ڈاکٹر شکیل آفریدی- حقیقت ‘ فسانہ اور امریکی انتخابات۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ سال2016 ء امریکی صدارت کیلئے ہونیوالے انتخابات کا سال ہے اور امکان ہے کہ 2016 ء میں انتخابات کے موقع پر پاکستان و امریکہ کے مابین ڈیل ہو اورڈاکٹر شکیل آفریدی کو پاکستانی جیل سے نجات ملے اور ڈاکٹر شکیل آفریدی کو خاندان سمیت امریکہ میں شہریت بھی مل جائے- ڈاکٹر شکیل آفریدی کی پاکستانی قید سے نجات سے نہ صرف پاکستان کو امداد مل سکے گی بلکہ دیگر مراعات بھی حاصل کرسکے گا اور امریکی انتخابات میں اوبامہ کے قریبی ساتھی جو بائیڈن جو اسامہ بن لادن کے خلاف کئے جانیوالے آپریشن بھی بھی اوبامہ کے ساتھ رہے کو انتخابات میں ممکنہ کامیابی بھی حاصل ہوگی کیونکہ شکیل آفریدی کی رہائی جو اس وقت امریکی عوام کیلئے ہیرو کی حیثیت رکھتے ہیں کی آزادی میں اوبامہ ایڈمنسٹریشن کا اقدام انہیں سیاسی طور پر مزید مضبوط کرسکے گا-

خیبر پختونخواہ کے قبائلی علاقہ خیبر ایجنسی میں 1962 ء میں پیدا ہونیوالے ڈاکٹر شکیل آفریدی فزیشن کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں قبائلی علاقہ خیبر ایجنسی کے کے قبیلے آفریدی قبائل سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی نے 1990 ء میں پشاور کے خیبر میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی - محکمہ صحت خیبر پختونخواہ میں مختلف عہدوں پر تعینات رہا اور اس کی آخری نوکری خیبر ایجنسی میں انچارج سرجن کی تھی امریکہ کیلئے ہیرو کی حیثیت رکھنے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی پاکستان میں بہت سارے لوگوں کیلئے غدار کی حیثیت رکھتے ہیں کیونکہ وہ یقین رکھتے ہیں کہ اسامہ بن لادن کی تلاش میں ڈاکٹر شکیل آفریدی نے ان کی مدد کی تھی- خیبر ایجنسی میں چیف سرجن کی حیثیت سے کام کرنے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی کے بعض ساتھی جو اس کے ساتھ کام کرتے تھے بھی اسے مشکوک سمجھتے تھے کیونکہ وہ ہسپتال سے چھٹی کرتے وقت یہی بہانہ کرتا تھا کہ اپنے تجارت کے سلسلے میں وہ ایبٹ آباد جاتے ہیں اور جاتے وقت اپنے ساتھ نصف درجن ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی مختلف رنگوں کے بکسز بھی اپنے ساتھ لے جایا کرتا تھا جس سے اس کے ساتھ کام کرنے والے شش و پنج میں مبتلا ہوتے کہ یہ کیسی تجارت ہے کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی اپنے ساتھ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی مختلف رنگوں کے ڈبے بغیر کسی اجازت کے اپنے ساتھ لے جایا کرتے تھے- اور یہ سارے ڈبے ایمیونائزیشن کیلئے استعمال ہوتے تھے حالانکہ ان دنوں ایبٹ آباد میں کسی قسم کی مہم نہیں چل رہی تھی-
