کلامِ فیض اور سرائیکی شاعری میں مماثلت

اشفاق احمد نے شامِ شہرِ یاراں میں ملامتی صوفی کے عنوان سے لکھا تھا: ’’ اگر فیض صاحب حضور سرورِ کائنات ﷺ کے زمانے میں ہوتے تو ان کے چہیتے غلاموں میں سے ہوتے۔ جب بھی کسی بدزبان، تندخو، بداندیش یہودی دکان دار کی دراز دستی کی خبر پہنچتی تو حضور ﷺ کبھی کبھار ضرور فرماتے: آج فیض کو بھیجو، یہ بھی دھیما ہے، صابر ہے بردبار ہے، احتجاج نہیں کرتا پتھر بھی کھا لیتا ہے۔ ہمارے مسلک پر عمل کرتا ہے؟

یہ بھی لکھا ہے: ’’ یہ ادب، یہ صبر، ایسا دھیما پن، اس قدر درگزر، کم سخنی اور احتجاج سے گریز۔ یہ صوفیوں کے کام ہیں۔ اِن سب کو فیض صاحب نے اپنے دامن میں سمیٹ رکھا ہے۔ اوپر سے ملامتی رنگ یہ اختیار کیا ہے کہ اشتراکیت کا گھنٹہ بجاتے پھرتے ہیں کہ کوئی قریب نہ آئے اور محبوب کا راز کھل جائے۔ کیا کہنے! چوری کر،تے بھن گھر رب دا، اوس ٹھگاں دے ٹھگ نوں ٹھگ۔ ‘‘

صوفیا کے درس کے تین اصول ہیں: 1۔ جمع نہ کرے، 2۔ طمع نہ کرے ، 3 ۔ منع نہ کرے۔۔۔ سرائیکی صوفی شاعری سے لے کر جدید مزاحمتی شاعری تک یہی اصول کارفرما ہیں۔ سرائیکی کافی کے امام خواجہ غلام فرید ؒ نے آس اور امید کو نا امیدی سے نکال کر پر امید اور خوش رہنے کا درس دیا اور زندگی گزارنے کے گر سکھاتے ہوئے مزاحمت کا درس بھی دیا اور کہا ایسا دن ضرور آئے گا جب ہمارا من بھی خوش ہوگا۔ اندھیرے کے بعد یقینا روشنی ہو گی کیوں کہ قدرت کا قانون ہے کہ دریا ایک ہی کنارے نہیں بہا کرتے۔ کبھی اِس کنارے بہتے ہیں، کبھی اس کنارے۔ خواجہ غلام فرید ؒ کہتے ہیں:
ہنڑ تھی فریدا شاد وَل
مونجھیں کوں نہ کر یاد وَل
جھوکاں تھیسن آباد وَل
ایہانیں نہ وہسی ہک منی

اِسی مضمون کو فیض احمد فیض نے بھی بہت ہی خوب صورت، منفرد، اور موثر انداز میں الفاظ کو موتیوں کی طرح پرویا ہے۔ نظم ملاحظہ فرمائیے:
ویبقی وجہ ربِک
ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوحِ ازل میں لکھا ہے
جب ظلم و ستم کے کوہ ِگراں
روئی کی طرح اڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاں تلے
جب دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی

ڈاکٹر مقبول حسن گیلانی پرنسپل یونیورسٹی آف ایجوکیشن ملتان کہتے ہیں۔
اور اہلِ حکم کے سر اوپر
جب بجلی کڑکڑ کڑکے گی
جب ارضِ خدا کے کعبے سے
سب بت اٹھوائے جائیں گے
ہم اہلِ صفا، مردودِ حرم
مسند پہ بٹھائے جائیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
بس نام رہے گا اﷲ کا
جو غائب بھی ہے حاضر بھی
جو منظر بھی ہے ناظر بھی
اور راج کرے گا خلق کدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو

دھرتی سے محبت سرائیکی شاعری کا اہم جزو ہے۔ ہر شاعر نے اپنے اپنے انداز میں وطن سے عقیدت کا اظہار کیا ہے۔خواجہ غلام فرید ؒ نے ریاست بہاول پور کے نواب صادق محمد خان رابع کی مسند نشینی سے پہلے کہا تھا۔ جب سے قبل بہاول پور میں انگریزی انتظام تھا:
سہجوں پھلوں سیجھ سہا توں
بخت تے تخت کوں جوڑ چھکا توں
اپنے ملک کوں آپ وسا توں
پٹ انگریزی تھانے

