گؤ پریم میں مانو ہتیا

ایسی درندگی پر ایسی خاموشی

پچاس سالہ اخلاق محمد کے بہیمانہ قتل پر پورا ہندوستان نہیں بلکہ پوری دنیا چیخ اٹھی ہے۔ عالمی میڈیا اس وحشت ناک واقعہ کی خبروں سے بھرا پڑا ہے۔ اخبارات میں بھی یہی خبر شہ سرخیوں میں ہے اور نیوز چینلوں پر بھی۔ سوشل میڈیا کے ایک بڑے حصے پر بھی یہی خوں چکاں خبر چھائی ہوئی ہے۔ لیکن واہ سے سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ لگانے والے ماضی کے چائے فروش اور موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی! آپ کی پیشانی پر ذرا بھی بل نہیں آئے۔ کسی نے صحیح لکھا ہے کہ کتے کے بچے کی موت پر بھی دکھی ہونے والے مودی کو اس واقعہ کا ذرا بھی دکھ نہیں، ذرا بھی افسوس نہیں۔ جو لوگ گجرات کے بدترین مسلم کش فسادات میں مودی کو کلین چٹ دیتے آئے ہیں اب ان کی بھی سمجھ میں آجانا چاہیے کہ کس طرح گجراتی مسلمانوں کے قتل عام سے چشم پوشی کی گئی ہوگی اور کس طرح قاتلوں، بلوائیوں اور حملہ آوروں کو آزادی کے ساتھ کھل کھیلنے کے مواقع دیے گئے ہوں گے۔ دنیا بھر میں گھوم گھوم کر اپنی امیج چمکانے کی کوشش کرنے والے مودی جی اگر اپنے گھر کی بھی خبر لے لیں تو یہ ایک اچھی خبر ہوگی۔ ویسے خبر ان کو پورے گھر کی ہے۔ جبھی تو کسی کی کامیابی پر مبارکبادی کا تحفہ پیش کر رہے ہیں اور کسی کے انتقال پر اس کے اہل خانہ کو پرسہ دے رہے ہیں۔

انھیں سب معلوم ہے کہ دادری کے بساہڑا گاؤں میں کیسا دردناک واقعہ ہوا ہے اور وہ کون لوگ تھے جنھوں نے مقامی مندر سے گؤ کشی کا اعلان کروایا، وائس ایپ پر نفرت انگیز پیغامات ارسال کیے، ح¤ش کر رہے ہیں اور کسی کے انتقال پر اس کے اہل خانہ کو پرسہ دے رہے ہیں۔

