زلزلہ کیوں آتا ہے ؟

زلزلے Earthquakes ایک قدرتی آفات اور عذاب الہی کی شکل ہیں اسی طرح وہ انسانی بے بسی وکمزوری اور عجز وضعف کا کھلا ثبوت ہیں۔

انسان اپنی عقل ودانش اور فکر وعمل ،حیرت انگیز سائنسی ترقیات کے باوجود خدا کے ایک حکم کے آگے بے دست وپاہیں ، انسان اپنی عقل پر ناز کرتا ہے ، طاقت پر اتراتا ہے ، مال ودولت پر فخر کرتا ہے ، اونچے مکانات اور بلند وبالا عمارتوں پر خوش ہوتا ہے ، لیکن جب خدا کا حکم آتا ہے بارش کے جھونکے ، تیز آندھیاں ، طوفان ، زلزلہ آن کی آن میں سب ختم کر دیتے ہیں ، جس کا ایک نظارہ پوری دنیا نے حال ہی میں کیا ہے۔

قرآن نے قدیم اقوام میں قوم عاد و ثمود کا ذکر کیا ہے ، جو باآسانی دیو ہیکل پہاڑوں کو تراش کر مکان بناتے تھے ، مگر حکم خداوندی آیا تو تیز ہواؤں اور خطرناک طوفان نے سب کو موت کا گھاٹ اتار دیا ، قوم ثمود کو سخت دردناک آواز نے فنا کردیا ، کتنی ہی اقوام تھیں جو اپنی اعمال کے نتیجہ میں تباہ ہو گئیں ،
اﷲ پاک قرآن پاک میں فرماتا ہے۔ ’

’ ہم نے ہر ایک کو اس کے گناہ کی پاداش میں پکڑا ہے ، بعض کے اپر ہم نے سخت آندھی بھیجی ، بعض کو چیخ نے تباہ کر دیا ، بعض کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور بعض کو غرق کر دیا ، خدا تعالی کسی پر ظلم نہیں کرتا بلکہ انسان خود اپنے اپر ظلم کرتا ہے ‘‘ ( سورہ عنکبوت )

زلزلہ بھی خدا کے عذاب کی ایک شکل ہے ، جو اہل ایمان کی تذکیر اور کفار کے لئے قہر خداوندی کا مظہر ہے ، وہ منجملہ دیگر عذابوں کے اس لئے آتا ہے کہ سبق لینے والے سبق لیں ، خدا کو بھولنے والے اس کی طرف متوجہ ہوں ، دنیا کی زیب وزینت سے متاثر ہو کر اپنی موت اور آخرت کو بھولنے والے اس کو یاد کریں ، اپنے نفس اور مخلوق خدا پر ظلم کرنے والے باز آجائیں ، حضرت محمد صلی اﷲ علیہ و سلم نے متعدد آحادیث میں ذکر فرمایا ہے کہ ’’ جب خدا کی زمین پر بد اعمالیاں ، برائیاں اور گناہ عام ہوتے ہیں تو خدا کی طرف سے عذاب آتے ہیں ، ترمذی شریف کی ایک حدیث میں ہے ، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’’ جب میری امت پندرہ قسم کی گناہوں میں لگ جائے گی تو خدا کی طرف سے آزمائش اور عذاب آئیں گے ، پوچھا گیا ، اﷲ کے رسول وہ کون سے گناہ اور برائیاں ہیں آپ نے فرمایا :

جب غنیمت کے سرکا ری اموال کو لوگ اپنی ذاتی ملکیت بنالیں۔ امانت کو غنیمت سمجھنے لگیں۔ جب تعلیم کا مقصد دین نہ ہو۔ انسان ماں کی نافرمانی اور بیوی کی اطاعت کرنے لگے۔ دستوں سے وفا اور باپ سے جفا کا معاملہ کرے۔ مساجد میں شور شغف ہو نے لگے۔ گانے بجانے والیاں اور آلات طرب اختیار کئے جائیں۔ شراب عام ہو جائے۔ مرد ریشمی لباس پہننے لگیں۔ انسان کی عزت اس کے شر سے بچنے کے لئے کی جائے۔ قوم کا قائد بدترین شخص ہو اس امت کے آخری لوگ پہلے لوگوں پر طعن وتشنیع کرنے لگیں۔تو اس وقت تم سرخ آندھیوں کا زلزلوں کا اور صورتوں کے بگڑنے و مسخ ہونے اکا انتظار کرو اور ایسے فطنوں کا انتظار کرو جو اس طرح یکے بعد دیگرے آئیں گے جیسے تسبیح کے دانے دھاگہ ٹوٹنے کے بعد گرتے ہیں۔ ( سنن ترمذی۔ کتاب الفتن )

