عید قربان اور کچھ تلخیاں

میں ان دنوں طالب علم تھا اور شاید ایف ایس سی میں پڑھتا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب شہر کے پرانے مکین گپ شپ کے لیے کسی دکان یا کسی تھڑے پر بیٹھے دنیا جہاں کو زیربحث لاتے۔ ذاتی مسائل پر گفتگو کرتے۔ سیاست پر بحث ہوتی۔ گھربار کی ساری باتیں ایک دوسرے کو بتاتے۔ وہ دکان یا تھڑا ایک بیٹھک تھی جہاں محلے بھر کے ہر رنگاور ہر ڈھنگ کے لوگ بیٹھے ہوتے۔ غریب، امیر، پڑھے لکھے، ان پڑھ،مزدور،بابو کسی قسم کی کوئی تفریق نہیں ہوتی تھی۔ محلے میں بڑے بڑے مکان بھی تھے اور چھوٹے چھوٹے کمروں پر مشتمل مکان بھی تھے جن کے ہر کمرے میں ایک پورا پورا خاندان مکین ہوتاتھا۔ ان چھوٹے چھوٹے کمروں پر مشتمل مکانوں ،جن کے ہر کمرے میں ایک مکمل خاندان آباد ہوتا تھا،کو لوگ کٹڑی کہتے تھے۔ وہ تھڑا جو بیٹھک کی شکل اختیار کر لیتا اس پر بڑے مکانوں کے کھاتے پیتے لوگ اور کٹڑی کے کسی کمرے میں رہنے والے غریب مکین، بغیر کسی تعصب ،سبھی بیٹھے گپ شپ میں مصروف ہوتے۔ اپنا محلہ اپنے گھر کی طرح ہوتا۔ کسی نے پورے کپڑے ،کسی نے فقط دھوتی او ربنیان پہنی ہوتی،یا کوئی کسی بھی حلیے میں ہوتا۔ گفتگو میں شریک ہونے کے لئے شام کا کچھ وقت اس تھڑے یا دکان کے باہر ضرور گزارتا۔

تاج کی دکان ایک کٹڑی کے دروازے سے ملحق تھی اور را ت گئے تک محلے کے لوگ کچھ وقت کے لئے اس دکان کے باہر ہونے والی محفل میں شریک ہوتے اورکچھ نہ کچھ وقت گزار کر واپس جاتے رہتے۔ وہ عید کا دوسرا دن تھا۔ اس دن حسب معمول محفل جاری تھی۔ اور موضوع قربانی تھا۔ ہر شخص اپنے قربانی کے بکرے کی صفات، گوشت کیسے بانٹا اور کسے کسے بانٹا کتنا گوشت موصول ہوا اس بارے میں اظہار خیال کر رہا تھا۔ گائے بھینس اور اونٹ کی قربانی دینے والے ،گائے بھینس اور اونٹ کے گوشت کی بابت اپنی معلومات سے لوگوں کو مالامال کر رہے تھے۔ اقبال ایک مزور تھا۔ رنگ روغن کا کام کرتا تھا۔ اسی کٹری کے ایک کمرے میں اپنی بہن کے ہمراہ رہتاتھا اور شام کو اس محفل کا مستقل رکن تھا۔ آج وہ بہت چپ چپ اور اداس اداس لوگوں کی باتیں سن رہا تھا اور روز کے معمول سے ہٹ کر کسی بات پر کوئی تبصرہ نہیں کر رہا تھا۔ میں نے اتفاقاً پوچھ لیا اقبال صاحب آپ چپ کیوں ہیں۔ کچھ توکہیے۔ ہنس کر کہنے لگا میں اس موضوع پر کیا بولوں۔ گاؤں سے آنے کے گذشتہ پندرہ سال سے اسی محلے میں مقیم ہوں مگر مجھے کسی نے کبھی بھی اور کسی سال بھی قربانی کا گوشت نہیں بھیجا۔ میں تبصرہ کیاکروں میں اس کی بات سن کر کچھ مغموم ہوا اور واپس گھر آ گیا۔ گھر آ کر میں نے اقبال کی کہی ہوئی بات والد محترم کو بتائی۔ میرے والد بڑے رکھ رکھاؤ والے انسان تھے۔ انہوں نے گھر میں موجود تھوڑا ساگوشت فوری طور پر مجھے دیا اور اقبال کو پہنچانے کا کہا۔ صبح انہوں نے خود بھی اقبال سے ملاقات کی اور اس کوتاہی کی معافی چاہی۔ اگلے سال پورے محلے کے لوگوں نے ایسے مستحق لوگوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر اس قدر گوشت دیا کہ انہیں کسی کو کوئی گلہ نہ رہا۔ اس سال تک ہم رشتہ داروں کو بہت دھوم دھام سے گوشت بھیجا کرتے تھے مگر اس سال کے بعد صبح صبح عید مبارک کہتے ہوئے معلوم کر لیتے کہ انہوں نے قربانی کی ہے یا نہیں۔ اگر کسی نے قربانی نہ کی ہو تو اسے گوشت بھیج دیتے ورنہ نہیں۔البتہ علاقے میں موجود تمام مستحقین کو ہرحال میں گوشت پہنچانیکی پوری سعی کرتے ہیں۔ میری آج بھی یہی روٹین ہے کہ میں اپنے گھر کے اردگرد بہت دور تک ہر مستحق تک خود گوشت بانٹ کر آتا ہوں۔

