کعبے سے نفرت کرنے والا ابرہہ

کعبے سے نفرت کرنے والا أبرہۃ الأشرم
عربوں اور بیت اللہ سے اغیار کا حسد کوئی نئی بات نہیں ہے،یمن،ہند،ایران اور ویٹیکن وروم جیسے بہت سے علاقوں کے لوگ حسد کی یہ آگ اپنے سینوں میں لئے مرے ہیں،مٹے ہیں،اور آیندہ کے لئے بھی حرمین اور اہل حرمین کے بد خواہوں کاانجام نوشتۂ دیوار ہے،جو بھی کسی بھی عنوان سے حرمین شریفین سے یہ من جانب اللہ استحقاق ومرجعیت چھننے کی کوشش کرے گا،یقیناً منہ کی کھائے گا،لیکن احمقوں کی جنت میں بسنے والے بدقسمتی سے تاریخ کے بجائے اپنے انجامِ بد کے واسطے اپنے ہی اوپر تجربات کرتے رہتے ہیں،جن سے وہ خود اور ان کی قومیں آنے والی نسلوں کے لئے نشانِ عبرت بن جاتے ہیں، تُبّع اور ذونواس کا تذکرہ پچھلے کالموں میں ہم کر چکے ہیں،آئیے ان تباہ وبرباد شدہ اقوام کی ایک اور جھلک آج آپ کو دکھاتے ہیں: چنانچہ ابرہہ یمن کا ایک عاقبت نا اندیش حاکم تھا،اشرم(نکٹا) یعنی ناک کٹے سے مشہور تھا،کیونکہ دوبدواور دست بدست کی ایک لڑائی میں جب اس نے شکست کھائی تھی، تو اس کی ناک بھی کاٹ دی گئی تھی،اس لئے اس کے بعد وہ ابرہۃ الأشرم کہلایا، اس نے صنعائے یمن میں ایک عبادت خانہ بنوایا اور وہ چاہتا تھا کہ لوگ آیندہ خانہ کعبہ کے بجائے اس خانہ ساز مَعبَد کا حج، طواف اور زیارت کیا کریں،تاکہ اس علاقے کو ایک محوری اور مرکزی حیثیت حاصل ہو،حجاز کے لوگوں کو یہ بات ناگوار گزری، قبیلہ بنو کنانہ کے ایک شخص نے موقع پاکر اس جعلی ’’کعبے وحرم‘‘ کو آگ لگادی، جس سے وہ راکھ کا ڈھیر بن گیا،آج بھی اس کی باقیات،اثرات اور کھنڈرات موجود ہیں،نیٹ پر اس کی تفصیلات ہیں، اتفاق کہئیے یا منصوبہ، گزشتہ دنوں حوثیوں نے اس مقام کو حفظانِ آثارِ قدیمہ کے نام سے سرکاری تحویل میں لے کر اسکے لئے سیکورٹی وغیرہ کے حوالے سے بارڈر لگاکر،چار دیواری کر کے اور صفائی ستھرائی کے عنوان سے بڑی رقم بھی مختص کی ہے، یہ وہ جگہ ہے جس کے تباہ کرنے پر ابرہہ کو بہت طیش آیا تھا، اور اس نے بیت اللہ کو ڈھانے کی قسم کھائی تھی، اس ناپاک ارادے سے وہ اپنا لشکر لے کر روانہ ہوا، جس میں بہت سے ہاتھی تھے اور ان کا پیش رو ایک عظیم کوہ قامت ہاتھی تھا، جس کا نام محمود تھا۔
مؤرخین نے لکھا ہے کہ ابرہہ راستہ بھول کر طائف پہنچ گیا تھا،جب اسے پتہ چلا کہ یہ مکہ مکرمہ نہیں ،تو اس نے وہاں مکے تک کیلئے رہبر تلاش کیا،ابو رغال نامی عرب قوم کاخائن وغدار اس کو مل گیا،وہ اغیارکو اپنوں کے خلاف لشکر کشی کے لئےدیارِ مقدسہ لے کرآیا،یہ ننگِ قوم ،ننگِ دیں ،ننگِ وطن بھی آگے چلکر اسی انجام سے دوچار ہوا،جو دشمنانِ کعبہ وحرم کا منتظرومقدر تھا،اطرافِ مکہ میں راستے ہی پرآج بھی اس غدار کی علامتی قبر موجود ہےاور تمام عوام وخواص گزرنےوالے بطورِ نفرت اس شیطان پر بھی جَمَرَات کی طرح کنکریاں برساتے ہیں۔ بہر حال ابرہہ کے لشکر نے مکہ مکرمہ کے قریب پہنچ کر مکہ والوں کے جانور پکڑلئے، ان میں دو سو اونٹ آپﷺ کے جد امجد حضرت عبدالمطلب کے بھی تھے، حضرت عبدالمطلب ابرہہ کے پاس آئے،وہ ایک بارونق اور نہایت وجیہ شخص تھے، ابرہہ نے ان کی بہت تعظیم کی اور ان کے آنے کا مقصد پوچھا، آپ نے فرمایا، میں اس لئے آیا ہوں کہ میرے اونٹ واپس کئے جائیں۔ابرہہ نے کہا، مجھے بہت تعجب ہے کہ میں بیت اللہ کو ڈھانے آیا ہوں اور وہ تمہارا اور تمہارے آبأ واجداد کا مقدس،معظم اور محترم مقام ہے، تم اس کے لئے تو کچھ نہیں کہتے اور اپنے اونٹوں کامطالبہ کرتے ہو۔ آپ نے فرمایا، میں اونٹوں کا مالک ہوں۔ اس لئے ان کے لئے کہتا ہوں اور رہا کعبہ، تو(إنّ للبیتِ ربّاً یحمیہ)اس کا مالک اﷲ تعالیٰ ہے، وہ خود اس کی حفاظت فرمائے گا۔