انھیں سب معلوم ہے کہ دادری کے بساہڑا گاؤں میں کیسا دردناک واقعہ ہوا ہے اور وہ کون لوگ تھے جنھوں نے مقامی مندر سے گؤ کشی کا اعلان کروایا، وائس ایپ پر نفرت انگیز پیغامات ارسال کیے، حمملہ کرنے والی بھیڑ کی قیادت کی اور اخلاق اور ان کے جواں سال بیٹے کو گھسیٹ کر بری طرح زدو کوب کیا۔ یہاں تک کہ باپ کی موت ہو گئی اور بیٹا اسپتال میں موت و زیست کی کشمکش میں ہے۔ لیکن کیا کریں یہ سب تو ان کے اپنے لوگ ہیں۔ کسی کے خلاف کارروائی کروائیں تو کیسے کروائیں۔ آر ایس ایس نے اسی لیے تو ان کو مسند اقتدار تک پہنچایا ہے تاکہ وہ اس کے ایجنڈے پر خاموشی کے ساتھ عمل پیرا رہیں۔ آخر انھوں نے گجرات میں ترقی کا اور ایسی ترقی کا جس میں ایک فرقے کا کوئی حصہ نہیں، جو ماڈل پیش کیا ہے، پورے ملک میں وہی ماڈل نافذ کرنے کے لیے ان سے بہتر کون ہو سکتا تھا۔ انھوں نے بھی ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ کا دلفریب نعرہ وضع کیا جس کی عالمی رہنماؤں نے بھی ستائش کی۔ لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا کے سب سے طاقتور ملک کے سب سے طاقتور سیاست داں نے ہندوستان میں مذہبی آزادی پر ﷲ کرنے والی بھیڑ کی قیادت کی اور اخلاق اور ان کے جواں سال بیٹے کو گھسیٹ کر بری طرح زدو کوب کیا۔ یہاں تک کہ باپ کی موت ہو گئی اور بیٹا اسپتال میں موت و زیست کی کشمکش میں ہے۔ لیکن کیا کریں یہ سب تو ان کے اپنے لوگ ہیں۔ کسی کے خلاف کارروائی کروائیں تو کیسے کروائیں۔ آر ایس ایس نے اسی لیے تو ان کو مسند اقتدار تک پہنچایا ہے تاکہ وہ اس کے ایجنڈے پر خاموشی کے ساتھ عمل پیرا رہیں۔ آخر انھوں نے گجرات میں ترقی کا اور ایسی ترقی کا جس میں ایک فرقے کا کوئی حصہ نہیں، جو ماڈل پیش کیا ہے، پورے ملک میں وہی ماڈل نافذ کرنے کے لیے ان سے بہتر کون ہو سکتا تھا۔ انھوں نے بھی ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ کا دلفریب نعرہ وضع کیا جس کی عالمی رہنماؤں نے بھی ستائش کی۔ لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا کے سب سے طاقتور ملک کے سب سے طاقتور سیاست داں نے ہندوستان میں مذہبی آزادی پر لگائی جانے والی پے بہ پے ضربوں پر ہندوستان ہی میں آکر ضرب لگائی اور مذکورہ نعرہ کے موجد کو اپنے گریبان میں جھانکنے کی دعوت بھی دی۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ دعوت رائیگاں چلی گئی، اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ آر ایس ایس کی کارگاہ میں ڈھالے جانے والے ذہنوں کو ایسے ہی گائی جانے والی پے بہ پے ضربوں پر ہندوستان ہی میں آکر ضرب لگائی اور مذکورہ نعرہ کے موجد کو اپنے گریبان میں جھانکنے کی دعوت بھی دی۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ دعوت رائیگاں چلی گئی، اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ آر ایس ایس کی کارگاہ میں ڈھالے جانے والے ذہنوں کو ایسے ہی یکطرفہ طور پر بے حس بنا دیا جاتا ہے۔ وہ اپنے معاملات میں تو بڑے چوکس ہوتے ہیں لیکن دوسروں کے معاملات سے انھیں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔
اس بدترین قتل کو ایک ہفتہ ہونے کو آیا ہے اور تادم تحریر محض ایک مرکزی وزیر ارون جیٹلی نے ا س پر اپنا رد عمل ظاہر کیا ہے اور وہ بھی بے دلی کے ساتھ۔ انھوں نے یہ تو کہا کہ یہ ایک قابل مذمت واقعہ ہے لیکن یہ نہیں کہا کہ جو لوگ اس میں ملوث ہیں ان کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔ انھوں نے اتر پردیش حکومت کو نصیحت کی کہ وہ ریاست میں لا اینڈ آرڈر کو یقینی بنائے لیکن اس سیاست کے خلاف ایک¤کطرفہ طور پر بے حس بنا دیا جاتا ہے۔ وہ اپنے معاملات میں تو بڑے چوکس ہوتے ہیں لیکن دوسروں کے معاملات سے انھیں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔

