مملکت خداداد اور اسلامی اقدار

پاکستانی سپریم کورٹ کے اس شرم ناک فیصلے پر لکھاگیا کالم - جس میں سود کو جائز قرار دیا گیا - سرینگر سے

پچھلے ٤٨ گھنٹوں میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے دو ایسے فیصلے دیئے –جس سے قیام پاکستان اور آیین پاکستان سے مطلق وہ دھند صاف ہوگی –جس کا سہارا لیکر اسلام آباد سے سرینگر تک ایک خاص طبقہ اچھے بھلے سیکولر ملک کو اسلامی مملکت ،خداداد مملکت ،اور(نعوزباللہ۔-استغفراللہ ) مدینہ الثانی ثابت کرنے پر تلے ہوئے تھے –کنٹرل لائن کے اس پار لوگ اس صدی کے سب سے بڑے فریب کے متعلق جانتے ہیں – لیکن ٹیٹوال سے بانہال تک وادی کشمیر کے لوگوں کا ایمان بالغیب یہی ہے –کہ قیام پاکستان اور آیین پاکستان کی بنیادیں قرآن اور سنت کے آفاقی اصولوں پر قائم کی گئی تھیں –حالانکہ تاریخ کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ پوری طرح ثابت ہوتا ہے –کہ حصول پاکستان کے لئے اکابرین پاکستان نے بہت سے مواقع پر اسلام کے نام کا استعمال کیا –لیکن قیام پاکستان سے قبل اور بعد (یعنی آج تک ) اصحاب اختیار اور اصحاب اقتدار کی سوچ اور ہدف صرف اور صرف اسلام اور مسلمانیت کے نام پر ایک خطہ زمین حاصل کرکے اس پر اپنی اجارہ داری قائم کرنا تھا –شاید کچھ اصحاب خلوص بھی شریک کاروان تھے –مگر وہ آٹے میں نمک کے برابر تھے –اور روزاول سے آج تک نا ان کو اقتدار میں آنے کا موقع دیا گیا -نہ ہی عوام پاکستان نے ان کی حمایت کی-قیام پاکستان کے فوراً بعد مفکر اسلام،مفسر قرآن اور بانی جماعت اسلامی کو کال کوٹھری میں کسی حصول اقتدار یا سیاسی لڑائی کی وجہ سے بند نہیں کیا گیا –بلکہ دو سال سے کچھ کم کی یہ قید اسلامی نظام کے عملی نفاز اور مسلہ کشمیر سے وابستہ کچھ شرعی معاملات کی وجہ سے اسی غیر شرعی اور اسلام مخالف کورٹ نے سنائی تھی- جس کے تمام فیصلے اس آیین اور قانون کی بنیاد پر کئے جاتے ہیں –جوصریحا قرآن اور حدیث کے شدید مخالف ہیں –پاکستان کے ایک شہری عاکف نے سپریم کورٹ میں ایک عرضی داخل کی –جس میں استدعا کی گئی تھی – کہ سود جیسے کافرانہ معاشی نظام کے خاتمے کے لئے حکم جاری کیا جائے - کیس کی سماعت پاکستان کے کبارالقضا-(چیف جسٹس آف پاکستان ) جسٹس سرمد جلال عثمانی کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے کی –جس میں جسٹس سرمد جلال عثمانی نے ریمارکس دیئے جو سود نہیں لینا چاہتا ہے –نا لے اور جو لے رہے ہیں الله اور ان کا معامله ہے –سپریم کورٹ کے باہر مدرسہ کھول کر سود کے خاتمے کا سبق نہیں دسکتے ہیں – یہاں پاکستان کی سب سے بڑی عدالت نے اس کیس کو ہمیشہ کے لئے دفن کردیا ہے –پاکستانی قوم پرستوں اور کشمیر میں پاکستانی قوم پرستی کے پرچار کرنے والوں کے لئے یہ صرف ایک عدالتی فیصلہ ہے –لیکن فرقان حمید قرآن مجید کے نقطۂ نظر میں یہ مملکت پاکستان کا الله اور الله کے رسول ﷺ کے خلاف اعلان جنگ ہے