خواجہ صاحب کہتے ہیں:’’ اے صادق محمد خان اپنی پھولوں کی سیج کو سہا اور اسے آراستہ کر کے اپنے بخت اور تخت کو صحیح معنوں میں استعمال کر۔ اپنے ملک کو خود مختار، کامل آباد کر اور انگریزی چوکیاں اور تھانے خالی کرالے اور انگریز کی مداخلت ختم کر۔ فیض احمد فیض کی شاعری میں بھی جابہ جا وطن سے محبت ذکر نمایاں طور پر ملتا ہے:‘‘
تجھ کو کتنوں کا لہو چاہیے اے ارضِ وطن
جو ترے عارضِ بے رنگ کو گلنار کریں
کتنی آہوں سے کلیجہ ترا ٹھنڈا ہو گا
کتنے آنسو ترے صحراں کو گلزار کریں

آمریت کے زمانے میں شعرا کی آزادی بھی چھین لی گئی اور انھیں قید میں ڈالا گیا مگر پھر بھی وہ حق بات کہتے رہے۔ خاص طور پر فیض اپنی شاعری میں ایک پرخلوص انقلابی کی حیثیت سے فرزندانِ وظن کے شانہ بہ شانہ اور جوش و خروش کے ساتھ جدوجہد میں مصروف رہے۔ آمر اس باکمال شاعر کی قوت ِصداقت اور توانائیِ الفاظ سے خوف زدہ تھے۔ فیض نے کہا:
متاعِ لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خونِ دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے
لبوں پہ مہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ہے
ہر ایک حلق زنجیر میں زباں میں نے

اِسی حوالے سے سرائیکی زبان کے قادرالکلام شاعر اقبال سوکڑی جنہیں سرائیکی کا اقبال بھی کہا جاتا ہے وہ فیض احمد فیض کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے شاعری کے زندہ اور حیات پرور جذبے کو یوں بیان کرتے ہیں:
ساڈے پیر نہ پہلے بھوئیں تین ہن ساڈے سِر توں کہیں اسمان چھِکے
ساڈے لفظ یتیمیں وانگ رلیے ساڈی نظم دا کہیں عنوان چھِکے
چھِک تان اچ اجرک لیراں تھئی ساڈے گئے اقبال ارمان چھِکے
ہک ساہ ہا آئے ہیں در تیڈے او وی دڑکے ڈے دربان چھِکے

فیض احمد فیض کی شاعری ایک توانا آواز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فیض کی شاعری امر ہو گئی ہے۔ فیض کی شاعری کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کی شاعری میں وطن کی محبت کے چشمے ہر طرف پھوٹ رہے ہیں۔ وہ اپنے دیس کے لوگوں کی حالت دیکھ کر تڑپ اٹھتے ہیں۔ کہتے ہیں:
نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کے جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چرا کے چلے جسم و جاں بچا کے چلے
ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
تیرے کوچے سے چن کر ہمارے علم
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے
جن کی راہِ طلب سے ہمارے قدم
مختصر کر چلے درد کے فاصلے

وطن سے محبت کا یہی انداز سرائیکی شاعری میں بھی نمایاں ہے۔ سرائیکی زبان کے مشہور شاعر اﷲ بخش یاد کا کلام ملاحظہ فرمائیں:
آوو رل تے سارے سوچوں
سوہنے دیس دے بارے سوچوں
ایندی سیندھ سنگھارن کیتے
چندر لہاں تارے سوچوں

اسی طرح فیض سے مماثلت کا یہ رنگ بھی دیکھیں:
سدا مان سکھ دیاں تنواراں وطن
تیڈے ویڑھے گھوکن بہاراں وطن
جے وقت آوے تاں گل دی رتول دے نال
تیڈیاں سرحداں کوں سنگھاراں وطن

ممتاز حیدر ڈاہر کو سرائیکی شاعری کا گوتم بھی کہا جاتا ہے۔ وہ آج کے نئے دور کا باشعور شاعر ہے ۔وہ اپنے وجود کی پہچان اور اپنی ذات کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ اس کی سوچ اور فکر ملاحظہ ہو:
توں اپنی گول وچ رہ ہوا دی گالھ نہ من
اے در بدر ہے اے در در تے دستکاں ڈیسی
اِس المیے کا اظہار یوں بھی کیا:
جیڈے وی دید کراں ایہو تماشہ لگدے
شہر مقتل اتے ہر آدمی لاشہ لگدے
لوک مڑدے ودن اینویں جیویں نندر وچ ہوون
میکوں ایں شہر اتے دیہہ دا سایہ لگدے

