نیا وزیر اعظم آزاد کشمیر مشتاق منہاس

 تیزی سے بدلتے سیاسی مناظر نے شہریوں سے آرام و سکون چھین لیا ہے ۔پاکستان کے نجی ٹیلی وژن چینلز نے قوم کو بے چین کر دیا ہے ۔ بدلتے سیاسی مناظر دیکھتے ہوے،، کبھی کبھی رات کو سوتے ہوے کھٹکا لگا رہتا ہے کہ صبح اٹھیں گے تو پتہ نہیں کیا تبدیلی واقع ہوچکی ہوگی، کس کے ہاتھ میں کمان آئے گی اور کون ہمارا نیا حکمران ہوگا۔ کمان تبدیل ہوتے ہی اکھاڑ پچھاڑ شروع ہو گی ، نیا کاروبار حکومت شروع ہوگا۔ بدلتے سیاسی مناظر میں بدلتی حکومتیں پاکستان کا سیاسی کلچر رہا ہے ۔نئے پاکستان کے لیے سیاسی مہم کے نتیجے میں پاکستان میں ابھی تک کچھ نہیں بدل سکا۔ بدلنے کا عمل ان دنوں پاکستان میں نہیں آزاد کشمیر میں جاری ہے۔پہلے سیاسی وفاداریاں بدلتی تھیں اب موسم کی طرح وزیر اعظم بدل رہے ہیں ، صرف وزیر اعظم بدلنے کا فائدہ یہ ہے کہ کاروبار ریاست میں بدلتا کچھ نہیں لوگ نئے سوٹ پہن کر نئے روپ میں چند دنوں کے لیے وزیر اعظم کے منصب کا مزہ لیتے ہیں، شان وشوکت اور پروٹوکول کے مزے کے ساتھ ان کی شخصیت کو چار چاند بھی لگ جاتے ہیں۔اگرچہ یہ مزے چند دنوں کے لے ہوتے ہیں مگر مہینوں تک اخبارات میں ان کا چرچہ رہتا ہے ۔ ان چند دنوں میں بھی معززین آتے ہیں، سرکاری تقریبات اور دعوتیں ہوتی ہیں ۔ایک سابق بھارتی وزیر اعظم نے ایک موقع پر طنزیہ کہا تھا کہ پاکستان میں جس سے تیزی سے حکومتیں اور وزیر اعظم بدلتے ہیں ان کی کوئی مثال نہیں میں جتنی دھوتیاں نہیں بدلتا اتنے پاکستان میں وزیر اعظم بدل جاتے ہیں ۔ بھارتی وزیر اعظم کی طنز سے ہمیں آزاد کشمیر کا خطہ یاد آیا جہاں گزشتہ کئی سالوں سے کچھ نہیں بدلا ، پٹواری کلچر بدلا اور نہ ہی عدالتی نظام، ایکٹ 74 میں کوئی ترمیم ہو سکی اور نہ ہی حکمرانوں کے طور طریقے ۔ مسلم کانفرنس کے دور میں پبلک سروس کمیشن عتیق کمشن تھا اور پیپلزپارٹی کے دور میں جیالاکمشن ۔ ریاست میں کچھ بدلے نہ بدلے چہرے ضرور بدلتے رہے ہیں ۔ وزیر اعظم بدلنے کا فیشن صرف پیپلزپارٹی کے دور میں ہی نہیں اس سے پہلے بھی زوروں پر تھا۔ 2006 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد مسلم کانفرنس کے سردار عتیق احمد خان ابھی تین سال ہی وزارت عظمی کے مکمل نہ کر پائے تھے کہ عدم اعتماد کے ذریعے انہیں بدل دیا گیا ۔ سردار یعقوب 6 جنوری 2009 سے اکتوبر 2009 تک تقریبا 9 وزیر اعظم رہے ۔ شاید سردار یعقوب خان نو ماہ بعد بھی کوئی کارکردگی سامنے نہ لا سکے چنانچہ انہیں بھی بدل دیا گیا ۔ موجودہ اپوزیشن لیڈر راجہ فاروق حیدر کو لایا گیا فاروق حیدر 22 اکتوبر 2009 سے 26 جولائی 2010 تک وزیر اعظم رہے ۔ آزاد کشمیر کا یہ وزیر اعظم بھی نو ماہ تک کوئی رزلٹ نہ دے سکا ۔ چنانچہ ضرورت پیش آئی کہ اب کسی اور کو بھی آزمایا جائے ۔ چنانچہ سردار عتیق احمد خان کو دوبارہ وزیر اعظم بننے کا موقع ملا ۔ 