بین المذاہب اور بین المسالک ہم آہنگی

قوموں اور مذاہب کے درمیان ہم آہنگی ویسے تو دور جدید کی اختراع ہے لیکن اس کی تاریخ بہت پرانی ہے شہنشاہوں بادشاہوں راجاؤں سے بھی پہلے کے ادوار جس میں نبی کریم حضرت محمد مصطفی ﷺ سے لیکر خلافت راشدہ تک کی تاریخ میں بھی دوسرے مذاہب سے رواداری امن و آشتی اور حسن سلوک کی تلقین و نصیحت کی گئی ہے خود بھی اس پر عمل پیرا ہوئے اور پیروکاروں کو بھی اس کی تلقین کی ۔ اسلام وہ واحد دین ہے جو سب مذاہب میں سب سے زیادہ امن و محبت کا درس دیتا ہے اور اس کا طرہ امتیاز رہا ہے کہ زور و جبر سے مبراہو کر اپنے اپنے کردار و افعال کے ذریعے سے ہم آہنگی کا سبق دیا جائے۔ تاریخ میں کہیں پر مصلحتوں کے پیش نظر حسن سلوک اور رواداری برتی گئی تو کہیں پر اپنے مقاصد اور عقائد کے پرچار کیلئے باہمی محبت و یگانگت کا اہتمام کیا گیا۔بین المذاہب ہم آہنگی کو باقاعدہ طور پر متعارف کرنے کا سہرا جدہ کے کنگ عبداﷲ II اور شہزادہ غازی بن محمد کے سر جاتا ہے جنہوں نے باقاعدہ طورپر اقوام متحدہ کے65 ویں اجلاس میں23 ستمبر1020 کو اس کا مسودہ پیش کیا جس میں بین المذاہب ہم آہنگی کا ایک مکمل ہفتہ منانے کی تجویز دی گئی جسے اقوام متحدہ نے تسلیم کرتے ہوئے اسے باقاعدہ طور پر ہر سال فروری کے پہلے ہفتے میں منانے کا اعلان کیا گیا۔

بین المذاہب ہم آہنگی کے اصل محرک غازی بن محمد نے 2007 میں پہلی مرتبہ اسے دنیا کے سامنے پیش کیا جس میں29 ممالک نے سپانسر شپ کی جن میں البانیا آذر بائیجان بحرین بنگلہ دیش کوسٹاریکا ڈومینکن جمہوریہ مصر سلواڈور جارجیا گوئٹے مالا گیانا ہندورس قازقستان کویت لائبیریا لیبیا موریطس مراکو عمان پیراگوئے قطر ریشین فیڈریشن سعودی عرب تنزانیہ ترکی متحدہ عرب امارات یوراگوئے اور یمن شامل ہیں۔اس کا بنیادی تصور یہ تھا کہ اس دنیا کے تمام لوگ ایک دوسرے کے ساتھ باہمی امن و محبت اور خیر سگالی کے جذبات کے پیش نظر اپنے اپنے عقائد میں رہتے ہوئے زندگیاں گزاریں۔ بین المذاہب ہم آہنگی دو چیزوں پر دلالت کرتا ہےLove of God and love of neighbour OR Love of the good and love of the neighbour. ۔ سب کے ساتھ محبت اسی طرح کی جائے جیسے کہ ایک رب اپنے بندوں سے کرتا ہے اپنے قریبی لوگوں ہمسایوں اور غیر مذہب کے لوگوں کو تعظیم و تکریم دی جائے ان کے دیوی دیوتاؤں کو برا بھلا نہ کہا جائے ان کے عقائد پر قدغن نہ لگائی جائے انہیں اپنے کردار و اعمال اپنے رویوں اپنی عادات و خصائل کے اپنے دین کی طرف راغب کیاجائے محبت خدا کیلئے کی جائے انسانیت کا درس اور انسانیت کی فلاح ہی سب سے بہتر طریقہ ہے کہ دنیا پر امن رہ جائے

