عشق قاتل سے بھی، مقتول سے ہمدردی بھی ....

 وقت کے طاقت ور حکمراں اور قیام امن کے متلاشی کسی بھی ملک کے کسی بھی خطے میں کمزور سے کمزورتر آدمی کو کسی طاقت ور ظالم کے ظلم کا شکار ہونے سے بچائیں تاکہ وہ انتقام اور بدلے کے جنون میں کسی دہشت گرد تنظیم کی پناہ تلاش نہ کرے۔

دنیا کا کوئی مذہب بے گناہو ں اور معصوموں کے قتل کی اجازت نہیں دیتا اور خاص طور پر مذہب اسلام میں ایسے گھناونے جرم کا ارتکاب کرنے والوں کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ حدیث پاک میں ہے کہ : ــ’’جس نے ایک بے قصور کو قتل کیا گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا اور جس نے ایک شخص کی جان بچالی گویا اس نے پوری انسانیت کو بچالیا‘‘ پھر دنیا کی بدترین تنظیمیں خواہ وہ طالبان ہو یا القاعدہ بوکوحرام ہو یا پھر داعش جو الگ الگ مقاصد کے حصول کی آڑ میں تباہ کاریوں اور ناحق قتل کو جائز ٹھہراتے ہیں اور خود کو اسلام کے سچے وپکے ٹھیکیدار سمجھتے ہیں ، کوئی خلافت کے قیام کو اپنا مقصد بتاتا ہے تو کوئی شرعی عدالت قائم کرنا چاہتا ہے تو کوئی قوانین اسلام کے نفاذ کی باتیں کرتا ہے۔ لیکن عراق وافغانستان اورمصر وشام میں آئے دن رونما ہونے والی تباہ کاریاں اور ان میں معصوموں کے بہنے والے خون اس بات کا اشارہ ہیں کہ یہ جن کے حقوق واختیارات کی بازیابی کا دعوی کرتے ہیں انہیں کے خون سے ہولی کھیلتے نظرآتے ہیں۔ کیا یہ تنظیمیں واقعی اسلام کی ترویج کے لئے کام کرتی ہیں؟ کیا ان کے یہ کارنامے کسی بھی جہت سے اسلامی تعلیمات کے مطابق ہیں؟ ہرگز نہیں بلکہ یہ تنظیمیں اسلام اور تعلیمات اسلام کے بالکل مخالف ہیں ان تنظیموں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ ان سے اسلام اور مسلمانوں کو بہت نقصان پہونچا ہے پہونچ رہا ہے اور مزید ان کی آڑ میں مسلم ممالک کی تباہی وبربادی ہونے والی ہے۔

نائن الیون کے بعد فرانس میں ہونے والے سلسلہ وار بم دھماکے تھرٹین الیون کے نام سے تاریخ کے سب سے بڑے دھماکے ہیں جس میں یقینا بہت زیادہ جانی ومالی نقصان پہونچا ہے اسے دنیا دہشت گرادانہ حملوں سے تعبیر کر رہی ہے، فیس بک ٹوئٹر اور سوشل میڈیا پر کچھ نام نہاد مسلمانوں نے اپنی پروفائل پر فرانسیسی پرچم لگائے ہوئے ہیں ،پوری دنیا انسانیت اور اس کی بقا کے نعرے بلند کررہی ہے، ظلم و بربریت کے خلاف ایک ہی پلیٹ فارم پر اترنے کی باتیں ہورہی ہیں ، واقعی ان اقدامات کی ضرورت ہے اور وقت کا تقاضہ بھی ہے لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ جب عراق اور افغانستان کی سرزمین پر بے گناہوں کا قتل عام ہورہا تھا، لیبیا میں ناٹو کی افواج حملہ کررہی تھیں ، شام میں معصوموں کا خون بہایا جارہا تھا، گجرات میں بے قصور مسلمانوں کو گاجرمولی کی طرح کاٹا جارہا تھا، برما اور فلسطین کے مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ ڈھائے جارہے تھے ، انہیں اس وقت پرچم لگانے اور سوگ منانے کی ضرورت کیوں نہیں پیش آئی جب مصر میں ۲۰۱۳ء میں احتجاج کے دوران ۱۵۰۰ مسلمانوں کو شہید کیاگیا، یاانہیں وہ دن یاد نہیں جب غزہ میں ایک سال قبل فضائی حملوں میں ہزاروں مسلمانوں کی جانیں گئیں، یہ پرچم بردار کہاں تھے جب بنگلہ دیشی مسلمانوں کو بے دردی سے زدوکوب کرکے ان کی نسلوں کو مٹایا جارہا تھا تب ان ظالموں کی مذمت کیوں نہیں ہورہی تھی ان حملوں اور خونریزیوں کو دہشت گردانہ حملوں سے کیوں نہیں تعبیر کیا گیا تھا۔؟

