سانحہ منیٰ پر سیاست شرم ناک فعل

 حج کے عظیم فریضے رمی کے دوران اس سال عام معمول سے ہٹ کر زیادہ شہادتیں ہو گئیں جن کا تعین ابھی تک نہیں ہو سکا ۔عرب ،عالمی ،ایرانی خبررساں ادارے اس حوالے سے مختلف خبریں نشر کررہے ہیں جس کے باعث شہداء کے تعین میں ابہام پیدا ہوگیا ہے حج کے دوران موت کا آنا شہادت کی موت ہے جس کی خواہش ہر مسلمان کرتا دکھائی دیتاہے اس راہ وفا میں کام آنے والے حجاج مقدس نے عظیم مرتبے پالئے ۔اﷲ کے حضورکامیابی وکامرانی کا پروانہ ہاتھ میں تھامے ،زبان ودل سے لبیک اﷲم لبیک کہتے ہوئے پہنچ گئے ہیں سارا عالم اسلام ان کی شہادتوں پر فخر اور جدائی میں غمگسا رنظر آتا ہے۔اس سانحہ کی تفصیلات دنیا بھر کے نشریاتی ادارے اور پرنٹ میڈیا میں جاری ہو نے کے بعد قارئین کو اس سانحہ کے ماسٹر مائنڈ تک پہنچنے میں کوئی دشواری نہیں رہی۔اس سانحہ کا ذمہ دار کوئی گروہ یا جماعت نہیں بلکہ ماضی قریب میں مکہ ومدینہ پر حملے کی دھمکی دینے والے ملک ایران کے خاص لوگ ہیں جنھوں نے ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت رمی کے دوران بدنظمی پھیلانے کیلئے گھٹیا حرکتیں کیں اس بد نظمی کی کاروائی میں اہم ایرانی لوگوں کے شامل ہونے کا انکشاف بھی ہوا ہے جو اپنی اصلی شناخت چھپا کر حجاز مقدس میں داخل ہوئے اس سے قبل انہوں نے ضابطہ ٔ اخلاق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہدایات کو بھی متعدد بار نظر انداز کیا جن کے ویڈیو کلپس بھی نیٹ پر موجود ہیں ۔اگر کھلے الفاظ میں یہ کہا جائے کہ حج کے فریضے میں بدنظمی پھیلانے میں ایران کی منظم سازش ہے تو بے جا نہ ہوگا ۔اپنے مزموم مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے ایران کی طرف سے ہی الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق سیاست ہو رہی ہے ۔ آخر اس سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں یہ لوگ ؟ ایسا کرنے والوں کے خلاف کیا عالم اسلام کوئی ایکشن لے گا یا رات گئی اور بات گئی والی کیفیت ہوگی؟یقیناً عالم اسلام پر فرض عائد ہوتا ہے کہ سانحہ منیٰ پر سیاست کرنے والوں کے خلاف عملی اقدام کرے ،حج جیسے عظیم عمل کے دوران انسانی جانوں کے ضیاع کا باعث بننے والے فتنہ پرور اﷲ رب العزت کی پکڑ سے بچ نہیں پائیں ۔اﷲ کے گھر،امن والے شہر کا امن تباہ کرنے والوں سے دو ہاتھ کرنا ازحد ضروری ہے اس سانحہ کی آڑ میں سیاست کرنا بھی ہمارے نزدیک ایسا ہی جرم عظیم ہے جیسا اس جرم کا ارتکاب۔۔۔اس سانحہ کے بعد حقائق مسخ کرنے کیلئے منفی پروپیگنڈہ،منفی بیان بازی عالم اسلام کے خلاف نفرت کی فضا پیدا کرنا اسلام دشمنی ہی تو ہے مسلم رہنماؤں،ممالک اور اسلام پسند میڈیاسے دردمندانہ گذارش ہے کہ بلاد مقدسہ کا تقدس پامال کرنے والوں ،ان کی ناپاک سازشوں کو بے نقاب کیا جائے ان کا مکروہ چہرہ مسلم عوام کے سامنے لایا جائے تاکہ مسلم عوام ان کا حقیقی چہرہ دیکھ کر ان سے ماضی میں کنارہ کشی اختیار کریں ہم سمجھتے ہیں جو لوگ اﷲ کے گھر ،امن والے شہر کے تقدس کا خیال نہیں رکھ سکتے وہ مسلمانوں سے کیسے وفا کرسکتے ہیں ؟یہ آستین کے سانپ ہیں جن کو اسلام سے جدا کرکے اسلام کو کفر کی سازشوں سے نجات دلانا ہوگی۔

