ضرورت ہے چار گدھوں کی

پاکستان میں گدھوں کی آبادی 2013ء تک 49 لاکھ تھی جو 2015ء میں بڑھ کر 50 لاکھ تک جاپہنچی ہے۔ برائے مہربانی اب آپ یہ نہ سمجھ لیجیے گا کہ اب تک کے تینوں بجٹ ان ایک لاکھ گدھوں میں کسی ایک نے بنائے ہیں۔ بالکل نہیں یہ تمام بجٹ ہمارے محترم وزیر خزانہ اسحاق ڈار جو چیف اکاونٹنٹ ہیں، نے بنائے ہیں۔
ابن انشاء اپنے ایک مضمون "ضرورت ہے ایک گدھے کی" میں لکھتے ہیں کہ "اے صاحبو! پاک وطن کے رہنے والو! دیکھو دوسرے ملکوں میں گدھے کی کتنی مانگ ہے۔ کتنی عزت ہے۔ ادھر ہم ہیں کہ اپنے ملک کے گدھوں کی کماحقہ قدر نہیں کرتے۔ بعض لوگ تو گدھوں کو جو ہمارے ہاں ہر شعبہ زندگی میں بھر ے ہیں تحقیر سے بھی دیکھتے ہیں اوراکثر تو گدھے گھوڑے کی تمیز بھی اٹھا دیتے ہیں۔ جاپان میں گدھے نہیں ہوتے۔ یہ گدھا چڑیا گھر میں رکھا جائے گا۔ جاپانی بچے اسے ذوق شوق سے دیکھیں گے اور پوچھیں گے کہ یہ کہاں پایا جاتا ہے؟ جواب ملے گا پاکستان میں۔ اور یوں وہ پاکستان سے روشناس ہو جائیں گے اور یاد رکھیں گے کہ پاکستان بھی ایک ملک ہے وہ ملک جس میں گدھے پائے جاتے ہیں۔ اور افراط سے پائے جاتے ہیں"۔ دوستو آج کچھ بات گدھوں کی ہوجائے لیکن اُن گدھوں کی ہر گز نہیں جن کی طرف ابن انشاء نے اشارہ کیا بلکہ بات ہوگی اُن گدھوں کی جنہیں امریکہ میں عقلمند اور ہمارےہاں بیوقوف تصور کیا جاتا ہے۔

امریکہ کے صدارتی انتخابات میں اصل مقابلہ امریکہ کی دوبڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان ہوتا ہے جن میں ایک ری پبلکن پارٹی ہے اور دوسری ڈیموکرٹیک پارٹی۔ ری پبلکن پارٹی جس کا انتخابی نشان ”ہاتھی” ہے اس کے نظریات اور سوچ خالصتاً قدامت پسندی اور راسخ العقیدہ بنیادوں پرقائم ہے جبکہ ڈیموکریٹک پارٹی کی بنیاد روشن خیال، لبرل سوچ اور جمہوریت پسندی پر قائم ہے جس کا انتخابی نشان ”گدھا” ہے۔ امریکہ کے موجودہ صدر بارک اوباما دو مرتبہ امریکی صدارتی انتخاب گدھے کے نشان پر ہی جیتے ہیں۔ گدھا ایک ایسا جانور ہے جو ساری دنیا میں پایا جاتا ہے۔ دنیا کی سُپر طاقت گردانے جانے والے ملک امریکہ میں یہ عقل مند اور محنت کش جانور کی حیثیت سے جانا اور پہچانا جاتا ہے جب کہ برصغیر پاک و ہند اور دنیاکے ترقی پزیدممالک میں گدھے کو احمق، نادان اور ایک بیوقوف جانورسمجھا جاتا ہے۔ گدھا ایک ایسا جانور ہے جو محنت اور سخت جانی کی علامت سمجھا جاتا ہے لیکن ہمارے معاشرے میں جو آدمی احمق ہو لوگ اُسے گدھے سے تشبیہ دیتے ہیں۔

امریکہ کی طرح پاکستان میں بھی گدھا کافی عرصے سے ہماری سیاست میں داخل ہے۔ اداکار رنگیلا اور سید کمال نے ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں ایک سیاسی فلم "انسان اورگدھا" بنائی تھی جس میں ہیرو کا کردار اداکار رنگیلے نے ادا کیا تھا۔ اس فلم پر پابندی بھی لگی تھی کیونکہ اس فلم میں رنگیلے نے گدھوں کے ہجوم کے سامنے بھٹو کے انداز میں تقریر کی تھی۔ مئی 2013ء کے انتخابات کے موقعہ پر رحیم یار خان میں اقلیتوں کی مخصوص نشست کے ایک امیدوار مہرا ہنری بھیل نے اپنی پوری انتخابی مہم گدھا گاڑی پر چلائی۔ چک 54کے رہائشی مہرا بھیل حلقہ پی پی 294 کے لیے سجی سجائی گدھا گاڑی پر ووٹ مانگنے نکلتے تو اُن کے ساتھ ڈھولچی بھی ہوتے تھے جو ڈھول بجا بجا کر گاؤں والوں کو مہرا بھیل کی طرف متوجہ کرتےتھے۔ مہرا بھیل فخریہ یہ کہتے تھے کہ "پجیرو گروپ" ملک کے غریب عوام کی حالت نہیں بدل سکتے۔ اگر میں منتخب ہو گیا تو اقلیتوں اور مسلمانوں سب کے مسائل حل کروں گا۔