انصاف کے ساتھ موجودہ ماحول کا جائزہ لیجیے،بالا مذکورہ باتوں میں سے کون سی بات ہے، جو اب تک نہیں پائی گئی ہے، مذکورہ ساری پیشین گوئیاں حرف بہ حرف پوری ہوتی ہوئی نظر آرہی ہیں،دھوکہ، بے ایمانی، کرپشن، سرکاری وعوامی چیزوں میں ناجائز تصرفات عام ہیں، مسلمانوں کے مالیہ کا نظام بد سے بدتر ہے، عصری تعلیم کا شور اتنا طاقت ور ہے کہ دینی درس گاہوں کے طلبہ اکرام، مدرسے کی چہار دیواری میں رہتے ہوئے دینی تعلیم سے بے فکر ہو کر، عصری علوم کے حصول کے لیے کوشاں ہیں، والدین کی نافرمانی کے واقعات اب پرانے ہوگئے ہیں، بیوی کی اندھی محبت نے کتنے بنے بنائے گھر اجاڑ دیے، مساجد کا پرسکون اور قدسی ماحول پراگندہ ہوچکا ہے، عہدے اور مناصب اور قیادت وسیادت نا اہل کے ہاتھوں میں برسوں سے ہے، گانا، میوزک، فلم اور اِس طرح کی چیزوں کا بازار اتنا گرم ہے کہ الامان والحفیظ، اِس حوالے سے کچھ کسرباقی رہ گئی تھی، موبائل اور انٹر نیٹ کے منفی استعمال نے پوری کردی، ام الخبائث شراب کا شوق جہاں غیروں کو ہے، وہیں اپنے بھی اب پیچھے نہیں رہے، اور مرحوم علماءí صلحاء، اتقیا اورنیک لوگوں پر کیچڑ اچھالنے والوں کی بھی کمی نہیں ہے، اور یہ ساری باتیں آج سے نہیں بہت پہلے سے ہیں، اﷲ کے نبی نے چودہ سو سال پہلے ہی اِس کی اطلاع دی تھی، جہا ں یہ ارشاد ایک طرف اسلام کی حقانیت کی واضح دلیل ہے، وہیں دوسری طرف زلزلوں کی آمد کی وجوہات سمجھنے میں معین ومدد گاربھی ہے اور یہ وہی ماحول ہے ، جس کے بارے میں حضرت عائشہ ؓنے ارشاد فرمایا تھا:
جب لوگ زنا کو حلال کرلیں، شراب پینے لگیں اور گانے بجانے کا مشغلہ اپنا لیں تو اﷲ کی غیرت جوش میں آتی ہے اور زمین کو حکم ہوتا ہے کہ وہ زلزلہ برپا کردے۔

زلزلوں کی مختصر تاریخ۔۔۔
نیپال کا تازہ واقعہ، کوئی نیا واقعہ نہیں ہے؛ بلکہ جب بھی ایسا ماحول ہوا، قدرت نے انسانوں کو سنبھلنے کی وارننگ دی ہے، انھیں متنبہ کیا ہے کہ ’’ہے وقت ابھی جاگو اے مومنو، غفلت سے‘‘
۰۲ھ میں حضرت عمرؓ کے زمانے میں بھی زلزلہ آیا، انھوں نے زمین پر ایڑی ماری اور فرمایا: اے زمین تو کیوں ہلتی ہے، کیا عمر نے تیرے اوپر عدل قائم نہیں کیا اور زمین کا زلزلہ رک گیا۔
۹۵ھ میں ایک زلزلہ آیا جو ۰۴ دنوں تک رہا، کئی شہر صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔
۳۲۲ھ میں شہر غرناطہ میں زلزلہ آیا اور پورا شہر تباہ وبرباد ہوگیا۔
۱۴۲ھ میں وامغان میں زلزلہ آیا، جس میں تقریبا پچیس ہزار لوگ جاں بحق ہوگئے۔