اِن اشعار کی مماثلت فیض کی شاعری میں بھی موجود ہے وہ دلِ من مسافرِ من میں لکھتے ہیں:
مرے دل ، مرے مسافر
ہوا پھر سے حکم صادر
کہ وطن بدر ہوں ہم تم
دیں گلی گلی صدائیں
کریں رخ نگر نگر کا
کہ سراغ کوئی پائیں

اصنافِ سخن میں مرثیے کو روحانی حیثیت حاصل ہے۔ برِصغیر میں سب سے پہلے مرثیہ سرائیکی زبان میں لکھا گیا۔ سرائیکی شاعری میں مقام ِحسین علیہ اسلام صدیوں سے نمایاں نظر آتا ہے۔ محمد رمضان طالب کا خراجِ عقیدت دیکھئیے:
حق پاک دی حقیقی حمایت حسین اے
دین خدا دی عزت و عظمت حسین اے
سوہنے نبیؓ دی سچی محبت حسین اے
شیرِ علی جلی دی شجاعت حسین اے
قرآن دے ہر حرف دی تفسیر ہے حسین
واحدانیت دا نعر تکبیر ہے حسین

فیض احمد فیض کا اظہارِ عقیدت بھی سرائیکی شاعری سے مماثلت رکھتا ہے۔ شامِ شہرِ یاراں میں مرثی امام کے عنوان سے اشعار دیکھیے:
کچھ خوف تھا چہرے پہ نہ تشویش ذرا تھی
ہر ایک ادا مظہرِ تسلیم و رضا تھی
ہر ایک نگہ شاہد اقرارِ وفا تھی
ہر جنبشِ لب منکرِ دستورِ جفا تھی
فیض احمد فیض نے کہا:
فیض نہ ہم یوسف نہ کوئی یعقوب جو ہم کو یاد کرے
اپنی کیا کنعاں میں رہے یا مصر میں جا آباد ہوئے

اِسی طرح کا ایک مضمون ہمیں بشیر غم خوار کی شاعری میں ملتا ہے جس میں انھوں نے مرحوم صدرِ پاکستان فاروق لغاری کو مخاطب کیا تھا:
چِٹ چائی ونج وسدا چوٹی دا
ونج خان کوں آکھیں اوکھے ہیں
جے خان دے خواب دا وقت ہووے
دربان کوں آکھیں اوکھے ہیں
ساڈی آس دا یوسف کھوہ وچ ہے
کنعان کوں آکھیں اوکھے ہیں

سرِ وادیِ سینا کا انتساب آزادی کی محبت اور فیض کے مصائب زدہ وطن کا منظر نامہ پیش کرتا ہے۔ اس نے ایک انقلابی شاعر کی حیثیت سے خود اپنی زندگی کو ایک نغمے میں ڈھال لیا اور اپنے نغمے کو جدوجہد کا مثر ہتھیار بنالیا۔ انتساب کی چند سطور ملاحظہ فرمائیں:
زرد پتوں کا بن
زرد پتوں کا بن جو مرا دیس ہے
درد کی انجمن جو مرا دیس ہے
تانگے والوں کے نام
ریل بانوں کے نام
کارخانوں کے بھوکے جیالوں کے نام
بادشاہ جہاں، والی ماسوا، نائب اﷲ فیِ الارض
دہقاں کے نام
جس کے ڈھوروں کو ظالم ہنکا لے گئے
جس کی بیٹی کو ڈاکو اٹھالے گئے
ان دکھی ماں کے نام
رات میں جن کے بچے بلکتے ہیں اور
نیند کی مار کھائے ہوئے بازوں میں سنبھلتے نہیں
دکھ بتاتے نہیں
منتوں زاریوں سے بہلتے نہیں

سرائیکی زبان کے قادرالکلام شاعر شاکر شجاع آبادی اپنے وسیب کے لوگوں کے دکھ اِس طرح بیان کرتے ہیں:
میں سنیداں دل توں نکلی ہوئی غزل کچھ غور کر
مہربانی ائے خدائے لم یزل کجھ غور کر
کہیں دے کتے کھیر پیون کہیں دے بچے بکھ مرن
رزق دی تقسیم تے ہک وار ول کجھ غور کر
ایک اور جگہ شاکر شجاع آبادی لکھتے ہیں:
میڈا رازق رعایت کر نمازاں رات دیاں کر ڈے
جو روٹی شام دی پوری کریندیں شام تھی ویندی

