قرآن کمپلکس۔۔۔۔ کچھ نیا کر

پاکستان اور پوری دنیا میں اہلِ اسلام کیا لاتعدادغیرِ مسلم بھی قرآنِ پاک سیکھنے، سمجھنے اور حفظ کرنے کے متعلق فکرمند رہتے ہیں،دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانی والی کتاب بھی قرآن کریم ہے،سب سے زیادہ یا یوں کہیئے کہ صرف یہی کتاب حفظ کرکے سینوں میں محفوظ کی جاتی ہے،صرف وِفاق المدارس العربیہ پاکستان کے سالانہ امتحانات میں شرکت کرنے والے کامل الحفظ طلبہ وطالبات کی تعداد پچاس سے ساٹھ ہزار ہوتی ہے،اس کے علاوہ پروسیجر میں چلنے والے لاکھوں میں ہوتے ہیں،دیگر تنظیماتِ مدارس سے منسلکہ اداروں کو بھی اس پر قیاس کیاجاسکتا ہے،گویا ہمارے ملک میں اس شعبے میں پڑھنے اور پڑھانے والے چالیس سے پچاس لاکھ کے لگ بھگ ہیں،انڈیا، بنگلہ دیش،ملائیشیا،انڈونیشیا،ایران،ترکی،عرب ممالک،افریقہ اور مغربی دنیا کا اگر تفصیلی سروے کیاجائے،تو یہ تعداد کروڑوں تک جا پہنچے گی،افسوس سےکہنا پڑتا ہے کہ ہمارا میڈیا اس عظیم شعبے اور اتنے بڑے طبقے کے حوالے سے مثبت رائے یا بہترتجاویز دینے کے بجائے اس کا ہمہشہ کے لئے منفی رخ پیش کرتاہے، ہمارا ذہین اور متمول طبقہ بھی اس طرف کم متوجہ ہے،چنانچہ ان حاملانِ قرآن کے مسائل کیا ہیں،ان کی مشکلات کیا ہیں، ان اکا معاشرے میں استحقاقی مقام کیا ہے،ان کے سسٹم میں خلل کہاں کہاں واقع ہے،یہ بیشتر لوگ نہیں جانتے اور بہت سے تو یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کرتے، یوں یہ شعبہ کہیں تو کسمپرسی اور کہیں ناگفتہ بہ حالات کا شکار ہے۔

اللہ بھلا کرے ڈاکٹر یوسف عباس مرزاکا، انہوں نے ہمارے کچھ بعض حضرات کی طرح اس میدان کو علیٰ وجہ البصیرۃ اختیار کیا،ان کے قرآن کمپلکس،راولپنڈی میں صغاروکباراور خواتین وحضرات سب کے لئے تحفیظ وتجوید،ترجمہ وتفسیر،إعراب وترکیب،لازمی صرف ونحو، نیز مجمع اللغہ کے شیخ سمیع عزیز کی زیر نگرانی عربی کورسز کا ایسا پروقار،دلکش اور سہل انتظام کیا گیاہے کہ دعائیں دینے کو ہمہ وقت جی چاہتاہے۔

ان کے یہاں تحفیظ کا زمانیہ بنیادی طور پر ایک سے تین ماہ کاہے،البتہ یہ معاملہ ذہانت سے بھی تعلق رکھتا ہے،اس لئے بعضے کچھ دیر سویر بھی کر لیتے ہیں،لیکن ایک سال سے زیادہ دیر لگانے کی نوبت نہیں آتی،اس حوالے سے ان کا فارمولا یہ ہے کہ پہلے پاؤ پاؤپھر ادھا پارا اور اخیر میں مکمل پارا بچوں کو یاد کرایاجائے،بشرطیکہ بچے کے حروف اور ادئیگی میں کوئی نقص نہ ہو،قاری صاحب (قَرَأَ) سے قاری ہو،(قَہَرَ) سے قہری نہ ہو،تاکہ سورۂ رحمان کی ابتدائی آیت (الرحمٰن علًم القرآن) کی عملی تصویر ہو،ضرب وحرب،گالم گلوچ، ڈانٹ ڈپٹ،ڈنڈا اور سوٹا کا نام ونشان نہ ہو،بچہ یہاں خوشی ورغبت سے آئے، اسے یہاں گھر کا سا ماحول فراہم ہو،وہ بچوں والی کسی چیز کا مطالبہ کرے، یا کھانے پینے کا خواہاں ہو،تو وہ چیز حتیٰ المقدور میسر ہو،ان سے ذاتی یا ادارہ جاتی خدمت نہ لی جائے،گرمی سردی کی شدتوں کا مسئلہ نہ ہو،گھر میں بھی اسے اس کے میدانِ کار سے ہم آہنگ کمپنی دی جائے،تو کوئی وجہ نہیں کہ آپ کا بچہ زیادہ سے زیادہ تین ماہ میں حافظ قرآن بن کر نکلے،چونکہ یہاں تین سال کے بجائے دو سے تین ماہ کا دورانیہ ہے اس لئے پہلی ہی فرصت میں بچے کی منزل کی پختگی پر زیادہ زور دینے کی چنداں ضرورت