عہد حاضر کے چیلنجز کا مقابلہ اور مدارس کا نصاب تعلیم: چند ناگزیر اصلاحات

اس سے دنیا بھر کے دینی مدارس اور ساتھ ہی ساتھ دیگر اسلامی تعلیمی مراکز میں علوم اسلامیہ کے نصاب پر ایک تنقیدی، واضح اور صحت مند بحث کو تحریک ملنی چاہیے تھی۔ تاہم آثار اس کے برعکس ہیں۔ ہمیں تعلیم کے تمام شعبوں یعنی مذہبی اور سیکولر دونوں میں مذہبی، ثقافتی، تہذیبی اور تاریخی حیثیت سے اسلام کے مطالعہ میں بروئےکار لائے جانے والے نظریاتی فریم ورک اور طریقہ کار کا تنقیدی جائزہ لینے کی اشد ضرورت ہے۔ اس مقصد کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں مدارس میں پڑھائی جانے والی فقہی کتابوں پر معروضی اور تنقیدی گفتگو کرنی چاہئے۔ اور ساتھ ہی ساتھ سیکولر کالجوں اور یونیورسٹیوں کے شعبہ اسلامیات کے نظام اور نصاب کا بھی تنقیدی تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔
 (اصل مقالہ انگریزی میں تحریر کیا گیا تھا جس کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے)

حالیہ دنوں میں مذہبی انتہا پسندی کے فروغ پر قدغن لگانے کے لیے اسلامی نصاب تعلیم میں ناگزیر اصلاحات کے لیے شیخ الازہر احمد الطیب کی تاکید و تنبیہ خود احتسابی کی ایک خوش آئند علامت ثابت ہوئی۔ اہم بات یہ ہے کہ اسلامی تعلیم کے ذریعہ دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے مدارس کے نصاب میں تبدیلی کی تجویز سعودی عرب میں پیش کی گئی ۔ سعودی عرب ایک ایسا ملک ہے جو وہابی سلفی نظریہ کے حامل مدارس وجامعات کی آماجگاہ ہے جہاں سے دنیا بھر میں فکری انتہاپسندی اور اعتقادی سخت گیری کو فروغ ملا ہے۔ سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یہ تمام باتیں مکہ مکرمہ میں منعقد ہونے والے ایک انسداد دہشت گردی کانفرنس کے موقع پر کہی گئیں۔
اس سے دنیا بھر کے دینی مدارس اور ساتھ ہی ساتھ دیگر اسلامی تعلیمی مراکز میں علوم اسلامیہ کے نصاب پر ایک تنقیدی، واضح اور صحت مند بحث کو تحریک ملنی چاہیے تھی۔ تاہم آثار اس کے برعکس ہیں۔ ہمیں تعلیم کے تمام شعبوں یعنی مذہبی اور سیکولر دونوں میں مذہبی، ثقافتی، تہذیبی اور تاریخی حیثیت سے اسلام کے مطالعہ میں بروئےکار لائے جانے والے نظریاتی فریم ورک اور طریقہ کار کا تنقیدی جائزہ لینے کی اشد ضرورت ہے۔ اس مقصد کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں مدارس میں پڑھائی جانے والی فقہی کتابوں پر معروضی اور تنقیدی گفتگو کرنی چاہئے۔ اور ساتھ ہی ساتھ سیکولر کالجوں اور یونیورسٹیوں کے شعبہ اسلامیات کے نظام اور نصاب کا بھی تنقیدی تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔

وقت کی ایک اہم ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے انتہا پسندی، علیحدگی پسندی، تفوق پرستی اور مذہبی تشدد کے سدباب کے لئے ہمیں اپنے مدارس کے نصاب میں امن عالم، مذہبی ہم آہنگی اور بنی نوع انسان کے لیے اخوت و بھائی چارگی کے آفاقی اسلامی پیغامات پر زور دینا چاہیے۔ لیکن زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ ان قدامت پسند علماء کو کیسے مطمئن کیا جائے جن کا تسلط اکثر مدارس پر ہے اور جو اپنے مدارس کے نظام و نصاب میں کسی بھی بڑی تبدیلی یا انقلابی اصلاحات کی مخالفت کرتے ہیں۔ بہ ہر حال مرکزی دھارے سے جڑے مدارس میں پڑھائے جانے والے ‘درس نظامی’ کے ایک معروضی مطالعہ اور گہرے تجزیہ سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ہندوستانی مدارس کے مندرجہ ذیل تعلیمی شعبوں کے متعلقہ مضامین پر توجہ دینے کی ضرورت ہے:
علوم قرآنیہ (Qur’anic Sciences)
اس موضوع پر مدارس کے طلبا کو تمام آیات جہاد اور خاص طور پر ان 24 آیات جہاد اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کے دوران لڑی گئی دفاعی جنگوں کی مدلل اور تشفی بخش وضاحت دیا جانا ضروری ہے۔ طالب علموں کو مطمئن کیا جانا چاہیے اور جنگ سے متعلق قرآن مجید کے ان احکامات کے بارے میں مستشرقین، اسلام مخالف اسکالرس اور مغربی مصنفوں کے ذریعہ اٹھائے گئے ان شکوک و شبہات کے عقلی دلائل اور جوابات بھی دیے جانے چاہیے جو ان کی نظروں میں قابل اعتراض ہیں۔

