سہ ماہی علم و عمل

 سہ ماہی علم و عمل (ادبی مجلہ):اپریل تا جون ۲۰۱۵،زیر اہتمام سر سید میموریل سوسائٹی،اسلام آباد
تبصرہ نگار :غلام ابن سلطان
دنیا بھر میں مشاہیر کی عظیم خدمات کو یاد رکھنے کے لیے تنظیموں ،مجالس اور سوسائٹیز کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے۔زندہ اقوام کا سپاس گزاری کا یہ احساس آنے والی نسلوں کے لیے صدیوں تک نشانِ راہ ثابت ہوتا ہے۔بر صغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے لیے سر سید احمد خان کی علمی ،ادبی اور ملی خدمات کا ایک عالم معترف ہے۔سر سید میموریل سوسائٹی ،اسلام آباد کا قیام اس عظیم محسن کی یاد کو تازہ رکھنے کے لیے عمل میں لایا گیا ہے ۔بریگیڈئیر اقبال شفیع (علیگ)اس سوسائٹی کی روح رواں ہیں۔اس سوسائٹی نے تعلیم ،ادب ،فنون لطیفہ،سائنس ،ٹیکنالوجی ،طب اور انجینٔرنگ کے شعبہ میں جو گراں قدر خدمات انجام دی ہیں وہ قومی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہیں۔اس سوسائٹی کے سر پرست اور عہدے دار مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے ایک ایسی نابغہء روزگار اور نایاب ہستی کو خراجِ تحسین پیش کرنے کی خاطر اُس کی یاد کی شمع فروزاں کر رکھی ہے جس نے برطانوی استعمار کے ہراساں شب و روز میں بھی حریتِ فکر و عمل کا علم بلند رکھا ،حریتِ ضمیر سے جینے کی راہ دکھائی ،جدید تعلیم کی طرف قوم کومائل کیااور مسمانوں کے مکمل انہدام کے مذموم منصوبوں کو ناکا م بنا دیا ۔سرسید میموریل سوسائٹی ،اسلام آباد نے پاکستان میں روشنی کے جس سفر کا آغاز کیاہے اس کے اعجاز سے معاشرتی زندگی سے سفاک ظلمتیں کافور کرنے میں مدد ملی ہے۔

سر سید میموریل سوسائٹی ،اسلام آباد کے زیرِ اہتمام شائع ہونے والے سہ ماہی علمی وادبی مجلے’’علم و عمل‘‘کا شمار پاکستان کے ممتاز ادبی مجلات میں ہوتا ہے۔یہ مجلہ اردو اور انگریزی کے دو الگ الگ حصوں پر مشتمل ہے۔حصہ اردو کی ادارت زیرک ادیب طارق نعیم کے سپرد ہے جب کہ حصہ انگریزی کی ترتیب و ادارت پر محترمہ ماجدہ اقبال شفیع مامور ہیں۔سبدِ گُل چیں پر ایک نظر ڈالنے سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے دونوں حصوں میں تخلیقات کے گل ہائے رنگ رنگ کے انتخاب میں مجلسِ ادارت نے جس محنت ،لگن اور فرض شاسی کو پیشِ نظر رکھاہے وہ ان کے ذوقِ سلیم کا آئینہ دار ہے۔

رجحان ساز مجلہ’’علم و عمل‘‘ کا یہ شمارہ اقبال نمبر ہے جو دونوں اطراف سے علامہ اقبال کی رنگین اور خوب صورت تصاویر سے مزین ہے۔ یہ پینٹنگز فن مصوری کا شاہ کار ہیں۔ سر سید میموریل سوسائٹی کی نصابی اور ہم نصابی فعالیتوں کی رنگین اور خوب صورت تصاویر کو آرٹ پیپر کے دس صفحات پر شائع کیا گیا ہے ۔ یہ تصاویر دیکھ کر دلوں کو ایک ولولۂ تازہ نصیب ہوتا ہے اور اس سوسائٹی کی سرگرمیوں اور شاہین بچوں کے عزائم کے بارے میں آگہی حاصل ہوتی ہے۔حصہ اردومیں بارہ مضامین جب کہ حصہ انگریزی میں دس مضامین شاملِ اشاعت ہیں۔جدید دور میں تاریخ اور اس کے مسلسل عمل کی اہمیت اور افادیت کے بارے میں نئے آفاق تک رسائی کی جدو جہد کو شعار بنایا گیا ہے۔فاضل مضمون نگاروں کی دقیقہ سنجی نے فکر و نظر کو اس طرح مہمیز کیا ہے کہ اس کے معجز نما اثر سے عصر ی آگہی کو پروان چڑھانے میں مدد ملتی ہے۔تاریخی حقائق کو بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں دیکھنے کی یہ مساعی لائق صد رشک و تحسین ہیں۔تاریخی واقعات اور صداقتیں قارئین پر فکر و خیال کے نئے در وا کرتی ہیں اور زبان ِ حال سے یہ کہتی ہیں کہ زرا نم ہو تو ارضِ وطن کی اس زرخیز مٹی سے بے شمار اشجار ،بُور لدے چھتنار اور اثمار کی روئیدگی ممکن ہے۔اپنے آبا و اجداد کی میراث اور درخشاں ماضی سے قلبی وابستگی اور والہانہ محبت ہر شخص کی جبلت میں شامل ہے۔اس لیے وہ سکون قلب کی خاطر ایامِ گزشتہ اور اپنے عہد کے حالات و واقعات کے بیان پر اپنی توجہ مرکوز کر دیتا ہے۔اس شمارے کے حصہ اردو میں علامہ اقبال پر دو اہم مضامین،قائد اعظم پر دووقیع مضامین،علی گڑھ کی یادوں پر مشتمل دو مضامین،مولاناحسرت موہانی پر ایک مضمون،علامہ عنایت اﷲ مشرقی پر ایک مضمون،کائنات کے مسائل پر ایک مضمون،ایک شگفتہ تحریراور خوش حال پاکستان مشاعرے کی دل کش روداد شامل ہے۔ حصہ انگریزی میں علی گڑھ کے جذبہ ،قومی تشخص، سر زمین عرب کی مہک ،پاکستانیت کی شناخت ،مذہبی وسیع النظری،اقبال کا مردِ مومن،قراردادِ پاکستان،حالی اور شبلی کی شاعری ،چکسبست لکھنوی اورحریتِ فکر اور تخلیق کار جیسے اہم موضو عات پر مضامین شاملِ اشاعت ہیں۔

