گاندھی جینتی: گاندھی جی اب دیکھ لیں آکر اپنا ہندوستان

ہندوستان میں تین موسم کی مانند تین قومی دن بھی ہیں ۔گرما گرم یوم آزادی ا ور ٹھنڈا ٹھنڈا یوم جمہوریہ ۔ ان کے علاوہ موسمِ باراں یعنی گاندھی جینتی ۔ ان تینوں مواقع پر صدر جمہوریہ قوم کے نام ایک پیغام نشر کرتے ہیں۔ اس بار گاندھی جینتی کے موقع ’پرنب دا‘ نے اپنے پیغام میں کہا : ’’ گاندھی جینتی ایک ایسا مخصوص دن ہے ، جب ہمیں اپنے آپ کو بابائے قوم مہاتما گاندھی کے عدم تشدد ،امن اور رواداری کے آدرشوں کے تئیں وقف کردینا چاہئے ‘‘۔ گاندھی جی بنیادی طور انہیں تین اصولوں کے علمبردار تھے۔ لیکن کل یگ کے گاندھی وادیوں نے گاندھی جی کی لاٹھی کو جھاڑو میں تبدیل کرکے’’سوّچھ بھارت‘‘ سے جوڑ دیا ہے۔ ہاتھ کی صفائی سےاہنسا(عدم تشدد) کا ’الف ‘ نکال کر اسے ہنسا (تشدد)میں اور شانتی کے پہلے الف لگا کر اسے اشانتی (بدامنی)میں بدل دیا ۔ نتیجہ یہ ہے کہ چہار جانب تشدد کا بازار گرم ہے اور بدامنی کا دور دورہ ہے۔ رواداری کے فقدان کی سب سے بڑی مثال دادری میں ایک فوجی سرتاج کے والد اخلاق اور بھائی دانش کا بہیمانہ قتل ہے۔؁۲۰۰۷میںاقوامِمتحدہنےگاندھی جی کے یومِ پیدائش کو ‘بین الاقوامی عدم تشدد کا دن‘قراردیاتھاممکن ہے حالیہ واقعات کے بعدیہ عالمی ادارہ اس دن کی موزنیت پر نظر ثانی کیلئے مجبور ہو جائے۔

