نور محل

تاریخی تحریر ایک خوبصورت محل، جس ملکہ کے لیے بنوایا گیا اس نے محض ایک رات یہاں قیام کیا۔۔۔

ممتاز بیگم کے بعد ملکہ نور کے لیے

1872 میں بہاولپور ریاست کے نواب صادق محمد خان رابع کی رہائش کے لئے بستی ملوک شاہ کے قریب ایک محل تعمیر ہوا جس کا نام نورمحل رکھا گیا۔ انتہائی خوبصورت وضع کا حامل یہ محل اپنی تعمیر کے وقت بھی فنِ تعمیر کا ایک نادر شاہکار تھا۔

نور محل کا طرزِ تعمیر اطالوی ہے اور یہ نواب صادق خان چہارم کے دور میں بنا گیا۔ نواب صادق محمد خان چہارم خوبصورت عمارات کی تعمیر میں خصوصی دلچسپی رکھتے تھے۔ اس حوالے سے انہیں 'شان جہان بہاولپور' بھی کہا جاتا ہے۔

نور محل کی عمارت کا نقشہ ریاست کے انجینئر مسٹر ہینن نے تیار کیا تھا اور انہی کی نگرانی میں 1872 میں محل پر کام شروع ہوا۔ 1875 میں اس کی تعمیر مکمل ہوئی۔ محل 44 ہزار 600 مربع فٹ رقبے پر پھیلا ہواہے جس کے حوالے سے مختلف کہانیاں مشہور ہیں۔ دلچسپ بات یہ بھی کہ نور محل دال ماش اور چاول کی آمیزش والے گارے سے بنا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک رات کے سوا شاہی خاندان اس محل میں نہیں رہا۔ یہ شاندار محل ملکہ نور کے لیے بنایا گیا تھا۔ جس نے صرف ایک رات اس میں بسر کی، اگلی صبح وہ محل کی سب سے اوپر والی چھت پر گئی تو بالکونی سے اسے قبرستان ملوک شاہ نظر آیا جس پر اس نے محل میں مزید رہنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ آپ نے میرے لیے قبرستان میں گھر بنوادیا؟ میں یہاں نہیں رہوں گی۔

جب محل کی تعمیر مکمل ہوئی تو اس کی بنیاد میں ریاست کے سکے اور ایک تحریر جس میں تعمیرِ محل کی تاریخ وغیرہ درج تھی رکھے گئے تھے۔ محل کی تعمیر پر 12لاکھ روپے سے زیادہ خرچ ہوئے۔

نور محل کی عمارت کے وسطی حصے میں ایک نہایت وسیع و عریض ہال ہے۔ چھتوں اور دیواروں پر نقاشی کا خوبصورت کام ہے۔ جب ریاست بہاولپور قائم تھی تو ہال میں ایک سٹیج بنا کر اس پر چاندی کی کرسی نواب صاحب کے بیٹھنے کے لیے مخصوص تھی۔ ہال اور دوسرے کمروں کی دیواروں کو والیانِ ریاست کی تصاویر سے مزین کیا گیا تھا۔

بعض کمروں میں بڑے بڑے قد آدم آئینے تھے جو مختلف خاصیت رکھتے تھے۔ مثلاً ایک آئینے میں انسان غیر معمولی فربہ نظر تا تھا جبکہ دوسرے آئینے کے سامنے جانے سے انتہائی دبلا دکھائی دیتا تھا۔ ایک زمانے میں پورا محل سنہری اور روپہلی فانوس اور بہترین فرنیچر سے آراستہ تھا۔ محل میں فرنیچر اور دیگر اشیاء اٹلی اور انگلینڈ سے درآمد کی گئی تھیں۔