پاکستان میں اسامہ بن لادن کی موت کی تحقیقات کرنے والے کمیشن نے چھ اکتوبر 2011 ء کو ڈاکٹر شکیل آفریدی کے خلاف موجود شواہد کی بنیاد پر اسے ریاست پاکستان کیساتھ غداری کی سزا دینے کی تجویز دی تھی-حکومت نے ڈاکٹر شکیل آفریدی کی سارے اثاثے سیل کردئیے اس کا گھر سیکورٹی حکام نے سیل کردیا جبکہ حکام کے ڈر سے اس کے گھر والے بھی نامعلوم مقام پر منتقل ہوگئے-ڈاکٹر شکیل آفریدی کے ساتھ کام کرنے والے پندرہ مرد و خواتین ہیلتھ ورکرز جو ڈاکٹر شکیل آفریدی کے ساتھ بحیثیت اسسٹنٹ کے کام کرتے تھے اور جعلی مہم چلانے میں مدد گار ثابت ہوئے تھے انہیں بھی ملازمت سے برخاست کر کے مستقبل میں بھی کسی بھی سرکاری ملازمت کیلئے"ان فٹ "قرار دیا گیا- پاکستان سیکورٹی ایجنسیوں کی جانب سے مرتب کردہ ایک رپورٹ جو کہ جولائی 2012 ء میں ریلیز کردی گئی تھی میں بتایا گیا کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی نے پچیس مرتبہ غیر ملکی سیکرٹ ایجنٹوں سے ملاقات کی جنہوں نے انہیں ہدایات دی اور ڈاکٹر شکیل آفریدی نے حساس معلومات ان ایجنسیوں کو فراہم کرد ی- ڈاکٹر شکیل آفریدی نے ایک بین الاقوامی این جی او کا نام لیکر پاکستان کی سیکورٹی ایجنسیوں کے اہلکاروں کو معلومات میں بتایا کہ بین الاقوامی این جی او نے اسے ان سیکرٹ ایجنٹوں سے ملاقات کیلئے سہولت فراہم کی- جسے امریکی این جی او نے بعد میں غلط قرار دیتے ہوئے اس کی تردید کی -پاکستان سیکورٹی ایجنسیوں کی جانب سے مرتب کردہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ امریکی این جی او کے ڈائریکٹر نے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو ایک خاتون کیساتھ ملایا تھا جو بعد میں ڈاکٹر شکیل آفریدی سے مستقل ملاقات کرتی رہی-
مئی 2011 ء کو گرفتار ہونیوالے ڈاکٹر شکیل آفریدی کوتیس مئی 2012ء کو تینتیس سال کی سز ا اوردو لاکھ تیس ہزار روپے جرمانے کی سزا سنا دی گئی اور یہ سزا بھی اسے کالعدم تنظیم لشکر اسلام جو کہ خیبر ایجنسی میں بہت سرگرم عمل تھی کیساتھ روابط کے الزام میں سنا دی گئی-خیبر ایجنسی کے اسسٹنٹ پولٹیکل ایجنٹ کی عدالت نے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو ایف سی آر ایکٹ کے تحت سزا سنائی تھی 2011 سے 2012ء تک ایک سال تک وہ نامعلوم مقام پر قید رہا جس کے بارے میں ڈاکٹر شکیل آفریدی نے بعد میں ایک انٹرویو بھی دیاڈاکٹر شکیل آفریدی نے امریکی خبررساں ادارے کو دئیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں اعتراف کیا تھا کہ اسے پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی تشدد کا نشانہ بناتی رہی ہیں اور باقاعدہ سگریٹ کے داغ سمیت اسے بجلی کے کرنٹ بھی دئیے جاتے تھے ڈاکٹر شکیل آفریدی نے انٹرویو میں اعتراف کیا کہ اس وقت آئی ایس آئی کے آبپارہ میں واقع ہیڈ کوارٹر میں قید تھا-تاہم مئی 2012ء سے اسے سنٹرل جیل پشاور منتقل کردیا گیا-

