مستقبل سے غافل حکمران

بوسیدہ دیواریں ، ٹپکتی چھتیں ، کچے صحن ، ایک تختہ سیاہ اورایک میز کرسی ،طلباء و طالبات کے بیٹھنے کے لیے دری تک موجود نہیں ۔ جہاں سردیوں میں ٹھنڈ سے بچنے کی خاطر ، گرمیوں میں ہوا کی خاطر بچوں کو سکول کے صحن میں آگے درخت کے سائے میں پڑھایا جاتا ہے ۔ مون سون کے موسم میں یہ صحن پانی سے بھر جاتا ہے اور طلبہ و طالبات کو دیوار کے ساتھ بیٹھ کر پڑھنا پڑتا ہے ۔سڑک کی نسبت قدرے گہرائی میں بنی یہ عمارت بچوں کو موسموں کی شدت سے محفوظ رکھنا تو درکنار ،بارش کے پانی کو بھی روکنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ۔ہوا ء اور روشنی کے لیے بنائے گئے روشن دان، مون سون یا بارش ہونے کی صورت میں پانی کے بہاؤ کو سڑک کی بجائے سکول کی عمارت کے جانب موڑ دیتے ہیں اور یہ عمارت کسی جوہڑ کا منظر پیش کرتی ہے اور اس موسم میں یہ طلبہ بنا کچھ پڑھے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں ۔یہ سکول ،دو اساتذہ اورآنکھوں میں حسین مستقبل کے خواب سجائے ، بستوں کے ساتھ پیڑیاں اٹھائے ، چند بچوں پر مشتمل ہے ۔ یہ منظر سولویں صدی کے سکول یا سومالیہ کے سکول کا نہیں ، بلکہ یہ منظر تقریبا ہمارے ارض ِوطن میں موجود ہر دور دراز کے گورنمنٹ سکول کا ہے ۔ہمارے حکمران میٹرو اور سڑکوں پر تو اربوں کھربوں روپیہ خرچ کرنے کو تیار ہیں لیکن مستقبل کے ان معماروں کے لیے ان عمارتوں پر کسی قسم دھیان دینے کو تیار نہیں ۔ان بچوں کے پاس ذہانت ، محنت، آگے بڑھنے کی لگن سبھی کچھ ہے لیکن ان کے مالی حالات انھیں کسی بہترین اور جدید سہولیات سے آراستہ سکول میں داخلہ لینے کی اجازت نہیں دیتے ۔ان بچوں کاقصورصرف غربت اورتنگدستی ہے ۔جوان کے بلواسطہ اور ملک کے بلاواسطہ تابناک مستقبل کی راہ میں حائل ہے اورانھیں اپنے ہی ملک میں دوسرے درجے کا شہری بننے پر مجبور کیئے ہوئے ہے۔انھی کی عمر کے چندفی صدبچے جن کے والدین امیر ہیں ، جدید سہولیات سے مزین سکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔جو مختلف شعبوں میں نام پیدا کرنے میں کامیاب رہتے ہیں جبکہ گورنمنٹ سکو لمیں پڑھنے والے بچے قابلیت ہونے کے باوجود ترقی کی دوڑ میں دوسروں سے کہیں پیچھے رہ جاتے ہیں،ان کے ننھے ذہنوں میں جنم لینے والا احساس محرومی بعد انھیں معاشرے کے خلاف بغاوت پر اُکساتا ہے ۔یہی بچے بعد میں شدت پسندی کی طرف مائل ہو جاتے ہیں، معاشرے پر بوجھ بن جاتے ہیں یا اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ بھرنے کے لیے دریار غیر کا رخ کرتے ہیں۔