آج پچاس سال بعد مجھے یہ پرانا واقعہ دوبارہ یاد آ گیا۔ پنجاب یونیورسٹی میں پڑھنے والے وہ طلبا جن کا تعلق بلوچستان، خیبرپختونخواہ، گلگت بلتستان اور فاٹا جیسے علاقوں سے تھا عید کے روزتین چھٹیوں کے فوراً بعدکلاسوں یا امتحانات کے شروع ہونے کی وجہ سے گھروں کو نہیں جا سکتے تھے۔ عید پر میس اور کنیٹین کے بند ہونے کی وجہ سے قربانی کا گوشت تو کیا کھانا کھانے کے لیے بھی کہیں سے بھی نہ ملنے کے سبب ہوسٹل میں پریشان بیٹھے رہے۔ اتفاق سے عید کی شام ان سے رابطہ ہوا تومیں نے عید کی مبارک دے کر احوال پوچھا تو ہنس کر بتانے لگے کہ روٹی تو نہیں ملی البتہ دوپہر کو چائے کے ساتھ بسکٹ کافی تعداد میں کھا کر گزارہ کر لیا ہے۔ ان طلبا کی تعدادسب ملا کر بیس کے قریب ہو گی جو یونیورسٹی میں بے یارومددگار بیٹھے تھے کی مدد یونیورسٹی حکام آسانی سے کر سکتے تھے مگر یہ چھٹیوں سے پہلے ممکن تھا مگر شاید کسی کو خیال نہیں آیا۔اس وقت فوری طور پر کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران کی یہ خوبی ہے کہ انہں خبر ہو جائے توہر مشکل میں طلباء کی مدد بڑا ڈٹ کر کرتے ہیں مگر انہیں یقیناً خبر نہ ہو گی۔ یہ ہوسٹل کے وارڈن اور سپرنٹنڈنٹ کا کام ہے کہ ایسے حالات میں کسی طرح اپنے فرائض سے عہد ہ برا ہوا جائے ۔ سوشل میڈیا پرہوسٹلوں میں مقیم بہت سے طلبا لاہور کے باسیوں سے گلہ کر رہے تھے کہ عید کو بھوکے پیاسے بیٹھے رہے مگرکسی نے پوچھا ہی نہیں۔ قصو ران کا بھی تھا۔ حالات سے کسی کو باخبر تو کرتے اپنے ساتھیوں سے رابطہ رکھتے۔ اگلی عید پر میں عید سے پہلے اس موضوع پر پھر لکھوں گا اور مجھے یقین ہے کہ لاہور کے باسی ہوسٹلوں میں رہنے والے طلباء کو اس قدر کھابے فراہم کریں گے کہ وہ طلباء اگلا پچھلا ہر گلہ اور شکایت بھول جائیں گے۔ وائس چانسلر صاحب سے بھی میری استدعا ہے کہ ہوسٹل کے ذمہ داروں کو آئندہ ایسی صورتحال میں اپنی ذمہ داری پوری کرنے کا پابند بنائیں اور بچوں کو میں یقین دلاتا ہوں کہ لاہور کے باسی آئندہ ان کا پورا خیال رکھیں گے۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 442214 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More