ڈاکٹر شکیل آفریدی کے بارے میں لشکر اسلام کے ایک کمانڈر نے اکتیس مئی 2012 ء کو بین الاقوامی خبر رساں ادارے سے رابطے میں بتایا کہ لشکر اسلام کا ڈاکٹر شکیل آفریدی سے کوئی لینا دینا نہیں اور اگر انہیں موقع ملا تو وہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کو قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرینگے کیونکہ بقول ان کے اگر یہ بے شرم آدمی ان کے ہاتھ لگا تو وہ اسے زندہ چبا لینگے - ڈاکٹر شکیل آفریدی کو عدالت نے جو سزا سنائی تھی اس میں کہا گیا تھا کہ اس نے دو ملین روپے ) بیس لاکھ (خیبر ایجنسی سے تعلق رکھنے والے لشکر اسلام کے ایک کمانڈر کو دئیے تھے اوراس کی میڈیکل اسسٹنٹس بھی کی تھی-تاہم اس حوالے سے لشکر اسلام کے کمانڈر کا موقف تھا کہ لشکر اسلام نے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو جرمانہ کیا تھا کیونکہ وہ مریضوں سے اضافی پیسے وصول کرتا تھا اور جعلی ادویات اور جعلی سرجریوں کے ذریعے قبائلی عوام کو لوٹتا تھا اسی بنیاد پر لشکر اسلام نے اسے سزا ددی تھی -اور لشکر اسلام کے سربراہ منگل باغ نے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو لوگوں کے غیر ضروری اور جعلی آپریشن جو کہ وہ باڑہ اور یونیورسٹی ٹاؤن کے علاقے میں کرتا تھا کرنے پر بیس لاکھ روپے جرمانہ کیا تھا-

نومبر 2012 ء میں سنٹرل جیل پشاور سے یہ اطلاع آئی کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی نے جیل میں بھوک ہڑتال کردی کیونکہ وہ جیل کی حالت سے مطمئن نہیں تھے-ستمبر2012ء میں امریکی خبر رساں ادارے کے ایک نمائندے نے یہ دعوی کیا کہ اس نے سنٹرل جیل پشاور میں قید ڈاکٹرشکیل آفریدی کا انٹرویو کیا ہے اور یہ انٹرویو پینتالیس منٹ تک موبائل فون پر لیا گیا- یہ خبر میڈیا پر آنے کے بعد حکام نے سنٹرل جیل پشاور کے انتظامیہ کے خلاف اقدامات اٹھائے اورجیل کے دو اہلکاروں کو فوری طور پرمعطل کرکے انکوائری شروع کردی گئی جن پر الزام تھا کہ اس نے موبائل فون اور کیمرہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کو فراہم کردیا تھا- اس اقدام کے بعد سنٹرل جیل پشاور کی سیکورٹی مزید سخت کردی گئی - سیکورٹی اداروں کو بعض اداروں کی جانب سے اطلاعات بھی ملی تھی کہ دہشت گرد تنظیمیں ڈاکٹر شکیل آفریدی پر بھی حملہ آور ہوسکتی ہیں اسی بنیاد پر کچھ عرصہ کیلئے پاکستان آرمی کے جوان بھی سنٹرل جیل پشاور میں تعینات رہے- جبکہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کی سیکورٹی پر تعینات اہلکاروں کی تعداد بھی کم کردی گئی اور صرف مخصو ص افراد کو ہی ڈاکٹر شکیل آفریدی کے سیل تک رسائی حاصل تھی-
ستمبر 2012 ء میں امریکی انتظامیہ نے پاکستان کو یہ پیشکش کردی تھی کہ اگر پاکستان چاہے تو وہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کے تبادلے میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو رہا کرنے کیلئے تیار ہیں تاہم پاکستانی حکام نے یہ تجویز مسترد کردی -سنٹرل جیل پشاور میں قید ڈاکٹر شکیل آفریدی کے خاندان والوں کو ان سے رابطے ملاقات کی اجازت نہیں- ڈاکٹر شکیل آفریدی کی اہلیہ جو اس وقت پشاور کے نواحی علاقے میں ایک گرلز کالج میں تعینات تھی نے اپنی ملازمت بھی چھوڑ دی اور نامعلوم مقام پر منتقل ہوگئی ڈاکٹر شکیل آفریدی کی اہلیہ اور ان کے بچوں کو ان سے ملاقات کی اجازت ہیں-

