مسلمان متحد ہوکرحق رائے دہی کا استعمال کریں

بہار اسمبلی الیکشن پورے ہندوستان میں ایک معمہ بن چکا ہے…چناوی مہم شباب پر ہے … … ہر آئے دن ایک دھماکے دار بریکنگ نیوز عوام کی دلچسپی کا باعث بنتی ہے…تمام سیاسی جماعتوں نے خم ٹھوک کر میدان جیتنے والی پالیسی بنا رکھی ہے …خواہ چھوٹی نومولود پارٹی ہو یا پھر موجودہ مضبوط سیاسی جماعت … ہر کسی کا دعویٰ یہی ہے کہ اس بار الیکشن ہمارے سوا اور کوئی جیت ہی نہیں سکتا ہے ۔ ہر بار کی طرح اس الیکشن میں بھی مسلمانوں کو اپنی جانب راغب کرنے کے سارے سیاسی ہتھکنڈے اپنائے جارہے ہیں اور ہر کسی کا یہ دعویٰ ہے کہ مسلمانوں کو اگر ان کا صحیح حق کوئی دلا سکتا ہے تو وہ ہم ہیں… اور تبدیلی ہم سے ہی ممکن ہے … اور ہم ہی مسلمانوں کے حقیقی مسیحا ہیں …