اگر تاریخ کا مطالعہ و مشاہدہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ divide and rule کی پالیسی مغرب کی پست ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے وہ لوگ اس بات سے خائف تھے کہ اگر کچھ لوگ کچھ مذاہب کچھ ملک ہمارے خلاف متحد ہوگئے کسی ایک کاز کیلئے اکٹھے ہوگئے تو ہمیں اس دنیا میں اپنی بقا کو سنبھالنا مشکل ہوجائے گااور اسی بنیاد پر انہوں نے ہر جگہ اپنی منفی پالیسیوں ریشہ دوانیوں اور باہمی تنازعات کو ہوا دے مذاہب اقوام اور ممالک کے درمیان ایک گرم و سرد جنگ کا آغاز مسلسل جاری رکھا جس کی وجہ سے دنیامیں کئی جنگیں ہوئیں اور لاکھوں کے تعداد میں لوگ لقمہ اجل بن گئے اور فی الوقت بھی یہ عمل جاری ہے لیکن مسلمدنیا کی جانب سے بین المذاہب ہم آہنگی کاسب سے پہلے درس دیکر ایک مرتبہ بھی یہ بات ثابت کردی گئی کہ اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جو بین المذاہب ہم آہنگی بین المذاہب خوشحالی اور بین المذاہب مکالمہ جات پر یقین رکھتا ہے اورشدت پسندی تعصب اور پسندو ناپسند سے بالا ہوکر انسانیت کی فلاح و بہبود کا حامی ہے اور مسلمانوں کی خواہش ہے کہ ان تمام قوتوں کے خلاف مزاحمت کی جائے جو مذاہب کے درمیان غلط فہمیاں دوریاں بداعتمادی اور بے یقینی کی فضا قائم کرتے ہیں اقوام و مذاہب کو تقسیم کرکے اپنے مذموم عزائم کی تکمیل چاہتے ہیں اسی طرح بین المسالک ہم آہنگی کا سلسلہ بھی مرطوب ہونا چاہئے کہ ہم فرقوں میں بٹ کر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی خاطر انتہائی حد تک چلے جاتے ہیں نام نہاد ملاں اپنی اپنی سوچ اور ضرورت کے مطابق تشریح کرکے مسلم امہ میں فاصلے پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں مسلم امہ کے دانشور علما کرام کوبھی اس مسئلے کو سنجیدگی سے لینا چاہئے کہ ہم نے دین کو ایک سائیڈ پر رکھ کر مسالک کو بنیاد بناکرمسلمانوں کے درمیان ایک خلیج حائل کردی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ خلیج بڑھتی جارہی ہے تمام مسالک کے علما ئے کرام اس سلسلے میں اپنی خدمات پیش کریں اور بین المسالک ہم آہنگی خیرسگالی اور رواداری کو پروان چڑھائیں۔

یہ حقیقت ہے کہ انسانیت ہر جگہ محبت امن بھائی چارہ اور ہم آہنگی سے جڑی ہوئی ہے یہ صرف مفادات سے منسوب نہیں ہے ہر شخص خواہ اس کا مذہب اور عقیدہ کوئی بھی ہو اسے برداشت تحمل حسن سلوک باہمی عزت اور باہمی تعاون جیسے مثبت رویوں سے ہی رام کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان بھی ہمیشہ سے اس پالیسی پر عمل پیرا ہے اور اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری کرتا ہے اور ہر طرح سے facilitate کرتا ہے لیکن ہمسایہ ملک اپنی ہٹ دھرمی تعصب پسندی انتہا پسندی جیسے مکروہ عوامل میں پھنسا ہوا ہے اور عالمی امن کیلئے خطرہ ہے جو کہ عالم کیلئے لمحہ فکریہ ہے اور سب سے اہم نکتہ جو کہ بین المذاہب کے حوالے سے ہے کہ’’آو اس بات کی طرف جو ہم میں اور تم میں مشترک ہے‘‘القرآن
 
liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 192033 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More