انکلیوز-وہ ممالک یا علاقے جو دوسرے ملک میں بستے ہیں

کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ دنیا ایک ایسا حیرت کدہ ہے جہاں ہرروز نت نئے مظاہر دیکھنے کو ملتے ہیں اگر کوئی آپ سے یہ کہے کہ آپ اس کے گھر سے باہر نکلنے یا داخل ہونے کے لئے دوسرے کے گھر میں سے داخل ہونے کے بعد ایسا کرسکتے ہیں تو انتہائی عجیب محسوس ہوگا بلکہ ایسا کرتے ہوئے آپ دس مرتبہ سوچ میں پڑجائیں گے کہ ایسا کرنا چاہیے یا نہیں لیکن جناب گھروں کو چھوڑئیے دنیا میں ایسے ممالک یا شہر بھی پائے جاتے ہیں جو مکمل طور پر چاروں جانب سے دوسرے ممالک کی سرحدی حدود میں واقع ہیں اس حیرت انگیز جغرافیائی صورت حال کی وجہ تاریخی واقعات اور انسانی ضروریات سے جڑی ہوئیں ہے آئیے درج زیل مضمون میں چند ایسے ہی قابل ذکر ممالک اور شہروں کا تذکرہ کرتے ہیں۔
 

*ملیلہ اینڈ کیوٹا۔ اسپین
ملیلہ اور کیوٹا اسپین کے دو خودمختار شہر ہیں اگرچہ ان دونوں شہروں میں بسنے والے باسیوں کی شہریت کا تعلق اسپین سے ہے لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ دونوں شہر بحیرہ روم کے کنارے واقع ملک مراکش میں پائے جاتے ہیں واضح رہے اسپین اور مراکش بحیرہ روم کے کناروں پر آمنے سامنے واقع ہیں اسی وجہ سے ان دونوں شہروں کو اسپینش افریقہ بھی کہا جاتا ہے کیوٹا شہر اٹھارہ مربع کلومیٹر پر محیط ہے اور بیاسی ہزار نفوس پر مشتمل یہ شہر یکم جنوری سولہ سو اڑسٹھ سے اسپین کی عملداری میں ہے جب کہ اس سے متصل شہر ملیلہ بارہ مربع کلومیٹر پر محیط ہے اور یہاں پر بھی بسنے والوں کی تعداد اٹھتہر ہزار کے لگ بھگ ہے دونوں شہروں کو اسپین نے انیس سو پچانوے میں اپنا خودمختار شہر قرار دیا تھا دونوں شہروں میں مسلمانوں کی کافی بڑی تعداد ہے یہی وجہ ہے کہ دونوں شہروں میں سن دوہزار دس سے عید الاضحیٰ پر سرکاری چھٹی بھی دی جانے لگی ہے یاد رہے ہسپانیہ میں سن چودہ سو بانوے کے سقوط غرناط کے بعد مسلمانوں کا زوال ہوگیا تھا اس سانحہ کے بعد پہلی مرتبہ اسپین کے کسی شہر میں مسلمانوں کے تہوار پر سرکاری چھٹی کا اعلان کیا گیا ہے دوسری جانب شمالی افریقہ کے بیشتر ممالک بل خصوص مراکش اور الجیریا کے عوام ان شہروں میں داخل ہوکر یورپی شہریت حاصل کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان دونوں شہروں کی سرحدی حدود پر اسپین کی حکومت نے تین میٹر اونچی خاردار تاروں کی باڑ لگا رکھی ہے یاد رہے مراکش کی حکومت ملیلہ شہر پر اسپین کے قبضے کو غاصبانہ تسلط قرار دیتی ہے۔