بہار اسمبلی الیکشن پورے ہندوستان میں ایک معمہ بن چکا ہے…چناوی مہم شباب پر ہے … … ہر آئے دن ایک دھماکے دار بریکنگ نیوز عوام کی دلچسپی کا باعث بنتی ہے…تمام سیاسی جماعتوں نے خم ٹھوک کر میدان جیتنے والی پالیسی بنا رکھی ہے …خواہ چھوٹی نومولود پارٹی ہو یا پھر موجودہ مضبوط سیاسی جماعت … ہر کسی کا دعویٰ یہی ہے کہ اس بار الیکشن ہمارے سوا اور کوئی جیت ہی نہیں سکتا ہے ۔ ہر بار کی طرح اس الیکشن میں بھی مسلمانوں کو اپنی جانب راغب کرنے کے سارے سیاسی ہتھکنڈے اپنائے جارہے ہیں اور ہر کسی کا یہ دعویٰ ہے کہ مسلمانوں کو اگر ان کا صحیح حق کوئی دلا سکتا ہے تو وہ ہم ہیں… اور تبدیلی ہم سے ہی ممکن ہے … اور ہم ہی مسلمانوں کے حقیقی مسیحا ہیں … بہرحال پسماندگی دور کرنے، ریزرویشن دینے، تعلیمی اور اقتصادی میدان میں آگے بڑھانے کی جو باتیں کی جاسکتی ہیں…وہ تمام یہاں دیکھنے میں آرہی ہے۔ حالانکہ کہ یہی وہ لوگ ہیں جو ایک زمانے سے بہار کی گدی پر بیٹھ کر مسلمانوں کا خون چوستے آئے ہیں۔ محض وعدہ کی بناء پر اتنے برسوں تک استحصال کرتے رہے اور ہر الیکشن میں انہیں لالی پاپ دے کر خاموش کرتے رہے … پھر بعد الیکشن عنقاء ہوگئے … خود کو مسیحا کہنے والے ان ٹھیکیداروں کے اس وقت ہوش اُڑے جب بہار کے سب سے پسماندہ اور مسلم اکثریتی علاقے سیمانچل سے حیدرآباد کے اسدالدین اویسی نے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تھا۔ اویسی کے اس اعلان کے بعد جو کچھ ہوا اور جو کچھ ان کے بارے میں لکھا گیا اور بولا گیا وہ ہر شخص جانتا ہے… کسی نے انہیں بی جے پی کے ڈرامے کا ایک حصہ قرار دیا تو کسی نے مسلمانوں کے خلاف سازش سمجھ لیا … لیکن خدا کا یہ بندہ مسلمانوں کے سچے غم کو اپنے سینے میں دبائے ہر طرح کے لعن طعن برداشت کرتا رہا لوگوں نے اسے شدت پسند اور ملک مخالف شخصیت قرار دیا لیکن سب کی آنکھیں اس وقت پھٹی کی پھٹی رہ گئی جب اس نے اپنے صرف چھ عدد امیدوار اتارنے کا اعلان کیا اور ان چھ میں سے پانچ مسلم امیدوار اور ایک ٹکٹ برادر وطن کو دیا، اور یہ ثابت کردیا کہ اویسی کے سینے میں صرف مسلم غم ہی نہیں ہے بلکہ ہر مظلوم شخص کا درد سہنے کی طاقت رکھتا ہے، اویسی اسٹیج پر کھڑے ہوکر خود کو مسیحا ثابت کرنے والا لیڈر نہیں ہے بلکہ عوام اس کے کارناموں کو دیکھ کر خود اسے اپنا مسیحا بنانے کو بیتاب ہیں۔ سیمانچل کی ان چھ سیٹوں پر اویسی کی مقبولیت سے خوفزدہ ہوکر چار اکتوبر کو کشن گنج میں منعقدہ اجلاس سے خطاب کررہے اویسی صاحب کے چھوٹے بھائی اکبر الدین اویسی کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا ( مقدمہ درج کرنے کی بات ہے تو بقول اکبر الدین اویسی کہ میں تو صرف اپنے حقوق کے لئے آوازیں اٹھاتا ہوںاشتعال انگیزی تو توگڑیا، ادتیہ ناتھ، پراچی، مہاراج دیگر کرتے ہیں لیکن ان کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں ہوا اور ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام۔) ، اکبرالدین اویسی نے لفظ شیطان اور ظالم استعمال کیا ہم اس سے اس لیے اتفاق نہیںکرتے ہیں کہ انہوں نے وزیر اعظم کے عہدے پر متمکن شخص کے لیے یہ لفظ استعمال کیا ہے جو کہ ہر ہندوستانی کا وزیراعظم ہے بھلے ان کا ماضی جیسا بھی رہا ہو اس سے ہمیں بحث نہیں ، لیکن جب وہ وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھ جائے تو اس کا ہر حال میں بطور ہندوستانی ہمیں ادب و احترام کرناچاہئے)۔
بہار کا شمار ہندوستان کے پسماندہ صوبوں میں ہوتا ہے یہاں آج بھی ایسے علاقے موجود ہے جو اس اس ترقی کے زمانے میں بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں اور ان میں سیمانچل کا علاقہ سب سے زیادہ پسماندہ ہے ۔ اس علاقہ میں آج بھی کوئی دینی مدارس یا قابل ذکر کالج اور یونیورسٹی موجود نہیں ہے۔ یوں بھی سیمانچل کے عوام کی حیثیت ہمیشہ ووٹ بینک سے زیادہ نہیں رہی ہے ، اب تک کوئی بھی سیاسی لیڈر حقیقی طور پر ان کے دکھ کا مداوا نہیں کرسکا صرف الیکشن کے زمانے میں چند ایک چھوٹے چھوٹے جلسہ جلوس کے ذریعے عوام کو بہلا دیا جاتا رہا ہے اور جیت کا تمغہ حاصل کرنے کے بعد کوئی ان غریب کا پرسان حال نہیں رہا۔ سیلاب سے متاثر یہ علاقہ ہمیشہ برباد ہوا ہے لیکن مستقل میں اس کی روک تھام کیلئے کوئی مؤثر قدم نہیں اٹھایا گیا ،بلکہ ان غریب عوام کے بہتے جھونپڑوں پر ہمیشہ سیاست کی گئی ۔ ان کے غلہ اور کھیتوں میں لہلہاتی فصلیں تباہ و برباد ہوگئی لیکن ان لیڈروں کی آنکھ سے مگر مچھ کے بھی آنسو نہیں نکل سکے یہ لیڈران ہمیشہ اجڑے ہوئے دیہاتوں کا دورہ کرکے میڈیا والوں کو اپنا بھاشن دیکر رخصت ہوگئے ، لیکن انہیں دوبارہ آباد کرنے کیلئے ان کے پاس وقت نہیں رہا ۔ غرضیکہ کوئی بھی قابل ذکر کام اب تک ان علاقے کے دیہاتیوں کیلئے نہیں کیے گئے ہیں۔ ایسے میں سیمانچل کے عوام کی ذمہ داری اور بڑھ جاتی ہے کہ اب بھی گزشتہ کی طرح بغیر کسی لائحہ عمل کے اپنا قیمتی ووٹ نام نہاد لیڈروں کی جھولی میں ڈال دیں یا پھر عقل و شعور کو بیدار کرکے ایک صحیح اور تاریخی فیصلہ کرنے کی جسارت کریں ان نام نہاد لیڈروں سے چھٹکارا حاصل کرکے ایک ایسے رہنما کو کامیاب بنائیں جنہوں نے پہلی بار آپ سے وعدہ کیا ہے اور حیدرآباد اور بہار کا موازنہ کرکے بتایا ہے کہ ہمارے یہاں صرف سات ایم ایل ہیں اور آپ کے بہار میں ۲۲؍ ایم ایل اے لیکن ترقیات میں ہمارا حیدرآباد آگے ہیں آ پ کے اس 22مسلم ایم ایل کے بہار سے … اگر آپ ہمارے یہاں جیسی ترقی دیکھنا چاہتے ہیں اپنے بچوں کو تعلیم یافتہ اور اونچے عہدوں پر فائز دیکھناچاہتے ہیں فرقہ پرستی سے پاک بہار چاہتے ہیں تو ہمیں کامیاب بنائیں تاکہ ترقی خوشحالی کے دروازے یہاں کے لیے بھی کھولے جاسکیں۔ عوام نے ہر پارٹی کو ایک بار نہیں کئی بار آزمایا ہے اور بہتر یہی ہے کہ اس بات مجلس اتحاد المسلمین کو اپنائے تاکہ ستر سالوں سے مظلومیت کی چکی میں پستی جارہے اس علاقہ کے عوام کا بھلا ہو۔ اگر اس بہترین موقع کو ہم نے گنوادیا تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرسکے گی اور ہم اپنی آنے والی نسلوں کیلئے ایک لامتناہی غم چھوڑ کر جائیں گے اسلئے ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کریں اور سیمانچل میں یکطرفہ مجلس کو ووٹ دیں اور پورے بہار میں عظیم سیاسی اتحاد کو کامیاب بنائیں ، اپنی متحدہ طاقت کے ذریعے اپنے وجود کا احساس دلائیں اور ان لیڈروں کو بتا دیں کہ ہماری حیثیت محض ووٹ بینک کی نہیں ہے بلکہ ہم اب بیدار ہوچکے ہیں، محض چند سیاسی جملوں سے ہم بہکاوے میں آنے والے نہیں ہیں ، اب ہم میں یہ طاقت ہے کہ ہم تمہیں ماضی کی طرح پھر سے اپنے پیروں سے ٹھوکر مارسکتے ہیں اور تمہیں یہ احساس دلا نے کی صلاحیت ہم میں عود کر آئی ہے کہ تمہیں سیاست کی گلیاروں میں ہم ہی نے چلنا سکھایا تھا اور ہمارے ہی دم سے اب تک تمہارا وجود برقرار ہے ۔

NAZISH HUMA QASMI
About the Author: NAZISH HUMA QASMI Read More Articles by NAZISH HUMA QASMI : 109 Articles with 68930 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.