اس سال ۲ اکتوبر کو جہاں بڑےسیاسی رہنما گاندھی سمادھی راج گھاٹ پر خراجِ عقیدت پیش کرنے کیلئے پہنچے وہیں وزیر ثقافت مہیش شرما اور اسدالدین اویسی بساہڑا گاوں کے محمداخلاق کے گھر ان کے اہل خانہ کی تعزیت کیلئے گئے۔ محمد اخلاق کی موت اس قدر اہم کیوں ہو گئی کہ اگلے دن اروندکیجریوال اور راہل گاندھی نے بھیان کے گھر جانے کی زحمت کی ؟ یہ ایک اہم سوال ہے؟ اس سوال کا جواب آنجہانی پنڈت جواہرلال نہروکے اس بیان میں پوشیدہ ہے جو انہوں نے مہاتما گاندھی کی موت پر دیا تھا ’’وہ روشنی ہم سے رخصت ہورہی ہے جو جانے کے بعد بھی ہزاروں برس بعد بھی ہماری زندگیوں کومنورکرتیرہےگی۔ گاندھی جی کے آدرش ہماری اجتماعی زندہ وراثت کی حیثیت رکھتےہیں‘‘۔مذہبی رواداری اور گئو کشی کے متعلق گاندھی جی کا آدرش تو یہ تھا کہ’’ہندوستان میں گئو کشی کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایا جاسکتا۰۰۰۰میں عرصۂدراز سے گائے کی خدمت کا حلف بردار ہوں لیکن یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میرا مذہب بقیہ ہندوستانی شہریوں کا بھی مذہب ہوجائے؟ اس کے معنیٰ ان لوگوں کے خلاف جبر ہوگا جو ہندو نہیں ہیں‘‘۔پنڈت جی کی قیادت میںکانگریسنے اتر پردیش میں گئوکشی کی ممانعت کا قانون بنا کرگاندھی جی کی وراثت گنوا دی۔
اس قانون کے مطابق گائے بیل ذبح کرنا ، اس کا تعاون کرنا یعنی گوشت بیچنا اور اس کا حمل و نقل قابلِ تعزیر جرم قرار پایا۔ اس کا ارتکاب کرنے والے کیلئے زیادہ سے زیادہ ۷ سال قید بامشقت اور دس ہزار روپئے جرمانہ کی سزا تجویز کی گئی۔ ہوائی جہاز اور ریل گاڑی کے مسافروں کو بڑے کا گوشت بیچنے کی بابت استثناء دیا گیا۔ اس قانون میں بڑے کا گوشت کھانے والے کا کوئی ذکر نہیں ہے یعنی اگر کوئی مسافرریلوے اسٹیشن یا ہوائی جہاز سے بڑے کا گوشت ا پنے ساتھ لے آئے اور کھائے تو یہ جرم نہیں ہے۔ ایسے میں محمد اخلاق کے گھر میں رکھےہوے گوشت کے تجربہ گاہ میں بھیجنے کا کوئی جواز ہی نہیں بنتا ۔ اگر اخلاق نے گائے ذبح بھی کی ہو تی تب بھی تو اس کی سزا موت نہیں ہے اور اس سزا کوبحال کرنے کا حق کسی دہشت گرد بھیڑ کو نہیں بلکہ عدالت کو حاصل ہے لیکن ان باتوں پر وہی توجہ دے سکتا ہے جو قانون کی حکمرانی میں یقین رکھتا ہو۔ جسے اپنی من مانی کرنی ہو؟ جو جانتا ہو کہ قتل غارتگری کے بعد وہ بھی مظفر پور فساد کےملزم سنگیت سوم کی طرح بری ہوجائے گا تو بھلا ان باتوں پر وہ کیوں کان دھرے؟
اتر پردیش حکومت سےترغیب پاکر ؁۱۹۵۵ کے اواخر میں بہار کے اندر بھی گئو کشی پر پابندی لگا دی گئی۔ اس قانون میں مجرم پائے جانے والے شخص کیلئے صرف ۶ماہ تک کی سزا تجویز کی گئی تھی اور جرمانے کی رقم بھی بیش از بیش۱۰۰۰ روپئےتھی۔ اس قانون کے اطلاق سے مذہبی مقاصدکیلئے وقف شدہ بیلوں کومذہبی طورطریقہ سے ذبح کرنا مستثنیٰ قرار دیا گیا لیکن یہ انتظامیہ کے اجازت نامہ سے مشروط تھا ۔ مدھیہ پردیش میں جب قانون بنا تب بھی انتظامیہ کی اجازت سے مذہبی اور طبی تحقیق کی خاطر بھینس کے ذبیحہ کی اجازت تھی۔ سزا زیادہ سے زیادہ ایک سال اور جرمانہ صرف ایک ہزار روپئے طے کی گئی تھی۔کسی سر پھری بھیڑ کوبڑے جانور کا گوشت کھانے والے کو قتل کرنے کا پروانہ نہیں کسی قانون نے نہیں دیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ان تمام قوانین میں ذبیحہ کی خاطر گائے بیل کا حمل و نقل اور خریدو فروخت قابل تعزیز جرم ہے۔ فی الحال ہندوستان بڑے کا گوشت برآمد کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے اس لئے ظاہر ہے جن ریاستوں میں بڑے مذبح خانے ہیں ان کے آس پاس والی ریاستوں سے بھی جانور وہاں لائے جاتے ہوں گے نیز ان کا گوشت جن بندرگاہوں سے برآمد کیا جاتا ہے مثلاً ممبئی وہاں بھی نقل و حمل کا کام ہوتا ہی ہوگا لیکن یہ قانون انبڑے سرمایہداروںپر بھی اسی طرحنافذ نہیں ہوتا جیسے پانچ ستارہ ہوٹلوں کو دولت کے زور پر استثناء مل جاتا ہے۔گزشتہ انتخابی مہم میں گلابی انقلاب کی اصطلاح ایجاد کرکے عوام کو ورغلا یا گیا تھا لیکن نئی حکومت کے پہلے سال میں برآمد پر پابندی تو درکنار اس میں اضافہ ہوگیا۔جو جین سماج اپنے تہوار کے دوران گوشت خوروں کو سبزی کھانے پر مجبور کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ خود اپنے سماج کے مخیر حضرات کو بڑے جانور کا گوشت برآمد کرنے سے نہیں روکتا۔