حضرت عبدالمطلب کو ابرہہ نے اونٹ واپس کردیئے۔ آپ نے آکر قریش کو حال سنایا اور حکم دیا کہ مکہ سے نکل کر پہاڑوں کی گھاٹیوں میں پناہ گزین ہوں، قریش نے ایسا ہی کیا، آپ خود بیت اللہ گئے اور وہاں یہ دعا کی:’’اے اﷲ! ہر کوئی اپنے گھر کی حفاظت کرتا ہے، تو ان سے اپنے حرم کی حفاظت فرما، بے شک اس گھر کا دشمن تیرا دشمن ہے، انہیں اپنی بستی کو اجاڑنے سے روک دے‘‘۔اس دعا کے بعد آپ بھی پہاڑوں کی طرف چلے گئے، اگلی صبح ابرہہ نے اپنی فوج کو حملہ کے لئے تیار کیا، اس نے اپنے دیوپیکر ہاتھی محمود کو اٹھانا چاہا، مگر وہ نہ اٹھا اور بیت اللہ کی طرف نہ چلا، جب اس کا منہ دوسری طرف کیا جاتا، تو وہ اٹھ کر تیز چلنے لگتا، لیکن جب اس کا رخ مکہ کی طرف کیا جاتا، تو وہ پھر بیٹھ جاتا، ایک عربی شاعر اسی کے متعلق کہتاہے:
ومِن صُنعِہ یومَ فِیل الحُبُوش۔۔اِذ کلما بعثوہ وزَم
’’اور اہل حبشہ کے فیل والے دن، قدرتِ إلہی کے عجیب کرشموں میں سے یہ ہے کہ وہ لوگ جتنا اس کو اٹھاتے تھے، اتنا ہی وہ بیٹھا جاتا تھا۔‘‘

مَحَاجِنُہُم تحتَ أَقرابِہ۔۔۔وقد کلَموا أنفَہ فانخرَم
’’اُن کے آنکس ( ٹیڑھی لاٹھیاں)اُس کی کمر اور پیٹ کے نچلے حصے کو زخمی کر رہے تھے اور اُنھوں نے اُس کی سونڈ بھی زخمی کر ڈالی تھی۔‘‘
اسی دوران اﷲ تعالیٰ نے سمندر کی جانب سے چھوٹے چھوٹے پرندے (ابابیل) بھیجے، ہر پرندے کے پاس تین تین کنکریاں تھیں،ایک ایک چونچوں میں اور دو دو پنجوں میں، پرندے وہ کنکریاں گرانے لگے، جس شخص پر وہ کنکریاں گرتیں، اس کے آہنی خود کو توڑ کر سر سے ہوتی ہوئی، جسم کو چیر کر ہاتھی میں سے گزر کر زمین میں دھنس جاتیں، اس طرح ابرہہ کا لشکر تباہ و برباد ہوگیا،ابرہہ پگل پگل کر مرا،اور اسی واقعۂ فیل کے پچاس دن بعدآپﷺ کی ولادت باسعادت ہوئی ،بعد میں قرآنِ کریم نے اصحابِ فیل کا تذکرہ یوں کیاہے: ’’نہایت مہربان,رحم کرنےوالے اﷲ کے نام سے۔ کیا آپ نے نہ دیکھا، تمہارے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا، کیا ان کے چال تہس نہس نہیں کی، ان پر پرندوں کی ٹولیاں (فوجیں) بھیجیں، انہیں کنکر کے پتھروں سے مارتے،تو انہیں کر ڈالا جیسے کھائی کھیتی کی بھوس‘‘۔

Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 811528 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More