سود کے بارے میں قرآن کریم کی سورۃ بقرۃ میں آیت(۲۷۹) کے اندر واضح طور پر فرمایا گیا ہے کہ اگر اﷲ کا حکم مان کر اسے ترک نہ کیا جائے گا تو یہ عمل اﷲ تعالیٰ سے اعلان جنگ کے مترادف ہوگا۔ دیکھئے اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کیا فرماتے ہیں:

مسلمانو! اﷲ تعالیٰ سے ڈرو اگر تم مسلمان ہو تو جس قدر سود رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو اور اگر ایسا نہ کرو تو اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول سے لڑنے کوتیار ہو جاؤ…

یقینا تمام انسانی گناہوں میں صرف یہی معصیت حرب من اﷲ ورسولہ ہے کیونکہ اور کسی معصیت میں انسان،خدا کے بندوں کیلئے اس درجہ بے رحم اور خونخوارنہیں ہوجاتا،جس درجہ سود کو اپنا وسیلہ معاش بنا لینے کے بعد ازسرتاپا مجسمہ شقاوت و قساوت اور غلظت و صلابت بن جاتا ہے اور خدا کے بندوں کے آگے بے رحمی سے مغرور ہونا فی الحقیقت خدا کے آگے مغرورہو کر آمادہ جنگ وپیکار ہوناہے۔اگر ایک شخص چورہے، ڈاکو ہے، قاتل ہے تو قانون اس کو سزادیگا اور انسانی آبادی اس سے پناہ مانگے گی لیکن ایک سود خور کہتا ہے کہ انماالبیع مثل الربوا ، اس نے تجارت کی ایک دو کان کھول دی ہے اور ضرورت و احتیاج انسان کے ہوش و حواس معطل کر دیتی ہے ، ڈاکو سے انسان بھاگتاہے مگر مظلوم قرضدار خودوڑ کر اس کے پاس جاتاہے پس فی الحقیقت قتل وغارت کسی قانون اورمذہب کیلئے اس درجہ سختی کی مستحق نہیں جس قدر سود اور سود خوری کی مہیب زندگی پھر کیا حرب من اﷲ و رسولہ سے اس کی تعبیر صحیح نہیں ہے۔دنیا میں خودغرضی کے جس قدراعمال کئے جاتے ہیں ان میں سے کسی میں بھی اس درجہ استمرار اور مداومت نہیں جیسی کاروباری بے رحمی۔ سود خوار کاعمل ظلم دائمی اور انسانی عمروں خاندانوں اورنسلوں تک جاری رہتاہے اور وہ جس شکار کو پکڑتاہے اس کی بیکسی اورمظلومی کا نظارہ برسوں تک دیکھتارہتا ہے اور جب تک ہمیشہ کیلئے اس کے تڑپنے لوٹنے اور کراہنے کا تحمل اپنے اندر پیدا نہ کرے وہ سود خوارنہیں بن سکتا۔ اس لئے صرف اسی معصیت کو حرب من اﷲ و رسولہ سے تعبیر کیا گیا( تفسیر الفرقان فی معارف القرآن)

نبی کریم ﷺ کے ارشادات عالیہ میں بھی اس بارے میں سخت وعید اور تہدید واضح الفاظ میں موجود ہے۔ چند احادیث ہم ذیل میں ذکر کرتے ہیں جن سے کچھ اندازہ ہوگا کہ سود اﷲ کے حبیب ﷺ کی نظر میں کتنا بڑا جرم ہے
رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ سات مہلک چیزوں سے بچوصحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دریافت کیا: یا رسول اﷲ! وہ کیا ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: ایک اﷲ تعالیٰ کے ساتھ(عبادت میں یا اس کی مخصوص صفات میں)کسی غیر اﷲ کو شریک کرنا، دوسرے جادو کرنا، تیسرے کسی شخص کو ناحق قتل کرنا، چوتھے سود کھانا، پانچویں یتیم کا مال کھانا، چھٹے جہاد کے وقت میدان سے بھاگنا، ساتویں کسی پاک دامن عورت پر تہمت باندھنا۔ (بخاری شریف )
رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ میں نے آج رات دو شخصوں کو دیکھا جومیرے پاس آئے اور مجھے بیت المقدس تک لے گئے، پھر ہم آگے چلے تو ایک خون کی نہر دیکھی جس کے اند رایک آدمی کھڑاہوا ہے، اور دوسرا آدمی اس کے کنارہ پر کھڑا ہے جب یہ نہر والا آدمی اس سے باہر آنا چاہتا ہے تو کنارہ والا آدمی اس کے منہ پرپتھر مارتاہے جس کی چوٹ سے بھاگ کرپھر وہ وہیں چلا جاتا ہے جہاںکھڑا ہوا تھا، پھر وہ نکلنے کا ارادہ کرتاہے تو پھر یہ کنارہ کاآدمی یہی معاملہ کرتا ہے آنحضرتﷺ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے ان دو ساتھیوں سے پوچھا کہ یہ کیا ماجرا ہے جو میں دیکھ رہا ہوں؟انہوں نے بتلایا کہ خون کی نہرمیں قید کیا ہوا آدمی سود کھانے والا ہے (اپنے عمل کی سزا پارہاہے) (بخاری)
رسول کریمﷺ نے سود لینے والے پر بھی لعنت فرمائی اور سود دینے والے پربھی اور بعض روایات میں سودی معاملہ پر گواہی دینے والے اور کا وثیقہ لکھنے والے پربھی لعنت فرمائی ہے۔
اور صحیح مسلم کی ایک روایت میں فرمایا کہ یہ سب گناہ میں برابرہیں اور بعض روایات میں شاہد وکاتب پرلعنت اس صورت میں ہے جبکہ ان کو اس کا علم ہو کہ یہ سود کا معاملہ ہے۔
رسول کریمﷺ کا ارشاد ہے کہ چارآدمی ایسے ہیں کہ ان کے بارے میں اﷲ تعالیٰ نے اپنے اوپر لازم کر لیا ہے کہ ان کو جنت میں داخل نہ کرے اور جنت کی نعمت نہ دیکھنے دے، وہ چار یہ ہیں: شراب پینے کا عادی اور سود کھانے والا اور یتیم کا مال ناحق کھانے والا اوراپنے والدین کی نافرمانی کرنے والا(مستدرک حاکم)
نبی کریمـﷺ نے فرمایا کہ جو آدمی سود کا ایک درہم کھاتا ہے وہ چھتیس مرتبہ بدکاری کرنے سے زیادہ سخت گناہ ہے اور بعض روایات میں ہے کہ جو گوشت مال حرام سے بنا ہو اس کے لئے آگ ہی زیادہ مستحق ہے اسی کے ساتھ بعض روایات میں ہے کہ کسی مسلمان کی آبروریزی سود سے بھی زیادہ سخت گناہ ہے۔ (مستدرک الحاک)
ایک حدیث میں ہے کہ رسول کریمﷺ نے اس بات سے منع فرمایا کہ پھل کو قابل استعمال ہونے سے پہلے فروخت کیا جائے، اور فرمایا کہ جب کسی بستی میں بدکاری اور سود کا کاروبار پھیل جائے تو اس نے اﷲ تعالیٰ کے عذاب کو اپنے اوپر دعوت دیدی۔ (مسنداحمد، طبرانی )
رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ جب کسی قوم میں سود کے لین دین کا رواج ہوجائے توا ﷲ تعالیٰ ان پر ضروریات کی گرانی مسلط کر دیتا ہے اورجب کسی قوم میں رشوت عام ہوجائے تو دشمنوں کا رعب غلبہ ان پر ہو جاتا ہے۔ (مسند احمد)
رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ شب معراج میں جب ہم ساتویں آسمان پر پہنچے تو میں نے اپنے اوپر رعد وبرق کو دیکھا، اس کے بعد ہم ایک ایسی قوم پر گزرے جن کے پیٹ رہائشی مکانات کی طرح پھولے اور پھیلے ہوئے ہیں جن میں سانپ بھرے ہیں جو باہر سے نظر آرہے ہیں، میں نے جبرئیل امین سے پوچھا کہ یہ لوگ کون ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ یہ سود خور ہیں۔ (مسنداحمد)