ایبٹ آباد میں القائدہ کے چیف اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے حوالے سے امریکی صحافی سیمور ایم ہیرش نے 12 مئی 2015 ء کو "دی کلنگ آف اسامہ بن لادن" میں لکھا ہے کہ امریکی انتظامیہ کو اسامہ بن لادن کی حوالے سے معلومات آئی ایس آئی کے ایک سابق آفیسر بریگیڈیر عثمان خالد نے دی تھی جسے یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ اسے پچیس ملین ڈالر کی رقم جواسامہ بن لادن کی سر کی قیمت رکھی گئی ہیں دی جائیگی اور اس کے ساتھ ساتھ اس کے خاندان کو امریکی شہریت بھی دی جائیگی -امریکی صحافی کے مطابق اگست 2010 ء میں آئی ایس آئی میں کام کرنے والے ایک سینئر آفیسر نے پاکستان میں تعینات سی آئی اے کے سٹیشن چیف جوناتھن بینک سے ملاقات کی اور یہ آفر دی کہ وہ اسامہ بن لادن کے بارے میں معلومات فراہم کرسکتا ہے تاہم اگر وہ سال 2001ء میں اسامہ بن لادن کی سر پر رکھے گئے انعامی رقم اسے دینے کی یقین دہانی کرائے - تاہم امریکی حکام کو بریگیڈیر عثمان خالد پر اعتماد نہیں تھا اس لئے امریکہ سے خصوصی طور پر ایک مخصوص مشین بھجوا دی گئی جہاں پر پولی گراف مشین کے ذریعے بریگیڈیر عثمان خالد کا ٹیسٹ لیا گیا کہ کہیں یہ جھوٹ تو نہیں بول رہا اور یہ ٹیسٹ کلیئر آنے کے بعد امریکی حکام کے ہوش ٹھکانے آگئے-امریکی صحافی کے مطابق یہ جھوٹ ہے کہ اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف پرویز کیانی اور آئی ایس آئی کے چیف احمد شجاع پاشا کو امریکی آپریشن کے بارے میں معلومات نہیں تھی امریکی صحافی نے لکھا ہے کہ سال 2001 سے سال 2006 ء تک اسامہ بن لادن اپنی کچھ بیگمات کیساتھ ہندوکش کے پہاڑوں میں چھپا رہا - امریکی صحافی کے مطابق اسامہ بن لادن کو آئی ایس آئی نے قید کر رکھا تھا امریکی صحافی نے لکھا ہے کہ سی آئی اے نے ایبٹ آباد میں آبزرویشن پوسٹ قائم کردی تھی جبکہ تربیلا غازی میں ایک فرضی آپریشن بھی کرایا گیا تھا امریکی صحافی نے لکھا ہے کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کو اس آپریشن کے بارے میں کچھ پتہ ہی نہیں تھا اور اسے بطورکور استعمال کیا گیا کیونکہ اصل حقیقت کچھ اور تھی امریکی صحافی کے مطابق پاکستان آرمی کے ڈاکٹرعامر عزیز جو کہ میجر کے عہدے پر تعینات تھے ایبٹ آباد کے بلال ٹاؤن میں واقع کمپاؤنڈ میں اسامہ کا علاج بھی کرتے رہے ہیں امریکی صحافی کے مطابق چونکہ اسامہ بن لادن سعودی شہریت رکھتا تھا اس لئے سعودی حکمران اسامہ بن لادن کو چھپانے کیلئے فنڈز پاکستانی حکومت کو دیتے آرہے تھے کہ کہیں پاکستان امریکی دباؤ میں آکر اسامہ بن لادن کی موجودگی کا انکشاف نہ کرے -امریکی صحافی نے انکشاف کیا ہے کہ اسامہ بن لادن کی ڈی این اے ٹیسٹ میں پاکستان آرمی کے میجر عامر عزیز نے کردار ادا کیا تھا اوراسے بچانے کیلئے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو قربانی کا بکرا بنا دیا گیاہے

