”پالپا“ اور پی آئی اے کے تنازع میں مزید شدت آگئی

پاکستان کی قومی ایئر لائن پی آئی اے کے پائلٹس کی کئی روز سے غیر اعلانیہ ہڑتال جاری ہے، جس کے سبب ہزاروں مسافروں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ پائلٹس کی ہڑتال کی وجہ سے چند ہی روز میں 62 سے زاید پروازیں منسوخ ہوئی ہیں، جبکہ کئی دیگر پروازیں تاخیر کا شکار ہوئی ہیں، جس کے سبب ذرایع کے مطابق اب تک 65 کروڑ روپے سے زاید کا خسارہ ہوچکا ہے۔ پی آئی اے کی انتظامیہ نے اس صورت حال کا ذمہ دار پائلٹس کو ٹھہرایا ہے، جبکہ پاکستان ایئر لائنز پائلٹس ایسوسی ایشن (پالپا) کی جانب سے پی ائی اے انتظامیہ کی نااہلی اور بدانتظامی کو اس صورتحال کا قصور وار ٹھرایا جارہا ہے۔ حکومت اورپائلٹوں کی تنظیم ”پالپا“ کے درمیان پروازوں کی مکمل بحالی کے لیے ہونے والے مذاکرات کا دوسرا دور بھی ناکام ہوگیا ہے۔ مذاکرات کے دوسرے دور میں پی آئی اے نے پالپا کے تین مطالبات ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ پالپا کے مطالبات میں ڈائریکٹر فلائٹ آپریشن کو فوری طور پر ہٹانے، شوکاز اور لیگل نوٹس کی واپسی اور برطرف پائلٹوں کی بحالی اور پائلٹوں کی سنیارٹی کا تعین پالپا کی مرضی سے کیے جانے کے مطالبات شامل ہیں۔ مشیر ہوا بازی شجاعت عظیم نے کہا کہ مطالبات کے لیے تیار ہیں، لیکن یہ مطالبات منظور نہیں کیے جاسکتے۔ ڈائریکٹر کو ہٹانے کی ڈکٹیشن کسی سے نہیں لے سکتے۔ ترجمان سی اے اے پالپا کے مطالبات نامناسب ہیں۔ انتظامیہ نے پالپا کو دس رکنی کمیٹی بنانے کی پیش کش کی ہے، جو معاملے کو سلجھانے کی کوشش کرے۔

پی آئی اے اور پالپا کی چپقلش کے حوالے سے پاکستان پائلٹس کی ایسوسی ایشن پالپا کے مطابق وہ چاہتے ہیں کہ پی آئی اے کو پیشہ ورانہ انداز اور قوانین کے مطابق چلایا جائے۔ پائلٹس اپنا آرام یا چھٹی لینا چاہتے ہیں جس کی وجہ سے ان کا سارا آپریشن متاثر ہو رہا ہے۔ صدر پالپا کیپٹن عامر ہاشمی کا کہنا ہے کہ فلائنگ کی حد ہوتی ہے، لیکن پالپا کا خیال نہیں رکھا جا رہا۔ ایک آدمی 4 آدمیوں کا کام کر رہا ہے۔ پروازیں جو شیڈولنگ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے متعین کی جاتی ہیں، ان پر پائلٹوں کی ڈیوٹی اوقات میں اضافہ ہوتا ہے اور ایسی پروازوں کے لیے دو کرو سیٹ درکار ہوتے ہیں، جو انتظامیہ مہیا کرنے سے انکار کر دیتی ہے۔ اگر پائلٹ ان پروازوں کو آپریٹ کریں تو وہ سی اے اے کے عتاب کا شکار ہوجاتے ہیں اور ان کے لائسنس منسوخ کردیے جاتے ہیں۔ اسی طرح انتظامیہ کا سخت رویہ پالپا کے لیے یہ بات مشکل بنا رہا ہے کہ وہ اپنے ارکان کو فلائٹ آپریٹ کرنے کے لیے آمادہ کرسکیں۔ جبکہ گزشتہ روز پی آئی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ پائلٹوں نے تنخواہیں 100 فیصد بڑھانے کا مطالبہ کیا ہے، پالپا کا احتجاج سمجھ سے بالاتر ہے، پائلٹوں کے مطالبات ماننے سے بہتر ہے کہ پی آئی اے کو بند کردیا جائے، کیونکہ یہ ادارہ پہلے ہی خسارے میں جارہا ہے، اگر پائلٹوں کے مطالبات مان لیے جائیں تو خسارہ مزید بڑھ جائے گا۔ اس وقت پی آئی اے کے سینئر پائلٹس تنخواہ کی مد میں ساڑھے 15 لاکھ روپے سے زاید وصول کررہے ہیں، جبکہ سرکاری طور پر سالانہ 3 ارب روپے سے زاید پائلٹوں کی سہولیات کی فراہمی پرخرچ کیا جارہا ہے۔ پی آئی اے اپنے موقف پر ڈٹی ہوئی ہے اور ہوا میں اڑنے والوں کو زمین پر لانے کی حکمت عملی تیار کرلی گئی۔ حکومت نے قومی ایئرلائن کے پائلٹوں کی نوکری لازمی سروسزمیں شامل کرنے پر غور شروع کر دیا ہے، جس کے بعد پائلٹس کو من مانی کرنے کا موقع نہیں مل سکے گا اور آئے دن ہڑتال کی چھٹی کرنے والوں کو لازمی حاضر سروس ہونا پڑے گا۔ یہی نہیں بلکہ حکومت بیرون ممالک سے بھی پائلٹس لانے پرغور کر رہی ہے ، اس کے ساتھ پاک فضائیہ سے بھی پائلٹ لیے جاسکتے ہیں۔