؁۱۹۵۸ کے اندرگئو کشی پر پابندی لگانے والے قوانین کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔ پانچ ججوں کے سربراہ چیف جسٹس ایس آر داس نے گائے اور بچھڑوں کے علاوہ دوسرے بڑے جانوروں کے ذبیحہ کی اجازت دے دی۔ سپریم کورٹ نے یہاں تک کہا بے کار جانوروں کو پالنا قومی نقصان ہے ان کا ذبیحہ غریبوں کی غذا ہے۔ چیف جسٹس نے اعتراف کیا کہ بڑے جانور کا گوشت عام آدمی کی خوراک ہے۔ اس فیصلے کے ۴۷ سال بعد ؁۲۰۰۵ میں سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ بدل کر گجرات میں لگی مکمل پابندی کو حق بجانب قرار دے دیا۔ جسٹس لاہوتی نے ۷ رکنی بنچ کا اکثریتی فیصلہ سناتے ہوئےکہا کہ ۴۷ سال بعد بڑے جانور کا گوشت ہی غریب آدمی کیلئے پروٹین والی عام غذا نہیں ہے۔ ملک میں غذا کی پیداوار خاصی بڑھ گئی ہے مسئلہ غذائی اشیاء کی منصفانہ تقسیم ہے۔

عدالت نے مذہب کے بجائے معیشت اور غذائیت کی بنیاد پر فیصلہ کیا اور گوبر کو کوہ نور ہیرے کا ہم پلہ قرار دےدیا ۔ اصل معاملہ مذہبی نہیں بلکہ معاشی و سیاسی ہی ہے۔ قانون کے تحت جانور کو ذبح کرنے اور اسے بیچنے پر پابندی ہے کھانے پر نہیں ۔اس پر عملدارآمد اس طرح سے ہونا چاہئے تھا کہ بیف کی درآمد میں اضافہ ہوتا ۔ یہ جانور دیگر ممالک میں کٹتے اور یہاں ان کی کھپت ہوتی لیکن اس کے برعکس درآمد کے بجائے برآمد میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے جانور تو اب بھی زور و شور سے ذبح کئے جارہے ہیں اور ان کا گوشت بیچا بھی جارہا ہے یعنی قانون کی خلاف ورزی ہورہی ہے۔ فرق یہ ہے کہ پہلے عام ہندوستانی یہ جانور خریدتا تھا اور اسے ذبح کرکے عام ہندوستانی کو بیچ دیتا تھا اس طرح گویا اس کاروبار سے عام لوگوں کا فائدہ ہوتا تھا۔

ماضی میں جو جانور ذبح کئے جاتے تھے وہ اب بھی نہ تو گئو شالاوں میں پلتے ہیں اور نہ سڑکوں پرایڑیاں رگڑ کر مرتے ہیں بلکہ پہلے کی طرح چند خاص سرمایہ داروں کے نجی مذبح خانوں میں ذبح کئے جاتے ہیں ۔تجارت سے وہ سرمایہ کار مستفید ہوتے ہیں اور اپنا فائدہ سیاستدانوں کے ساتھ بانٹ کر عیش کرتے ہیں ۔ وزیراعظم نے انتخابی مہم کے دوران اعتراف کیا تھا کہ ان کے جین دوست بھی اس کاروبار میں ہیں اب بھلا اقتدار میں آنے کے بعد اپنے دوستوں کو کون ناراض کرسکتا ہے؟ جہاں تک عوام کا تعلق ہے مذہبی جذبات کو گئو ماتا کے نام پر بھڑکا کر انہیں با آسانیبے وقوف بنایا جاسکتا ہے۔