امریکی سیکرٹری دفاع لیون پنٹا جو کہ اس وقت سی آئی اے کے چیف بھی تھے نے اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں کمپاؤنڈ سے متعلق معلومات میں ڈاکٹر شکیل آفریدی کے کردار کا بھی اعتراف کیا تھا امریکی سٹیٹ سیکرٹری ہیلری کلنٹن نے بھی ڈاکٹر شکیل آفریدی کے حق میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کے پاس ڈاکٹر شکیل آفریدی کو گرفتار کرنے کا کوئی جواز نہیں- امریکی ڈسٹرکٹ کیلیفورنیا کے ایک نمائندے نے امریکی صدر بارک اوباما کو ڈاکٹر شکیل آفریدی کے حق میں دو بل بھی پیش کئے جس میں ڈاکٹر شکیل آفریدی کو گولڈ میڈل دینے اور اسے امریکی شہریت دینے کا مطالبہ بھی شامل تھا- ڈاکٹر شکیل آفریدی کی گرفتاری پر امریکی سینٹ نے پاکستان کی امداد تینتیس ملین ڈالر تھی بند کردی- امریکی انتظامیہ نے اعتراف بھی کیا کہ گرفتاری سے قبل ڈاکٹر شکیل آفریدی ملک سے نکلنے اور اپنی فیملی کو نکالنے کیلئے کوشاں تھے- ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی کیلئے مختلف بین الاقوامی تنظیموں نے آن لائن پٹیشن بھی مختلف ویب سائٹس پر لوڈ کی ہیں جن میں فیس بک پر اس کی حمایت حاصل کرنے کیلئے ویب پیج بھی شامل ہیں جسے " فری ڈاکٹر شکیل آفریدی نو" شامل ہیں-خیبر ایجنسی کے پیدائش رکھنے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی کے نہ صرف پاکستان میں بلکہ امریکہ میں بہت سارے سپورٹرز موجود ہیں- جن میں عام لوگوں سے لیکر ان کے محکمہ صحت ‘ سیاستدان ‘ وکلاء اور بعض این جی اوز سے وابستہ افراد بھی ڈاکٹر شکیل آفریدی کے سپورٹر ہیں تاہم وہ کھل کر اس بارے میں بات کرنے سے ڈرتے ہیں -

امریکی سیاستدانوں اور صحافی کے اب تک کئے جانیوالے انکشافات سے ڈاکٹر شکیل آفریدی پر لگائے جانیوالے الزام اور اسے دی جانیوالی سزا ایک طرف ‘ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ سال2016 ء امریکی صدارت کیلئے ہونیوالے انتخابات کا سال ہے اور امکان ہے کہ 2016 ء میں انتخابات کے موقع پر پاکستان و امریکہ کے مابین ڈیل ہو اورڈاکٹر شکیل آفریدی کو پاکستانی جیل سے نجات ملے اور ڈاکٹر شکیل آفریدی کو خاندان سمیت امریکہ میں شہریت بھی مل جائے- ڈاکٹر شکیل آفریدی کی پاکستانی قید سے نجات سے نہ صرف پاکستان کو امداد مل سکے گی بلکہ دیگر مراعات بھی حاصل کرسکے گا اور امریکی انتخابات میں اوبامہ کے قریبی ساتھی جو بائیڈن جو اسامہ بن لادن کے خلاف کئے جانیوالے آپریشن بھی بھی اوبامہ کے ساتھ رہے کو انتخابات میں ممکنہ کامیابی بھی حاصل ہوگی کیونکہ شکیل آفریدی کی رہائی جو اس وقت امریکی عوام کیلئے ہیرو کی حیثیت رکھتے ہیں کی آزادی میں اوبامہ ایڈمنسٹریشن کا اقدام انہیں سیاسی طور پر مزید مضبوط کرسکے گا-

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 588 Articles with 418292 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More