شہزادہ ولید بن طلال پر بہتان تراشیاں

شہزاداہ ولید بن طلال آل سعود

ساٹھ سالہ شہزادہ ولید بن طلال آل سعود، خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان کا بھتیجا،شاہ عبدالعزیز کا پوتا اورلبنان کے پہلے وزیر اعظم ریاض الصلح کے نواسے ہیں،گریجویشن اور ماسٹرکے علاوہ 23 پی ایچ ڈی ڈگریوں کا حامل ہے، یہ دنیا کا 20 واں امیر ترین اور سعودی عرب کا سب سےامیر ترین شخص ہے۔ اس کی دولت کا تخمینہ 32 بلین ڈالرسے زیادہ کا لگایا گیا ہے۔ شہزادہ ولید بن طلال کنگڈم ہولڈنگ کمپنی کا مالک ہے۔ یہ کمپنی بینکنگ، فنانشل سروسز، رئیل اسٹیٹ، ہوٹلز، میڈیا، انٹرٹینمنٹ اور انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کے شعبوں میں سرمایہ کاری کررہی ہے، یہ سٹی گروپ کے بھی بڑے شیئر ہولڈر اور ٹوئنٹی فرسٹ سنچری فوکس کے دوسرے سب سے بڑے ووٹنگ شیئر ہولڈر ہیں۔ شہزادے کی ملکیت میں ایک ہوائی جہاز A380 مالیت 428ملین ڈالر، ایک بوئنگ جہاز 747 مالیت 352 ملین ڈالر، ایک ہوائی جہاز A321 مالیت 113.7 ملین ڈالر، ایک برٹش ائروسپیس 125 مالیت ایک کروڑ 29 لاکھ 95 ہزار ڈالر، ایک لگژری بحری جہاز جس میں پانچ بڑے فرشے، ڈسکو ہال، سینما، 12 میٹنگ رومز، دو ڈبل بیڈ، لگژری ڈائننگ ہال اور سوئمنگ پول ہیں،اس بحری جہاز کی مالیت 26 کروڑ 3 لاکھ 79 ہزار 645 ڈالر ہے،امریکا، برطانیہ، دبئی اور دیگر ممالک میں ہوٹلز،جائدادیں اور محلات اس پر مستزاد ہیں،انہوں نےٹویٹر، ایپل کمپنی، اے اوایل، ایم سی ایل، موٹرولا، فوکس براڈکاسٹنگ، ٹی ڈبلیو ائر لائن اورکوڈاک کمپنی میں بھی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ شہزادہ ولید بن طلال نے اپنی ساری دولت فلاحی کاموں کے لیے وقف کر دی ہے۔ یہ دولت قدرتی آفات کے شکار لوگوں کی بحالی، باہمی رابطوں کے فروغ اور مساکین وغرباء کی امداد میں صرف کی جائے گی،ایسے شخص کی طرف سے اپنی ساری دولت عطیہ کر دینا واقعی دل گردے کا کام ہے،سعودی شہزادے نے ایثار کی جو مثال قائم کی ہے اگر یہی مثال ہمارے امراء وشرفاء سرانجام دیں، مثلاً: پاکستان میں شاہد خان اپنی 4.6 بلین ڈالر کی دولت، میاں محمد منشاء 2.6 بلین ڈالر، آصف علی زرداری 1.8 بلین ڈالر، انور پرویز 1.67 بلین ڈالر، میاں نوازشریف 1.4 بلین ڈالر، صدر الدین ہاشوانی 1.1 بلین ڈالر، ملک ریاض حسین 1.1 بلین ڈالر،حاجی عبد الرزاق کے صاحبزادے 1بلین ڈالر، طارق سیگل 850 ملین ڈالر، دیوان مشتاق 800 ملین ڈالر، سلطان لاکھانی 800 ملین ڈالر، رفیق حبیب 900 ملین ڈالر، سیٹھ عابد 780 ملین ڈالراور عبدالغفور 660 ملین ڈالرکے ساتھ سرِ فہرست ہیں،ان حضرات کو بھی شہزادہ ولید کی طرح اپنی تمام دولت، یا کم ازکم نصف دولت ملک وملت کے لئے وقف کر دینا چاہیئے،تاکہ دوسروں تک بھی ان کے توسط سے کچھ راحت اور زندگی گزارنے کے وسائل بہم