اس بات کو ایک مثال سے سمجھا جاسکتا ہے ۔ مغربی بنگال میں گئو کشی پر پابندی نہیں ہے ۔ یہاں سے کچھ بڑے جانور سرحد پار کرکےبنگلا دیش بھی بھیج دئیے جاتے تھے۔ اب اسے اسمگلنگ قرار دے کر بند کردیا گیا تاکہ وہ جانور ان بڑے مذبح خانوں میں آسکیں جن سے گوشت برآمد کیا جاتا ہے گویا پہلے اس کاروبار سے بڑے پیمانے پرغریب بیچنے والےاور بنگلا دیش کےغریب کھانے والےمستفید ہوتےتھے اب اس سے امیر بیچنے والے اور یوروپ و خلیج کے خوشحال کھانے والے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ جمہوریت کی بابت یہ غلط فہمی پیدا کردی گئی ہے اس میں ووٹ کو نوٹ پر فوقیت حاصل ہے۔ استثنائی صورتحال میں کبھی کبھار مثلاً ایمرجنسی کے بعد اس کا مظاہرہ دیکھنے کو ملتا ہے لیکن عام طور پر ایسا نہیں ہوتا۔

ووٹ اور نوٹ کےتفاوت کی کئی وجوہات ہیں ۔ ووٹ ایک خودرو فصل کی مانند ہر انتخاب کے وقت بغیر کسی محنت مشقت کے اپنے آپ اگ جاتا ہے اس لئے اس کی خاص اہمیت نہیں ہوتی لوگ اسے ایک شراب کی بوتل کے عوض بھی بیچ دیتے ہیں۔ ووٹ کا استعمال بہت زیادہ سوچ سمجھ کر نہیں کیا جاتا۔ اس کے برعکس اکثر و بیشتر نوٹ کما نے کیلئے کافی محنت کرنی پڑتی ہے۔ اس لئے بڑے غورو فکر کے بعد اسے کہیں لگایا جاتا ہے ۔ ایک اور فرق یہ ہے کہ ووٹ کا استعمال مجبوری ہوتی ہے اگر انتخاب کے وقت اسے استعمال نہ کیا جائے تو وہ ضائع ہوجاتا ہے جبکہ نوٹ ضائع نہیں ہوتے اسے مناسب موقع تک سینت کر رکھا جاسکتا ہے۔ نوٹ کے کاروبار میں نفع نقصان کا حساب کتاب آسان ہوتا ہے ووٹ کے دھندے میں یہ ناممکن ہوتا ہے۔ نوٹ دینے والے مٹھی بھر لوگوں کو خوش کرنا بھی سہل تر ہے لیکن ووٹ دینے والے کروڈوں لوگوں کی فلاح و بہبود ایک مشکل تر کام ہوتا ہے اس لئے سیاستداں اس بکھیڑے میں نہیں پڑتے۔ آخری بات عام آدمی کو ورغلانا سیاستدانوں کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہےمگر سرمایہ داروں کو فریب دینا جوئے شیر لانا ہے۔

جن قوانین کا اوپر ذکر ہوا وہ تو خیر آزادی کے بعد وضع کئے گئے لیکن جموں کشمیر کا دستور ڈوگرراجہ رنبیر سنگھ کے زمانےکا بنایا ہوا ہے اس لئے اسے آئی پی سی کے بجائے آر پی سی یعنی رنبیر پینل کوڈ کہا جاتا ہے۔ ؁۱۸۶۲ میں وہاں گائے ذبیحہ پر پابندی لگائی گئی ہے اور اس کا ارتکاب کرنے والے کیلئے دس سال کی سزا اور گوشت رکھنے پر ایک سال کی سزاتجویز کی گئی ہے۔ یہ قانون ابھی تک صرف کتابوں کی زینت بنا ہوا تھا اور کسی کو اس پر عملدآمد کا خیال تک نہیں آیا تھا لیکن بی جے پی کی مرکزی حکومت اور ریاستی اقتدار میں حصہ داری کے بعد وکیل پرموکش سنگھ نے عوامی مصلحت کے قانون کے تحت کا ہائی کورٹ میں ایکمقدمہداخل کردیا اور اس قانون کے نفاذ کا مطالبہ کیا۔ جسٹس دھیرج سنگھ ٹھاکر اور جسٹس جنک راج کوتوال نے فوراً ڈائرکٹر جنرل پولس کو حکم دیا کہ وہ قانون کے نفاذ کو یقینی بنائیں اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سخت سزائیں دینے دھمکی دے ڈالی۔اس فیصلے کو جموں کشمیر بار کونسل نےعوام کے بنیادی حقوق کی پامالی قرار دیااور ریاست کے اکثریتی فرقہ کے مذہبی جذبات سے کھلواڑ بتایا اور ۱۲ ستمبر کو ہڑتال کا اعلان کردیا۔

