سانحہ 8 اکتوبر2005 ء - یاد ماضی عذاب ہے یا رب

زندگی میں خوشیوں کی بہاریں اور غموں کی برسات کا آنا انسانوں کیلئے کوئی انہونی بات نہیں مگر کچھ واقعات و سانحات اپنے ایسے گھمبیرنقوش چھوڑجاتے ہیں،جن کی یادوں کے زخم اندرہی اندرانسان کوکھوکھلاکردیتے ہیں۔آزادکشمیرمیں 8اکتوبر 2005ء کادن ایسی ہی ہزاروں داستانیں لے کر طلوع ہوا،جب صبح8بجکر52منٹ پرآزادکشمیرکے دارالحکومت مظفرآباد،باغ،راولاکوٹ اور خیبرپختونخواہ کے بالاکوٹ سمیت دیگرعلاقوں میں زمین نے ایسی خوفناک کروٹ لی کہ محض3سے 7سیکنڈزمیں لگ بھگ 73ہزارافرادزندگی کی رعنائیوں کو خیرآبادکہہ کر اپنے ہی ہاتھوں سے تعمیرکئے ہوئے عالیشان محلات میں ابدی نیند سوگئے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اُس قیامت خیززلزلے میں70ہزارافرادشدیدزخمی جبکہ28 لاکھ گھرانے سائبان سے محروم ہوگئے۔صرف مظفرآبادمیں شہیدہونے والوں کی تعداد 34ہزار1سو 73بتائی گئی ہے۔دارالحکومت میں 56ہزار5سو26 افرادجن میں خواتین اوربچوں سمیت ہرعمرکے افرادشامل تھے، شدیدزخمی ہوئے ،جن میں سے بیشتراپاہج ومعذور ہوکراس بے حس معاشرے میں لاچارگی وبے بسی کی جیتی جاگتی تصویربن کررہ گئے۔آزادکشمیرمیں مجموعی طورپر 84فیصدمکانات تباہ ہوئے جبکہ مظفرآبادمیں01لاکھ 25ہزار2سو77مکانات مکمل طورہرتباہ ہوئے۔ایشئین ڈویلپمنٹ بینک،ورلڈبینک اور یواین ایجنسیز کے مطابق قیامت خیززلزلے سے تباہ ہونے والے نقصانات کا مجموعی تخمینہ تقریباً5.3 ارب امریکی ڈالر لگایاگیا۔ایراء کے ڈائیریکٹرجرل پلاننگ کے مطابق 8اکتوبر2005ء کے ہولناک زلزلے میں شہیدہونے والے 73ہزارافرادمیں سے مجموعی طورپر67فیصدمختلف تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم طالب علم تھے۔
 

image


سیسمک بیلٹ پر واقع ہونے کی بناء پر پاکستان بشمول آزادجموں وکشمیرمیں عرصہ درازسے زلزلے آتے رہے ہیں،تاہم پاکستان میں اب تک دوبڑے زلزلے ریکارڈکئے گئے ہیں۔پہلازلزلہ 1935ء کو بلوچستان کے صوبائی درالحکومت کوئٹہ میں آیا،جس کی ریکٹرسکیل پرشدت 8.4تھی ۔اس ہولناک زلزلے میں تقریباً30ہزارافرادجاں بحق ہوئے اور شہر مکمل طورپرتباہ ہوگیاتھا،اسی طرح 8اکتوبر2005 ء کو آزادکشمیرمیں آنے والاخوفناک زلزلہ ملکی تاریخ کادوسرابڑاانسانی المیہ ثابت ہوا۔بدقسمتی سے آزادکشمیرکے قیامت خیززلزلے میں انسانی جانوں کے ضیاع سے لے کرمواصلات،رسل ورسائل،بجلی،نظام آب،سڑکیں،پل،سرکاری وغیر سرکاری عمارات غرضیکہ ہرطرح کاانفراسٹرکچرکی مکمل تباہی کے بعدبھی کسی نے ہوش کے ناخن نہیں لئے ۔بحالی وتعمیرنوکاعمل انتہائی تاخیراور سست روی سے شروع ہوااوردس سال گزرنے کے بعدبھی انتہائی اہم نوعیت کے بنیادی منصوبے جن میں صاف پانی کی فراہمی،سڑکیں،پل،راستے،تعلیمی ادارے،ہسپتال اور سرکاری اداروں سمیت دیگرشعبوں کے لئے زلزلہ مزاحم مکانیت بھی فراہم نہیں کی جاسکی۔یقیناً یہ بات حیر ت کا باعث ہوگی کہ آزادکشمیرکے زلزلہ متاء ثرہ علاقوں میں95 فیصدپولیس سٹیشنزاور 75 فیصدتعلیمی اداروں سمیت بیشترسرکاری ادارے آٹھ سال گزرنے کے باوجود بوسیدہ خیموں اور عارضی شیلٹرمیں کام کررہے ہیں،جس سے ان اداروں کی کارکردگی کا گراف مسلسل تنزلی کا شکارہورہاہے اور عوام مذیدمسائل کی دلدل میں دھنستے چلے جارہے ہیں۔

