سائنسی ترقی اور انسانیت کا قتل عام

فہم و ادراک عقل و شعور کی مختلف منازل کو طے کرکے حاصل کیا جاتا ہے اور ان منازل کو طے کرنے کیلئے انسان نے اپنی تما م تر صلاحیتوں اور طاقتوں کو صرف کرکے اپنے لئے مختلف قسم کی سائینسی ایجادات میں ترقی حاصل کی جن سے نوع انسانی نے مختلف میدانوں میں ان ایجادات سے فائدہ حاصل کیا۔ انسان دن رات اس تگ و دو میں رہا کہ وہ کسی طرح اس کائینات کے وہ راز حاصل کر لے جو اس میں پنہا ں ہیں۔ایک طرف تو وہ چاند ستاروں پر کمندیں ڈالنے کیلئے تگ و دو میں مصروف ہے اور سائینسی ایجادات سے انسانوں کو متحیر کرکے انکی زندگیوں کو سہل بنانے میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے جبکہ دوسری طرف یہی انسان اسی سائینس کا سہارا لیکر مختلف قسم کے جان لیوا اسلحہ جات تیار کر رہا ہے جس سے یوں محسوس ہو رہا ہے کہ انسان کی وہ درندگی جو وہ قبل از تاریخ غاروں اور جنگلوں میں رہ کر گزارا کرتا تھا یا پھر یوں کہہ لیجئے کہ ہم دوبارہ اس پتھر کے دور میں واپس آ گئے ہوں اور انسان کی وہ درندگی بھی لوٹ کر واپس آ گئی ہوجب وہ اپنے ہی جیسے انسان کے لہو کا پیاسا ہوا کرتا تھا اور اپنی آتش دوزخ کو بجھانے کیلئے انسان تک کو کھا جایا کرتا تھا۔ لالچ نے انسان کو حیوان بنا کر رکھ دیا ہے اور پوری دنیا میں امن و سلامتی کی راہیں مسدود ہو کر رہ گئی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں مختلف قسم کی ذات، برادری، فرقہ پرستی اور زبان کے نام پرانسانوں کا آئے دن خون بہانا روز مرہ کا معمول بن چکا ہے ۔ اسطرح ان ظالم اور بربریت پسندلوگوں کو انسان اور مسلمان کہنا انسانوں اور مسلم معاشرے کی توہین ہے ۔دنیا کا کوئی مذہب یا انسانی منشور کسی انسان کا خون بہانے کی اجازت نہیں دیتا۔ مگر ہمیں یہ کہتے ہوئے شرم آرہی ہے کہ ہم اسلام کے نام پر آئے روز اپنی ہی عبادت گاہو ں میں انکے تقدس کو پائمال کرکے اپنے ہی مختلف فرقوں کے مسلمانوں پر گولیوں کی بوچھاڑ کرکے ، بم اور راکٹ داغ کر اور خود کش حملے کرکے بے گناہ اور معصوم شہریوں کو خون میں نہلا رہے ہیں ۔ کہاں ہے ہمارا دین اور کہاں ہے ہماری انسانیت؟؟ کیا ہم جنگلی درندوں اور بھیڑیوں سے کم ہیں؟؟ یہ جنگلی درندے معاشرے کے امن اور سکون کو برباد کرکے اسے تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں آئے دن ہنگامے خون ریزی انسانیت کی توہین اور تذلیل پوری دنیا میں امن و آشتی کی تباہی کیلئے ایک بہت بڑا خطرہ ہیں ۔ اسی طرح اگر بین الاقوامی تناظر میں دیکھیں تو ایک وہ سپر پاور جو اپنے آپکو تہذیت و تمدن کا ٹھیکیدار سمجھتی ہے وہ پوری کائینات پر اپنا غلبہ جمانا چاہتی ہے اور اسطرح پوری دنیا کی ڈور اپنی مرضی سے ہلا کر اسے اپنا غلام بنا کر رکھنا چاہتی ہے تاکہ پوری دنیا پر اسکی عملداری اور تسلط ہو اور آج وہ سپر پاور جسے امریکہ کہتے ہیں ایک بد مست ہاتھی کیطرح جب چاہے جہاں چاہے اور جس وقت چاہے وہاں تہذیب کی تمام حدود پھلانگ کر انسانوں کیساتھ وحشیانہ سلوک کرنا انکی عزت کو پائمال کرنا وہاں پر انسانوں پر گولیوں کی بوچھاڑ کرنا اور انتہائی جدید ترین اسلحے سے لیس ہو کر لاکھوں انسانوں کو چشم زدن میں خون میں نہلا کر انہیں دھنی ہوئی روئی کی مانند کر دینا اس کا روز مرہ کا معمول بن چکا ہے ۔ ہیٹی ہو یا ہند چینی، افغانستان ہو یا پھر عراق ،انگولا ہو یا کانگویا پھر کوریا یا ویتنام ہو امریکہ اپنے ذاتی مفادات حاصل کرنے کیلئے جب چاہتا ہے مختلف حیلوں بہانوں سے فوج کشی کرکے لاکھوں معصوم بچوں ،بوڑھوں اور جوان لوگوں پر بمباری کرکے اور کشت و خون کا بازار گرم کرکے پوری دنیا میں خوف و ہراس پھیلاتا اور وہاں کے پر امن انسانوں کو تقسیم کرکے آپس میں لڑوا کر ان مختلف ممالک میں خون بہا کر درندگی اور سفاکی کے ابواب لکھتارہا ہے اور یہ اپاہج لوگ جو امریکی درندگی کا شکار ہوئے یہ تاریخ میں ہمیشہ امریکہ کی سفاکی اور درندگی کی شہادت پیش کرتے رہینگے جو پوری دنیا کیلئے اس بات کی دلیل ہے کہ وہ امریکہ جو اپنے آپکو امن کی علامت کے طور پر پیش کرتا ہے از خود ایک بہت بڑا دہشت گرد ہے اور تمام ممالک کواقوام متحدہ سے یہ مطالبہ کرنا چاہئے کہ وہ امریکہ کو مختلف ممالک میں اپنے ذاتی مفادات کی آڑ میں فوجی یلغار کے ذریعے وہاں کی معصوم عوام پر آگ برسا کرتباہ و برباد کرنے کے جرم میں مقدمات قائم کرکے عبرتناک سزا دے۔ اس سے بڑی اور دہشت گردی کیا ہوگی کہ وہ پوری دنیا میں دہشت گردی کو مٹانے کی آڑ میں اس کے وسائل پر قبضہ جما کر انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار رہا ہے۔ لہٰذا پوری دنیا کے انسان اگر بین الاقوامی طور پر رنگ و نسل، مذہب ، برادری ازم، لسانیات اور علاقائی تعصبات کی عینک کو اتار پھینکیں اور صرف انسانیت کا احترام کرنا سیکھ لیں تو پوری دنیا میں امن قائم ہوسکتا ہے اور امریکہ کی بد معاشی اور دہشت گردی سے چھٹکارہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔
Syed Anees Bukhari
About the Author: Syed Anees Bukhari Read More Articles by Syed Anees Bukhari: 136 Articles with 138581 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.