اس کے بعد دیگر ملی جماعتوں نے بھی عوامی بند کا اعلان کردیا اور ساری وادی منجمد ہو گئی ۔ مختلف رہنماوں کو اپنے گھروں میں نظر بند کردیا گیا اس کے باوجود بند کو غیر معمولی کامیابی ملی ۔اس دن ساری ریاست میں بڑے پیمانے پر علی الاعلان بڑے جانور ذبح کئے گئے۔یہاں تک کے گورنمنٹ میڈیکل کالج کے طلباء نے بھی اپنے ہاسٹل میں اس ظالمانہ قانون کی دھجیاں اڑا دیں ۔ میر واعظ نے کہا یہ بند اس بات کا ثبوت ہے کہ کشمیری عوام اپنے مذہبی معاملات میں مداخلت برداشت نہیں کریں گے ۔یٰسین ملک نے اسے جبر وتسلط کو مسترد کرنے کے مترادف بتایا۔مجلس اتحاد ملت نے گوشت کے تاجروں کو یقین دلایا کہ وہ بلاخوف اپنا کاروبار کریں اگر پولس نے روکا تو مجلس اس کے خلاف خاطر خواہ حکمت عملی اختیار کرے گی اور اگر حالات خراب ہوئے تو انتظامیہ اس کیلئے ذمہ دار ہوگا۔

جموں بنچ کے اس فیصلے کو کشمیر ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا اور اس نے حکومت سے صفائی مانگ لی۔ ریاستی حکومت صفائی دینے کے بجائے سپریم کورٹ میں پہنچ گئی اور سپریم کورٹ نے دوماہ کیلئے جموں ہائی کورٹ کے فیصلے کو معطل کرکے دونوں بنچوں سے کہا وہ آپس میں بیٹھ کر اس تنازع کو سلجھائیں ۔اس قانون کی منسوخی کیلئے نیشنل کانفرنس نے پی ڈی پی کو اپنی حمایت پیش کردی ۔ اب پی ڈی پی کیلئے دھرم سنکٹ پیدا ہوگیا یاتو وہ بی جے پی کو خوش کرے یا اپنے رائے دہندگان کو راضی کرنے کیلئے نیشنل کانفرنس کے ساتھ ہاتھ ملائے لیکن اس موقع پر بی جے پی میں شامل خورشید احمد نے بیف پارٹی دینے کا اعلان کر کے سب کو چونکادیا۔ خورشید ملک جنوبی کشمیر سے بی جے پی کے ٹکٹ پر ریاستی اسمبلی کا انتخاب لڑ چکے ہیں۔ ان کے مطابق اس دعوت میں ہندو مسلم دونوں کو مدعو کیا گیا تھا۔ سبزی خور لوگوں کیلئے سبزی کا اہتمامتھا۔ انہوں نے اس دعوت کے ذریعہ ہندو اور مسلمانوں کے درمیان بھائی چارہ میں اضافہ کی توقع کی تھی۔ ملک سے جب پوچھا گیا کہ کیا آپ نے پارٹی سے اجازت لی ہے تو وہ بولے کیا مجھے مسجد جانے کیلئے پارٹی سے اجازت لینی ہوگی یہ مذہبی معاملہ ہے اس سے بی جے پی کوئی لینا دینا نہیں ۔ مذہبی معاملات میں کوئی مصالحت ممکن نہیں ہے۔ میں ایک سیاسی رہنما کے علاوہ مسلمان بھی ہوں اور عدالت ہمارے مذہبی امور میں مداخلت کررہی ہے۔

