بچے جب بلوغت کی عمر کو پہنچ جاتے ہیں

مشینوں کی آمد نے انسانوں کی زندگی تو آسان بنا دی ہے مگر ان کے لئے مسائل کے انبار بھی کھڑے کر دیئے ہیں ۔ مشینیں کام کرنے میں انسان کی مدد کر سکتی ہیں ۔ اچھی زندگی گزارنے اور اچھے راستے کے لئے انسان کے رہنمائی کا فریضہ سرانجام نہیں دے سکتیں ۔ چنانچہ جہد مسلسل میں رہنے والا انسان آج دھائی دے رہا ہے میں پریشان ہوں ، میں اپنے مسائل کس کو بتائوں، '' میں کس سے کہوں'' ؟ آج کے نوجوان کا تعلق انسانی رشتوں سے کمزور اور مشینوں سے گہرا ہو رہا ہے ۔ چنانچے '' میں کس سے کہوں'' ؟ آج کے نوجوان کا بڑا مسئلہ ہے۔ نوجوان لڑکے ہوں یا لڑکیاں ان کا اپنے خاندان ، والدین بہن بھائیوں اور رشتہ داروں سے تعلق کی جگہ مشینوں کے لئے بنائے گئے پروگراموں نے لے لی ہے ۔ نوجوان اپنے مسائل کے لئے ان مشینوں سے ہی رجوع کرتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا گوگل نوجوانوں کے ان مسائل کا حل بتا پائے گا، کیا گوگل انہیں بہتر راستہ اختیار کرنے کے لئے مشاورت دے سکے گا اور کیا گوگل کی رہنمائی معاشرتی روایات میں رکاوٹ تو نہیں بنے گی ؟۔ جہد مسلسل میں رہنے والے انسان کی کہا نی بھی بڑی عجیب ہے ۔ ماں کی گود میں بچے کی توجہ ، مرکز و محور ماں کے لئے ہوتی ہے وہ چاہتا ہے اس توجہ سے محروم نہ رہے ۔ وہ اپنے مسائل کے لئے اسی دروازے پر دستک دیتا ہے ۔چلنے پھرنے کے قابل ہونے پر اسے کھانے پینے اور توجہ کی فکر لاحق رہتی ہے ۔ سکول کی زندگی شروع ہوتے ہی بچہ نئے مسائل اور مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے ۔ تعلیم سے فراغت پر شادی اور پھر روزگار کی اسے فکر لاحق ہو جاتی ہے اور یہی انسان جب باپ بنتا ہے تو اسے اپنے بچوں کی فکر لاحق رہتی ہے ۔ بچے جب بلوغت کی عمر کو پہنچ جاتے ہیں تو یہی انسان ماں کے روپ میں ہو یا باپ کے روپ میں اس نے رہنمائی کا فریضہ ادا کرنا ہوتا ہے لیکن کیا رہنمائی کے اس فریضے کے لئے بچے بھی آمادہ ہیں اور کیا بچے اپنے والدین کے ساتھ اتنا تعلق رکھتے ہیں کہ وہ مسائل کے لئے ان سے رجوع کریں اور ان سے مشاورت کریں ۔ ایم ڈی پی ٹی وی محمد مالک کہتے ہیں کہ اس معاشرے میں سوال کرنے والے کو بد تمیز سمجھا جاتا ہے ، جنسی مسائل پر بات کرنا ، مشورہ کرنا اور مسائل کا حل تلاش کرنا باعث شرم بات سمجھی جاتی ہے ۔ ایسے مسائل پر بحث کو بے حیائی اور فحاشی کا نام دیا جاتا ہے ۔ انہی مسائل پر پاکستان ٹیلی ویژن کا کھیل '' میں کس سے کہوں'' ان ائیر ہوا، کھیل کو پسند کیا گیا۔ میرے خیال میں آج کے نوجوان کو اس کے مسائل کے حل کا راستہ بتانا اسے مشاورت کے لئے ایک بہترین طریقہ سکھانا اچھی بات ہے ۔ اچھے کام کے بدلے میںتنقید بھی آتی ہے اس کی پروا نہیں کرنی چاہئے ۔ '' میں کس سے کہوں'' کے مصنف شاہد ندیم کا کہنا ہے کہ گوگل آپ کو معلومات فراہم کر سکتا ہے۔ ان معلومات کی بنیاد پر مسائل کا حل تلاش نہیں کیا جا سکتا ۔اس لئے کہ معلومات کو استعمال میں لانے کے لیے بہترین تجزیہ کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ میں ایک بچے اور بچی کا باپ ہوں ۔ مجھے ایسے تجزیے کا تجربہ حاصل ہے چنانچہ میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ بلوغت کی عمر پر پہنچنے والے بچوں کی چوکیداری نہ کی جائے ان کے راستے میں پہرے نہ بٹھائیں جائیں بلکہ ان کے ساتھ دوستی کر کے انہیں بہترین مشورہ دیا جائے۔ اچھے راستے کے انتخاب میں ان کی مدد کی جائے ۔ اپنی معلومات اور تجربے کی بنیاد پر اچھے راستے کے لئے بہترین تجزیہ کر کے دیا جائے ۔ '' میں کس سے کہوں'' پاکستان ٹیلی ویژن کے اس کھیل میں نوجوانوں کے انہی مسائل کو زیر بحث بنایا گیا ہے ۔ یہ کہانی کمپیوٹر سے جڑے ان نوجوانوں کی ہے جو انسانی رشتوں سے کٹ کر کمپیوٹر سے جڑے تو ہیں مگر کمپیوٹر کیا انہیں درست رہنمائی فراہم کر سکے گا۔ ایک تقریب میں جناب شاہد ندیم کے سامنے میں نے یہی بات رکھی کہ کمپیوٹر کی کہانی تو شہروں کی ہے۔ پاکستان کی ستر فیصد آبادی دیہات میں رہتی ہے۔ دیہاتوں میں ایسے دور دراز کے علاقے بھی شامل ہیں جہاں آج بھی حاملہ خواتین کو ڈاکٹر کے پاس لے جانے، ڈاکٹر سے اس کی صحت بارے مشاورت کو باعث شرم سمجھا جاتا ہے چاہے کسی پیچیدگی کے باعث خاتون کی موت ہی واقع کیوں نہ ہو جائے ۔ چنانچہ ضرورت اس بات کی بھی تھی کہ ایسی کہانی بنائی جاتی جو پاکستان کی پسماندہ آبادی کے مسائل بھی اجاگر کرتی ۔ کھیل کے ڈائیریکٹر خاور نواز کا کہنا ہے کہ اس کہانی میں پسماندہ اور مراعات یافتہ دونوں طبقوں کے مسائل کو اجاگر کیا گیا ہے ۔ پاکستان ٹیلی ویژن کی اس کہانی کی افتتاحی تقریب کے دوران سی آر یس کی طرف سے مجھے '' میں کس سے کہوں'' ڈرامہ سیریل کی ایک ڈی وی ڈی بھی دی گئی ہے ۔ ۔ 15 قسطوں کایہ کھیل 2015 کی پہلی سہ ماہی میں لوگ ہر اتوار رات آٹھ بجے پی ٹی وی ہوم پر د یکھتے رہے ہیں ۔ وہ بھی ایک وقت تھا جب پی ٹی وی کے کھیل اتنے مقبول تھے کہ رات آٹھ بجے سڑکیں اور بازار سنسان ہو جاتے تھے ۔ لوگ اپنے کام کاج نمٹا کر ٹی وی سکرین کے سامنے بیٹھ جاتے تھے ۔ سونا چاندی ہو یا وارث آج بھی ٹیلی ویژن سکرین پر موجود ہو تو راہ چلتے لوگ رک جاتے ہیں ۔ بدقسمتی سے نجی ٹیلی ویژن چینل آنے کے بعد ریٹنگ کی دوڑ میں معیار ،اخلاقیات اور روایات کو نظر انداز کر کے ہمارے معاشرے سے ہٹ کر کسی اور مخلوق کی کہانیاں دکھائی جاتی ہیں ۔ محبت اور دولت کے علاوہ اس کا کوئی اور موضوع نہیں ہوتا ۔ ان میں کوئی معاشرتی مسئلہ زیر بحث نہیں آتا ۔ ریٹنگ کے اس دور میں '' میں کس سے کہوں'' ایک اچھی ڈرامہ سیریل ہے اس لئے کہ اس میں معاشرے کے انتہائی اہم مسائل کو زیر بحث لانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ آخر کسی گھر میں اولاد بیٹی یا بیٹا جوان ہوتی ہے اس کو رہنمائی د ینی پڑے گی۔ وہ اپنے اہم سوالوں کا جواب کس سے حاصل کرے ہمیں سوچنا پڑے گا ہر ایک کے سوچنے کی بات ہے کہ کیا نوجوانوں کو ایسے رشتے حاصل ہیں جو ان کے ان سوالوں کا جواب دے سکتے ہیں ؟
 
Sardar Ashiq Hussain
About the Author: Sardar Ashiq Hussain Read More Articles by Sardar Ashiq Hussain: 58 Articles with 50565 views
The writer is a Journalist based in Islamabad. Email : [email protected]
سردار عاشق حسین اسلام آباد میں مقیم صحافی ہیں..
.. View More