29 جولائی 2010 سے 26 جولائی 2011 تک عتیق احمد خان وزیر اعظم رہے ۔ یہ پانچ سال اعتماد اور عدم اعتماد میں گزرے ۔ 2011 کے الیکشن کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی آزاد کشمیر کے چودھری عبدالمجید 5134 مربع کلو میٹر علاقے ، 35 لاکھ آبادی کے وزیر اعظم بنے ۔ وزیر اعظم بدلنے کا رحجان پھر بھی موجود تھا ۔سابق وزیر اعظم بیرسٹر سلطان محمود چودھری نے اپنی ہی پارٹی کے وزیر اعظم کو بدلنے کی مہم شروع کی تھی ۔ تحریک عدم اعتماد بھی پیش ہو گئی تھی مگر وزیر اعظم نواز شریف رکاوٹ بن گئے ۔ وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے پارٹی کے ارکان کو عدم اعتماد کی تحریک میں حصہ لینے سے روک دیا تھا۔ چنانچہ نتیجے کے طور پر چودھری عبدالمجید وزارت عظمی سے رخصت ہونے سے بچ گئے ۔ اگر نواز شریف رکاوٹ نہ بنتے تو آزاد کشمیر میں ہر ممبر اسمبلی وزیر اعظم بننے کی آس میں نیا سوٹ سلوا کر رکھتا ۔ آزاد کشمیر کے کونے کونے میں نیلے پیلے جھنڈوں والی گاڑیاں گھومتیں ۔ نواز شریف راضی ہوں یا ناراض وزیر اعظم بدلنے کا کلچر ختم نہیں ہو سکا ۔سابق وزیر اعظم بیرسٹر سلطان محمود چودھری اپنی دوسری باری کے لیے بے چین ہیں ۔ دوسری باری کے لیے اب وہ تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے متحرک ہیں ۔آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے دور میں بار وزیر اعظم بدلنے کا کام لاڑکانہ سے ہوتا رہا ۔ لوگ کہتے ہیں جو اپنی محنت کا زیادہ حصہ ڈالتا رہا وہ سب سے پہلے مراد پاتا رہا۔ فاروق حیدر کہتے ہیں پیسے لے کر قائم مقام وزیر اعظم بنا ئے جاتے رہے ۔ پی پی کے اس دور میں طے یہ پایا تھاکہ جتنے بھی امیدوار ہیں وہ مراد پائیں گے ، ایکٹ 74 کے رولز آف بزنس کے تحت وزیر اعظم کسی بھی کابینہ ممبر کو قائم مقام وزیر اعظم بنا سکتے ہیں ۔ چنانچہ جب بھی کسی کو قائم مقام وزیر اعظم بنانا مقصود ہوتا چودھری مجید کو بیرون ملک بھیج دیا جاتا ۔ سب سے پہلے چودھری یاسین قائم مقام وزیر اعظم بنے ۔ ایک بار نہیں دو تین بار قائم مقام وزیر اعظم رہے پھر چودھری پرویز اشرف کی باری آئی۔ پرویز اشرف بطور قائم مقام وزیر اعظم لائو لشکر سمیت کوٹلی ، میرپور میں گھومتے پائے گئے ۔ ابھی وہ قائم مقام وزیر اعظم ہی تھے کہ مظفر آباد والوں کی خواہش بھی جاگ اٹھی ۔ ریاست کا صدر بننے سے محروم رہنے والے چودھری لطیف اکبر بھی بے چین تھے لاڑکانہ سے شاہی فرمان آنے پر یہ فیصلہ ہوا کہ مظفر آباد کی خواہش بھی پوری کی جائے گی ۔ چنانچہ چودھری مجید کو ہدایت جاری کی گئی کہ وہ مزید کچھ عرصہ ریاست میں آنے سے گریز کریں تاکہ مظفر آباد والوں کی خواہش بھی پوری ہو سکے ۔ چودھری عبدالمجید کو برمنگھم میں بلاول بھٹو زرداری کے جلسے کے کام پر لگا دیا گیا اور چودھری لطیف مراد پاگئے ۔ آزاد کشمیر میں وزیر اعظم بدلنے کی اس روایت سے ہمیں بھی خوشی ہوئی ہے اس لئے کہ موجودہ حکومت کے کچھ وزرا ہمارے بھی جاننے والے ہیں ہو سکتا ہے کہ اگلی باری مطلوب انقلابی کی ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سالار جمہوریت سردار سکندر حیات کو ہرانے والے جاوید بڈھانوی کو بھی موقع مل جائے ۔ آزاد کشمیر میں صرف وزیر اعظم ہی نہیں صدر بننے والوں کی کمی نہیں ۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ایکٹ 74 رولز آف بزنس کے تحت صرف قانون ساز اسمبلی کا سپیکر ہی قائم مقام صدر بن سکتا ہے ۔ اگر سپیکر بھی موجود نہ ہوں تو ڈپٹی سپیکر کو یہ ذمہ داری دی جا سکتی ہے ۔ قانون ساز اسمبلی کے سپیکر سردار غلام صادق اس منصب کو کہیں بار سنبھال چکے ہیں ۔ وہ بیرون ملک نہیں جاتے شاید اسی وجہ سے ڈپٹی سپیکر شاہین ڈار کو یہ منصب نہیں ملا ۔ اگر ان کے لاڑکانہ میں رابطے مضبوط ہوتے تو سردار یعقوب اور سردار غلام صادق کو ایک ہی وقت میں ملک سے باہر بھیجا جا سکتا تھا۔ اس صورت میں شاہین ڈار بھی قائم مقام صدر کا منصب سنبھال سکتی تھیں۔ فرمان لاڑکانہ کے تحت باری باری صدر اور وزیر اعظم آزاد کشمیر بدلنے کی کہانی اب ختم ہونے والی ہے اس لیے کہ جون جولائی 2016 کو آزادکشمیر میں الیکشن ہوجائیں گے ۔ اب باری مسلم لیگ ن آزاد کشمیر کی ہے ۔مسلم لیگ ن آزاد کشمیر کے صدر فاروق حیدر ہیں۔ اس حساب سے انہی کو نیا وزیر اعظم بننا ہے مگر سوشل میڈیا والے فاروق حیدر کو ڈرا رہے ہیں کہ اب کی بار رائے ونڈ سے فرمان آئے گا اور مشتاق منہاس وزیر اعظم بن ا جائیں گے ، سرکردہ صحافی ، ٹیلی وژن اینکر مشتاق منہاس کے شریف خاندان سے قریبی تعلقات ہیں ۔مشتاق منہاس نے ابھی تک اس طرح کی خواہش کا اظہار نہیں کیا۔ اگر وہ خواہش رکھتے ہیں تو پہلے انہیں پل صراط عبور کرنا ہوگا۔ 2016 کے انتخابات میں آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کے حلقے وسطی باغ سے پی پی کے قمرزمان ، ن لیگ کے کرنل نسیم ، جماعت اسلامی کے عبدالرشید ترابی ، مسلم کانفرنس کے راجہ یاسین اور برادری ازم کے بت کو شکست دینا پل صراط ہی ہے ۔ پی پی کے اس دور میں ایکٹ 74 میں ترامیم کے چرچے بھی ہوتے رہے ہیں ۔ میرا مشورہ ہے کہ ایکٹ 74 میں ایسی ترامیم کی جائیں کہ صدر و وزیر اعظم کے علاوہ کسی کے محکمے کے وزیر کی ریاست میں غیر موجودگی کے دوران قائم مقام وزیر بھی کسی کو بنایا جا سکے ۔ آزاد کشمیر کے حکمران باریاں ضرور لگائیں۔چیف ایگزیکٹو کے مزے سب لے لیں ،، ریاستی عوام کے لیے بھی کچھ کریں ۔۔کیاایکٹ 74 میں یہی لکھا ہے؟ باریاں لگاتے رہو؟کچھ نہ کرو؟
Sardar Ashiq Hussain
About the Author: Sardar Ashiq Hussain Read More Articles by Sardar Ashiq Hussain: 58 Articles with 50673 views
The writer is a Journalist based in Islamabad. Email : [email protected]
سردار عاشق حسین اسلام آباد میں مقیم صحافی ہیں..
.. View More