فیض نے نقشِ فریادی میں حسین خیال سے یوں گفت گو کی ہے:
مجھ دے دے
رسیلے ہونٹ ، معصومانی پیشانی ، حسیں آنکھیں
کہ میں اِک بار پھر رنگینوں میں غرق ہو جاں
مری ہستی کو تیری اِک نظر آغوش میں لے لے
ہمیشہ کے لیے اس دام میں محفوظ ہو جاں
ضیائے حسن سے ظلماتِ دنیا میں نہ پھر آں
گذشتہ حسرتوں کے داغ میرے دل سے دھل جائیں
میں آنے والے غم کی فکر سے آزاد ہو جاں

انہیں جذبات سے ملتی جلتی نظم میڈے وس ہووے دیکھیں جو عزیز شاہد کا کلام ہے:
میڈے وس ہووے میں ترٹ پوواں
تیڈے پیر چماں تیڈے پندھ چماں تیڈے راہ دی دھوڑ دھمال چماں
تیڈی ونگ چماں تیڈے رنگ چماں تیڈے پلکیں دی پنیال چماں
تیڈے نین چماں کونین چماں وچ وسدی مونجھ ملال چماں
تیڈے خال چماں لب لال چماں تیڈے منہ دی ہک ہک گال چماں
٭٭٭٭ دستِ صبا میں لوح و قلم کے عنوان سے فیض کہتے ہیں:
ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے ، رقم کرتے رہیں گے
اِک طرزِ تغافل ہے سو وہ ان کو مبارک
اک عرضِ تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے
اِسی مضمون کی مماثلت شاکر شجاع آبادی کے اس شعر میں بھی نظر آتی ہے:
میڈا مقصد ایہ تاں نی سندا نِوی مظلوم دی
تو سمیع ایں تو بصیر ایں دراصل کجھ غور کر
زنداں نامہ میں فیض فرماتے ہیں:
صبح پھوٹی تو آسماں پہ ترے
رنگِ رخسار کی پھوہار گری
رات چھائی تو روئے عالم پر
تیری زلفوں کی آبشار گری

عزیز شاہد کی سرائیکی شاعری سے ویسے تو اِس وسیب کی مٹی کی خوش بو آتی ہے۔ اپنی دھرتی اور دھرتی کے لوگ یاد آتے ہیں مگر اِن اشعار سے فیض کے کلام کی خوش بو آتی ہے:
نینوں نیر نگال نہ ترٹے
دل دی درد دھمال نہ ترٹے
ترٹ پوون اسمان اساں تیں
تیڈے سِر دا وال نہ ترٹے

فیض احمد فیض کی ترقی پسند شاعری نے پوری دنیا کے ادب میں گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ ان کے کلام کے دوسری زبانوں میں تراجم بھی مقبول ہوئے۔ وہ ہمیشہ مظلوم کے حق کے لیے لڑتے رہے۔ ان کے کلام کا عکس سرائیکی زبان کی مزاحمتی شاعری میں نمایاں نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر جہاں گیر مخلص کی نظم اٹھویں ترمیم ملاحظہ ہو جو ضیا الحق کی آمریت کی یاد دلاتی ہے:
توں لکھ ترمیماں کرویندا رہ توں لکھ تعزیراں آپ بنا
سب ضابطے ظلم جبر والے ساڈی جان اتے ول ول ازما
ساکوں نئیل پوا بھانویں ہتھکڑیاں بھانویں سولی تے ساکوں لو ڈے ڈے
او اندھی نگری دا راجا توں اپنے سارے شوق مٹا
جبرواستحصال کا تذکرہ نظم پارت میں دیکھیں:
توں ڈکھاں دے سارے سفر یاد رکھیں
کیویں تھئی ہے تیڈی بسر یاد رکھیں
جیڑھے ساڈیاں نسلاں دے ساہ پیندے رہ گن
انہاں کالے نانگیں دے گھر یاد رکھیں
لغاری ، مزاری ، گیلانی ، عباسی
تیڈی راہ دے ہن پتھر یاد رکھیں
جیڑھے تیڈی دھرتی دے بن گن وپاری
او کھوسے ، دریشک تے کھر یاد رکھیں
ایہہ گردیزی مخدوم کچھی قریشی
انہاں وی نی چھوڑی کسر یاد رکھیں