کیا پیرس کے یہ حملے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت تو نہیں کیونکہ ان حملوں میں ملوث ایک خود کش بمبارکی لاش تو پھٹ گئی لیکن اس کے پاس سے شامی پاسپورٹ بالکل صحیح وسلامت نکل آیا، کیا یہ بمبار جیب میں پاسپورٹ رکھ کر حملہ انجام دے رہا تھایا حملہ کرنے کے لئے پاسپورٹ رکھنا ضروری ہے؟ ان سوالات کا فقط یہی ایک جواب ہے یہ پاسپورٹ فرانس اور اس کے حامی ممالک کو شام کی تباہی میں معاون ثابت ہوا۔ خبروں میں یہ بھی آیا ہے کہ کچھ لوگوں نے فرانس میں حملہ سے دوروز قبل ہی ایک سو بیس لوگوں کے مرنے اور دوسو ستر لوگوں کے زخمی ہونے کی خبر دی تھی اس بیان پر اظہار تعجب کرتے ہوئے کئی لوگوں نے ٹویٹ کرکے اس خبر کی تہہ تک جانے کے بارے میں مطالبہ کیا۔

ان وجوہات کو جاننے کے لئے یہ جاننا بے حد ضروری ہے کہ داعش کس تنظیم کانام ہے اس کا وجود کیوں ہو ا، بغدادی کو کس نے پالا، اس تنظیم نے سفاکیت و خونریزی میں تمام دہشت گرد تنظیموں کو کیسے پیچھے چھوڑدیا، اس کی پست پناہی کون کر رہا ہے، دنیا کا سپر پاور اسے کیوں نہیں ختم کرپارہا ہے اس کے پاس اسلحوں کے زخیرے کہاں سے آتے ہیں۔آج پوری دنیامیں اس گروہ کے خاتمہ کو لے کرطرح طرح کی بحثیں چل رہی ہیں لیکن اس بات پر کسی کی توجہ نہیں ہے کہ آخر اس تنظیم کا وجود کیسے ہوا کن طاقتوں کی وجہ سے یہ تنظیم مختصر سے وقت میں عراق اور شام کے بڑے حصے پر قابض ہوگئی ۔؟ بظاہر ا ن کی صورت وہیئت مسلمانوں جیسی ہے لیکن ان کے ہلاک ہونے والوں کی چند تصویریں ایسی سامنے آئی ہیں جن میں صاف طور پر ان کے جسموں پر ٹیٹو بنے ہوئے ہیں، پاکستان میں بچوں پر ہونے والے حملوں میں جو تین دہشت گرد مارے گئے تھے ان کے جسم پر بھی ٹیٹو بنے ہوئے تھے جس سے یہ بات بالکل ظاہر وباہر ہوجاتی ہے کہ اس تنظیم میں یہودیوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہے، جو حملہ کرتے وقت نعرۂ تکبیر کی صدا اس لئے بلند کرتے ہیں تاکہ اسلام کی شبیہ کو بگاڑا جاسکے اور تعلیمات اسلام پر سوالیہ نشان لگاکر پوری دنیاکو اسلام مخالف سوچ رکھنے اور مسلمانوں کے وجود کو ختم کرنے پر آمادہ کیا جاسکے۔

میدان جنگ کے لئے روانہ ہونے والے افراد کو خود پیغمبراسلام ہدایت دیتے کہ جنگ میں عورتوں اور بچوں کو مت مارنا، جانوروں کو قتل نہ کرنا، کھیتیوں کو نقصان مت پہونچانا،اور جو امن کا متلاشی ہو اسے دامن اسلام سے وابستہ کرلینا۔ جو مذہب میدان جنگ میں اپنے مخالفین کے عورتوں اور بچوں کے قتل کی اجازت نہ دیتا ہو وہ بھلا بے قصور لوگوں کے قتل کی اجازت کیسے دے سکتا ہے پتہ چلا کہ اس طرح کی تنظیموں کا مذہب اسلام اور مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں ۔ یہ لوگ آپس میں مسلمانوں کو قتل کرتے ہیں، تخریب کاری مچاتے ہیں، اولیاء وانبیاء کے مزارات کو مسمار کرتے نظرآتے ہیں اور ان سب حرکات وسکنات کا ویڈیو بناکر سوشل ویب سائٹوں پر نشر کیا جاتا ہے،ابھی کچھ دنوں قبل ایک ویڈیوسوشل سائٹوں پر خوب وائرل ہوا جس میں کچھ نقاب پوش کسی سمندر کے کنارے اجتماعی طور پر کچھ لوگوں کے حلقوم پر تیز چاقو لگائے ہوئے ہیں اور بیک گراونڈ میں اسلامی میوزک بجائی جارہی ہے اور قتل کرتے ہوئے فلمی انداز میں ویڈیو بنائی گئی ہے،جس میں قاتل ومقتول دونوں کو مسلمان دکھایا گیا ہے ، کہیں یہ یہودی چال تو نہیں جس کی آڑ میں وہ یہ پیغام دینا چاہتے ہوں کہ جب مسلمان ہی مسلمانوں کو قتل کررہے ہیں تو اگر ہم فلسطینیوں کو ماریں تو اس میں کیا قباحت، اگر مسلمان اپنے مزارات کو توڑ سکتا ہے تو بیت المقدس کو ہم کیوں نہ توڑیں۔