image


*کیلینن گراڈ اوبلاسٹ۔ روس
کیلینن گراڈ صوبہ( اوبلاسٹ) روس کا ایک ایسا انتظامی حصہ یا صوبہ ہے جس کی جغرافیائی حدود اپنے مرکزی ملک روس سے علیحدہ ہیں اس کے جنوب میں پولینڈ،مشرق اور شمال میں لیتھونیا اور مغرب میں بحیرہ بالٹک واقع ہے تاریخی طور پر یہ خطہ انیس سو پینتالیس میں دم توڑنے والی ریاست پرشیا کا مشرقی حصہ تھا اور یہاں پر جرمنی کی حکومت تھی بعد ازاں دوسری جنگ عظیم میں اس پر سوویت یونین کا قبضہ ہوگیا اور پھر سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد یہ روس کا حصہ بن گیا تقریبا نو لاکھ چالیس ہزار کی آبادی والے اس صوبے میں اکثریت روسی زبان بولنے والوں کی ہے صوبے کا رقبہ پندرہ ہزار ایک مربع کلومیٹر ہے کیلینن گراڈ معاشی طور پر روس کا انتہائی تیزرفتاری سے ترقی کرتا صوبہ ہے یاد رہے جولائی دوہزار سات میں جب یہ خدشہ پیدا ہوگیا تھا کہ امریکہ پولینڈ میں اپنا میزائل کا دفاعی سسٹم لگانے والا ہے تو روس نے دھمکی دی تھی کہ وہ اپنے نیوکلیائی میزائل کیلینن گراڈ میں لگادے گا جس کے بعد امریکہ نے اپنا فیصلہ واپس لے لیا تھا بحیرہ بالٹک میں واقع کیلینن گراڈ کی بندرگاہ کو روس کی دیگر بندرگاہوں کے مقابلے میں ایک یہ امتیاز حاصل ہے کہ یہ روس کی واحد بندرگاہ ہے جو تقریبا پورے سال استعمال ہوتی رہتی ہے اور برف باری سے متاثر نہیں ہوتی۔

image


*جبرالٹر ۔ برطانیہ
جبرالٹر جو جبل الطارق کے نام سے بھی پہچانا جاتا ہے برطانیہ کا سمندر پار اہم دفاعی نوعیت کاعلاقہ ہے جبرالٹر کا ساحلی حصہ برطانیہ سے دور جزیرہ نما آ بیریا کے جنوب اور آبنائے جبرالٹر کے ساتھ بحیر ہ روم کے داخلی مقام پر پھیلا ہوا ہے واضح رہے بحیرہ روم تین جانب سے یورپ، ایشیاء اور افریقہ سے گھرا ہوا ہے اور صرف اس مقام سے کھلا ہوا ہے جہاں پر آمنے سامنے اسپین اور مراکش ہیں اور اسی مقام پر جبل الطارق واقع ہے اور یہیں پر بحیرہ روم بحر اوقیانوس میں جا گرتا ہے جب کے شمال میں جبل الطارق یا جبرالٹر کی سرحدیں اسپین کے صوبے اندلسیہ سے ملتی ہیں چھے اعشاریہ آٹھ مربع کلومیٹر پر محیط اس علاقے کی آبادی بتیس ہزار ہے سن سترہ سو تیرہ سے برطانیہ کی عمل داری میں شامل اس علاقے پر اسپین بھی اپنی ملکیت کا دعویٰ دار ہے یہی وجہ کہ یہ علاقہ برطانیہ اور اسپین کے مابین کافی عرصے سے وجہ تنازع بنا ہوا ہے کئی مواقعوں پر اسپین جبرالٹر کی سرحدوں کو اپنی سرحدوں کے ساتھ بند کرچکا ہے تاہم اس وقت یہ سرحدیں کھلی ہوئی ہیں اور سیاحوں کی آمدورفت لگی رہتی ہے ۔

image


*پوائنٹ رابرٹس ، واشنگٹن ۔ امریکہ
پوائنٹ رابرٹس کا علاقہ بنیادی طور پر امریکہ کی ریاست واشنگٹن کے قصبے واٹ کام کا حصہ ہے لیکن پوائنٹ رابرٹس تک پہنچنے کے لئے کینیڈاکی حدود میں سے گذرنا پڑتا ہے کیوں کہ یہ سرسبزعلاقہ کینیڈا کے صوبے برٹش کولمبیا میں جزیرہ نما تساواسن کے انتہائی جنوب اور جنوب ہی میں بائیس میل کی دوری پر وینکور شہر کے قرب میں واقع ہے بارہ اعشاریہ پینسٹھ مربع کلومیٹر پر محیط اس شہر کی آبادی محض تیرہ سو نفوس پر مشتمل ہے کم آبادی کے باعث شہر میں صرف ایک پرائمری اسکول ہے تاہم سیکنڈری اسکول کے طالبعلم روزانہ بس میں پینتالیس منٹ کا سفر کر کے کینیڈا سے گزرتے ہوئے واشنگٹن کے سرحدی علاقے بلائین میں پڑھنے جاتے ہیں اسی طرح پوائنٹ رابرٹس میں ہسپتال ،ڈینٹسٹ، فارما سیوٹکل اسٹور وغیرہ نہیں ہیں اور چوں کہ ا مریکا کی گورنمنٹ کینیڈین ڈاکٹروں سے کرائے گئے علاج کو انشورنس کور نہیں دیتی لہذا یہاں سے مریض بھی واشنگٹن جا کر علاج کرواتے ہیں جو انہیں خاصہ مہنگا پڑتا ہے واضح رہے پوائنٹ رابرٹس میں آبشاروں اور قدرتی مناظر کی بہتات ہے جنہیں دیکھنے سیاحوں کی بڑی تعداد سال بھر یہاں موجود رہتی ہے ۔