پاکستان میں اقتصادی ترقی کی گنگا الٹی بہہ رہی ہے، جو شخص پرویزمشرف کے دور میں 37 ہزار روپے کا مقروض تھا اب ایک لاکھ روپے سے زیادہ کامقروض ہے، ترقی تو ہوئی ہے، بس ذرا الٹی ہے، جاو سینے پر ہاتھ مار کر سب کو بتاو کہ ہم ہیں لکھ پتی مقروض قوم۔ وزیراعظم نواز شریف کی سربراہی میں موجودہ حکومت اکتوبر2013سے ستمبر 2015 تک 7 ارب 62کروڑ 35لاکھ 70ہزار ڈالر کا قرض لے چکی ہے جبکہ اسی عرصے میں 9ممالک پاکستان کو 4ارب 13کروڑ70لاکھ15ہزار ڈالر کی امداد بھی دے چکے ہیں۔ اس کے علاوہ رواں سال جولائی سے اکتوبر کے دوران بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ساڑھے6 ارب ڈالر وطن بھیجے گئے۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق ساڑھے 6 ارب ڈالر کی یہ رقم گزشتہ سال کے اسی عرصے میں بھیجی گئی رقم سے 5 فیصد زیادہ ہے۔ لیکن اس قرضے، امداد اور اپنے بھائیوں کے بھیجے ہوئے کثیر زرمبادلہ کے باوجود آبادی کی اکثریت بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔ ملک کی 65فیصد آبادی غربت یا غربت کی لکیر سے نیچےزندگی گزار رہی ہے، پینے کا صاف پانی، صحت اور تعلیم ملک کی کثیر آبادی کو میسر نہیں۔ بھوک سے لڑتے ہوئے پاکستانی عوام ایک ایسے استحصالی اور شرمناک نظام میں زندہ رہنے پر مجبور ہیں، جہاں اُنہیں آئی ایم ایف، ملٹی نیشنل کمپنیوں اور ملک کے وسائل پر قابض گروہ نے زندہ درگور کر رکھا ہے۔ نہ علاج کرانے کےلیے پیسے ہیں اور نہ پیٹ بھرنے کا کوئی مستقل سہارا۔

لیکن ہو سکتا ہے کہ گدھوں کی بدولت پاکستانی عوام کے حالات تبدیل ہو جائیں۔ پاکستان میں گدھوں کی آبادی 2013ء تک 49 لاکھ تھی جو 2015ء میں بڑھ کر 50 لاکھ تک جاپہنچی ہے۔ برائے مہربانی اب آپ یہ نہ سمجھ لیجیے گا کہ اب تک کے تینوں بجٹ ان ایک لاکھ گدھوں میں کسی ایک نے بنائے ہیں۔ بالکل نہیں یہ تمام بجٹ ہمارے محترم وزیر خزانہ اسحاق ڈار جو چیف اکاونٹنٹ ہیں، نے بنائے ہیں۔ 2015ء کا 43 کھرب13 ارب روپے کا وفاقی بجٹ بھی اسحاق ڈار نے ہی بنایا ہے جس میں ایک عام مزدور کو صرف 13 ہزار روپے میں پورا مہینہ گزارنے کو کہا گیا ہے۔ حکومتی دعوں اور وعدوں کے باوجود مزدور کو ان کا حق نہیں ملتا، تنخوہواں کی نسبت ضروریات زندگی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے نے اُن کی زندگی مشکل بنادی ہے۔ آٹھ سے دس گھنٹے کام کرنے والے مزدور آج بھی اپنی جائز اجرت سے محروم ہیں۔ ایک عام مزدور کا صرف 13 ہزار روپے میں پورا مہینہ گزارنا ناممکن ہے۔ مزدوروں کا کہنا ہے کہ حکومت اُن کے بچوں کو بہتر تعلیم وصحت فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے اور انہیں پرائیوٹ اسکولوں اور اسپتال کے اخراجات برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ جون 2013ء میں نواز شریف کے تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے کے بعد سے اب تک تین بجٹ آچکے ہیں اور تینوں ہی اسحق ڈار نے پیش کیے ہیں۔ ان بجٹوں سے غربت اور مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے اور عوام کا معیار زندگی گرا ہے لیکن ان باتوں کو ماننے کےلیے نہ تو نواز شریف تیار ہیں اور نہ اسحاق ڈار۔