اس بدترین قتل کو ایک ہفتہ ہونے کو آیا ہے اور تادم تحریر محض ایک مرکزی وزیر ارون جیٹلی نے ا س پر اپنا رد عمل ظاہر کیا ہے اور وہ بھی بے دلی کے ساتھ۔ انھوں نے یہ تو کہا کہ یہ ایک قابل مذمت واقعہ ہے لیکن یہ نہیں کہا کہ جو لوگ اس میں ملوث ہیں ان کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔ انھوں نے اتر پردیش حکومت کو نصیحت کی کہ وہ ریاست میں لا اینڈ آرڈر کو یقینی بنائے لیکن اس سیاست کے خلاف ایک لفظ بھی ادا نہیں کیا جس کے نتیجے میں اس قسم کے واقعات پیش آرہے ہیں۔ ایک دوسرے وزیر مہیش شرما نے جو کہ مقامی رکن پارلیمنٹ بھی ہیں، اس گاؤں کا اور مرحوم کے گھر کا دورہ کیا اور بڑی ڈھٹائی سے اسے حادثے کا نام دے دیا۔ انھوں نے ایک نہیں کئی بیانات میں متواتر یہ بات کہی کہ یہ غلط فہمی کی بنیاد پر ہونے والا حادثہ ہے۔ انھوں نے اپنے اس بیان سے حملہ آوروں کی حوصلہ افزائی کی اور اس بیان سے بھی کی کہ جو لوگ گرفتار کیے گئے ہیں ان کے ساتھ انصاف ہو۔ گویا وہ یہ مان کر چل رہے ہیں کہ گرفتار شدگان بے قصور ہیں۔ کہنے کو تو وہ لفظ بھی ادا نہیں کیا جس کے نتیجے میں اس قسم کے واقعات پیش آرہے ہیں۔ ایک دوسرے وزیر مہیش شرما نے جو کہ مقامی رکن پارلیمنٹ بھی ہیں، اس گاؤں کا اور مرحوم کے گھر کا دورہ کیا اور بڑی ڈھٹائی سے اسے حادثے کا نام دے دیا۔ انھوں نے ایک نہیں کئی بیانات میں متواتر یہ بات کہی کہ یہ غلط فہمی کی بنیاد پر ہونے والا حادثہ ہے۔ انھوں نے اپنے اس بیان سے حملہ آوروں کی حوصلہ افزائی کی اور اس بیان سے بھی کی کہ جو لوگ گرفتار کیے گئے ہیں ان کے ساتھ انصاف ہو۔ گویا وہ یہ مان کر چل رہے ہیں کہ گرفتار شدگان بے قصور ہیں۔ کہنے کو تو و تہذیب و ثقافت کے امور کے وزیر ہیں لیکن حقیقتاً انھیں ہندوستانی تہذیب و ثقافت کا ذرا بھی علم نہیں۔ بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ ترون وجے نے پہلے یہ بیان دیا کہ ہم ہندو لوگ جو کہ گائے کی پوجا کرتے ہیں گائے کے تحفظ کا کوئی بند و بست کیوں نہیں کرتے اور یہ کہ راجسہ تہذیب و ثقافت کے امور کے وزیر ہیں لیکن حقیقتاً انھیں ہندوستانی تہذیب و ثقافت کا ذرا بھی علم نہیں۔ بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ ترون وجے نے پہلے یہ بیان دیا کہ ہم ہندو لوگ جو کہ گائے کی پوجا کرتے ہیں گائے کے تحفظ کا کوئی بند و بست کیوں نہیں کرتے اور یہ کہ راجتھان اور دوسری ریاستوں سے بڑی تعداد میں گائے اسمگل کی جاتی ہے اس کو روکنے کا کوئی انتظام کیوں نہیں کرتے اور یہ کہ ملک میں سب سے بڑا سلاٹر ہاوس ایک ہندو کا ہے۔ انھوں نے ہندووں کو آئینہ دکھاتے ہوئے گؤ شالاوں کی حالت پر بھی روشنی ڈالی اور کہا کہ وہاں گائیں ستھان اور دوسری ریاستوں سے بڑی تعداد میں گائے اسمگل کی جاتی ہے اس کو روکنے کا کوئی انتظام کیوں نہیں کرتے اور یہ کہ ملک میں سب سے بڑا سلاٹر ہاوس ایک ہندو کا ہے۔ انھوں نے ہندووں کو آئینہ دکھاتے ہوئے گؤ شالاوں کی حالت پر بھی روشنی ڈالی اور کہا کہ وہاں گائیں پلاسٹک کھاتی ہیں کیا ان کو خوراک بہم پہنچانا ہماری ذمہ داری نہیں ہے۔ انھوں نے بھیڑ کے ہاتھوں ایک شخص کی ہلاکت کے خلاف بھی اظہار خیال کیا۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ جیسے آقاؤں کی طرف سے ان کو اس بیان پر جھاڑ پلائی گئی اور پھر اگلے ہی روز اسی اخبار یعنی انڈین ا پلاسٹک کھاتی ہیں کیا ان کو خوراک بہم پہنچانا ہماری ذمہ داری نہیں ہے۔ انھوں نے بھیڑ کے ہاتھوں ایک شخص کی ہلاکت کے خلاف بھی اظہار خیال کیا۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ جیسے آقاؤں کی طرف سے ان کو اس بیان پر جھاڑ پلائی گئی اور پھر اگلے ہی روز اسی اخبار یعنی انڈین یکسپریس میں ان کا ایک مضمون چھپتا ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ محض شک کی بنیاد پر کسی کو قتل کرنا ٹھیک نہیں۔ گویا وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر ثابت ہو گیا ہوتا اور تب مار دیتے تو کوئی برائی نہیں تھی۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس واقعہ سے مودی کا ترقی کا منصوبہ پٹرایکسپریس میں ان کا ایک مضمون چھپتا ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ محض شک کی بنیاد پر کسی کو قتل کرنا ٹھیک نہیں۔ گویا وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر ثابت ہو گیا ہوتا اور تب مار دیتے تو کوئی برائی نہیں تھی۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس واقعہ سے مودی کا ترقی کا منصوبہ پٹری سے اتر جائے گا۔ یعنی اگر ترقی کا منصوبہ پٹری سے نہ اترے تو جس کو چاہو مارو، جو چاہو کرو، کوئی نہیں بولے گا۔