حکایت ِ سعدی سے اقتباس ہے ، کہا جاتا ہے کہ مصر کے امیر کے دو بیٹے تھے ان میں سے ایک نے علم حاصل کیا جبکہ دوسرے نے مال و دنیا سمیٹی ۔ علم والا بھائی عالم ہوا اور لوگوں کی نظر میں صاحب ِ عزت و احترام ٹھہراجبکہ مال ودولت کا مالک دوسرا بھائی مصر کے بادشاہ کا وزیر بن گیا ۔ مال و دولت والا بھائی اپنی دولت اور وزارت کے نشے میں چور عالم بھائی کو حقارت اور نفرت کی نظر سے دیکھتا تھا ۔ ایک دن وزیر نے دوسرے بھائی کو کہا کہ میں تو وزیر بن گیا ہوں اور تو فقیر کافقیر ہی رہا ۔ عالم بھائی نے امیر بھائی کو جواب دیا ۔ میرے بھائی اﷲ کا مجھ پر بڑا کرم ہے کہ میں نے علم حاصل کیا جو پیغمبروں کی میراث ہے ۔ میں مانتا ہوں کہ میں تو اس چیونٹی کی مانند ہوں جسے راہگزار پاؤں تلے مسل کر گزر جاتے ہیں ۔ شکر ہے میں وہ بھڑ نہیں جس کے ڈنگ مارنے سے لوگ چیخنے چلانے لگیں ۔ میں اﷲکی عطاء کردہ اس نعمت پر اﷲ کا شکر ادا کر ہی نہیں سکتا ۔ مجھ میں لوگوں کو ستانے کی قوت ہے نہ ہی دنیاوی منصب ۔

اس حکایت سے ثابت ہو ا کی علم کی دولت سے بڑھ کر کوئی دولت نہیں ۔علم کی دولت کو حاصل کرنے کی جدوجہد کرنے والی قوموں کا سر ہمیشہ بلند رہتا ہے ، جو قومیں علم کے میدان میں آگے نکل گئی وہی کامیاب رہیں۔ علم کی اس دولت کو ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل کرنے کے لیے مختلف اداروں کا قیام عمل میں لایا جا تا ہے ۔تقریبا پورے ملک میں پھیلے گورنمنٹ سکول اور پرائیویٹ سکول یہ خدمت سر انجام دے رہے ہیں ۔گورنمنٹ سکولوں کی حالت ِ زار اس حد تک خراب ہے کہ کوئی نہیں جانتا کہ کب کون سی عمارت زمین بوس ہو کر اپنے ساتھ طالب علموں کو بھی لے جائے ۔حکومت کے ساتھ ساتھ این جی اوز اور امیر لوگوں نے بھی تعلیم کو عام کرنے کے لیے پرائیویٹ سکولوں کا اجراء کیا ہے۔علم حاصل کرنے کے لیے امیر غریب سبھی اپنے بچوں کو ملک کے طول و عرض میں پھیلی ہو ئی درسگاہوں میں بھیجتے ہیں ۔ امیر اپنے بچوں کو مہنگے سے مہنگے سکول میں داخل کرواتے ہیں جبکہ غریب کی دسترس میں صرف گورنمنٹ سکول ہی ہیں۔ ان سکولوں میں ہر جماعت کی بھاری بھرکم فیس رکھی جاتی ہے اور یہ پرائیویٹ سکول صرف امراء کی دسترس میں ہیں ۔پرائیویٹ سکولوں میں سے چند ایک سکول بڑے پیمانے پر کام کر رہے ہیں اور ان کی شاخیں پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہیں جبکہ چند ایک بالکل چھوٹے پیمانے کام کر رہے ہیں ۔ اب تو یہ حالت ہے کہ تقریبا ہر گلی، محلے میں یہ سکول چھوٹے چھوٹے گھروں میں بھی کھلے نظر آئیں گے ۔پرائیویٹ سکولوں میں طلبہ کی راہنمائی گورنمنٹ سکولوں کی نسبت کہیں بہتر کی جاتی ہے اور عام طور پر پرائیویٹ سکولوں کا معیار ِ تعلیم گورنمنٹ سکولوں کی نسبت بہتر خیال کیا جاتا ہے ۔