1906 میں نواب محمد بہاول خان پنجم نے محل کے ساتھ مسجد تعمیر کرائی اور اس کا ڈیزائن ایچی سن کالج کی مسجد کی طرز پر رکھا گیا۔ نور محل کی مسجد پر اس زمانے میں 30 ہزار روپے سے زائد خرچ ہوئے تھے اور اس کی بنیاد میں بھی ریاست کے طلائی ، نقری اور مسی کے سکے ایک بوتل میں بند کرکے رکھے گئے تھے
نور محل میں نواب صاحب کے قیام کا زمانہ بہت مختصر تھا۔ بس تھوڑے ہی دن بعد ۔۔۔۔ قبرستان ملوک شاہ کے قریب ہونے کی وجہ سے وہاں کی فضا میں جو قدرتی حزن کی کیفیات طاری تھیں، اس کی وجہ سے نواب صاحب نے یہاں سکونت ترک کر دی۔ اس کے باوجود نور محل سرکاری تقریبات کے لئے مخصوص رہا۔

نواب صادق محمد خاں رابع کو اختیارِ حکومت سپرد کرنے کی رسم اسی محل میں 28 نومبر 1879 کو ادا کی گئی۔ اس موقع پر محل کو خوب سجایا گیا۔ ایک عالیشان دربار منعقد ہوا جس میں پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر سر رابرٹ ایجرٹن نے نواب صاحب کو ریاست کے مکمل اختیارات سونپنے کا اعلان کیا۔ نواب بہاول خاں خامس کی دستار بندی بھی اسی محل میں ہوئی۔ نومبر 1903 کو لارڈ برن کرزن وائسرائے و گورنر جنرل ہند نے نور محل میں ایک عالیشان دربارمیں نواب بہاول خاں پنجم کو اختیارات سلطانی تفویض کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس دربار میں ہندوستان کی ممتاز اہم شخصیات کے علاوہ 100 سے زائد یورپین افسران نے شرکت کی۔ یہ محل ریاست کے آخری دور(1955) تک بطور سرکاری مہمان خانہ استعمال ہوتا رہا۔ یہیں پاکستان کے دوسرے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین نے اپنے دورہ بہاولپور کے دوران قیام کیا اور نواب صادق محمدخان خامس نے ان کے اعزاز میں گارڈن پارٹی دی تھی۔

آج نور محل کی دیواروں پر بہاولپور ریاست کے دور کی تلواریں اور دیگر اسلحہ سجا ہوا ہے۔ محل کے اندر موجود بڑے ہال کے اطراف میں عباسی خاندان کے نوابوں کی تصاویر اور اُن کی زندگی کے احوال مختصر طورپر درج ہیں ۔ محل کی اوپر والی منزل پر نواب خاندان بالخصوص نواب سرصادق محمدخان عباسی کی قائداعظم محمدعلی جناح ، برطانیہ کے شاہی خاندان اور دیگر اہم شخصیات کے ساتھ یادگاری فوٹوز آویزاں ہیں۔
وہ آئینہ ابھی بھی موجود ہے جو بلجیئم سے درآمد کیا گیا۔ڈیڑھ سو سال سے زیادہ پرانا فرنیچر کرسیاں اور صوفے آج بھی قابل استعمال ہیں۔ وہ پرانا پیانو بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہے جو نواب نے اپنی ملکہ نور کے لیے بنوایا تھا۔ ٹھنڈک اور ہوا کے لیے اونچی چھتوں اور روشندانوں کے علاوہ محل کی بنیادوں میں سرنگوں کا ایک جال بچھایا گیا تھا جس میں پانی چھوڑا جاتا تھا تو مخصوص سمتوں پر بنے روشندانوں سے گذرتی ہوا اک ٹھنڈک لیے فرش میں نصب جالیوں سے محل کے اندر پہنچتی تھی۔ یہ سرنگیں اب بھی موجود ہیں البتہ ان میں پانی نہیں چھوڑا جاتا۔ فوجی میس میں ائرکنڈیشنڈ لگا دیے گئے ہیں جو بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا شکار رہتے ہیں۔ جبکہ ایک سو چالیس برس پہلے جب یہ نور محل تعمیر کیا گیا تو اس بجلی کا نام ونشان تک نہیں تھا جس کی اب کمی ہو جائے تو زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔ روشنی کے لیے تین بڑے فانوس ہوا کرتے تھے جن پر روشندانوں سے روشنی پڑتی تو پورا دربار کا ہال جگمگا جاتا۔