جب اس طرح مجرموں کی پشت پناہی کی جائے گی تو پھر لاقانونیت اور نراج کا بول بالا نہیں ہوگا تو اور کیا ہوگا۔ کیا لاقانونیت کی اس سے بھی بدترین مثال کوئی ہو سکتی ہے کہ منظم سازش کے تحت مندر کے لاوڈ اسپیکر سے ایک خاص فرقے کے خلاف اعلان کروایا جائے اور پھر ایک منظم بھیڑ ایک گھر پر حملہ کر دے اور اس بے بنیاد اور لچر الزام پر کہ اس نے گائے کا گوشت کھایا ہے اور گھر میں رکھا بھی ہے، پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دے۔ ¤ سے اتر جائے گا۔ یعنی اگر ترقی کا منصوبہ پٹری سے نہ اترے تو جس کو چاہو مارو، جو چاہو کرو، کوئی نہیں بولے گا۔
جب اس طرح مجرموں کی پشت پناہی کی جائے گی تو پھر لاقانونیت اور نراج کا بول بالا نہیں ہوگا تو اور کیا ہوگا۔ کیا لاقانونیت کی اس سے بھی بدترین مثال کوئی ہو سکتی ہے کہ منظم سازش کے تحت مندر کے لاوڈ اسپیکر سے ایک خاص فرقے کے خلاف اعلان کروایا جائے اور پھر ایک منظم بھیڑ ایک گھر پر حملہ کر دے اور اس بے بنیاد اور لچر الزام پر کہ اس نے گائے کا گوشت کھایا ہے اور گھر میں رکھا بھی ہے، پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دے۔ یہ تو جنگل راج ہوا، قانون کی حکمرانی کہاں ہوئی۔ قانون کی حکمرانی تب ہوتی جب پولیس میں گؤ کشی کی شکایت کی جاتی۔ یہاں یہ بھی بتا دیں کہ اتر پردیش میں گؤ کشی اگر چہ غیر قانونی ہے مگر گائے کا گوشت رکھنا غیر قانونی نہیں ہے۔ پہلے یہ ثابت کیا جانا چاہیے تھا کہ گیہ تو جنگل راج ہوا، قانون کی حکمرانی کہاں ہوئی۔ قانون کی حکمرانی تب ہوتی جب پولیس میں گؤ کشی کی شکایت کی جاتی۔ یہاں یہ بھی بتا دیں کہ اتر پردیش میں گؤ کشی اگر چہ غیر قانونی ہے مگر گائے کا گوشت رکھنا غیر قانونی نہیں ہے۔ پہلے یہ ثابت کیا جانا چاہیے تھا کہ گؤ کشی ہوئی ہے اس کے بعد قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے تھی۔ لیکن ایسا کیوں ہوتا۔ مودی راج میں اس کا ماحول ہی نہیں بنایا گیا۔ ماحول یہ بنایا گیا کہ جو ہمارے جذبات سے کھیلے گا ہم اس کی جان سے کھیل جائیں گے۔ جذبات تو دوسروں کے بھی ہوتے ہیں۔ ان کا بھی احترام ہونا چاہیے۔ اپنی تہذیب و ثقافت کا بوجھ دوسروں پر تھوپنے والے کتنے جری اور بہادر ہیں کہ وہ ان غیر مسلموں کا بال بھی بیکا نہیں کر پاتے جو علی الاعلان بیف کھانے کی وکالت کرتے ہیں۔ سابق بیوٹی کوین اور قلم کار شوبھا ڈے نے ایک بیان میں کہا کہ انھوں نے آج بؤ کشی ہوئی ہے اس کے بعد قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے تھی۔ لیکن ایسا کیوں ہوتا۔ مودی راج میں اس کا ماحول ہی نہیں بنایا گیا۔ ماحول یہ بنایا گیا کہ جو ہمارے جذبات سے کھیلے گا ہم اس کی جان سے کھیل جائیں گے۔ جذبات تو دوسروں کے بھی ہوتے ہیں۔ ان کا بھی احترام ہونا چاہیے۔ اپنی تہذیب و ثقافت کا بوجھ دوسروں پر تھوپنے والے کتنے جری اور بہادر ہیں کہ وہ ان غیر مسلموں کا بال بھی بیکا نہیں کر پاتے جو علی الاعلان بیف کھانے کی وکالت کرتے ہیں۔ سابق بیوٹی کوین اور قلم کار شوبھا ڈے نے ایک بیان میں کہا کہ انھوں نے آج بیف کھایا ہے جس کو انھیں قتل کرنا ہو آکر کر دے۔ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے کہا کہ وہ بھی بیف کھاتے ہیں۔ لالو یاد نے آئینہ دکھایا کہ بہت سے ہندو بیف کھاتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایسی متعدد تصاویر گردش کر رہی ہیں جن میں سادھووں کی شکل و صورت والیف کھایا ہے جس کو انھیں قتل کرنا ہو آکر کر دے۔ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے کہا کہ وہ بھی بیف کھاتے ہیں۔ لالو یاد نے آئینہ دکھایا کہ بہت سے ہندو بیف کھاتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایسی متعدد تصاویر گردش کر رہی ہیں جن میں سادھووں کی شکل و صورت والے گوشت سے لذت کام ودہن کا کام لے رہے ہیں۔ لیکن ایسے لوگوں کے خلاف ان کی مردانگی اور شجاعت بیدار نہیں ہوتی۔

