حضرت ِزینب۔حکمت وجلالت ِعلوی کی وارث

 خاندانِ رسالت میں ایک نسوانی بچے کی پیدائش غم آمیز مسرت پر مبنی ایک عجیب و غریب کیفیت کا باعث بنی۔ولادت کی خبر سے جن کے دل شادان و فرحان تھے ان کی آنکھیں اسی متولدسے منسلک ایک اور اندوہناک پیشن گوئی سے اشک آلود ہوئیں۔ بیٹی کی ولادت سے اہلِ عرب اسے قبل بھی مغموم ہوا کرتے تھے۔ قرآن مجید کے مطابق پورے افراد خانہ کے چہرے اترجاتے تھے۔ اور شرم کے مارے ان کی گردنیں جھک جاتی تھیں۔ لیکن خاندانِ رسالت کے رنجیدہ خاطر ہونے اور جاہل عربوں کی غمناکی میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ جاہل عرب نسوانی وجود کو سرے سے ہی منحوس و معتوب جانتے تھے نیز اس کی ولادیت کو پورے قبیلے کیلئے بارگراں سمجھتے تھے۔ اور اس خفت سے دامن چھڑانے کیلئے پریشانی اور مایوسی کے عالم میں مختلف جتن کرتے تھے۔ لیکن خاندانِ نبوت کی اشکباری کا عنوان الگ ہے۔ ان کے غمزدہ ہونے کا سبب بالکل مختلف ہے۔ یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ اول الذکر قبیلہ صنفِ نازک کے وجود کو ہی بنیادی طور پر باعثِ ننگ و عار سمجھتاتھا اور ثانی الذکر خاندان وجودِنسواں کے تئیں بے حرمتی اور توہین پر متفکر ہے۔وہ(جاہل عرب) اس نازک سی مخلوق کو طفلگی میں ہی زندہ درگور کرنے کے فراق میں ہوتے تھے۔ جبکہ یہ (خاندانِ نبوت سے تعلق رکھنے والے افراد) اس کی شخصیت کو اوج ثریاتک لے جانے کے متمنی ہیں۔ یہ ہے اس فکری انقلاب کی مضبوط و مستحکم اساس ،جس نے نسوانیت کی کایا ہی پلٹ دی۔ اورانسانیت کے ماتھے پر شرف و عزت کا جھومر سجھایا۔ لیکن اس شرف و عزت کو برقرار رکھنے نیز نسوانیت کے وقار کی سربلندی کیلئے خاندان ِ رسالت کو بڑی بڑی قربانیاں دینا پڑیں جس کی روشن مثال خاندان نبوت میں ولادت پانے والی یہی بچی ہے جسے تاریخ حضرت زینب بنت علی ؑکے نام سے یاد کرتی ہے۔ مہد سے لے کر لحد تک آپ سلام اﷲ علیہاکی پوری زندگی ایثار و قربانی، جہدِ مسلسل، صبر و رضا اور جہاد فی سبیل اﷲ سے عبارت ہے۔ آپ کی زندگی کا ہر ہر لمحہ داستانِ الم سے لبریزہے۔ کم سنی میں رحمت العالمین ؐجیسے اول العزم نانا کے سایہ ٔ عاطفت سے محروم ہوئیں۔ پانچ سال کی عمر میں ہی اس ہنگامہ خیزی کا بغور مشاہدہ کیا جسے بعد وفاتِ پیغمبر اور اسے پیش تر ملت اسلامیہ دوچار ہوئی۔ نیز جس کا سب سے بڑا خمیازہ اہلبیت کو بھگتنا پڑا۔ سیدہ زینب نے اپنے خاندان سے وابسطہ پانچ عظیم ہستیوں یعنی پنجتن پاک علیہم السلام کا داغ مفارقت جھیلا۔ پیغمبر گرامی ؐ کی وفات کے بعد اس نے اپنی ماں خاتون ِجنت کی مسلسل آہ و زاری نہ فقط سنی بلکہ اس درد و کرب کو بھی محسوس کیا۔ جو امت ِپیغمبر کے تئیں دل ِ زہرا ؑمیں کروٹیں لے رہا تھا۔ اور قلیل عرصہ بعد ہی مادر ِام المصائب غم و الم کا کوہ گراں لئے جہانِ فانی سے رخصت ہوئیں۔ ایک کم سن بیٹی کے لیئے اس سے بڑا صدمہ کیا ہوسکتا ہے کہ اسے چھوٹی سی عمر میں ہی مادرانہ مسؤلیت کا سامنا کرنا پڑے۔ ایک طرف یتیمی کے مہیب سائے دوسری جانب خانہ فاطمہ کی دیکھ ریکھ۔ دنیا میں بہت سے یتیم ایسے بھی ہوتے ہیں۔ جو اپنی ذمہ داری کے احساس سے یتیمی کا مداوا کرتے ہیں۔ جناب زینب بھی اس قبیل کی بلاشبہ سرخیل کہلائی جاسکتی ہے۔ خانہ علیؑ میں اپنی کم سنی کے باوجود اب بڑا نسوانی کردار سیدہ زنیب کو ہی نبھانا تھا۔ جس کو انہوں نے بخوبی نبھایا۔ حضرت خدیجہ کی رحلت کے بعد جس طرح شہزادی کونین نے اپنے عظیم والد گرامی جناب رسولؐخدا کے شانہ بہ شانہ اپنی ماں کے مقصد حیات اور تمنائے زیست کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔ اسی طرح حضرت زینب نے بھی امیرالمومنینؑ کے حق میں حضرت زہرا کا مشن آگے بڑھایا۔ اور ثانی زہرا ؑقرار پائیں۔ انگریزی زبان کی ایک مشہور کہاوت ہے کہ
"ture followers of an able personality are always able persons''.
" یعنی کسی اہل اور قابل شخصیت کے حقیقی پیرو کار اہل اور قابل اشخاص ہی ہوا کرتے ہیں"۔ ثانی زہرا کا اپنے پدر بزرگوار کا قدم بہ قدم ساتھ نبھانامحض خونی رشتہ پر ہی منحصر نہیں تھاحضرت زینب سلام اﷲ علیھا اپنی شخصیت و اہلیت کی بنیاد پراپنے پدرِ بزگوار کی ایک بے مثال مونس و معاون ثابت ہوئیں یہی سبب ہے کہ حضرت علیؑ کو اپنی اس بیٹی کی دوری گوارا نہیں تھی چنانچہ خاتوں ِ کربلا کا رشتہء ازدواج بھی پدرو دختر کے مابین جدائی کا سبب نہیں بنا ۔ تاریخ میں درج ہے کہ حضرت علی ؑ نے منصب ِ خلافت کو زینت بخشی اور کو فے کو اپنا دارالخلافہ قرار دیا تو انہوں نے زینبِ کبریٰ ؑ کو معہ اہل عیال اپنے ہمراہ لیا، جسے یہ امر واضع ہو جاتا ہے کہ حضرت علیؑ کی نظر میں حق کی نصرت کیلئے حضرت زینب ؑایک غیر ّمتبادل کردار کی حامل تھیں۔باپ پیٹی کے مابین اس غیر معمولی انسیت اور قربت کا مثبت نتیجہ یہ نکلا کہ خاتون ِکربلا کو ما قبل کربلا کے تمام اہم اور تاریخی واقعات کا گہرا ادراک تھا وہ کربلا کے تاریخی عوامل و محرکات سے بھی واقف تھیں۔اور امت مسلمہ کے نشیب و فرا ز پر ان کی گہری نظر تھی۔ انہوں نے اپنے پدرِ بزرگوا ر کی پچیس سالہ خاموشی ، تنہائی اور گوشہ نشینی کا عالم بھی دیکھا اور علوی حکومت کے دوران ان نامساعد حالات کا بھی بغور مشاہدہ کیا جو حق مخالف سازشی عناصر کے پیدا کردہ تھے ۔