اسلامیہ یونیورسٹی شعبہ تاریخ کے اُستاد ڈاکٹر شاہد حسن رضوی کی تحقیق کے مطابق سابق ریاست بہاولپور کے عباسی فرمانروائوں کا عہد حکومت تقریبا اڑھائی سو سال کے عرصہ پر محیط ہے جس میں سے قریباً نصف صدی انہیں اس علاقہ میں اپنے پیر جمانے، قبائلی سرداروں کو زیر کرنے اور اپنا تسلط قائم کرنے میں گزر گئی۔

اٹھارھویں عیسوی کے اواخر میں جب یہ حکمران علاقائی شورشوں کو دبانے اور اپنی ریاست کی بنیادیں مستحکم کرنے میں کامیاب ہوگئے تو انہیں جہاں مختلف شہر اور بستیاں باد کرنے کا خیال پیدا ہوا وہاں اپنے اور اپنے خاندان کی رہائش کے لئے محلات کی تعمیر کی ضرورت بھی محسوس ہوئی۔ شروع شروع میں والیان ریاست نے جن عمارات کومنتخب کیا ان کی حیثیت اگرچہ حفاظتی قلعوں کی تھی لیکن یہی قلعے بعد میں محلات کا بھی کام دیتے تھے۔

نور محل کو 1997 میں پاکستان آرمی کے حوالے کر دیا گیا ۔ محل آج بھی اپنی اصلی حالت میں کافی حد تک برقرار ہے اور محل کو دیکھنے آنے والوں کے لئےصبح سے شام 7 بجے تک کھلا رکھا جاتا ہے۔
نور محل اطالوی اور اسلامی فنِ تعمیر کا دلچسپ اور خوبصورت مرکب ہے۔ محل بنیادی طور پر ایک مستطیل نما تین منزلہ عمارت ہے جس میں درمیانی ہال اور شرقی غربی کمروں کے علاوہ چاروں کونوں پر چار کمرے بنے ہوئے ہیں ۔ ان چاروں کمروں کے اوپر چار کمرے اسی لمبائی چوڑائی کے بنے ہوئے ہیں جن کی چھتیں برج نما ہیں اور چوگوشیہ ہیں ۔ یہ چو گوشیہ برج ایک پانچویں برج کے ساتھ ملتے ہیں جو سائز میں سب سے بڑا ہے۔

ممتاز بیگم کے بعد ملکہ نور کے لیے بنا یہ محل آج بھی نہ صرف سیاحوں کے لیے پر کشش ہے۔ جس نے تاریخ کے اوراق میں بھی اپنا نام درج کروایا ہے۔ مغلوں کے شاہکاروں کے بعد نواب خاندان کا اس سے متاثر ہو کر اس سلسلے کو آگے بڑھانا کچھ اسی سلسلے کی کڑی لگتا ہے۔ وقت رہے نہ رہے، لوگ رہیں نہ رہیں۔ باتیں، یادیں اور یادگاریں ہمیشہ تاریخ کا حصہ بن جاتی ہیں۔ فلم نور محل نہ دیکھنے کا قلق اپنی جگہ لیکن نور محل کو اپنی نظروں کے سامنے پانا بھی کچھ کم نہیں۔ کیا عجب ملکہ نور محل نے جو ایک رات اس محل میں گزاری وہ اس کے لیے یادگار رہی ہو۔ اس کی روح آج بھی وہاں گنگناتی پھرتی ہو۔
میرے محبوب نہ جا آج کی رات نہ جا
ہونے والی ہے سحر تھوڑی دیر اور ٹھہر
Kainat Bashir
About the Author: Kainat Bashir Read More Articles by Kainat Bashir: 27 Articles with 49221 views میرا نام کائنات بشیر ہے۔ میں کالم، انشائیہ، آرٹیکل، مزاح نگاری، افسانہ اور ہلکے پھلکے مضامین لکھتی ہوں۔ اس کے علاوہ وجد کے کچھ لمحات شاعری کی نذر کرنا.. View More