image


*کابندا ۔ انگولا
تین لاکھ نفوس پر مشتمل کابندا کا علاقہ براعظم افریقہ کے جنوب میں واقع ملک انگولا کا صوبہ ہے جو مکمل طور پر انگولا سے علیحدہ ہے کابندا جغرافیائی لحاظ سے جنوب اور مشرق میں ڈیموکریٹک ری پبلک آف کانگو اور شمال میں ری پبلک آف کانگو سے ملا ہوا ہے جب کہ اس کی مغربی سرحد بحیرہ اوقیانوس سے ملتی ہے پیٹرول اور دیگر معدنی وسائل سے بھرپور کابندا کا علاقہ اگرچہ اپنے پڑوسی ممالک کی جانب سے حق ملکیت کے حوالے سے متنازع قرار دیا جاچکا ہے تاہم عالمی سطح پر اسے ابھی بھی انگولا ہی کا حصہ سمجھا جاتا ہے واضح رہے صوبے کابندا کے اندر مقامی افراد کی جانب سے آزادی کی تحریک کافی فعال ہے اور گذشتہ چار دہائیوں سے یہاں پرامن و امان کی صورت حال ابتر تھی تاہم دوہزار چھے میں اقوام متحدہ اور دیگر یورپی اور افریقی ممالک کی جانب سے کرائے جانے والے امن معاہدے کے بعد امن و امان کی صورت حال میں بہتری آئی ہے۔

image


وہ ملک جو دوسرے ملک میں واقع ہیں۔

*ویٹی کن سٹی اسٹیٹ۔اٹلی

رقبے اور آبادی کے لحاظ سے دنیا کے سب سے چھوٹے ملک کا اعزاز رکھنے والا ویٹی کن سٹی اسٹیٹ اٹلی کے دارالحکومت روم میں واقع ہے اس خود مختار ریاست کی آبادی محض آٹھ سو چالیس نفوس پر مشتمل ہے جب کہ رقبہ صفر اعشاریہ چوالیس مربع کلو میٹر ہے کیتھولک عیسائیوں کے لئے مرکزی مقام کی حیثیت رکھنے والی یہ ریاست انیس سو انتیس میں قائم کی گئی ویٹی کن سٹی میں عیسائیوں کے سب سے بڑے مذہبی پیشوا کی رہائش گاہ بھی ہے جو ریاست کے سربراہ بھی ہوتے ہیں خوبصورت مجسموں ، فواروں اور رنگ برنگے پھولوں سے سجی یہ ریاست چاروں جانب دیواروں سے گھری ہوئی ہے اٹلی کی حدود میں واقع ہونے کے باعث ویٹی کن سٹی کے دفاع کی زمہ داری اٹلی کے پاس ہے ۔

image


*سان مارینو۔ اٹلی
سان مارینو ایک مستری کی بسائی ہوئی بستی ہے جو ایک خود مختار ملک کا درجہ ر کھتی ہے سان مارینوکا محل وقوع بھی اٹلی ہے اور یہ ملک بھی چاروں جانب سے اٹلی کی سرزمین میں گھرا ہوا ہے سن تین سو ایک میں مارینوس نام کے ایک مستری کے ہاتھوں قائم ہونی والی اس ریاست کے بارے میں مقامی افراد کا دعوی ہے کہ یہ دنیا کی سب سے قدیم آباد جمہوری ریاست ہے اکسٹھ مربع کلومیٹر پر محیط یہ ریاست دنیا کی تیسری سب سے چھوٹی ریاست میں شمار کی جاتی ہے جس کی آبادی تقریبا ساڑھے بتیس ہزار نفوس پر مشتمل ہے ،اٹلی کے شمال مشرقی پہاڑی سلسلے ایمیلیا رومانیااور مارکے ریجن میں واقع جمہوریہ سان مارینو میں فوج نہیں ہے اور اس کے دفاع کی زمہ داری بھی اٹلی کی افواج کرتی ہیں ۔