خوشی محمد جو ہمارے اچھے دوست اور وزیر اعظم نواز شریف صاحب کے بہت زیادہ حامی ہیں جب اُن سے سوال کیا گیاکہ بھائی یہ ایک لاکھ روپے فی فرد کے حساب سے چڑھ جانے والا قرض کیسے ادا ہو گا؟ پہلے تو وہ مسکرائے اور پھر بولے بہت آسان ہے صرف چار گدھے پال لو۔ ہم نے پوچھا یار گدھے پالنے سے کیا ہوگا؟ جواب میں خوشی محمد نے کہا کہ شاید آپ لوگ اقتصادیات سے بالکل نابلد ہیں۔ آپ نے نہیں پڑھا کہ اقتصادی سروے رپورٹ کے مطابق نواز شریف کےدو سالہ دور اقتدار میں گدھوں کی آبادی میں ایک لاکھ کا اضافہ ہوا ہے جبکہ گھوڑوں، اونٹوں اور خچروں میں کوئی اضافہ نہیں دیکھا گیا۔ اقتصادی سروے رپورٹ کے مطابق پیپلزپارٹی کے گزشتہ 5 سالہ دور حکومت میں گدھوں کی آبادی میں چارلاکھ کا اضافہ دیکھا گیا تھا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو گدھوں کی آبادی میں 6 لاکھ کا اضافہ کرنے میں پوری دہائی لگ گئی جبکہ نواز شریف نے 1999ء میں اتنی ہی تعداد میں گدھے بڑھانے میں محض دو سال لگائے۔

بقول خوشی محمد گدھے کی کھال اور ہڈیوں کی برآمد سے پنجاب میں ایک سال کے دوران گدھوں کی قیمت تقریباً دُگنی ہوگئی ہے، نرخوں میں اضافے کے باعث گدھوں کی چوریوں میں بھی اضافہ ہواہے۔ ماہرین کے مطابق ایک سال کے دوران پنجاب میں گدھے کی اوسط قیمت 20 ہزار سے بڑھ کر 30 سے 35 ہزار روپے ہو گئی ہے۔ گدھے کی کھالیں اور ہڈیاں ویت نام، ہانگ کانگ اور چین کو برآمد کی جارہی ہیں جہاں یہ جلد پر لگانے والی کریمیں اور جیل بنانے میں استعمال ہوتی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ گدھے کی کھال 10 سے 15 ہزار روپے جبکہ ہڈی 7 روپے کلو میں برآمد کی جارہی تھی۔ کچھ افراد گدھے کا گوشت بھی 300 روپے کلو میں فروخت کررہے تھے۔ نرخوں میں اضافے کے باعث پنجاب میں گدھے چوری ہونے کے واقعات بڑھے ہیں اور رواں سال جنوری میں گدھے پالنے والوں نے چوری کے خلاف فیصل آباد میں مظاہرہ بھی کیا تھا۔

ایک نئی خبر یہ بھی ہے کہ چین اب پاکستان میں گدھوں کی افزائش کی صنعت میں بھی سرمایہ کاری کرے گا۔ چینی دوستوں نے خیبرپختونخوا والوں کو ایک دلچسپ پیشکش کی ہے۔ چینی سرمایہ کاروں کے تعاون سے خیبرپختونخوا میں 'گدھے بڑھاو اور خوب پیسے کماو' کی پیشکش کی جارہی ہے۔ پشاور میں چینی سرمایہ کاروں نے وزیراعلیٰ پرویز خٹک کو پیسے کمانے کا آسان طریقہ بتایا، کہا کہ چین والوں کو گدھوں کی ضرورت ہے، پیسہ ہم لگاتے ہیں،گدھوں کے فارم بناتے ہیں، گدھوں کو پال پوس کر جوان کرنا آپ کا کام، اور اس کے بعد ہم انہیں اپنی مصنوعات میں استعمال کے لیے پاکستان سے خرید لیں گے۔ چین کو گدھے بھجوائیں اور زرمبادلہ کمائیں۔ وزیراعلیٰ پرویزخٹک کو بھی پیشکش پسند آئی اور کام آگے بڑھانے کا وعدہ کر لیا۔ ہوسکتا ہے ہمارے فارغ بیٹھے صدر ممنون حسین جلدہی ایک آرڈیننس کے ذریعے ہر پاکستانی کو اس بات کا پابند کردیں کہ آئندہ سے ہر پاکستانی چار گدھے ضرور پالے گا اور پال پوس کر حکومت کے حوالے کرے گا۔ اب خوشی محمد کی بات بھی سمجھ میں آرہی کہ اگر ہر پاکستانی چار گدھے پال لے تو اپنے حصے کے ایک لاکھ کا قرض آسانی سے ادا کردے گا بلکہ کچھ نہ کچھ پس انداز بھی کر لے گا۔ تو جناب حکومت کو ضرورت ہے بس چار صحت مندگدھوں کی۔
Syed Anwer Mahmood
About the Author: Syed Anwer Mahmood Read More Articles by Syed Anwer Mahmood: 477 Articles with 443662 views Syed Anwer Mahmood always interested in History and Politics. Therefore, you will find his most articles on the subject of Politics, and sometimes wri.. View More