تاہم، مدارس میں تمام قرآنی تفاسیراور کلاسیکی عربی تفسیر (طبری، زمخشری، رازی، ابن کثیر، بیضاوی اور جلالین وغیرہ) کے تنقیدی مطالعہ کو بھی شامل کرنا ضروری ہے جو کہ روایتی اسلامی تعلیم کے نصاب کا ایک لازمی حصہ ہیں۔ ان کا موجودہ حالات کے تناظرمیں جائزہ لیا جانا اور ان کا تجزیاتی مطالعہ کیا جانا چاہئے۔ اردو زبان میں موجود مختلف مکاتب فکر کے ہندوستانی علماء کی تفاسیر پر خصوصی توجہ دی جانی چاہیے اس لیے کہ ہندوستانی مسلمانوں کے عقائد اور مذہبی نظریات کی تشکیل میں ان کا اہم کردار ہوتا ہے، مثلاً: مولانا اشرف علی تھانوی کی بیان القرآن، سید ابو الاعلی مودودی کی تفہیم القرآن، مولانا امین احسن اصلاحی کی تدبر قرآن، سید احمد خان کی تفسیر القرآن وھو الہدیٰ و الفرقان اور مولانا ابوالکلام آزاد کی ترجمان القرآن وغیرہ۔ یاد رہے کہ ہندوستان میں بعض سلفی مدارس نے غیر ملکی مفسرین قرآن کی انتہا پسندانہ تفاسیر کو اپنے نصاب میں شامل کر لیا ہے، مثلاً سید قطب کی ‘‘فی ظلال القرآن ’’ (قرآن کے سائے میں)۔ یہ مستقبل میں ہندوستانی مدارس کے فارغین کے لئے کوئی اچھی علامت نہیں ہے۔

اس کے علاوہ، فقہ سے متعلق مسائل کا بھی قرآن کے ساتھ ہم آہنگ ہونا لازمی ہے اور موجودہ ضروریات اور وقت کی تبدیلیوں کے مطابق ان کی تعلیم دی جانی چاہئے۔ قرآنی علوم پر جدید مطالعہ کے ایک تعارف سے عالمگیر قرآنی پیغامات کی مختلف اور ہم آہنگ جہتوں کو سمجھنے میں مدارس کے طالب علموں کو مدد ملے گی۔

کتب حدیث (Hadith Literature)
کتب احادیث و سیر پر مستشرقین کی تحریروں کا ایک معروضی، وسیع الذہن اور تنقیدی مطالعہ بھی مدارس میں شامل کیا جانا چاہیےتاکہ کتب احادیث کے مندرجات پر ان کے سوالات کے واضح جوابات طالب علموں کو فراہم کرائے جا سکیں۔ مختلف اور متضاد احادیث کے درمیان تطبیق پیدا کرنے اور ایک کو دوسرے پر ترجیح دینے کے اصول و ضوابط کی بھی تعلیم طلباء مدارس کو دی جانی چاہیے تاکہ کسی خاص نص حدیث کو قبول کرنے اور مسترد کرنے کے تعلق سے ان کے پاس ایک واضح نقطۂ نظر ہو۔ احادیث کی تشخیص ہمیشہ روایت حدیث اور درایت حدیث کے اصولوں کی روشنی میں ایک وسیع اور تنقیدی تناظر میں کی جانی چاہئے۔ مدارس کے طالب علموں کو حدیث کی نقد و جرح کے اصول کی تعلیم اس انداز میں دی جانی چاہیے کہ وہ کسی خاص نص حدیث کے خلاف مستشرقین کے ذریعہ اٹھائے گئے شکوک و شبہات کا حل پوری دانشمندی کے ساتھ پیش کر سکیں۔

فقہ اسلامی (Islamic Jurisprudence)
مدارس کے طلباء کو اس پس منظر کا ایک جامع مطالعہ بھی فراہم کیا جانا چاہئے جس کی وجہ سے مختلف مکاتب فکر کا وجود ہوا۔ فقہ اسلامی کا فلسفہ صرف اسی وقت سمجھا جا سکتا ہے جب چاروں فقہی مذاہب (حنفی، مالکی، حنبلی اور شافعی) کا تفصیلی اور تنقیدی مطالعہ کیا جائے۔ جدید فقہی مسائل سے متعلق قرآنی آیات کا ایک وسیع تر اور منطقی نقطہ نظر سے مطالعہ کیا جانا ضروری ہے۔