نہیں ہوتی،تکمیلِ حفظ کے بعد منزل کا کام روز ایک پارے سے بھی بڑی آسانی سے ہوسکتا ہے،حفظ مکمل کرنے کے بعد بچہ اپنی دیگر تعلیم جاری رکھ سکتاہے،ہاں پارے کئ لئے اسے روز اپنے گھر ہی پر ایک گھنٹہ نکالنا ہوگا،جو آگے چل کر آدھے گھنٹے اور پھر پندرہ سے بیس منٹ پر آجائے گا،جوکہ ہر مسلمان کا فرض بنتاہے کہ روزانہ قرآنِ کریم کو اتنا وقت دیتا رہے،ہمارے ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں: کسی بھی جگہ سڑک نکالنے کے لئے پہلے ایک لکیر کھینچی جاتی ہے،بعدمیں روڑہ اور اس کے بعد تارکول کا دور آتا ہے، اسی طرح بلڈنگ بنانے میں ابتدأ اسٹرکچر یعنی ڈھانچے سے کی جاتی ہے، پھر کہیں جاکردیواروں،پلستر،رنگ روغن اور فنشنگ کی نوبت آتی ہے،لہذا قرآن کمپلکس میں پہلے پارے حفظ کرائے جاتے ہیں،پھرپختگی،تجوید،ترجمہ وتفسیر کا مرحلہ ہوتاہے،یہ سب کچھ اس لئے کیا گیا،کہ دنیا اب برق رفتار ہوگئی ہے،لوگ حفظ میں طولِ وقت کی شکایت کرتے ہیں، نیز فجر سے پہلے ،اس کے بعد ،ناشتے کے بعد زوال تک،ظہر کے بعد،مغرب کے بعد اور کہیں کہیں عِشأ کے بعد بھی بچوں کو ککڑوں بٹھا کر کو تھکا دینا ہے،اور تھکا وٹ تسلسل کے ساتھ ہونے سےبچے کی ذہنی اور جسمانی صحت متأثر ہوجاتی ہے،اس لئے ان کے یہاں صبح شام یا صرف صبح یا صرف شام پڑھائی ہوتی ہے،ہم نے بھی ایک چیزیہاں نوٹ کی ،کہ قاری صاحب اور بچوں کے چہروں میں تازگی تھی،تھکا ہوا کوئی نظر نہ آیا۔ ہم نے ایک بچے سے پوچھا تمھارے کتنے پارے باقی ہیں، اس نے بتایا،چھ پارے ،جو اگلے چھ دن میں ہو جائیں گے،اسی طرح نو، دس، گیارہ والوں نے بھی حوصلہ افزا جوابات دیئے۔جبکہ یہاں اسلام آباد کے ایک اور ادارے میں حفظ کےایک دو بچوں سے معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ ان میں سے ایک پچھلے پانچ سال میں صرف پانچ پارے حفظ کرسکاہے،دوسرا تین سال میں صرف دس،اگر ان بچوں کی صحیح دیکھ بھال ہوتی ،تو شاید ان کی کار کردگی بھی اس سے اچھی ہوتی، مگر عمومی طور پربڑے اداروں میں شعبۂ حفظ کو کما حقہ توجہ نہیں دی جاتی۔

بہرحال عرب دنیا میں تحفیظ کے حوالے سے آن لائن سہولت بھی موجود ہے،چنانچہ شیخ سمیع (مقرأۃ الحرمین) سے رابطے میں ہیں، آن لائن تحفیظ کا سلسلہ یہاں بھی اور وہاں بھی تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہاہے، حفظ کرانے والے والدین،اساتذہ،قرًأ ،مہتممین ومنتظمین نیز ترجمہ وتفسیر سیکھنے والے حضرات ،اسی طرح بذاتِ خود حفظ کرنے والے نوجوان نٰیٹ میں ان موضوعات سے متعلق کافی مواد سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ جہانگیر روڈ،کراچی کے محترم قاری نواز صاحب بھی مولانا عبد الرزاق حسن زئی کی سرپرستی میں اسی طرح حفظ کراتے ہیں،مفتی عثمان ابراہیم آف رنگون نے ہمارے یہاں جامعۃ اللغۃ العربیۃ المفتوحۃ پاکستان میں دورہ وتخصص کے بعد قاری نواز کے پاس چالیس روزتک حاضری دے کر مکمل قرآن کریم حفظ کرلیا ہے،جس کی اختتامی تقریب میں جامعہ بنوری ٹاؤن کے کے امام صاحب مولانا سیدعتیق الحسن اور مولانا عادل بھی تشریف لائے تھے، حرمین شریفین اور مسجدِ اقصیٰ میں تو ساٹھ روزہ حفظ ایک معمول بن چکا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قرآن کریم کو یاد کرنے والوں کےلئے چند تجاویز:۔...
