15 اکتوبر - سفید چھڑی کا عالمی دن

تخلیق کائنات کے بعد دنیا میں بتدریج پھیلنے والی انسانی تفریق نے لفظ امیر اور غریب کو جنم دیا اور یہ دونوں آج بھی دنیاپر کونے میں موجود ہیں جنگ عظیم دوئم کے خاتمے کے بعد لیگ آف نیشن اقوام متحدہ میں تبدیل ہوئی تو جنگ سے متاثرہ ممالک کے لاکھوں نابینا افراد سے متعلق غورو فکر شروع ہوا۔ابتدامیں سُرخ اور سفید رنگ کی ایک چھڑی متعارف کرائی گئی جو ان لوگوں کا عالمی نشان تھا سفید رنگ امن کی علامت اور سرخ کو نابینا افراد کا بین الاقوامی نشان قرار دے دیاگیا اور 15اکتوبر کا دن یوم سفید چھڑی کہلایا یہ دن لاکھوں لوگوں کی جدوجہد کا نتیجہ تھا ان جدوجہد کرنے والوں میں پاکستانی خاتون ڈاکٹر فاطمہ شاہ بھی سرفہرست ہیں پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق نابینا افراد کی کل تعداد ایک کروڈ دس لاکھ معذور افراد میں سے تقریباً 54لاکھ ہے۔ ان میں سے پڑھے لکھے افراد کی تعداد 23 فیصد جبکہ برسرِ روزگار افراد کی تعداد صرف9 فیصد ہے ۔ یہ اعدادو شمار نہ صرف اسپیشل ایجو کیشن بلکہ پرائیویٹ سکولں کیلئے بھی شرمناک ہے اسپیشل ایجو کیشن معذوروں کے نام پر کیا جانے والا ایسا منظم فراڈ ہے جس میں چوکیدار سے لے کر افسر تک سب اپنی جیبیں گرم کرنے میں مصروف ہیں جبکہ پرائیویٹ سکولز کے حالات اسپیشل ایجو کیشن جیسے تو نہیں لیکن تعلیمی معیار ایسا ہے کہ نابینا بچوں کو آج بھی وہ ہی (الف انار، ب بکری) ہی پڑھایاجاتا ہے۔ پاکستان میں 1981ء پہلی اور آخری بار معذوروں کا سال قرار دیاگیا اور جنرل ضیاء الحق کے گیارہ سال میں نابینا افراد کیلئے جو کچھ ہوا وہ اس سے پہلے اور اس کے بعد نہ ہوسکا اداروں کے نام زمینوں کی الاٹمنٹ، ملازمتوں کا حصول، قانونی تحفظ، م تعلقہ افراد تک رسائی، زکوٰۃ فنڈ اور بیت المال سے معذوروں کی امداد جنرل ضیاء کے ایسے کارنامے ہیں کہ جب جمہوریت کا راگ الاپنیوالے انہیں غاصب کہتے ہیں تو نابینا افراد انہیں اصلاح پسند رہنما سمجھتے ہیں 15اکتوبر کا یہ خاصہ ہے کہ 1999ء تک یہ دن بھر پورانداز سے منا یا جاتا رہا سرکاری اور نجی سطح پر منانے کا اہتمام کیا جاتا لیکن پھر دنیا کے سرمایہ دار اداروں نے اس دن پر شب خون مارا اور اس دن کو گلوبل ہینڈ واشنگ ڈے یعنی ہاتھ دھونے کا دن مقرر کروادیا جس کا مقصد شعور کی بیداری کے نام پر اپنی مصنوعات کی تشہیر اور خود کو سماجی حیثیت میں سامنے لانا تھا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یوم سفید چھڑی کمرشل پر ست میڈیا پر اشتہارات کی چکاچوند میں ایسا غرق ہوا کہ لاکھوں لوگوں کو اپنے دن پر صرف ڈھائی منٹ کی خیرات ملتی ہے۔ کیونکہ نابینا اداروں کے پاس تشہیر کیلئے پیسہ نہیں اس لیے ان کے مسائل آگے پہنچانے والا کوئی نہیں حکومتی سطح پر بھی یہ دن نظر انداز ہوتا رہا اب کہ پھر 15 اکتوبرآنے والا ہے معلوم نہیں کہ موجودہ حکومت اس کی اہمیت محسوس کرے گی یا سابقہ سرکاری روش برقرار رکھے گی اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ سرکاری اور فاردا بلائنڈ اداروں میں پڑھانے والے بینا اساتذہ تک کو اس دن کی اہمیت اور تاریخ معلوم نہیں ۔رشوت اور سفارش کے ذریعے بھرتی ہونے والے یہ اساتذہ معاشرے میں کیا آگاہی پیدا کریں گے کہ یہ خود اپنے سٹوڈنٹس کو حافظ جی کہہ کر بلاتے ہیں ۔ جہاں یہ حقیقت ہے کہ وسائل گھمبیر ہیں وہیں اُن کے حل بھی موجود ہیں اگر حکومت کے وقت نیشنل کوآرڈینیشن کمیٹی برائے نابینا افراد قائم کر کے امن کمیٹی کی طرز پر صوبائی اور ضلعی لیول پر ڈپٹی کوآرڈینیٹر مقرر کرے جو نہ صرف نابینا ہوں بلکہ حکومت اُن کی سفارشات پر عمل بھی کرے تو کئی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔اسپیشل ایجو کیشن کے تحت چلنے والے اداروں کو یا تو وزارت تعلیم کے کنٹرول میں دیا جائے یا پرائیویٹ کر کے بھاری رقم جو افسروں کی جیبیں بھرنے پر خرچ ہورہی ہے بچائی جاسکتی ہے۔

اس چیز کی بھی ضرورت ہے کہ نیشنل پالیسی فار اسپیشل پرسن کا اعلان کیا جائے اور ڈس ایبل پروٹیکشن ایکٹ پاس کیا جائے تاکہ لاکھوں لوگوں کو قانونی تحفظ حاصل ہوسکے جبکہ یہ بھی ضروری ہے کہ میڈیا اپنی قومی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے نہ صرف نابینا لوگوں کے مسائل اُجاگر کرے بلکہ ان کی کارکردگی بھی سامنے لائے سرمایہ دار کمپنیوں کو بھی سوچنا چاہئے کہ انہوں نے ایک عظیم مقصد کیلئے منانے والے دن کے ساتھ جو زیادتی کی ہے وہ اس کا ازالہ کریں تاکہ معاشرے کا یہ طبقہ جو بظاہر فیوز بلب کی مانند دکھائی دیتا ہے لیکن تھوڑی توجہ اور حوصلہ افزائی انہیں ایسے روشن چراغ میں تبدیل کرسکتی ہے جو معاشرے کے دیگر افراد میں بصیرت کا نور پھیلانے کا باعث بنے اور نابینا افرا کی تاریخ ایسے لوگوں سے خالی نہیں ۔ حماس کا بانی کوئی سرمایہ دار یا جاگیر دار نہیں بلکہ ایک نابینا مجاہد تھا جو آج کے عرب حکمرانوں سے بہتر اور برتر تھا وہ ملک کہ جو اپنے مفادات کے نشے میں غرق امریکہ سے کرائے کی فوج مانگتے ہیں تاکہ شامی، مصری اور ایرانی مسلمانوں کا خون بہاجاسکے۔
Qazi Naveed Mumtaz
About the Author: Qazi Naveed Mumtaz Read More Articles by Qazi Naveed Mumtaz: 28 Articles with 21416 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.