جدید علم الکلام (Modern Philosophy)
علوم نقلیہ کے ساتھ عقل کا استعمال مدارس کے نصاب میں کی نمایاں خصوصیت ہونی چاہئے۔ ہمیں جدید عقلی بنیادوں پر مذہبی عقائد کی تشریح اور اس کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ 21 ویں صدی میں ہمیں کلام الٰہی کی تشریح میں جدید سائنس اورجدید علم الکلام پر بھی توجہ دینا ضروری ہے۔ دراصل مدارس کے نصاب میں ایک عقلی تحریک کی ضرورت ہے۔ قدیم فلسفے میں پائی جانے والی مناظرانہ بحثوں کو برطرف کرتے ہوئے مدارس کے طلبا کو جدید فلسفہ پر توجہ دینا اشد ضروری ہے جنہیں آج عصری جامعات اور یونیورسٹیوں میں پڑھایا جاتا ہے۔ اس سے انہیں مذہبی مباحثے، بنیادی اصول و معتقدات اور اسلامی بنیادوں پر بحث کرنے میں بڑی مدد ملے گی۔ اس ضمن میں مندرجہ ذیل عنوانات کو نصاب میں شامل کیا جا سکتا ہے:
. ہندوستان میں علم الکلام کے خصوصی حوالہ سے قدیم علم الکلام کی بنیاد اور اس کا ارتقاء۔
. مرکزی یونیورسٹیوں میں پڑھایا جانے والا جدید فلسفہ جسے مدارس کے حلقوں میں جدید علم الکلام کے نام سے جانا جاتا ہے۔
. علم الکلام کے اندر بحث کیے جانے والے بنیادی مسائل۔
. اسلام میں اختلاف رائے: الہیاتی، نظریاتی، سیاسی، مذہبی اور سماجی مقاصد۔
. معتزلہ، اشاعره، ماتریدیہ، قدریہ، جبریہ اور مرجیہ کے ساتھ ساتھ جدید خوارج اور مسلم دنیا میں پیدا شدہ جدید انتہا پسند فرقوں کے نظریات اور ان کا علمی رد وابطال۔

تقابل ادیان (Comparative Religions)
مدارس کے طلباء کا عیسائیت، یہودیت، بدھ مت، ہندو مت جیسے تمام عالمی مذاہب اور جدید مذہبی معاملات اور حالات سے واقف ہونا ضروری ہے۔ انہیں مختلف مذاہب اور ساتھ ہی ساتھ مذہب کی متنوع تشریحات کا مطالعہ کرنے کے جدید طریقہائے کار سے بھی آگاہ کیا جانا چاہئے۔ دنیا کے بڑے مذاہب اور ان کی مقدس کتابوں کے تقابلی جائزہ سے ان کی فکر میں گہرائی و گیرائی پیدا ہوگی اور ان کا ذہن وسیع ہوگا۔ اسلام اور دیگر مذاہب میں اصلاحی تحریکوں کے مطالعے سے انہیں اپنے اندر اسلامی اصلاحات کا سائنسی اور ترقی پسندانہ مزاج پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔

اسلامک فائنانس (Islamic Finance)
اسلامی بینکاری نظام کی وسیع پیمانے پر مقبولیت کے پیش نظر مدارس کے طلبا کو اسلامی فائنانس کے بھی نظریات و تصورات کی تعلیم دی جانی چاہئے۔ انہیں اسلامی مالیاتی اداروں کے نظام سے واقفیت حاصل ہونی چاہئے۔ مدارس میں اس موضوع کی اہمیت اس وقت بڑھے گی جب حکومتیں اپنے بینکوں میں اسلامی بینکاری کا نظام شروع کرنے کی اجازت دیں گی۔ اگر مدارس کے طالب علموں کو اسلامی سرمایہ کاری کے اصولوں اور موجودہ مالیاتی مارکیٹ میں ان پر عمل درآمد کی تعلیم دی جائے گی تو وہ مارکیٹ میں دستیاب ملازمتوں کے مواقع سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔ اور اس طرح وہ اپنی محدود سوچ کی خول سے باہر آ پائیں گے۔

مدارس کے موجودہ نصاب میں ان بڑی تبدیلیوں کے علاوہ ان میں جدید علوم اور تمام جائز تعلیمی سرگرمیوں کی گنجائش ہونی چاہئے۔ کم از کم مدارس کے طالب علموں کو تاریخ، جغرافیہ، سماجیات، معاشیات، طبیعیات، سیاسیات اور حکومتی انتظامیات (PUBLIC ADMINISTRATION) جیسے بنیادی سیکولر مضامین کی تعلیم بھی دی جانی چاہیے تاکہ ان کے ذہن و فکر میں کشادگی پیدا ہو۔ بہت اچھا ہو گا اگر مدارس کے طالب علموں کو ان کی شخصیت سازی کے لیے جدید اخلاقی تعلیمات فراہم کی جائیں اور انہیں سافٹ اسکلز soft skills سمجھایا جائے۔

غلام رسول دہلوی انگریزی، اردو اورعربی مجلات وجرائد کے مستقل کالم نگار، مختلف زبانوں کے ماہر اور متعدد کتابوں کے مترجم ہیں۔ Email Id: [email protected]
Mob: 08285792316
Ghulam Rasool Dehlvi
About the Author: Ghulam Rasool Dehlvi Read More Articles by Ghulam Rasool Dehlvi: 3 Articles with 5873 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.