جہاں مرکزی حکومت اور بی جے پی کی سیاست اس قسم کے واقعات کے لیے ذمہ دار ہے وہیں ریاستی حکومت اور مقامی انتظامیہ کو بھی کلین چٹ نہیں دی جا سکتی۔ یہ گوشت سے لذت کام ودہن کا کام لے رہے ہیں۔ لیکن ایسے لوگوں کے خلاف ان کی مردانگی اور شجاعت بیدار نہیں ہوتی۔

جہاں مرکزی حکومت اور بی جے پی کی سیاست اس قسم کے واقعات کے لیے ذمہ دار ہے وہیں ریاستی حکومت اور مقامی انتظامیہ کو بھی کلین چٹ نہیں دی جا سکتی۔ یہ وااقعہ سراسر ان کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ آخر پولیس کہاں تھی اور اس نے اب تک کوئی ٹھوس کارروائی کیوں نہیں کی۔ مندر کے جس پجاری نے اعلان کرنے کا اعتراف کیا اسے گرفتار کیوں نہیں کیا جا رہا ہے۔ پولیس کے مطابق پجاری بار بار اپنا بیان بدل رہا ہے۔ اس کا مطلب دال میں کچھ کالا ہے۔ لیکن پولیس اسے گرفتار کرنے کی ہمت نہیں کر پا رہی ہے۔ ایک مقامی بی جے پی لیڈر اور اس کے بیٹے پر بھیڑ کو مشتعل کرنے کا الزام ہے لیکن وہ بھی آزاد گھوم رہے ہیں۔ مقامی افراد کے ساتھ ساتھ ایس ڈی ایم بھی مقتول کے اہل خانہ کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔ ادھر مقامی باشندے میڈیا والوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ آخر یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ کیا واقعی ملک میں غنڈوں اور مجرموں کی حکومت قائم ہو گئی ہے۔ مودی جی بہار میں نام نہاد جنگل راج کے خلاف تو خوب بیان دیتے ہیں، اس جنگل راج پر چپ کیوں ہیں۔ یہ عجیب وقت آگیا ہے اور ہم ایسے عجیب و غریب ماحول میں جینے پر مجبور ہیں جہاں جانور کے ذبیحہ کے خلاف بطور احتجاج انسانی ذبیحہ کی قبیح روایت شروع کی جا رہی ہے۔ کیا یہی سب کا ساتھ اور سب کا وکاس ہے۔ اگر یہی سب کا وکاس ہے تو اس وکاس پر ہزار بار لعنت۔
 

Sohail Anjum
About the Author: Sohail Anjum Read More Articles by Sohail Anjum: 6 Articles with 3597 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.