ہاں! زینب ؑ ،علی ؑ کی رزم و بزم کی عینی شاہد ہے اور انکے جلوت و خلوت سے بھی مانوس!گھر میں ’’حکمتِ نبوی کے دروازے‘‘ سے فیض یا ب ہوئیں اسے اپنے باپ سے منسوب وہ قصے بھی از بر تھے کہ جن میں حیدرِ کرار کی بہادری بیاں ہوتی تھی اور ان رزم آرائیوں ،شورشوں، اور بغاوتوں کو قریب سے دیکھا جنہوں نے حضرت علی ؑ کو ان کے پانچ سالہ دور حکومت میں چین سے بیٹھنے نہ دیا۔زمانے کی ان نا ہنجاریوں کا راست اثر حضرت زہرا ؑ کی اس لاڈلی پر بھی پڑا ۔ حضرت زہرا ؑ کو بھی اپنے شوہر نامدار کے تٗیں اس ناقدری کا گہرا دکھ تھا۔اس سلسلے میں دختر ِ پیغمرؐنے جا بجا احتجاج کیا ہے بلکہ باضابطہ ایک تحریک چلائی ۔ تاریخ کا سطحی مطالہ کرنے والے افراد کا یہ گمان صد فی صد غلط ہے کہ حضرت زہرا ؑ وہ سارا غم و الم لیکر اس دنیا سے انتقال کر گیئں جو امت اور امیرالمؤمنین ؑکے تئیں ان کے دل مبارک میں تھا ۔عکس العمل اس کے ایک پوشیدہ حقیقت یہی ہے کہ آپ نے اپنے تفکرات، تما ئلات ، اپنی دیدہ وری، اپنی حق نوازی او ر علی الخصوص اپنا وہ سوز و گداز اپنی اولاد میں بطورِرمعنوی وراثت منتقل کر دیا۔ایک بیٹی کی حیثت سے جناب زینب ؑ اپنی ماں کے جملہ معنوی اثاثہ کی بہترین وارث ثابت ہوئیں۔

ثانی ٔ زہرا سلام اﷲ علیھاپیدائشی طورغیر معمولی فہم و فراست کی حامل تھیں اور اسی بنیاد پر وہ حکمتِ علوی کی وارث قرار پائیں۔آپ نہ صرف لسان اﷲ (یعنی علیؑ) کی گہرافشانی پر ہمہ تن گوش بن جاتی تھیں بلکہ کم سنی سے ہی اپنے والد کے حضور اپنی ذکاوت کا مظاہرہ کرتیں تاریخ میں ان عظیم باپ بیٹی کی مختصر مگرمعنی خیز گفتگو درج ہے ۔جس کے مطالعے سے بآسانی یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ جس علم و معرفت کے سرچشمے کا نام علیؑ ہے اس کے ایک مظہر کا نام زینب ہے ۔ نہایت ہی کم سنی میں ایک مرتبہ حضرت زینب نے اپنے والد ِ گرامی سے پوچھا’’بابا کیا مجھے عزیز رکھتے ہیں؟حضرت علی نے فرمایا : ہاں جانِ پدر میری اولاد میرے جگر کے ٹکڑے ہیں ۔ عرض کیا’’ بابا: ایک مومن کے دل میں دو محبتیں ایک ساتھ کیوں کرسما سکتی ہیں ؟’’ حب اﷲ و حب الاولاد‘‘یعنی اﷲ کی محبت اور محبت َ اولاد‘‘فرمایا ’’اور اگر یہ دونوں محبتیں ناگزیر ہوں تو؟‘‘عرض کیا ’’ہماری طرف نظر ِ مہروالتفات ہواور محبت فقط اﷲ تبارک و تعالیٰ سے مخصوص و مختص ہو‘‘(بحوالہ ٔ علی ؑ کی بیٹی از۔۔ ڈاکٹر علی قائمی)اپنی ننھی سی پیاری بیٹی کی اس بالغ نظری سے یقیناً دلِ مرتضیٰ ؑکو ٹھندک محسوس ہوتی ہوگی۔اسی غیر معمولی فہم و ادراک کے پیش نظر انہیں عقیلہ ٔ بنی ہاشم کا لقب ملا۔