کشمیری کیوں بھارتی یوم جمہوریہ مناتے ہیں؟

بھارتی سیکولر آئین میں تمام مذاہب اور عقائد کو یکساں حقوق دیے گئے ہیں تاہم بھارت اب سیکولر کے بجائے ہندو انتہا پسند ریاست کا روپ دھار چکا ہے ۔اس سمت میں سفر کے لیے جو کمی کوتاہی رہ گئی ہے وہ اب وزیر اعظم نریندر داس مودی پوری کررہے ہیں ۔ بھارتی آئین کے خالق ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کی برادری دلت تو بھارتی مسلمانوں سے بھی زیادہ پسماندہ ہے ۔26جنوری کو بھارتی یوم جمہوریہ اس لیے منایا جاتا کیوں کہ بیرسٹر ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کا دیا گیا سیکولر اور جمہوری آئیں اسی روز اپنایا گیا تھا۔ بھارت میں ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کے بنائے آئیں کے برعکس ہندو انتہا پسندوں نے دلتوں اور پسماندہ برادریوں کو کچل کر رکھ دیا گیا ہے ۔ بھارتی معاشرہ عملا سیکولر رہا ہے اور نہ ہی حقیقی جمہوری، پھر بھی دنیا کو دکھانے کے لیے ہرسال یوم جمہوریہ جوش وجزبے سے منایا جاتا ہے ۔ہندوستان میں ایک قوم بستی ہے اسے اپنے قومی دن منانے کا حق حاصل ہے مگر کشمیری کیوں یوم جمہوریہ مناتے ہیں؟کسی کو اندازہ یہ کیا ہو رہا ہے ،ان اقدامات سے کس کو فائدہ ہو رہا ہے اور کس کی مشہوری ہو رہی ہے ، حریت کانفرنس نے جب سے بھارتی قومی دن منانے کا سلسلہ شروع کیا ہے پاکستان اور آزاد کشمیر میں بچے بچے کو معلوم ہے کہ 26جنوری کو بھارتی یوم جمہوریہ منایا جاتا ہے، 15اگست کو بھارت کا یوم آزادی ہوتا ہے اور 27اکتوبر کو بھارت نے کشمیر میں فوجیں اتار کر کشمیر کاکنٹرول حاصل کیا تھا۔ بھارتی حکومت کو حریت کانفرنس کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ حریت کانفرنس جوش و جذبے سے بھارتی قومی دن مناتی ہے۔ اس اقدام کے نتیجے میں بھارت سے باہر بھی لوگوں کو پتہ چل رہا ہے کہ کوئی قوم موجود ہے جو 15اگست کو آزاد ہوئی چنانچہ 15اگست کو برسلز اور لندن سے لے کر واشنگٹن تک تقاریب اور ریلیاں ہوتی ہیں۔ پاکستان اور آزاد کشمیر میں کسی کو پاکستان کے قومی ایام کا پتہ ہو یا نہ ہو بھارتی قومی ایام کا ضرور پتہ ہے ۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ 26جنوری کو حریت کانفرنس نے بھارتی یوم جمہوریہ کے موقع پر تقاریب کا اہتمام کرنا ہوتا ہے۔ بھارتی یوم آزادی کے موقع پر بھی ریلیاں نکالی جاتی ہیں ، آپ اس اقدام کو احتجاج کا نام نہ دیں یا نفرت کا، فائدہ برحال بھارت کا ہو رہا ہے، مفت میں بھارت کی مشہوری ہو رہی ہے ،ہماری طرف سے دنیا کو بتایا جاتا ہے کہ ہم احتجاج کر رہے ہیں اس لیے کہ 26جنوری کو بھارت کا یوم جمہوریہ ہے ۔ڈاکٹر امیڈ کرنے بھارت کا آئین دیا تھا اس آئین کے تحت بھارت ایک جمہوری ریاست ہے۔ حریت کانفرنس کی تقاریب کے نتیجے میں پاکستان کے نجی ٹیلی ویژن چینل بھی اپنی قوم کو بتاتے ہیں ، آج بھارتی یوم جمہوریہ ہے اس موقع پر حریت کانفرنس کی ریلی ہو گی، اس دفعہ تو بھارت کا کام اور آسان ہوگیا ہے، اب ان تقاریب میں پاکستانیوں کو یہ بھی بتایا گیا کہ سوا ارب آبادی والا ملک بھارت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی مستقل نشست کا امیدوار ہے۔ امریکی صدر باراک اوبامہ نے بھارتی یوم جمہوریہ کی تقریب میں شرکت کے لیے دہلی ائے تھے ۔ دہلی آمد پر اوبامہ نے سلامتی کونسل کی مستقل نشست کے لیے بھارت کا حق نہ صرف تسلیم کیا ہے بلکہ حمایت بھی کر دی ہے۔ کیا اچھا نہ ہوتا اگر ہم اپنی بات کرتے اپنی قوم کو اپنے منصوبے سے اگاہ کرتے؟ ہمارے ایک دوست انتخابات کے موقع پر اپنے دوست کی انتخابی مہم میں پورا ایک ماہ مصروف رہے ۔ پورا ماہ اپنے دوست کی انتخابی مہم زور و شور سے چلاتے رہے، انتخابات ہوئے تو ان کے دوست کے حق میں کم ووٹ پڑے ۔ پتہ کرنے پر معلوم ہوا ہمارا دوست پورا ماہ اپنے دوست کی حمایت میں کچھ کہنے کے بجائے مخالف امیدوار کا منشور لوگوں کو بتانے میں مصروف رہے ، مخالف امیدوار کے ایجنڈے اور پروگرام کی اس قدر تنقیدی تشہیر کی گئی کہ لوگوں کو لگا اصل امیدوار تو یہی ہے ۔ آج یہی کام حریت کانفرنس نے اپنے ذمہ لے لیا ہے، اگر بھارت نے کشمیر پر قبضہ کر رکھا ہے ، بھارت کشمیریوں کا دشمن ہے تو بھارت کے قومی دن مناکر بھارت کی تشہیر کیوں کرکی جاتی ہے؟ اپنا منصوبہ ، اپنی شناخت اور اپنا مطالبہ دنیا کے سامنے کیوں نہیں رکھا جاتا؟ مشکل یہی ہے کہ کشمیریوں کی اپنی شناخت کبھی سامنے نہیں اسکی ۔ اس سلسلے میں کوئی مہم شروع نہیں ہوسکی، کشمیریوں کا اپنا کوئی منصوبہ سامنے آسکا اور نہ اسکے حق میں برسلز اور واشنگٹن میں تقاریب منعقد ہوئیں۔ کیا حریت کانفرنس نے اپنا کوئی منصوبہ دنیا کے سامنے پیش کیا؟ ایسا منصوبہ جو تمام دلوں کی آواز ہو،جس میں کسی کی ڈکٹیشن کے بجائے اپنی رائے شامل ہو اب مسئلہ یہ بھی ہے کہ ایک حریت کوئی پروگرام یا منصوبہ سامنے لائے گی تو دوسری حریت اس سے لا تعلق رہے گی ، تیسری حریت مخالفت پر سامنے آسکتی ہے ۔ چنانچہ اصل کام بھارتی قومی دن منانا نہیں ، اپنا ایجنڈا اور اپنی آوازدنیا کے سامنے لانا ہے۔ اب 2015 ہے ، دنیا کے حالات بدل رہے ہیں اپنی شناخت اور اپنا پروگرام ہی کوئی نتائج دے سکتا ہے۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ حریت کانفرنس حکمت عملی تبدیل کرے۔ نئی سوچ اور نیا پروگرام سامنے لائے ، ایسا پروگرام جو نہ صرف دنیا کو بلکہ خود کشمیریوں کو بھی دلکش لگے ، جو کسی قوم کے شایان شان اور معتبر ہو۔زندہ قومیں دوسری قوموں کے ایام نہیں مناتی بلکہ اپنے قومی ایام انتہائی جوش و جذبے کے ساتھ مناتی ہیں۔ اپنے اسلاف کے کارہائے نمایاں کو زندہ کرتی ہیں ۔ حیرت ہوتی ہے ہمیں حریت رہنماوں کے اِس مفلسانہ انداز فکر پر، 20 سال بعد بھی اتحاد و یک جہتی کا فقدان ہے ۔ ابھی بھی لوگوں کو اسی گن چکر میں ڈالا جارہا ہے ۔ ،سب جانتے ہیں کہ منزل کے راستے اب کھوکھلے بیانات اور سطحی سوچ سے ممکن نہیں رہے ،محض 26 جنوری یا 15 اگست ، منانے سے ریاست کی آزادی کا خواب پورا نہیں ہوسکتا۔ ہڑتالوں سے تبدیلی نہیں آسکتی،نہ ہی عوام کو زیادہ دیر اِن پر فریب نعروں سے بہلایا جاسکتا ہے۔اب قیادت اپنے دل میں چھپے انا کے دریچے بند کر دے۔ صرف بیانات کے منتر قوم کی تقدیر بدلنے کے لے کافی نہیں ہیں۔لمبی اور سیاہ رات کا کٹھن سفر جذبہ جنون کے بغیر کبھی بھی تمام نہیں ہوتا،شعور منزل جدوجہد کا متقاضی ہے، آگہی عمل مانگتی ہے اور عمل قربانی کا خراج لیتاہے۔ہم یہ خراج بھی دے چکے ہیں مگر وہیں کھڑے ہیں جہاں 20 سال پہلے تھے ۔تو پھر کیا کریں؟ ساغر صدیقی داتا دربار کے باہر بیٹھے تھے کہ صدر ایوب خان کا بلاو ا آگیا۔ ساغر صدیقی صدر ایوب کے پاس جانے کے لیے امادہ نہ تھے ، صدارتی اہلکار صدارتی فرمان کی تعمیل کے لیے اسرار کر رہے تھے ساغر نے سگریٹ کی خالی ڈبیالی اوراس کے کاغذ پر لکھا۔
جس دور میں لٹ جائے غریبوں کی کمائی
اس دور کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے

آج کے دور میں کشمیری لٹ گئے ہیں، اہنے بچوں کی قربانی دے کر خراج ادا کر چکے ہیں مگر خالی ہاتھ ہیں یقینا ان کی قیادت سے ضرور کوئی بھول ہوئی ہے۔
 

Sardar Ashiq Hussain
About the Author: Sardar Ashiq Hussain Read More Articles by Sardar Ashiq Hussain: 58 Articles with 50309 views
The writer is a Journalist based in Islamabad. Email : [email protected]
سردار عاشق حسین اسلام آباد میں مقیم صحافی ہیں..
.. View More