آزادکشمیرمیں تعمیرنووبحالی کے ادارے سیراء کی طرف سے جاری کردہ اعدادوشمارکے مطابق زلزلے میں تباہ ہونے والے 1078تعلیمی اداروں کی تعمیرمکمل،917پرکام جاری جبکہ 797کاکام ابھی تک شروع نہیں کیاجاسکا۔159تباہ ہونے والے مراکزصحت میں سے 98 کی تعمیرمکمل،37پرکام جاری جبکہ 24کاکام تاحال شروع نہیں ہوسکا۔ اس کے علاوہ متاثرہ علاقوں کے تما م پولیس سٹیشنز،سرکاری اداروں کی عمارات مکمل تباہ ہوئیں۔سیکرٹری سیراء کے مطابق تعمیرنووبحالی کے پروگرام کے تحت رواں مالی سال میں اب تک مجموعی 350منصوبے مکمل کرکے مختلف محکموں کے حوالے کردئے گئے ہیں۔واضح رہے کہ سیراء کی جانب سے مختلف دوست اور برادراسلامی ممالک جن میں بطورخاص ترکی،سعودی عرب ،جاپان ،یواے ای اوردیگرشامل ہیں،کی تعمیرات کو بھی اپنی مجموعی کارکردگی کاحصہ ظاہرکیا گیاہے۔مثلاًمظفرآباداورراولاکوٹ میں شیخ زائدالنیہان ہسپتال یواے ای نے تعمیرکئے۔مظفرآبادڈسٹرکٹ کمپلیکس ترکی نے تعمیرکیا۔(زیرتعمیر)نلوچھی پُل جاپان کا تحفہ ہے،وغیرہ ۔یہ بھی واضح ہوکہ زلزلے سے تقریباً3ہزار2سو تعلیمی اداروں سمیت متاثرہ علاقوں کے تمام ہیلتھ یونٹس اورسرکاری ادارے مکمل تباہ ہوئے جن میں سے بیسیوں ادارں کو تعمیرنوکے پروگرام میں سِرے سے ہی شامل نہیں کیاگیا۔
 

image


عالمی ڈونرزکانفرنس نے کل نقصان تخمینی 5.2 ارب امریکی ڈالرکے مقابلے میں 6ارب امریکی ڈالرفراہم کرنے کااعلان کیا۔ریاستی دارالحکومت مظفرآباد کے لئے مجموعی طور 353ملین امریکی یوایس ڈالرزمیں سے دوست ملک چین نے نرم شرائط پر قرض کے طورپر 300ملین امریکی ڈالرزفراہم کردئے جبکہ پاکستان نے بقیہ 53ملین ڈالرز فراہم کرنے کی ذمہ داری اٹھائی تھی۔چین نے تومطلوبہ فنڈزفراہم کردئے مگر وفاقی حکومت نے تاحال اس اعلان پر عملدرآمدنہیں کیا،بلکہ اس کے برعکس پہلے مرحلے میں سوات آپریشن سے متاثرہ علاقوں کی بحالی کے لئے 25ارب جبکہ دوسرے مرحلے میں بینظیرانکم سپورٹ پروگرام کے تحت وسیلہ ء حق پروگرام کے لئے 55ارب روپے منتقل کئے گئے۔دارالحکومت مظفرآباد ،حکمرانوں کی عدم دلچسپی، فنڈزکی عدم دستیابی اورمتعصب سیاستدانوں،بیوروکریٹس کے تعصب کے ساتھ ساتھ اہل مظفرآبادکے نام نہادوارث سیاست کاروں کی لیڈری کے شوق ،ناہلی اورغفلت کی وجہ سے آج بھی اُسی مقام پرکھڑاہے،جہاں وہ 2005ء کو موجود تھا۔ مظفرآباد کے 98فیصدلوگ گندہ وزہریلہ پانی پی رہے ہیں،کوئی ایک سڑک بھی مکمل تعمیرنہیں ہوسکی،البتہ اکادکاسڑکوں پر چندماہ کے لئے عارضی ’’ٹاکیاں‘‘لگادی جاتی ہیں جودو سے تین ماہ کے بعددوبارہ پہلے سے بھی بری حالت سے دوچارہوجاتی ہیں۔ سوائے ڈسٹرکٹ کمپلیکس کے کسی سرکاری ادارے کو نئی اور زلزلہ مزاحم مکانیت دستیاب نہیں۔بجلی وسیوریج سمیت کوئی بھی عوامی ضرورت کا قابل ذکرمنصوبہ زمین پر موجود نظرنہیں آتا۔