بی جے پی رہنما کا اگریہ حال ہو توعوام کی حالت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ کشمیر میں سب سے زیادہ فوج اور نیم فوجی دستےمتعین ہیں ۔ ریاستی حکومت میں بی جے پی کا عمل دخل ہے اور مرکز ی حکومت بھی اسی کی ہے اس کے باوجود ان کی ایک نہیں چلی ۔ کسی ایسے گاوں میں جہاں چند مسلمان خاندان رہتے ہوں فوجی بیٹا گھر سے دور ہو دو سو لوگوں کا دونہتےافرادپر حملہ بول دینا پرتاپ سینا کی دلیری نہیں بزدلی اور رانا پرتاپ کی توہین ہے ۔ ان لوگوں میں اگر ہمت ہوتی تو وادی کشمیر میں قانون نافذ کروادیتے اور کسی کو سزا دینا تو درکنار گرفتار ہی کروا لیتے لیکن یہ تو اپنی گلی کے شیر ہیں جب باہر نکلتے ہیں تو بھیگی بلی بن جاتے۔ اس نفسیات کا غماز بی جے پی کے معمر رہنما پروفیسر ہری اوم کی یہ تجویز ہے کہ کشمیر مسئلہ کا واحد حل یہ ہے کہ اسے چار حصوں میں تقسیم کردیا جائے۔ ایک جموں دوسرا لداخ تیسرا وادی میں پنڈتوں کا علاقہ اور چوتھا کشمیر۔ یہی خوف کی نفسیات ہے جو کسی زمانے میں تقسیم ہند کا سبب بنی تھی۔ یہ قابل ذکربات ہے کہ کشمیر ہی وہ ریاست ہے جہاں اسمبلی کے اندر محمد اخلاق پر حملہ کی مذمت کرنے والی قرارداد پیش کی گئی۔

شمالی و مغربی ہندوستان کی اکثر ریاستوں میں بڑے جانور کے ذبیحہ پر پابندی ضرور ہے لیکن جنوبی و مشرقی ہند میں ایسا قانون نہیں ہے۔ گوا کے اندر بی جے پی حکومت ہے اس کے باوجود چونکہ وہاں عیسائیوں کی اکثریت ہے جو بڑے کا گوشت کھاتی ہے اس لئے بی جے پی اس پر پابندی کی جرأت نہیں کرتی۔ میگھالیہ میں امیت شاہ کی آمد کے موقع پر ان کا استقبال بیف پارٹی کے ساتھ کیا گیا اور بی جے پی کے مقامی ذمہ دار کہلور سنگھ لنگڈوہ نے پابندی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا بڑے جانور کا گوشت قبائلیوں کی غذا ہے ۔ یہ علاقائی معاملہ ہے اور اسے روکا نہیں جاسکتا۔ مظاہرین نے اس دن بند کا اعلان کیا اور اس طرح کی پابندی کو قبائلی مخالف جبرو استبداد قرار دیتے ہوئے احتجاج کیا ۔ بی جے پی سنگھی ترجمان رام مادھو نے اس موقع پر اپنا موقف رکھتے ہوئے کہا تھا بڑے جانورکے ذبیحہ پر پابندی کی خبر محض افواہ ہے جو غلط فہمی کا سبب بنی ۔ ہم ملک کی مختلف تہذیبوں اور مذاہب کا احترام کرتے ہیں ۔ اس موقع پر وزیر مملکت برائے داخلہ امور کرن رجیجو نے یہ کہہ کر بی جے پی کو پریشانی میں ڈال دیا تھا کہ وہ بھی بڑے جانور کا گوشت کھاتے ہیں ۔

محمد اخلاق کی شہادت کے بعد سنگھ پریوار کی مخالفت میں جو آتش فشاں پھٹا اس سے ان کی برسوں کی محنت سے پھیلائی ہوئی غلط فہمی روئی کے گالوں کی مانند اڑ گئی کہ ہندو بڑے جانور کا گوشت نہیں کھاتے۔ کئی دلت رہنماوں نے علی الاعلان کہا کہ وہ بڑے جانور کا گوشت کھاتے ہیں ۔ کیرالا کے ہندووں نے محمداخلاقکےساتھیکجہتی کا اظہار کرنے کی خاطربڑے جانور کی بریانی کھاتے ہوئے اعلان کیا کہ اگر ہمت ہے تو آو ہمیں قتل کرو۔اس کے علاوہ لالو یادو نے اعتراف کیا کہ ہندو بھی بیف کھاتا ہے۔ شوبھا ڈے نے چیلنج کیا میں نے ابھی ابھی بیف کھایا آو اور مجھے مارڈالو۔ جسٹس مارکنڈے کا ٹجو نے وارانسی ہندو یونیورسٹی کے اندر برملا کہا گائے بھی ایک جانور ہے وہ کسی کی ماں کیسے ہو سکتی ہے ۔ میرا جی چاہے تو میں بیف کھاوں گا مجھے کون روک سکتا ہے؟

