عالیؔ جی بھی رخصت ہوئے

جمیل الدین عالی ٢٣ نومبر بروز پیر اس دنیائے فانی سے رحلت فرماگئے۔ کل ٢٤ نومبر کو ان کی تدفین ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔

جمیل الدین عالی

وُہ ہجر کی رات کا ستارہ وہ ہم نفس ہم سخن ہمارا
سدا رہے اس کانام سُنا ہے کل رات مرگیا وہ
انتہائی دکھ اور افسوس اردو ادب کا مینار مَلک العرش کے پاس پہنچ گیا۔ اﷲ تعالیٰ جمیل الدین عالی ؔ کی مغفرت فرمائے انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے آمین۔ عظیم شاعر، نثر نگار، وطن کی محبت کے نغموں کا خالق ، کالم نگار آج ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگیا۔ عالیؔ جی اپنے خوبصورت کلام اور اپنی تحریروں میں ہمارے ساتھ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ وہ بعض ایسے حسین نغموں کے خالق ہیں جیسے ’اے وطن کے سجیلے جوانوں‘، ’جیوے جیوے پاکستان‘ اور میرا پیغام ہے پاکستان‘ ان نغموں کو معروف گلوکاروں میڈم نورجہاں، شہناز بیگم اور نصرت فتح علی نے گایا۔ وطن سے محبت کے یہ نغمے عالیؔ جی کو تا ابد زندہ رکھیں گے۔
 

image


عالی ؔ جی کے بیٹے ذوالقرنین (راجو جمیل) کیونکہ انجمن ترقی اردو کے صدر ہیں اس لیے ان سے دلی اظہار تعزیت اﷲ تعالیٰ آپ کو دیگر اہل خانہ کو یہ صدمہ برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ابھی ہفتہ کی بات ہے انجمن میں ڈاکٹر نثار احمد زبیری کے ساتھ گفتگو کا ایک ادبی پروگرام میں شریک تھا۔ تقریب کے اختتام پر حسب معمول لائبریری چلا گیا جہاں پر محمود عزیز صاحب بھی تشریف فرما تھے ، معروف جو لائبریری کے نگراں اور میرے شاگرد بھی ہیں کے پاس ہماری ادبی محفل اکثر جمتی ہے۔ یہاں زبیر جمیل جو عالیؔ جی کے گھر پر ان کے علمی کام کی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں ۔ ان سے میں نے بطور خاص جمیل الدین عالی کی طبیعت دریافت کی تو انہوں نے افسردہ انداز میں بتایا کہ ٹھیک نہیں اور وہ آئی سی یو میں ہیں۔ بس اسی وقت دل کو ایک چھٹکا سا لگا ۔ ان کی بعض فوٹو گراف اکثر راجو جمیل صاحب اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر ڈال رہے تھے اس سے بھی اندازہ ہورہا تھا کہ عالی جی اب کمزور سے کمزور تر ہوتے جارہے ہیں۔ سوچ کا دھارا اسی جانب جارہا تھا۔ موت بر حق ہے، ہم سب کو لوٹ کر اپنے مالک حقیقی کے پاس واپس چلے جانا ہے بس کوئی پہلے اور کوئی بعد میں ۔
ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسما ں کیسے کیسے

عالی جی کئی ماہ سے علیل تھے، انہوں نے کالم لکھنا بھی بند کردیے تھے۔ ورنہ ہر ہفتہ ان سے ان کے کالموں کے توسط سے نصف ملاقات ہوجایا کرتی تھی۔ زبیر نے یہ بھی بتایا تھا کہ وہ عالیؔ جی کے کالموں کر مرتب کرنے کا کام سر انجام دے رہے ہیں۔ عالیؔ تو ان دانشوروں میں سے ہیں جو زندگی اور ادب کو الگ الگ تصور ہی نہیں کرتے تھے گویا ان کے نزدیک زندگی ادب ہی کا نام ہے۔ عالیؔ اردو کے پہلے دوہا نگار تصور کیے جاتے ہیں، وہ شاعر ہی نہ تھے، نثر کے بادشاہ تھے، اپنے کالموں میں اپنا سفر نامہ بھی تحریر کیا۔ ان کے کالم لوگ شوق سے پڑھا کرتے تھے اس لیے کہ وہ وقت گزاری کا ذریعہ نہ تھے بلکہ ان سے علمی ادبی معلومات ، ان کے بارے میں کہ وہ کہا تھے ، کب کہا رہے، کیا کی اوغیرہ وغیرہ ۔ ان کے مجموعہ کلام ’اے دشت سخن‘ اور’ اے مرے دشت سخن‘اپنی مثال آپ ہیں۔ میرؔ ؂
پیدا کہاں ہیں ایسے پرگندہ طبع لوگ
افسوس، تم کو میرؔ سے صحبت نہیں رہی