فیض احمد فیض میں شاعری کا مادہ فطری اور وہبی تھا۔ وہ ایک ٹھنڈے مزاج کے اور بے حد صلح پسند آدمی تھے۔ بات کتنی بھی اشتعال انگیز ہو، حالات کتنے بھی ناساز گار ہوں، وہ نہ برہم ہوتے تھے اور نہ مایوس اور یہی حال سرائیکی وسیب کے لوگوں کا ہے اور یہی سوچ اور فکر سرائیکی شعرا میں پائی جاتی ہے۔ سرائیکی مزاحمتی شاعری قلب و جگر کو گرما کے رکھ دیتی ہے ۔میں سمجھتا ہوں فیض کی شاعری نے یقینا نیا رخ اختیار کیا مگر سرائیکی شاعری بھی نئے زاویے کے ساتھ سامنے آئی جو فیض کی شاعری سے مماثلت رکھتی ہے۔ اکادمی ادبیات پاکستان کے مطابق پاکستان میں سب سے زیادہ کتابیں سرائیکی زبان میں چھپتی ہیں جن میں بیش تر شاعری کی ہوتی ہیں اور اِس تمام شاعری کو مزاحمتی ادب کا درخشندہ ستارہ کہا جا سکتا ہے۔ ایک سرائیکی نظم اساں نمانے تے کنڈورانیملاحظہ فرمائیے جو بے نظیر بھٹو شہید کو بھی بہت پسند تھی۔
اساں نمانے تے کنڈو رانے
اساڈی قیمت اساڈی خواہش
ہمیش پر کہیں دی خیر ہووے
نہ کوئی رلے اوپرے دریں تے
نہ کہیں دے وطنیں تے غیر ہووے
اساں نمانے تے کنڈو رانے
اساڈیاں نسلاں وی کنڈو رانیاں
اساڈے بارے وی سوچ سندھڑی
تیڈے بلاول دی خیر ہووہے

فیض نے لکھا:
زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں
ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں
لیکن اب ظلم کی معیاد کے دن تھوڑے ہیں
اِک ذرا صبر ، کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں
اِسی کیفیت کو شاکر شجاع آبادی نے شان دار اور جان دار انداز میں بیان کیا ہے:
زندگی ہک بوجھ ہے بس چئی وداں
چودی نی پر کنڈ پچھوں لڑکئی وداں
اِجھو مکدے پندھ گھر نزدیک ہے
تھکے بت کوں ایہو لارا لئی وداں

سرائیکی خطے کی زمین کے ساتھ ساتھ سرائیکی زبان کو بھی خصوصی انعام و اکرام سے نوازا گیا ہے۔ اِس زبان کی نرمی، ملائمت، اور لطافت اپنی مثال آپ ہے۔ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے بہ قول:
حرف کی حلاوت، بیان کی چاشنی ،اور شعر کی غنائیت نے سرائیکی زبان کو دنیا کی میٹھی، منفرد، اور ممتاز زبان بنادیا ہے۔

جیسے فیض کو امن کا شاعر کہا جاتا ہے اور ان کی شاعری محبت کی علامت ہے اسی طرح سرائیکی پیار ، محبت ، امن ، اور شانتی کے رچا میں رچی ہوئی ایسی مٹی ہے جہاں محبت و الفت ، امن اور دوستی کے پیڑ اگتے ہیں اور ان پیڑوں کی شاخوں پر یادوں کے ایسے حسین پھول کھلتے ہیں جن کی دل کش خوش بو کبھی بابا فرید کے دوہے،کبھی سلطان باہو کے بیت، کبھی خواجہ فرید کی کافی، اور کبھی شاکر شجاع آبادی کے ڈوہڑے کی شکل میں ہماری سانسوں کو مہکا دیتی ہے اور اِس مہک اور خوش بو سے پاکستان میں بسنے والے سرائیکی، سندھی ، پنجابی، بلوچ، پشتون حتی کہ عربی اور فارسی سب لطف اندوز ہو رہے ہیں، بلاشبہ دھرتی ماں ہے اور اس کی گود میں پلنے والے سب اس کے بیٹے، لہذا تمام بیٹوں کے لیے ماں کی محبت او رسخاوت برابر ہے۔
 

واجد نواز ڈھول
About the Author: واجد نواز ڈھول Read More Articles by واجد نواز ڈھول : 60 Articles with 90860 views i like those who love humanity.. View More