1۔ عربی زبان سے کم از کم اتنی واقفیت پیدا کریں کہ آیت سامنے آنے پر اس کا مفہوم سمجھ میں آ جائے۔ صرف و نحو میں مہارت حاصل کرنا ضروری نہیں، بس اتنی استعداد پیدا کیجیے کہ سادہ عربی عبارت کا مطلب سمجھ میں آ جائے ۔ اپنی آسانی کے مطابق تین یا چھے مہینے کا ٹارگٹ مقرر کیجیے۔اس مسئلے کا آسان حل یوں ہو سکتا ہے کہ قرآن کریم کے پہلے تین یا پانچ پاروں کو ترجمے اور تفسیر سے پڑھ لیجیے اور لفظی ترجمہ یاد کرنے کی کوشش کریں۔ پانچ پاروں کا لفظی ترجمہ یاد ہو جائے تو ان شاءاللہ پورے قرآن کریم کی کچھ نہ کچھ سمجھ آنے لگے گی۔
2۔ جس سورت کو یاد کرنے کا ارادہ ہو، اسے ترجمے اور تفسیر سے دوبار پڑھ لیں۔ اس میں بیان کی گئی باتوں پر تھوڑاسا تدبر کریں۔
3۔ کسی اچھے قاری کی آواز میں چند بار سورت کی تلاوت سنیں۔ (مثلاً الشیخ عبد الرحمن السدیس)۔
4۔ اس مرحلے پر سورت کا اجمالی خاکہ اور اس کے مضامین اور الفاظ کے کچھ نقوش آپ کے ذہن نشین ہو چکے ہوں گے۔ ابتدائی آیات کو یاد کریں اور یاد کی ہوئی آیات کی تعداد میں بتدریج اضافہ کرتے چلے جائیں۔
5۔ اٹھتے بیٹھے، چلتے پھرتے، سفر کے دوران اور جب بھی موقع ملے یاد کیے ہوئے حصے کو دہراتے رہیں۔
6۔ امکانی غلطی سے بچنے کے لیے یاد کیے ہوئے حصے کو سنانا مفید ہے۔ ایسا نہ ہو سکے توموبائل یا کمپیوٹر میں اپنی تلاوت ریکارڈ کر لیں اور پھر مصحف کھول کر اسے سن لیں۔
7۔ سب سے اہم کام اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا ہے کہ وہ اس منزل کو آپ کے لیے آسان کر دے۔ اس سے صبر اور توفیق مانگتے رہیے۔اپنے اندر مستقل مزاجی اور ہمت جیسی صفات کو پروان چڑھائیے۔ مایوسی کو قریب نہ آنے دیجیے۔ گناہوں سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کیجیے۔
8-مصحف المدینہ کمپیوٹر اور موبائل میں مختلف تراجم وتفاسیراورمتعددقرائتوں کے ساتھ کئی زبانوں میں ایوے لیبل ہے،اوراب نشریاتی اداروں سے مطبوعہ بھی دستیاب ہے،اسی میں حفظ کا اہتمام بہتر ہے۔
9-فرسودہ،تیار خور،شکست خوردہ اورکندذہن قسم کے افراد سے دور رہیں۔
10-دل ودماغ کے لئے مفید خوراک اور ماحول اختیار کریں،اس حوالے سے مضر اور مخرِّب مواد سے اجتناب برتیں۔(تلک عشرۃ کاملۃ)۔
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 806008 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More