image


*لیسو تھو۔ جنوبی افریقہ
جنوبی افریقہ کی حدود میں واقع یہ ملک بنیادی طور پر کنگڈم آف لیسوتھو کہلاتی ہے اور یہاں پر آئینی بادشاہت قائم ہے تیس ہزار مربع کلومیٹر کے رقبے اور بیس لاکھ نفوس پر مشتمل آبادی والے ملک لیسو تھو کے اطراف میں جنوبی افریقہ کے شہر پیٹر مارتیزبرگ اور بلومفونٹین واقع ہیں لیسوتھو کی عوام نے چار اکتوبر انیس سو چھیاسٹھ میں برطانیہ سے آزادی حاصل کی اس سے قبل لیسو تھو کو باٹسو لینڈ کہا جاتا تھا اگرچہ یہاں کی چالیس فیصدعوام خط افلاس سے نیچے زندگی گزار رہی ہے تاہم حکومت کی جانب سے تعلیم کے شعبہ پر بہت توجہ دی گئی ہے جس کے نتیجے میں چودہ سال سے زائد عمر کے افراد میں شرح خواندگی پچاسی فیصد تک ہوگئی ہے جو شرح خواندگی کے حوالے سے براعظم افریقہ کے ممالک میں سب سے زیادہ ہے لیسوتھو کو جغرافیائی لحاظ سے ایک امتیاز یہ بھی حاصل ہے کہ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جو مکمل طور پر سطح سمندر سے ایک ہزار میٹر بلند ہے تاہم دوسری جانب بدقسمتی سے لیسو تھو میں دنیا بھر میں ایڈز کے مریضوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے جسے یہاں کی حکومت اقوام متحدہ اور دیگر تنظیمو ں کی مدد سے کم کرنے کی کوشش میں مصروف عمل ہے ۔

image

وہ علاقے جن کی سرحدیں اپنے ملک سے جڑی ہوئی تو ہیں لیکن وہاں داخل ہونے کے لئے دوسرے ملک کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے ۔

*اس ڈی سیوس۔ اسپین

اس ڈی سیوس گاؤں اسپین کے وسطی پہاڑی سلسلے پیرنیس میں واقع ہے دشوار گذار پہاڑوں اور گھاٹیوں کے باعث اس گاؤں میں داخل ہونے یا نکلنے کا واحد راستہ ایک دوسرے چھوٹے سے پڑوسی ملک انڈورا سے ہے سو نفوس پر مشتمل اس ڈی سیوس گاؤں سطح سمندر سے سات ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے اس گاؤں میں موجود قدیم تاریخی عمارتیں سیاحوں کے لئے دلچسپی کا سامان ہیں۔

image

*جنگ ہولز اور کلینول سیرتال۔ آسٹریا
یہ دنوں علاقے اگرچہ آسٹریا کے ضلع ریوٹے کی حدود میں شامل ہیں مگر خطرناک پہاڑی سلسلوں اور زرائع نقل و حمل کے فقدان کے باعث ان دونوں علاقوں میں داخل ہونے کے لئے ضروری ہے کہ جرمنی کے راستے سے داخل ہوا جائے تین سو کی آبادی والے جنگ ہولز اور پانچ ہزار نفوس پر مشتمل کلینول سیر تال قدرتی حسن سے مالا مال علاقے ہیں جہاں سال بھر سیاحوں کا ہجوم لگا رہتا ہے ۔

image
YOU MAY ALSO LIKE:

An enclave, with respect to countries and international borders, is a part of a state, or an entire state that is entirely surrounded by the territory of another state. Thus the only way to access the territory of that enclave is by crossing the territory of the surrounding country. The reason for the existence of each enclave is fascinating and can go back for centuries.