٭وزیراعظم پاکستان میاں نوز شریف نے اقوام متحدہ میں عوامی جذبات کی کس قدر ترجمانی کی ہے ؟ اس کی تعریفیں تو سب کر رہے ہیں لیکن میاں نواز شریف صاحب ایک بات بھول گئے کہ قومیں جب تک اپنی زبان پر فخر کرتے ہوئے غیر اقوام کے سامنے اس کی حیثیت نہیں منوا لیتیں تب تک قومیں دنیا میں اپنی شناخت حاصل نہیں کرپاتیں پاکستانی قوم کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک شناخت عطاء کی کہ قومی زبان اردو کو ملک بھر میں عملاً نافذ کیا جائے ۔اور ساتھ ہی اعلیٰ عدلیہ نے یہ بھی حکم صادر فرمایا کہ آئندہ سے ارباب اقتدار جہاں کہیں بھی تقریر کریں گے قومی زبان اردو ہی میں کریں گے ۔۔۔۔حکومت نے اس پر رضامندی کا اظہار کیا تھا لیکن اب کی بار پاکستان کے وزیر اعظم اقوام متحدہ کی اسمبلی میں خطاب کے دوران سپریم کورٹ آف پاکستان کے اس اہم حکم کو ہواؤں میں اڑا کر انگلش میں تقریر کر گئے اس طرح پاکستان کے اہم ترین عہدے دارعدالت توہین عدالت کے مرتکب ٹھہرے ۔اب دیکھتے ہیں قومی زبان کا وقار بحال کروانے کیلئے کون عدالت کے دروازے پر دستک دے کر میاں نواز شریف صاحب کو احساس دلاتا ہے کہ آپ نے بھی توہین عدالت کا ارتکاب کردیا آئیے عدالت میں آکر جواب دیجئے ۔ جب اردو کے نفاذ کا فیصلہ کیا گیا توتب بھی ارباب علم ودانش نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ نفاذاردو کے معاملے میں انگریزسرکار کے چیلے ،کڑچھے اسے قبول نہیں کریں گے ایک سیکولر قانون دان نے تو واضح الفاظ میں اس کی مخالفت کی ،ان انگریز ی کے حامی لوگوں کا کہنا ہے کہ انگریزی کے بغیر ہم ترقی نہیں کرسکتے جو کہ سراسر غلطی ہے جسے عقلی ونقلی دلائل سے کئی بار رد کیا گیا مگر ابھی تک انگلش فوبیا کا سحر ٹوٹنے کانام نہیں لے رہا۔جب عدلیہ نے فیصلہ صادر فرمایا تھااس وقت ہی یہ کہا جا رہا تھا کہ سیکولر لوگوں کو یہ فیصلہ ہضم کرنا مشکل ہو جائے گا ۔اس کی ابتدا ء وزیراعظم صاحب کی اقوام متحدہ کی اسمبلی تقریر سے کی ہے ۔ارباب اقتدار سے گذارش ہے کہ پاکستانی قوم کو ان کی شناخت دینے کیلئے دلی طورپر عدالت عالیہ کے احکامات پر من عن عمل کریں تاکہ نفاذ اردو کا مرحلہ کامیابی سے ہمکنار ہوسکے ۔اگر ایسا نہ ہوا تو عاشقان اردو ایک نئی اپیل عدالت میں کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ توہین عدالت کرنے والوں کو ہماری تحریریں اور قوم کے جذبات پیغام ہے کہ قومی زبان سے پیار کرنے والے عوام بیدار ہیں اورتمہاری حرکات وسکنات بڑی غور سے دیکھ رہے ہیں۔
Ghulam Abbas Siddiqui
About the Author: Ghulam Abbas Siddiqui Read More Articles by Ghulam Abbas Siddiqui: 264 Articles with 244275 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.