مولائے کائنات ؑ نے اس قابل و اہل بیٹی کی اہلیت اور صلاحیت کوحسن تربیت سے جلا بخشی۔یہی وجہ ہے کہ مرتضوی صفات کا پرتو کردار ِ زینبی میں صاف جھلکتا ہے۔ علم و عرفان کے علاوہ شجاعت و شہامت کے لحاظ سے جناب زینب اپنے پدرِ بزگوار کی شبیہ معلوم ہوتی ہے۔جس کا ثبوت آپ کی حیاتِ طیبہ کے ہر مرحلے پر ملتا ہے۔آپ نے گردشِ زمانہ کی تمام تر ناسازیوں کو حیدری جلال کی بدولت اپنے مقصدِ حیات کے تئیں سازگار بنایا۔دشمنوں کے تمام تر غیر انسانی حربوں کا رخ بڑی جرتمندی اور کمال تدبر کے ساتھ انہی کی طرف پھیر دیا ۔باطل ایوانون کو جرأت ِ اظہار سے ششدر کر دیا ۔ابنِ زیاد اور یزید کے دربار قلعہ ٔ خیبر سے کچھ کم نہ تھے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو شاید مبالغہ نہ ہو گا کہ بعض پہلووں کے اعتبار سے یزیدی ایوانوں کی تسخیر فتحِ خیبر سے بھی مشکل اور پیچیدہ تر تھی مشکل کشا کی بیٹی نے یزیدیت کے فلک بوس محلوں کو زمیں بوس کر کے ثابت کر دیا کہ وہ فاتحِ خندق و خیبر کی حقیقی وارث ہے۔ دنیائے تکلم میں یہ بات کسی معجزے سے کم نہیں ہے کہ وہ پردہ نشین زینب ؑ جو گاہے بگاہے انتہائی ناگزیر مجبوری کے تحت پردہ درپردہ مسطور ہو کر گھر سے باہر نکلتی تھی اور اس وجہ سے بازار کے ماحول سے غیرمانوس تھی ،جب اسی زینب کو یزیدی کارندوں کے نرگے، تماشا بینوں کے ازدہام میں بے پردہ بر سرِ بازار لایا گیا تو قرین قیاس یہی تھا کہ وہ اس غیر مانوس اور توہین آمیز ماحول میں اپنے آپ کو پا کر گھبرا جاتیں اور غش کھا کر بے ہوش ہو جاتیں۔مگر اﷲ رے ثانی ٔ زہرا کی ذمہ دارانہ اور خطیبانہ جرأت و ہمت ! اس انداز میں کوفہ و شام کے بازاروں میں لوگوں کی بھیڑ سے مخاطب ہوئیں۔ کہ تماشا بین آنکھیں آنسووں سے لبریز ہوئیں۔ اور طعن و تشنیع پر آمادہ زبانیں گنک ہو گئیں۔تعصب اور ناعاقبت اندیشی سے پتھر ہوئے دل پھر سے درد و غم سے آشنا ہوئے۔نیز اسیروں کو دیکھ دیکھ کر مزے لوٹنے والوں کے منہ سے یکا یک صدائے نالہ و شیوں بلند ہو گئی۔زمانے نے پھر ایک بار علی مرتضیٰ کی فصاحت و بلاغت کا مشاہدہ کیا ۔جن کوفیوں نے چند سال قبل علی ؑ کے خطابات سنے تھے انہیں یہ گمان ہوا گویا زینب کی زبان سے علی ؑ بول رہے ہیں۔وہی انتخابِ الفاظ ،ؤوہی معنی آفرینی، وہی لب و لہجہ ،وہی سلاستِ زبان و بیان،وہی فاتحانہ اور ناصحانہ طرز تخاطب،اور وہی قرآنی علوم سے مزین پر تاثیر استدلال المختصر یہ کہ روح ِ علوی پیکرِ زینبی میں کاملاً جلوہ گر تھی۔