عالیؔ جی کا تعلق ہندوستان کی ایک ریاست’ لوہارو‘سے تھا۔ یہ وہی ریاست تھی کہ جس سے معروف شاعر غالبؔ کا بھی تعلق تھا۔ غالب کی شادی الٰہی بخش خان کی صاحبزادی امراؤ بیگم سے ہوئی ۔ شادی کے بعد غالبؔ آگرہ سے دلی منتقل ہوگئے۔ دلی میں غالبؔ کے روز و شب اسی لوہارو خاندان کے ساتھ اس طرح بسر ہوئے کہ وہ اس خاندان کا حصہ بن گئے۔ یہی تعلق اس ریاست کے معروف ہونے کا بھی بنا ۔ عالیؔ جی بھی اسی خاندان اور اسی ریاست کے چشم و چراغ تھے۔ علامہ اقبال ؔ؂
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

عالی ؔ جی 20جنوری 1925کو دہلی میں پیدا ہوئے ان کے والد سر امیر الدین المعروف فرخ ریاست لوہارو کے خود مختار حکمراں تھے۔ شعر وادب اس کا خاندان کا علمی ورثہ تھا ۔ پاک و ہند کے دو عظیم شاعروں خواجہ میر دردؔ اور اسد اﷲ خان غالبؔ سے عالیؔ جی کا خاندانی تعلق تھا۔ شاعری وراثت میں عطا ہوئی اور انہوں نے اپنی خاندانی روایت کو شاندار طریقے سے قائم و دائم رکھا۔ عالیؔ جی اتنی خصوصیات اور ادب کی متعدد اصناف پر عبور رکھتے تھے کہ اس وقت ان کا احاطہ کرنا ممکن نہیں۔ انجمن ترقی اردو میں بابائے اردو کے جانشین ہوئے اس ادارے کو اس خوبصورتی سے چلایا کہ اس کی کوک سے جنم لینے والی وفاقی جامعہ اردو دنیا کی معروف اور بڑے جامعات میں شمار ہونے لگی۔ انجمن ترقی اردو بھی ترقی کی منزلیں طے کر رہی ہے۔ اس کی اپنی عمارت ’باغ اردو‘ کے نام سے تعمیری مراحل میں ہے۔
موت سے کس کو رُستگاری ہے
آج وہ ، کل ہماری باری ہے

انجمن ترقی اردو پاکستان میں بابائے اردو کی حسین یادگار ہے۔ وہ اس انجمن کے پاکستان میں اولین اور بانی معتمد اعزازی تھے۔ بابائے اردو نے انجمن ترقی اردو کی بنیادوں کو اپنے ہاتھوں سے تعمیرکیا ، یہ بنیادیں اس قدر ٹھوس اور مضبوط انداز سے رکھیں کہ اس پر کتنی منزلہ عمارت ہی کیوں نہ تعمیر کردی جائے انشاء اﷲ قائم و دائم رہے گی۔ بابائے اردو کی زندگی کی مہلت اختتام کو پہنچی ان کی سانسوں کا کا سفر مکمل ہوا تو اس کا بوجھ ملک کے ماہر تعلیم جامعہ کراچی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر محمود حسین نے اٹھایا اور اس کشتی کو رواں دواں رکھا، ان کے بعد معین الحق ، اے کے صوفی اور پھر جمیل الدین عالیؔ اس کے معتمد اعزازی مقرر ہوئے اور انجمن کی باگ دوڑ اس عمدہ طریقے سے سنبھالی کے انجمن کے زیر سائے پروان چڑھنے والی جامعہ ‘جامعہ اردو‘ دیکھتے ہی دیکھتے تناور درخت بن گئی۔غالبؔ کا شعر ؂
مقدور ہو‘تو خاک سے پوچھوں کہ‘اے لئیم !
تو نے وہ گنج ہائے گرانما یہ کیا کیے ؟
 