رسول اکرمﷺ نے حضرت عوف بن مالک سے فرمایا کہ ان گناہوں سے بچو جو معاف نہیں کئے جاتے، ان میں سے ایک مال غنیمت کی چوری ہے اور دوسرے سود کھانا۔(طبرانی)
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئیگا جس میں سوائے سود خود کے اور کوئی نہیں ہوگا اگر کھلا ہوا سود نہ بھی کھایا تو اس کا دھواں بہرحال اس تک پہنچے گا۔(صحیح مسلم)
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ارشادفرمایا :سود کے ستر گناہ ہیں کم از کم گناہ یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے زنا کرے۔(ابن ماجہ)
حضرت ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے ارشاد فرمایا:کوئی شخص سودی مال کو کتناہی بڑھالے انجام کار خسارہ اورنقصان ہی ہوگا۔ (ابن ماجہ)
حضرت ابن مسعودؓسے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشادفرمایا:قرب قیامت میں سود، زنا اورشراب نوشی عام ہوجائے گی(المعجم الاوسط)
حضرت عبداللہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: کسی نبی کی قوم ہلاک نہیں ہوئی جب تک ان میں زنا اور سود عام نہیں ہوا ۔( المعجم الکبیر)
حضرت سعید بن جبیرؒ سے روایت ہے کہ انہوں نے آیت الذین یاکلون الربا الخکی تفسیر میں فرمایا: جولوگ سود کھاتے ہیں قیامت کے دن پاگلوں کی طرح گلے میں رسی ڈالے ہوئے پیش کئے جائیںگے۔
میں چیف جسٹس آف پاکستان کے ان ریمارکس سے حیران ہوا جس میں انہونے کہا "جو سود نہیں لینا چاہتا ہے –نا لے اور جو لے رہے ہیں الله اور ان کا معامله ہے" مجھے تعجب ہورہا ہے کس بیوقوف کو چیف جسٹس بنایا گیا ہے –کیا یہ ایسے ریمارکس نہیں ہیں-
جوچوری کرنا نہ چاہتے ہیں نہ کریں جوکرتے ہیں انہیں الله پوچھے گا
جو قتل کرنا نہ چاہتے ہیں نہ کریں جو کرتے ہیں انہیں الله پوچھے گا
جو زنا کرنا نہ چاہتے ہیں نہ کریں جو کرتے ہیں انہیں الله پوچھے گا
جو شراب پینا نہ چاہتے ہیں نہ پئیں جو پیتے ہیں انہیں الله پوچھے گا
جب الله نے ہی یہ سب پوچھنا تھا – تو اس کورٹ ، کچہری ، پارلیمنٹ اور کیبنٹ کی کیا ضرورت تھی –
ایک بار میں نے تحریک طالبان پاکستان کے مرحوم امیر حکیم الله محسود کا کلپ دیکھا – جس میں وہ بار بار کہہ رہے تھے – کہ پاکستان کو اسلام کے نام پر بنایا گیا- لیکن یہاں کفر کا قانون لاگو کیا گیا ہے – ہماری لڑائی حکومت پاکستان سے صرف یہی ہے- جس دن یہاں اسلامی نظام نافذ کردیا گیا – ہم اس ملک کے وفادار شہری اور سپاہی ہونگے- نیتوں کو جاننے والا تو صرف الله پاک کی ذات مقدس ہے- لیکن آج مجھے لگتا ہے –کہ مرحوم حکیم الله مسعود کی بات سولہ آنے حق تھی –شاید اسلئے بہت سے علمائے کرام کا تحریک طالبان پاکستان کے تعیں نرم گوشہ ہے –حالانکہ ایک بار تواس وقت کے امیر جماعت اسلامی پاکستان نےجنگ میں مرنے والے طالبان کو شہید اور ان کے خلاف لڑنے والے پاکستانی فوجیوں کے بارے میں نا خوشگوار الفاظ استعمال کیئے تھے - میرے ایک دوست جو یورپ میں سکونت پذیر ہیں نے مجھے سوال پوچھا – "آپ کس دنیا اور کس وقت میں رہتے ہو ؟ بِلا سُود معاشی نظام قائم کرنا دور کی بات ہم بلا سود معاشی نظام میں زندہ بھی نہیں رہ سکتے ہیں ؟
میں ایک ماہر اقتصادیات کا بیٹا ضرور ہوں مگر میں اقتصادیات کے حروف تہجی بھی نہیں جانتا ہوں – میرے والد صاحب (الله ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے)اکثر کہا کرتے تھے – عنقریب اسلامک بینکنگ دنیا میں معاشی انقلاب پیدا کرے گی – بشرطیہ اس کو نافذ کیا جائے مولانا مودودی رحم الله لکھتے ہیں –کیا ھم بِلا سُود معاشی نظام قائم کر سکتے ہیں ـــــــ ؟ یقینًا کر سکتے ہیں ۔ پہلے صدیوں تک ایسا نظام قائم رہا ھے اور آج بھی اگر آپ اسے قائم کرنا چاہیں اور دوسروں کی اندھی پیروی سے نکل آئیں تو اس کا قائم کرنا مشکل نہیں ھے ۔ اسلام کے آنے سے پہلے دنیا کا معاشی نظام اسی طرح سُود پر چل رہا تھا جس طرح آج چل رہا ھے ۔ اسلام نے اُس کو بدلا اور سود کو حرام کر دیا ۔ پہلے وہ عرب میں حرام ہُوا ۔ پھر جہاں جہاں اسلام کی حکومت پہنچتی گئی وہاں سود ممنوع ھوتا چلا گیا اور پورا معاشی نظام اُس کے بغیر چلتا رہا ۔
یہ نظام صدیوں چلا ھے ۔ اب کوئی وجہ نہیں کہ وہ نہ چل سکے ۔ اگر ھم میں اجتہاد کی قوت ہو اور ھم ایمانی طاقت بھی رکھتے ھوں اور یہ ارادہ بھی رکھتے ہوں کہ جس چیز کو خدا نے حرام کیا ھے اُس کو ختم کریں تو یقینًا آج بھی ھم اسے ختم کر کے تمام مالی اور معاشی معاملات چلا سکتے ہیں
بات صرف اتنی ھے کہ ھمارے اندر اجتہاد کی صلاحیت نہیں ھے بلکہ ہمیں اندھی تقلید کی عادت پڑی ھوئی ھے ۔ جو پہلے سے ھوتا چلا آ رہا ھے وہی ھم آنکھیں بند کر کے چلائے جائیں گے ۔ اجتہاد سے اپنے لیے کوئی راستہ نہ نکالیں گے ۔ مولوی غریب کو طعنہ دیا جاتا ھے کہ وہ اندھی تقلید کرتا ھے اور اجتہاد سے کام نہیں لیتا ، حالانکہ خود اندھے مقلّد ہیں اور اجتہاد کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ یہ بیماری لگی ھوئی نہ ھوتی تو اب تک یہ مسئلہ حَل ھو چکا ہوتا
سیّد مودودیؒ ۔ اسلامی نظمِ معیشت کے اصول اور مقاصد
کالم کے آغاز میں میں نے جس دوسرے فیصلے کا ذکر کیا تھا – وہ ناموس رسالت ماب حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے متعلق تھا - حس میں غازی ممتاز قادری (رحم الله ) کو عشق رسول کی پاداش میں سزائے موت کی توسیع کی گئی – انشاللہ اس پر آیندہ تفصیل سے روشنی ڈال دوں گا
 

Dr.Showkat Ul Islam
About the Author: Dr.Showkat Ul Islam Read More Articles by Dr.Showkat Ul Islam : 9 Articles with 8095 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.