چنانچہ جنابِ زینب کوفیوں کے جم ِ غفیر سے یوں مخاطب ہوئیںَ’’کوفہ کے لوگو! صرف حیلہ و مکر یاد رکھنے والو! اپنے حال پر گریہ کرو ۔ تمھاری آنکھیں ہمیشہ روتی رہیں۔ تم نے اس نادان بڑھیا کی مانند ایمان کا دھاگا کاتا تھا اور اسے مضبوط بنانے کے بعد ٹکڑے ٹکڑے کر کے جاہلیت کی طرف لوٹ گئے تھے؟ اس کے بعدبھی تم اس خیال میں ہو کہ تمہارا ایماں باقی ہے؟ کیا اس کے بعد تمہارے اندر کوئی فضیلت باقی رہی ہے ؟ تمہاری زندگی ٹھیک ان خودرو پودوں کی طرح ہے جو غلاظت و کثافت میں اگتے ہیں۔تمہیں کچھ احساس ہے کہ تم نے کیا کیا اور اپنی آخرت کے لئے اپنے آگے تم نے کیا بھیجا ؟ تم نے غضبِ الٰہی کو دعوت دی جس کے حکم سے تم ہمیشہ دوزخ میں جلو گے۔ تم رو رہے ہو بے شک تمہیں رونا ہی چاہئے اب تم خوشی کی روح کو کبھی نہ پاسکو گے تم نے فرزندِ رسولؐ خاتم الانبیا کی یادگار ، جوانان ِ اہلِ بہشت کے سردار کو قتل کردیا!اس ہدایت کے چراغ اور امت کی پناہ گاہ کو شہید کر دیا۔ ‘‘ (حسین شناسی ۔۔۔۔ آیت اﷲ محمد یزدی صفحہ ۲۵۵)

یہ اس برجستہ اور بے باک خطبہ کے چند ایک جملے ہیں کہ جن سے یہ اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں ہے کہ حضرت ِ زینب اور امیرالمومنین علی ابن ابی طالب کے مابین نہ صرف فکری یگانگت پائی جاتی تھی۔بلکہ ان دو عظیم ہستیوں کے اظہارِ خیالات کا انداز بھی غیر معمولی مشابہت رکھتا ہے۔ ڈاکٹر عائشہ بنت الشاطی مصری اپنی ایک معرکتہ الآرا کتاب ’’کربلا کی شیر دل خاتوں ‘‘ میں ایک جگہ رقم طراز ہے کہ ’’حضرت علیؑ کے فلسفہ الٰہیات ،فلسفہ ٔ زندگی ،فلسفہ معاشرت اور تحریر و تقریر سے خاتونِ کربلاؑ پوری طرح مستفید ہوئیں ۔ واقعہ کربلا کے بعد اسیری کی حالت میں آپ کی ہوش رباتقریر پر خزیمہ اسدی نے بر جستہ تبصرہ کیا تھا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خاتونِ کربلا کے باپ حضرت علیؑ تقریر فرمارہے تھے۔حضرت علیؑ سے مشابہت پر سامعین کے ذہن کا ادھر متوجہ ہونا غیر معمولی مناسبت کی وجہ سے تھا حضرت علیؑ اور خاتونِ کربلا دونوں کی فکری یک رنگی سے صحیح واقفیت ہی پتہ لگا سکتی ہے کہ باپ بیٹی کا ذہنی تعلق کتنا شاندار تھا‘‘ باپ بیٹی کی اسی شباہت کو مدِنظر رکھتے ہوئے شاعر نے بارگاہِ علیا مکرم جنابِ زینب میں کچھ یوں ہدیہ سلام پیش کیا ہے ؂
سلام عصمت ِزہرا کی ورثہ دار سلام سلام جرأتِ حیدرؑ کی یادگار سلام
سلام سبطِ نبیؑ کی شریک ِ کار سلام سلام مملکتِ غم کی تاجدار سلام
وقارِ مریمؑ و حوّا سلام ہو تجھ پر
سلام ثانیٔ زہراؑ سلام ہو تجھ پر
 

Fida Hussain
About the Author: Fida Hussain Read More Articles by Fida Hussain: 55 Articles with 54462 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.