پاکستان کے قیام سے لیکر پچھلے چند برس تک گورنمنٹ سکولوں سے تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ پورے ملک میں واضع مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے تھے ۔ بورڈ کے سالانہ امتحانات میں بھی گورنمنٹ سکولوں کے طالب علم پوزشنز حاصل کر پاتے تھے لیکن پچھلے چند برس سے بورڈ کے سالانہ امتحانات کے نتائج ماضی سے کچھ مختلف آ رہے ہیں ۔ بورڈ کے امتحانات میں پہلی تین پوزیشنز گورنمنٹ کے مشہور سکولوں کی بجائے چند بڑے پرائیویٹ سکولوں کے حصے میں آ رہی ہیں ۔بورڈ کے سالانہ نتائج میں پرائیویٹ سکولوں کے نمایاں ہونے کی کئی وجوہات ہیں جن میں سے چند ایک کا ذکر ضروری ہے۔ ایک تو یہ کہ بعض بڑے بڑے سکولوں کے مالکان اور بعض اساتذہ بورڈ اور حکومتی سطح پرخاصااثر و رسوخ رکھتے ہیں ۔ اس اثر و رسوخ کے بل بوتے پر کرپشن اور بد عنوانی کے ذریعے پوزیشن اپنے یا اپنے سکول کے بچوں کے نام کروا لیتے ہیں ۔اکثر و بیش تر ایگزمینشن سیکشن میں بھاری رقوم ادا کر کے بچوں کے 10سے 20نمبر بڑھوا لیے جاتے ہیں ۔بظاہر تو ان چند نمبر کوئی بہت بڑی بات نظر نہیں آتی تاہم ان چند نمبروں کے ردو بدل سے پوزیشن میں تبدیلی آجاتی ہے۔ اس طرح ایک کم محنتی بچے کو وہ پوزیشن دے دی جاتی ہے جوکسی اور بچے کا حق ہو۔نمبروں کے ردوبدل سے کالجوں کے میرٹ پر بھی فرق پڑھتا ہے۔ اوربعض اوقات حق دار طلبہ بھی اچھے کالجوں میں داخلے سے محروم رہ جاتے ہیں ۔کرپشن کی یہ صورت بکسی بھی محنتی بچے کے مستقبل کے ساتھ کھیلنے کے مترادف ہے ۔ کیونکہ کرپشن اور بدعنوانی کا سہارا لے کے ایک ایسے بچے کا مستقبل سنوار دیا جاتا ہے جس کو اس پوزیشن کے انعام میں ملنے والے وظیفہ سے کوئی فرق نہیں پڑھتا اوروہ اس وظیفہ کی رقم حاصل کیے بنا بھی اپنی تعلیم جاری رکھ سکتا ہے ۔ا س کے برعکس وہ بچہ جومحنت تو کر سکتا ہے لیکن اپنی غربت کی وجہ سے آگے تعلیم حاصل نہیں کر سکتا اس کے حقوق کو پامال کردیا جاتا ہے ۔گویا وہ بچہ جو محنت اور لگن سے تعلیم کے میدان میں کامیاب ہونے کی کوشش کر رہا ہو وہ اس بچے سے کہیں پیچھے رہ جا تا ہے جس کے والدین یا سکول مالکان اثر و رسوخ کے حامل ہو ں ۔محنت کے باوجود وہ بچہ نہ صرف بددلی کا شکار ہو جاتا ہے بلکہ اپنے جائز حق سے بھی محروم رہتا ہے جو کہ پوزیشن لینے والے طالب علم کا حق ہے ۔

تعلیم سب کا حق ہے ان کا بھی جو امیر ہیں اور ان کا بھی جن کو ان کے والدین بھوکے رہ کر سکول بھیجتے ہیں ۔ غربت کسی کا جرم نہیں ، کسی کا گناہ نہیں ، لیکن یہ غریب طالب علم اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا یونہی بھکتے چلے آرہے ہیں ۔اگر ان پر توجہ نہ دی گئی تو ملک کے عوام دو حصوں میں بٹ کر رہ جائیں گے ۔ ایک وہ حصہ جو اچھے سکولوں سے پڑھ کر زندگی کی دوڑ میں آگے ہو گا اور ایک وہ جو بنا کسی قصور کے آگے نہیں بڑھ پائے گا کہ اس کے والدین سکول کی بھاری فیس نہیں چکا سکتے ۔ جب ان حصوں میں خلیج بڑھے گی تو تصادم لازم ہو جائے گا ۔ ابھی بھی وقت ہے ، حکمرانوں کو آنے والے کل کے بارے میں سوچنا ہو گا ۔ گورنمٹ سکولوں میں پڑھنے والے بھی ہمارے ہی بچے ہیں ۔ ان کا بھی خیال رکھنا ہو گا ۔
Shahzad Hussain Bhatti
About the Author: Shahzad Hussain Bhatti Read More Articles by Shahzad Hussain Bhatti: 180 Articles with 149957 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.