ادبی مجلے ’’علم و عمل ‘‘میں شامل مضامین جہاں مضمون نگاروں کے تبحرِ علمی کے مظہر ہیں وہاں ان میں مضمون نگاروں کی حسین یادیں بھی قریۂ جاں کو معطر کر دیتی ہیں۔یادِ ماضی کو بالعموم ایک بیش بہااثاثہ سمجھا جاتا ہے۔ایامِ گزشتہ کے اوراق پر مشتمل یہ حسین یادیں ایک سر بہ فلک نخلِ تناورکا رُوپ دھار کر قارئین کو آلامِ روزگار کی تمازت سے محفوظ رکھتی ہیں۔ انسان کی زندگی کاسفر تواُفتاں و خیزاں کٹ ہی جاتا ہے لیکن اس جان لیوا مسافت میں اس کاپُورا وجود کِرچیوں میں بٹ جاتا ہے۔آزمائش وابتلا کے مسموم ماحول میں طوفانِ حوادث کے تیز و تند بگولے خزاں رسیدہ بُور لدے چھتنار وں کے زرد پتوں،کملائے ہوئے پھولوں،مرجھائے ہوئے شگوفوں اور سُو کھی ڈالیوں کو اُڑا لے جاتے ہیں۔وہ لوگ جو ایک شانِ استغنا کے ساتھ صبر و استقامت سے کام لیتے ہیں اور دِل میں اُمید بہار لیے اسی شجر سے اپنا مستقبل وابستہ کر لیتے ہیں، مستقبل میں کامرانیاں ان کا مقدر بن جاتی ہیں۔وہ فصلِ گُل کے بارے میں اس قدر پُر عزم ہوتے ہیں کہ انھیں اندیشۂ زوال کبھی یاس و ہراس اور اضمحلال و اضطراب کی بھینٹ نہیں چڑھا سکتا۔ اس کے بعد ہر انسان زینۂ ایام پر عصا رکھتے وقت کی تہہ میں اُتر جاتا ہے ، انسانی زندگی کایہی فطری انجام ہے لیکن لفظ باقی رہ جاتے ہیں جو اس کے تخلیقی وجود کا اثبات کرتے ہیں۔اس شمارے میں ماضی کے دریچوں سے جھانکتے ہوئے حال اور مستقبل کے بارے میں نہایت حقیقت پسندانہ، واضح،ٹھوس ،قابل ِعمل اورمثبت اندازِ فکر اپنانے کی راہ دکھائی گئی ہے۔ سہ ماہی ادبی مجلے ’’علم و عمل‘‘ میں اصلاح اور مقصدیت کی جو شان ہے اسے دیکھ کر علی گڑھ تحریک کے ترجمان مقبول اور تاریخی ادبی مجلے ’’تہذیب الاخلاق‘‘کی یاد تازہ ہو گئی۔ملت ،وطن ،اہلِ وطن اور بنی نوع انسان کے وقار اور سر بلندی کو نصب العین بنانے کی وہی تڑپ اس مجلے کی تحریروں کا امتیازی وصف ہے۔قومی تشخص اور ملی وقار کا علم تھامے علم و ادب کا یہ کارواں مسلسل سوئے منزل رواں دواں ہے۔ایسے کثیر المقاصد علمی و ادبی مجلات کی اشاعت قومی تعمیر و ترقی اور اصلاح ِمعاشرہ کے لیے نیک شگون ہے۔

علم و عمل کا یہ شمارہ بیاسی صفحات پر مشتمل ہے ۔طباعت کا معیار نہایت اعلا ہے اور اس کی طباعت کے لیے معیاری سفید کاغذ کاانتخاب کیاگیا ہے۔مجلے کا سالانہ زرِ تعاون ایک ہزار روپے ہے۔یہ مجلہ ہر باذوق کتب فروش کے ہاں دستیاب ہے ۔
Ghulam Ibn-e- Sultan
About the Author: Ghulam Ibn-e- Sultan Read More Articles by Ghulam Ibn-e- Sultan: 277 Articles with 601267 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.