مذکورہ حقائق سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مقتدراعلیٰ سے لے کر عوامی نمائندگان، آفیسران اور عام شہری تک کسی نے بھی اتنے بڑے سانحے سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ایسی صورتحال میں اگریوں کہاجائے توبے جانہ ہوگاکہ ہم اُسی زمانہ ء جاہلیت میں واپس جاچکے ہیں جہاں کسی کو بھی حلا ل وحرام اور خیروشرکی کوئی تمیزنہ تھی۔جوجتناطاقتورہوتااسی قدرسفاک ،ظالم اوراتناہی بڑاڈاکو،لٹیرااور غنڈہ ہوتا۔آج زلزلہ متاثرہ عوام باالخصوص اہل مظفرآبادجن حالات سے گزررہے ہیں،بلاشبہہ ایسی ہی صورتحال کی نشاندہی کررہے ہیں۔غورطلب بات یہ ہے کہ ماسوا چندایک دردِدل رکھنے والے افراد کے یہاں کسی حکومت یااپوزیشن کاکوئی چکرنہیں،یہ سب فراڈ اورنِراسراب ہے۔ کل تک جو لوگ حکومتوں میں تھے ،آج وہ تعمیرنونہ ہونے کا ماتم کررہے ہیں اور جو آج حکومت میں ہیں وہ ماضی میں یہی رونارورہے تھے۔حالانکہ دنیامیں جہاں کہیں بھی قدرتی آفات رونماہوتی ہیں باشعوراقوام ان سے نمٹنے کے لئے پہلے سے تیاررہتی ہیں اورجنہوں نے ماضی میں آفات سے بچاؤ کی پیشگی تیاریاں نہیں کیں، انہوں نے اپنی نئی نسلوں کا مستقبل محفوظ بنانے کے لئے ہنگامی طورپر اصلاحات نافذ کیں۔ترکی کی مثال ہی لیجئے،17اگست 1999ء کوترکی میں آنے والا 7.1کی شدت کے زلزلے نے 16ملین آبادی کو متاثرکیاتھاجس میں 17ہزار4سو 80افراد جاں بحق جبکہ 43ہزار9سو 53زخمی ہوئے تھے۔ترکی کے حکمرانوں اور ذمہ داران نے ہماری طرح اس قدرتی آفت کو خیراتی رقوم ہڑپ کرنے کا نادر موقع سمجھ کر اپنی قوم کو بھکاری بناکراپنی تجوریوں کو نہیں بھرا،بلکہ انہوں نے فوری طورپرطویل المیعاد قانونی ،اداراتی اور انتظامی اصلاحات عمل میں لائیں اور خطرات میں کمی کے لئے جامع سلسلے کی بنیادیں رکھیں ،مگرہماے ہاں کیا ہوا؟،اداروں کی کاکردگی سے تولگتاہے کہ ان کا قیام ہی شائد انہی مقاصد کے لئے عمل میں لایاگیاتھاکہ وہ کرپشن کو قانونی شکل دیکر خیراتی سرمائے کی بندربانٹ کرسکیں۔ہمارے لئے اس سے بڑاالمیہ اور کیا ہوگا کہ ہم نے انہی بلیک لسٹ ٹھیکیداروں کو ٹھیکے الاٹ کردئے جو زلزلے میں مجموعی طورپر شہیدہونے والے73 ہزارافراد میں سے 67فیصدطلباء اور سرکاری ملازمین کے قاتل ہیں۔

دنیامیں قوموں پرامتحان وآزمائشیں آتی رہتی ہیں،باشعور،محب وطن اور جذبہ انسانیت سے سرشار قومیں ان میں سرخروہوکر ازسرنو خوشگوارزندگی کاآغازاس اندازسے کرتی ہیں،جیسے ان پر کوئی ٓآزمائش آئی ہی نہ تھی ۔ترکی ہمارے سامنے ہے۔مگربے حسی،بے حمیتی،خودغرضی لالچ وسست روی کاشکارقوموں کاوہی حال ہوتاہے جوآج ہماراہے۔ آج کادن ہمیں اپنی بے بسی پر ماتم کرنے کے بجائے عزم تعمیرنو کے طورپرمناناچاہیئے۔

YOU MAY ALSO LIKE:

Ten years ago on this day, a massive earthquake rocked northern Pakistan at 8:52 am and caused more than 80,000 deaths in upper Hazara, Azad Jammu and Kashmir and other parts of country including Islamabad. The quake measuring 7.6 on the Richter scale left tens of thousands injured and homeless. Balakot and Garhi Habibullah towns and surrounding villages in Mansehra district were razed to the ground.