داعش کو کس کی پشت پناہی حاصل ہے اس کا خلاصہ روس کے صدر ولادیمرپوتن نے کھلے انداز میں کردیا، انہوں نے کہا کہ داعش کو کچھ ملکوں سے باقاعدہ فنڈنگ مل رہی ہے اور ان میں جی۔۲۰ کے ممبر بھی شامل ہیں ۔ اگر کسی کی پست پناہی حاصل نہ ہوتی تو یہ تنظیم آج اپنا مکمل نظام نہیں چلاسکتی تھی اور نہ ہی اس تنظیم کے پاس اسلحوں ، بکتربند گاڑیوں، توپوں اور جنگی طیاروں کی بھرمار ہوتی، اسی لئے تو وہ امریکہ جس کی نگاہیں پوری دنیا کی ہر نقل وحرکت پر ہوتی ہیں وہ اس تنظیم کو آج چیلنج کے طور پر کیوں لے رہا ہے۔ داعش کو مٹانے کی آڑ میں شام پر اندھا دھند بمباری ہورہی ہے جس میں سیکڑوں بے قصورافراد مارے جارہے ہیں، لیکن پوری دنیا اس کی حمایت کررہی ہے کوئی یہ کہنے کو تیار نہیں کہ ان لاکھوں بے قصوروں کو ناحق کیوں قتل کیا جارہا ہے۔

دہشت گردی کو ختم کرنے کے لئے کسی احتجاج کی ضرورت نہیں بلکہ ضروری ہے کہ ایسی پالیسی مرتب کی جائے جس میں دنیا کے تمام ممالک اپنے مفادات کو بالائے طاق رکھ کر ظالم اور مظلوم کے فرق کو سمجھ سکیں۔ظالم کو ظالم اور مظلوم کو مظلوم کہنے کی ہمت جٹاسکیں، وقت کے طاقت ور حکمراں اور قیام امن کے متلاشی کسی بھی ملک کے کسی بھی خطے میں کمزور سے کمزورتر آدمی کو کسی طاقت ور ظالم کے ظلم کا شکار ہونے سے بچائیں تاکہ وہ انتقام اور بدلے کے جنون میں کسی دہشت گرد تنظیم کی پناہ تلاش نہ کرے۔خون خرابے سے دہشت گردی کو ختم نہیں کیا جاسکتا دنیا نے دیکھا کہ ہم نے اسامہ بن لادن سے چھٹکارا حاصل کیا تو بغدادی پیدا ہوگیا ہم بغدادی کو ختم تو کردیں گے اور کر ہی دینا چاہئے لیکن ہمیں اس بات کو بھی یقینی بنانا ہوگا کہ ہمارے سماج میں کہیں اور کوئی بغدادی نہ بن جائے۔

آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسی تنظیموں کو ختم کرنے سے پہلے اس کے وجود کے اسباب وعوامل کا گہرائی سے مطالعہ کرلیا جائے، کیونکہ ایسی تنظیموں کو پیدا کرنے والے اور ان کی پست پناہی کرنے والے بظاہر ان کی مذمت کرتے نظرآتے ہیں لیکن ان کامقصد صرف اور صرف اسلام اور مسلمانوں کے خلاف عالمی سازش رچنا اور اسلام کو پوری دنیا میں بدنام کرنا ہے ۔
عشق قاتل سے بھی، مقتول سے ہمدردی بھی
یہ بتا کس سے محبت کی جزا مانگے گا
سجدہ خالق کو بھی، ابلیس سے یارانہ بھی
حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا

Muhammad Athar Khan Misbahi
About the Author: Muhammad Athar Khan Misbahi Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.