ماضی قریب کے کچھ زلزلے
۸/ اکتوبر ۵۰۰۲ء پاکستان میں آنے والا زلزلہ، دنیا کا چوتھا بڑا زلزلہ تھا، جس میں سرکاری اعداد وشمار کے مطابق کل ہلاکتیں ۸۹۶۴۷ تھیں،
اْس سے قبل ۴۰۰۲ء میں انڈونیشیا کے زیر سمندر زلزلے کے باعث اٹھنے والی سونامی لہر کے نتیجے میں لاکھوں ہلاکتیں ہوئی تھیں
، ایران کے شہر بام میں ۳۰۰۲ء میں زلزلے سے ۰۳ ہزار افراد ہلاک ہوگئے تھے
، جنوری ۱۰۰۲ء میں ہندوستان کے صوبہ گجرات میں ۰۲ ہزار افراد ہلاک ہوگئے تھے

لہذا جب خدا کے عذاب آتے ہیں تو معلوم ہو نا چائیے کہ انسانوں کے بد اعمالیوں کی وجہ سے آتے ہیں ، بعض احادیث میں سود خوری اور زنا کی کثرت کو زلزلوں کا سبب قرار دیا گیا ہے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ اگر ہوا بھی ذرا تیز چلتی بادل گرجتے ذرا سی کوئی ناگوار بات ہوتی تو اﷲ کی طرف متوجہ ہوتے آج بھی ان مشکلات ومصائب کے موقع پر انسانوں کے چاہئے کہ اپنی اعمال اور کوتاہیوں پر نظر ڈالیں خدا کی طرف متوجہ ہوں اپنے گناہوں سے توبہ کریں استغفار کی کثرت اور اعباد سے اشتغال رکھیں ، اﷲ سے عافیت کی دعا کریں ، وہ احکم الحاکمین بڑا مہربان رحم کرنے والا ہے وہ بڑا برد وبار وحلیم ہے اسی کے قبضہ قدرت میں سب کچھ ہے زمیں و آسمان کے ہر ذرہ پر اس کی حکمرانی و اختیار ہے اس کا فرمان ہے
’’ خدا ہی ہے جو زمین و آسمان کو پکڑے ہوئے ہے کہ وہ اپنی جگہ سے ہٹ نا جائیں اور اگر ہٹ جائیں تو کون ہے جو ان کو خدا تعالی کے علاوہ پکڑ سکتا ہے۔ ( سور فاطر)

اسلام اور سائنس کا بنیادی فرق
سائنس نے یہ تو بتادیا کہ زمین کی پلیٹیں ہلتی ہیں تو زلزلہ آتا ہے؛ لیکن اِس کا حل اور ایسے موقع پر کیا کرنا چاہیے، یہ نہیں بتایا؛ لیکن اِسلام نے جہاں ایک طرف زلزلے کے اسباب بتائے، وہیں دوسری طرف اْس کا معقول اور مطمئن حل بھی بتایا ہے، اور دنیا کی تاریخ؛ بالخصوص تباہ شدہ اقوام کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام نے جو کچھ بتایا ہے اْس سے صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا، اسلامی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ زلزلے ہمیں یہ سبق سکھاتے ہیں کہ تم نے کتنی بھی ترقی کرلی، کیسی بھی مشین ایجاد کرلی، کتنی ہی مضبوط عمارتیں بنالیں، اڑنے کے سامان بنالیے، کمپیوٹر ایجاد کرلیے، چاند پرکمندیں ڈال آئے، مسافت سمیٹ کر دنیا کو ایک آنگن بنادیا، سردی میں مصنوعی گرمی اور گرمی میں مصنوعی سردی کے اسباب مہیا کرلیے اور ترقی کے سارے رکارڈتوڑ ڈالے؛ لیکن تم اپنی اوقات یاد رکھو، اپنی تخلیق کا مقصد یاد رکھو، اپنے مالک وخالق سے لا تعلق مت ہوجاو?، اس کی مرضیات ونا مرضیات کو پہچانو، دنیا وآخرت کا فرق سمجھو، حیات وما بعد الحیات کا راز جانو، اور یہ حقیقت ہمیشہ پیشِ نظر رکھو کہ تم سے بڑھ کر بھی کوئی ذات ہے، جس کی قدرت وعظمت اور قہاریت وجباریت کا تم اندازہ بھی نہیں لگاسکتے؛ چناں چہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں مدینہ کے اندر زلزلہ آیا تو آپ نے ارشاد فرمایا: تمہارا رب چاہتا ہے کہ تم اپنی خطاوں کی معافی مانگو۔(مصنف ابن ابی شیبہ، رقم:۴۳۳۸ فی الصلاۃ فی الزلزلہ)