سوامی ناتھن انکلیسریانے تو ہندو صحیفوں کا حوالہ دے کر لکھا کہ میں براہمن ہوں میرے آبا و اجداد بڑے جانور کا گوشت کھاتے تھے اور میں بھی کھاتا ہوں یہ میرا حق ہے۔ ان بیانات سے سنگھ پریوار کے دعویٰ کی قلعی کھل گئی اور اس کا کھوکھلا پن بے نقاب ہو گیا۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کروڈوں روپئے پھونک کر وزیراعظم نے ساری دنیا میں ملک کا جو تاثر قائم کیا تھا وہ اس ایک حملہ سے ہوا ہوگیا اور ساری محنت اکارت گئی ۔ اس مرتبہ امریکی دورے کے دوران تو غیر ملکی ذرائع ابلاغ نے وزیراعظم کی جانب خاطر خواہ توجہ نہیں دی مگر محمد اخلاق پر ہونے والے تشدد کی خوب جم کر مذمت ہوئی اور سارے کئے کرائے پر پانی پھر گیا ۔ صدر اوبامہ نے وزیراعظم کے کسی کارنامہ کی تعریف و توصیف نہیں کی مگر دادری کے واقعہ پر اپنی ناراضگی کا برملا اظہار ضرور کردیا۔

گاندھی جی نے تویہ بھی کہا تھا کہ اگر مسلمانوں کے ہاتھوں ہندو گائےکوذبحہ ہونےسےنہیں روک پاتے تووہ کسی گناہ کےمرتکب نہیں ہوتے لیکن اگر وہ گائےکوبچانےکی خاطرمسلمانوں سےلڑتےہیں تو سنگین گناہ کا ارتکاب کرتےہیں ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ گاندھی کے بھکت ہیں یا گوڈسے کے کہ گاندھی جینےجس کام کیلئےمسلمانوں سےلڑنےکی اجازت تک نہیں دی تھی اس کیلئے قتل و غارتگری کرتے ہیں۔مجرمین کوبچانےکیلئے طرح طرح کی احمقانہ منطق پیش کرنے والے ۔ مقتول پرگائےذبح کرنےکا مقدمہ قائم کرنے کا مطالبہ کرنے والے۔ اسےاتفاقی حادثہ قرار دینے والے۔اخلاق کے بیٹے دانش کے زخموں سے پتہ چلانےوالے کہ ملزم قتل کا ارادہ نہیں رکھتےتھے۔اخلاق کی موت کا سبب دانش کی موت کےصدمےکو قرار دینے والے۔ ملزمین پرعمداًکےبجائےسہواً قتل کا مقدمہ درج کرنے سفارش کرنے والے؟گرفتارشدگانکےحقوقکےتحفظکی یقین دہانی کرنے والے۔گائےکےساتھ عقیدت کے باعث اشتعال انگیزی کو حق بجانب ٹھہرانے والےاورگائےکاگوشتکھانے والوں کو اسیانجامکی دھمکی دینے والے مودی جی کے بھکت تو ہوسکتے ہیں گاندھی جی کے پیروکارنہیں ہوسکتے۔ اس گاندھی جینتی کا یہی پیغام ہے جس کی بہت خوب منظر کشی منظر بھوپالی نے اس طرح کی ہے ؎
گاندھی جی اب دیکھ لیں آکراپناہندوستان
کیسے کیسے آپکے چیلے ہوگئےبےایمان
مکاری ہے،عیّاری ہے،اس یُگ کی پہچان
گاندھی جی اب دیکھ لیں آکر اپنا ہندوستان
 
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1207318 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.