پہنچے، شہزادہ ولید بن طلال سیلف میڈ آدمی ہے، اس نے اپنی محنت کے بل بوتے پر یہ ساری دولت کمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات مہربان ہوئی اور اس پر ہر طرح کی فراوانی کر دی،وہ دیکھتے ہی دیکھتے امراء کی صف اول میں اور پھر پوری دنیا کے ارب پتیوں میں شامل ہو گیا، اس کا طرز زندگی بھی بدل گیا، ظاہر ہے جب دولت ہاتھ آتی ہے تو انسان کا لائف سٹائل بدل جاتا ہے،یہ دولت انسان کو ایسی راہ کا مسافر بنا دیتی ہے جس کے چاروں اطراف رنگینیاں اور عیش و عشرت رقصاں ہوتی ہیں، انسان نہ چاہتے ہوئے بھی ان کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے اور ان کی لذتوں میں کھو جاتا ہے، شہزادہ طلال نے بھی بھرپور زندگی گزاری، مگرخاندانی نجابت وشرافت اور اللہ ورسولﷺ پر مضبوط عقیدے کی وجہ سے وہ فسق وفجور سے دور رہا،ان کے متعلق اور دیگر عرب شہزادوں کے حوالے سے اغیار نے قسم قسم کی افواہیں پھیلائیں،البتہ حقائق طشت ازبام ہونے پر سب کی سب دھری کی دھری رہ گئیں،کچھ دنو قبل ان پر موجودہ شاہی سیٹ اپ سے شدید ناراضگی کا الزام لگایا گیا،بی بی سی تک نے خوب مرچ مصالحہ لگاکر اسے پیش کیا،پرسب اُن کی ہر دلعزیز شخصیت پر بے جا اتہامات سے زیادہ کچھ نہ تھا۔ حال ہی میں شہزادہ ولید کی طرف ایک من گھڑت انٹرویو منسوب کیاگیا، جس میں ان کی جانب نسبت کرکے یہ کہا گیا کہ وہ اسرائیل فلسطین جنگ میں اسرائیل کا ساتھ دیں گے، کویت کے جس اخبار کا حوالہ دیا گیا ہے، شہزادہ نے اپنے تردیدی بیان میں(القبس) کواپنے کسی بھی انٹرویو کا انکار کر دیا ہے،وہ کہتے ہیں، میں نے انہیں کوئی بیان یا انٹرویو دیا ہی نہیں،بعض اوقات اس طرح کے معاملات میں لوگ اگلے دن دباؤ پڑنے پر کہدیتے ہیں کہ ہمارا بیان توڑ مروڑ کر پیش کیاگیا، مگر یہاں ان کا کہنا یہ ہے کہ انہوں نے ان سے کوئی بات ہی نہیں کی۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ جب سے سعودی عرب نے بین الاقوامی معاملات میں کھل کر حصہ لینا شروع کردیا ہے، یمن، شام،عراق، مصر اور لبنان میں اپنا واضح اور دو ٹوک موقف دُہرایا ہے، اس کے بعد باقاعدہ اور منظم انداز میں ان کے خلاف گہری سازشیں چل رہی ہیں،الشرق الاوسط کی رپورٹ کے مطابق مغربی دنیا اور عالم اسلام میں اس کام کے لئے کچھ لابیاں خریدی جا چکی ہیں،روس نے جب سے شام پر حملہ کردیا ہے، اس کے بعد ان چیرہ دستیوں میں تیزی دیکھنے میں آرہی ہے،مڈل ایسٹ ان دنوں انارکی کا شکار ہے،ذمہ دار صحافت کا تقاضا یہ ہے کہ وہاں کے متعلق ہر خبر وتجزیہ نہایت باریک بینی سے دیکھا اور پرکھا جائے ،تاکہ خوامخواہ کی بد گمانیوں سے بچا جا سکےاور کسی طرح وہاں بدامنی اورخون ریزی کا سد باب ہو۔٣٢٣٢
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 813598 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More