دوسری بات یہ کہ اسلام نے دنیاکو یہ حقیقت بھی سمجھائی ہے کہ یہ دنیا چند روزہ ہے اور ایک وقت ایسا آئے گا، جب یہ دنیا ختم ہوجائے گی اورسب سے بڑے دربار میں، سب کو اپنی زندگی کا حساب وکتاب دینا ہے، اسلامی زبان میں اسے قیامت کہتے ہیں،یہ زلزلے انسان کواْسی قیامت کی یاد دلاتے ہیں کہ ابھی تو تھوڑی سی زمین ہلادی گئی ہے تو یہ حال ہے، جب قیامت کا زلزلہ آئے گا تو تمہارا کیا حال ہوگا؟ لہٰذا وقت سے پہلے اپنی ذات کے ساتھ ساتھ اپنے اعمال درست کرلو؛چناں چہ بخاری کی روایت میں ہے: سرکارِ دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قیامت نہیں آئے گی یہاں تک کہ علم اٹھالیا جائے اور زلزلوں کی کثرت ہوجائے۔(بخاری، رقم:۶۳۰۱) کیا ایک کامل ایمان شخص اِس سے انکار کرسکتا ہے کہ یہ زلزلے علاماتِ قیامت میں سے نہیں ہیں؟

لہٰذا اِس موقع پر ہمیں وہی کام کرنا چاہیے جو اِس موقع پر اسلام ہم سے چاہتا ہے؛ چناں چہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں: جہاں زلزلہ آتا ہے اگر وہاں کے لوگ توبہ کرلیں اور بد اعمالیوں سے باز آجائیں تو ان کے حق میں بہتر ہے، ورنہ ان کے لیے ہلاکت ہے۔ (الجواب الکافی لابن القیم،ص:۷۴)

ابن قیم نے اپنی کتاب میں حضرت عمر بن عبد ا لعزیز کا ایک خط نقل کیا ہے، جو زلزلے کے موقع سے انھوں نے حکومت کے لوگوں کو لکھا تھا کہ اگر زلزلہ پیش آئے تو جان لو یہ زلزلے کے جھٹکے سزا کے طور پر آتے ہیں؛ لہٰذا تم صدقہ وخیرات کرتے رہا کرو۔ (الجواف الکافی،ص:۷۴)

اِس موقع پرایک مسلمان کا شیوہ
مفتی محمد تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں:
اگر ایک شخص صاحبِ ایمان ہے تو اْس کے لیے اِس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ کہے کہ مجھے نہیں معلوم کہ اِس واقعہ کے پیچھے کیا مصلحتیں کام کررہی ہیں اور اﷲ تعالیٰ کا یہ فیصلہ کیا بھلائیاں پیدا کرے گا اور کائنات کے مجموعی نظام کے اعتبار سے اِس کے اندر کیا خیر کا پہلو ہے؟ میں نہیں جانتا؛ لیکن اتنا جانتا ہوں کہ اِس کائنات کا کوئی ذرہ، کوئی پتہ اﷲ تعالیٰ کی مشیت کے بغیر نہیں ہلتا اور کوئی حرکت اِس کائنات میں اﷲ کی حکمت کے بغیر نہیں ہوتی؛ لہٰذا سرِ تسلیم خم ہے، جو کچھ ہوا، وہ اْن کی حکمت کے عین مطابق ہوا، چاہے ہماری سمجھ میں وہ حکمت آئے یا نہ آئے، ہم اِس پر کوئی رائے زنی نہیں کرتے۔(اصلاحی خطبات۸۳۱/۶۱)

دوسری جگہ فرماتے ہیں:
ہم جزم اور وثوق سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ (زلزلہ) عذاب تھا یا نہیں، اِس بحث میں پڑنے کے بجائے ہمارے کرنے کا کام یہ ہے کہ ہم سے متاثرین کی جتنی مدد ہوسکتی ہے ہم وہ مدد کریں، جو لوگ دنیا سے چلے گئے اْن کے لیے دعاء مغفرت کریں، جو موجود ہیں اْن کے لیے دعائے صحت کریں اور ساتھ ساتھ توبہ واستغفار کے ذریعہ اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں رجوع کریں کہ اﷲ تعالیٰ ہمیں مزید مصائب اور تکلیفوں سے محفوظ فرمادے(یادرہے ہر تخریب، ایک تعمیر کا پیش خیمہ ہوتی ہے) (اصلاحی خطبات۱۴۱/۶۱)
ٓآمین ۔۔
Amna Naseem
About the Author: Amna Naseem Read More Articles by Amna Naseem: 15 Articles with 16065 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.