اعداد و شکار کے مطابق پی آئی اے میں اس وقت 18 ہزار ریگولر اور 3 ہزار سے زاید افراد یومیہ اجرت پر کام کر رہے ہیں، اس طرح کل ملازمین کی تعداد 21 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ جبکہ جہازوں کی تعداد 43 ہے، اس طرح عملے کا تناسب فی جہاز 500 افراد ہے، جو دنیا بھر میں سب سے زیاد ہ ہے اور 400سے 500 تک پائلٹوں کی تعداد ہے۔ پی آئی اے کے پاس بوئنگ777 کے نو جہاز، جبکہ بوئنگ 747 تین جہاز، 20 ائر بس اور 11 اے ٹی آر ہیں۔ پی آئی اے کی پروازیں بیرونی دنیا کے 38 ممالک تک جاتی ہیں، جبکہ نیٹ ورک 62 ممالک تک ہے۔ اندرون 24 منازل تک جاتی ہیں۔ ہر سال پی آئی اے میں تقریباً 60 لاکھ مسافر سفر کرتے ہیں۔ ان میں سے 33 لاکھ افراد بین الاقومی منازل کی طرف، جبکہ باقی افراد اندون ملک سفر کرتے ہیں۔ پی آئی اے کی سالانہ آمدنی کا تخمینہ بھی بڑی دلچسپی کا حامل ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پی آئی اے تقریباً ایک کھرب روپیہ سالانہ کماتا ہے۔ اس آمدنی کے باوجود پی آئی اے اربوں کے خسارے میں ہے۔ پی آئی اے میں سفر کرنے والے مسافروں کی تعداد کے تناسب سے اگر اس ادارے کاجائزہ لیا جائے تو خسارے کا جواز سمجھ میں نہیں آتا۔ 1965تک پی آئی اے دنیا کی بہترین ائیر لائن تھی۔1965 سے 1971 تک بھی پی آئی اے کا شمار دنیا کی ممتاز ائیر لائنز میں تھا۔ پی آئی اے کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس نے صومالیہ، مالٹا، یمن، سنگا پور اور متحدہ عرب امارات ائیر لائنز کے قیام میں مدد دی۔پی آئی اے کی پروازیں ایشیا، یورپ، نیو یارک ، ٹورنٹو اور ٹوکیو تک جاتی ہیں۔ پی آئی اے میں ہڑتال کی کال ایک معمول بن چکی ہے۔ جس سے قومی خزانے کو نقصان پہنچنے کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی تکلیف کا سامنا ہے۔گزشتہ روز بھی انتظامیہ اور پائلٹوں کی چپقلش کی وجہ سے پی آئی اے کی پروازیں منسوخ ہوئیں تو مسافروں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ پالپا کی ہڑتال کے باعث پریشان حال مسافروں نے نجی ایئر لائن کا رخ کیا تو شاہین، ایئر بلیو اور دیگر ایئر لائنز نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فضائی ٹکٹوں میں من چاہا اضافہ کر دیا۔ کراچی سے اسلام آباد کا ٹکٹ 12 کی بجائے 26 ہزار کر دیا گیا۔ ایئر لائنز نے ریٹرن ٹکٹ پر اضافی کمائی کی انتہا کردی۔ 20 ہزار سے بڑھا کر 50 ہزار وپے کر دی، جبکہ ایئر لائنز ایک پرواز پر 50 لاکھ روپے اضافی کما رہی ہے۔ وزیر اعظم نے نجی ایئرلائنز کی طرف سے مسافروں سے زیادہ کرائے وصول کرنے کا نوٹس لے لیا ہے۔

ایئرلائن ذرایع کے مطابق دونوں کی اس جنگ میں مسئلے کے حل کے لیے دونوں میں سے کوئی بھی جھکنے کے لیے تیار نظر نہیں ہے۔ اگر یہ تنازع حل نہ ہوا تو وقت گزرنے کے ساتھ خسارہ بڑھتا جائے گا۔ کیش نہ ہونے کے باعث پی آئی اے ابھی تک اپنے ملازمین کو تنخواہیں بھی ادا نہیں کر پائی ہے، جنہیں اس ماہ کی دس تاریخ کو تنخواہیں ملنے کی امید ہے۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی نے بھی اس صورتحال کا نوٹس لیا ہے اور کہا ہے کہ پالپا پی آئی اے کے لیے خطرہ بن چکی ہے اور ایئرلائن اور سی اے اے پر اپنی مرضی تھوپنے کے لیے ایئرلائن اور قوم کا بھاری مالی نقصان کر رہی ہے اور مسافروں کے تحفظ کے لیے فلائٹ سیفٹی کا خیال بھی نہیں کر رہی ہے۔ پی آئی اے کی اصلاح یا جزوی نجکاری کے عمل کے بارے میں ماہرین کا خیال ہے کہ 31 اداروں میں پی آئی اے ایک ایسا ادارہ ہے جس کی اصلاح باقی دوسرے اداروں کی نسبت سب سے زیادہ آسان اور تیز تر ہو گی۔ پی آئی اے کا ملک گیر اور بین الاقومی نیٹ ورک پہلے سے موجود ہے، پیشہ وارانہ ماہر افرادی قوت بھی پہلے سے موجود ہے۔ خود مختار بورڈ اور جہازوں کی تعداد میں اضافے اور پالیسی ڈائریکشن میں بہتری ہی پی آئی اے کے اصلاحی عمل کوتیزی سے آگے بڑھا سکتی ہے۔
 
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 629419 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.