image


عالیؔ جی کی صحت نے ساتھ چھوڑ دیا وہ کمزور ہوگئے ، معتمد اعزازی کو مستعد اور متحرک رہنے اور دوسروں کو ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ عالی ؔ کے مرتبے کے پیش نظر عالیؔ جی کو انجمن کا تاحیات مشیر اعلیٰ بنا لیا گیا اور عالی ؔ کی جانشیں ڈاکٹر فاطمہ حسن مقرر ہوئیں ۔ جو لمحہ موجود میں فعال اور متحرک ہیں، انجمن کے دفتر و لائبریری گلشن اقبال ادیبوں ، شاعروں ، محققین، اساتذہ، لکھاریوں ، ادیبوں اور دانشوروں کی آمد جامد لگی رہتی ہے۔ باقاعدگی سے ادبی و علمی تقریبات منعقد ہوتی ہیں۔ انجمن کی عمارت گلستان جوہر میں زیر تعمیر ہے انشاء اﷲ جلد تعمیری مراحل طے کر لے گی۔ حال ہی میں انجمن ترقی اردو کے نو منتخب عہدیداران نے پاکستان کے صدر جناب ممنون حسین سے ملاقات کی ، نو منتخب عہدیداران میں صدر اعزازی ذوالقرنین جمیل( راجو جمیل) جو جناب جمیل الدین عالیؔ کے صاحبزادے ہیں، پروفیسر سحر ؔ انصاری (اعزازی خازن) ڈاکٹر فاطمہ حسن (معتمد اعزازی)، اور متولیان میں ڈاکٹر انوار احمد، ڈاکٹر اختر شمار، ڈاکٹر یوسف خشک شامل تھے۔ امید ہے کہ موجودہ منتظمین کی سرکردگی میں انجمن شہر کراچی میں ادبی و علمی سرگرمیوں کو جاری و سارے رکھے گی اور یہ ترقی کے منازل طے کریگی۔ اردو کے معروف ادیب و دانشور معین الدین جینا بڑے نے ڈاکٹر خالد ندیم کی مرتب کردہ کتاب’رقعاتِ مشفق خواجہ‘ کے پیش لفظ میں لکھا کہ ’بابائے اردو کی سانسوں کا سفر ختم ہوا، لیکن کام رُکا نہیں کہ وہ مشفق خواجہ کی سانسوں میں زندہ تھے۔ مشفق خواجہ کی سانسوں کا سفر ختم ہوا لیکن کام میں پھر بھی کھنڈت نہیں پڑی کہ احباب کی سانسوں میں وہ بھی زندہ ہیں‘۔ معین الدین جینا بڑے کی اس بات کو آگے بڑھایا جائے تو صورت کچھ اس طرح کی بنتی ہے کہ اردو کی ترقی کا سفر انجمن ترقی اردو کے سائے تلے ، بابائے اردو مولوی ڈاکٹر عبد الحق کی سرپرستی میں شروع ہوا تھا وہ بابائے اردو کی سانسوں پر ختم ضرور ہوا لیکن رکانہیں اور ڈاکٹر مشفق خواجہ سے ہوتا ہوا، جمیل الدین عالی کی سانسوں تک پہنچا ، آج 23 نومبر 2015 ء کو عالیؔ جی کی سانسوں کا سفر بھی اختتام پزیر ہوا لیکن یہ سفر اب بھی رکا نہیں ہے بلکہ یہ سفر کئی سانسوں میں منتقل ہوچکا ہے ان میں راجو جمیل، ڈاکٹر فاطمہ حسن ، سحرؔ انصاری اور دیگر کی سانسوں تک پہنچ چکا ہے۔انشاء اﷲ بابائے اردو کا لگا یا ہوا یہ پودا جو اب تناور درخت کا روپ دھار چکا ہے ترقی کے منا زل طے کرتارہے گا۔جمیل الدین عالی ؔ زندگی 90 کی عمر میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رحلت فرمائے۔ ان اﷲ و انا علیہ رافعون۔
مرنے والے مرتے ہیں فنا ہوتے نہیں
یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں

YOU MAY ALSO LIKE:

Famous Urdu poet, author and intellectual Jamiluddin Aali died on Monday after a long illness. He was being treated in a private hospital of Karachi. President of Pakistan Mamnoon Hussain, Prime Minister Nawaz Sharif, Chief Minister Sindh Qaim Ali Shah and many famous names of literature expressed their grief on the great loss of Urdu literature and Pakistan.