آج پاکستان کیوں قرضوں تلے دبا ہے؟

پاکستان کے سیاستدان ملک کو لوٹتے چلے جا رہے ہیں۔ قرضوں کی لی جانے والی رقم سے عیاشی کر رہے ہیں مگر کوئ پوچھنے والا نہیں ہے۔ آنے والے وقتوں میں ان قرضوں کی ادائیگی پاکستان کو مہنگی پڑ سکتی ہے۔ کیوں کہ اقتدار پر پارٹیان آتی جاتی رہتی ہیں مگر ادائیگی پاکستانی عوام کی جیب سے ہو گی یا پھر پاکستان کے اثاثے غیر ملکیوں کے ہولے کرنے پڑیں گے۔ ١٩٥٨ والی کہانی دوبارہ شروع ہو جائے گی۔

آج پاکستان کیوں قرضوں تلے دبا ہے؟ کیا پاکستان غریب ملک ہے؟ کیا پاکستان کے پاس پیسہ کمانے کے ذریعے نہیں یا پھر پاکستان کی عوام کام کرنے کے قابل نہیں؟

ان سب سوالوں کا جواب نہیں ہے. کیوں کہ پاکستان کے پاس سب کچھ ہے ذریعے، قابلیت اور وسائل سے مالا مال ہے. پھر بھی پاکستان قرضوں کے نیچے دبا ہے. کیوں کہ سیاستدان اپنے مفاد کے لیے ملک کو لوٹتے جا رہے ہیں. پاکستان کی تاریخ میں جو بھی پارٹی آئی اس نے سب سے پہلے قرضہ لینے کو ترجی دی نہ کہ ملک کو بنانے کی کوشش کی جبکہ ملک میں سب موجود تھا. مگر عوام کو کچھ نہیں کرنے دیا، صنعتیں نہیں بنائی گئیں، کاروباری مراکز نہیں بنائے گئے. صرف روڈ اور نالیاں بنائی گئیں جو عوام کو نظر آتی ہیں جنہیں چند ماہ بعد توڑ کے دوبارہ نایا بنایا جاتا. اس سے عوام کو کچھ نہیں ملا. مگر خبروں میں خبر ضرور چلتی اس سال اتنا قرض لیا جاۓ گا اور اس رقم کو ترقیاتی کاموں میں استعمال کیا جاۓ گا. لیکن وہ ترقیاتی کام صرف روڈ اور نالیاں ہی ہوتے. یہ تو پاکستان کے اپنے بجٹ سے ہی بنتے تھے تو پھر قرضے کی رقم کہاں استعمال ہوتی رہی؟ یہ رقم کبھی پاکستان آتی ہی نہیں اگر آتی تو معمولی سی شرح پر آتی اور باقی پارٹی ممبرز کے درمیان بٹ جاتی جسے یہ اپنے سوس بنکوں میں جمع کرتے، غیر ملکی جیدادیں خریدتے جہاں ان کے بچے عیاشی کی زندگی بسر کرتے تعلیم حاصل کرتے. اگر ان سے کبھی سوال کیا جاتا تو آسان سا جواب سامنے آتا یہ ہماری زراعت کی آمدنی کا کچھ حصہ ہے. جبکہ ایک کسان کی سال پھر کی گندم پوری نہیں ہوتی مگر ان کی زراعت انہیں مالا مال کردیتی.

جس قرض کی رقم پر سیاستدان عیاشی کر رہے ہیں کیا اس کی ادائیگی نہیں ہونی کیا؟ ضرور ہونی ہے مگر عام عوام کی جیب سے اضافی ٹیکس کے شکل میں یا پھر پاکستان کے اثاثوں کی فروخت سے. اس سے ان سیاستدانوں پر کوئ اثر نہیں پڑے گا کیوں کہ ہر بار کی طرح سیاستدان ادائیگی والی رقم سے بھی اپنا حصہ لیتے ہیں. جس سے رقم آدھی تک نہیں رہتی اور قرضے کی رقم وہیں ٹھیری رہتی. اس سب کا حل لوگوں کے پاس موجود ہے مگر کوئ بھی خود کو اس عذاب میں نہیں ڈالنا چاہتا کہ ان سیاستدانوں کے خلاف آواز اوٹھاۓ.

Muhammad Jan Shair
About the Author: Muhammad Jan Shair Read More Articles by Muhammad Jan Shair: 9 Articles with 6810 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.