ایک نئی دنیا کی سیر

ایسے آزاد معاشرے کا خواہش مند ہوں جس میں تمام لوگ امن کے ساتھ رہیں، انہیں زندگی گزارنے کے لیے ایک جیسے مواقعے میسر ہوں، یہ میر ا تصور ہے، جس کو مکمل کرنے کے لیے میں زندہ ہوں، لیکن اگر ضرورت پڑی تو اس تصور کے لیے مرنے کو بھی تیار ہوں، کمرہ عدالت میں جج کے سامنے اپنا مقصد زندگی بیان کرنے والے اس شخص کو عمر قید کی سزا سنادی گئی ، اپنے مقصد کے لیے وقف 95 سال عمر میں سے 27 سال جیل میں رہا ، نسلی امتیاز کے خلاف جدوجہد کی علامت سمجھے جانے والے اس عظیم شخص جسے دنیا نیلسن منڈیلا کے نام سے جانتی ہے1990 میں رہا ہوا۔1994 میں جنوبی افریقہ کا پہلا سیاہ فام صدر بنا تو مفاہمت اور معاف کرنے کی پالیسی بنائی اور دنیا کو امن کا پیغام دیا۔ سیاہ فام منڈیلا کا بچپن اور جوانی تلخیوں سے بھری ہے، نو برس کی عمر میں والد کا انتقال ہوگیا، بچپن میں باپ کی شفقت سے محرومی مشکلات لاتی ہے مگر باہمت لوگ آگے بڑھ جاتے ہیں۔ منڈیلا بچپن میں گھر سے جدا ضرور ہوا مگر اپنا مقصد زندگی پاگیا۔پاکستان میں 42 لاکھ بچے یتیم ہیں جن کی عمری 17 سال سے کم ہیں، ان بچوں کی تعلیم و تربیت، صحت اور خوراک کے لیے مناسب سہولیات میسر نہیں جس کے باعث یہ بچے معاشرتی اور سماجی محرومیوں، اور کئی تو بے راہ روی تک کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ انسان دوست تنظیمیں اس محرومی کو دور کرنے میں کوشاں ہیں، ایسے ہی ایک منصوبے کے مشاہدے کے لیے اس دفعہ میری منزل وسطی راولاکوٹ تھا، کھڑک میں خواتین ایلمنٹری کالج سے شروع ہونے والی تنگ اور بل کھاتی ذیلی سڑک جناب خالد نثار کے گھر کے سامنے سے گزرتی ہے۔ ہمیشہ دھیمے لہجے اور ہمدردی کے جذبات سے سرشار رہنے والے جناب خالد نثار کے گھر کے سامنے ایک نئی دنیا آباد ہے، اس نئی دنیا میں ا رسطو، ٹالسٹائی، اورڈزورتھ، جان کیٹس، سائرس اعظم اور نیلسن منڈیلا جیسا بچپن رکھنے والے لوگ رہتے ہیں۔ کراچی کے دوستوں کے ہمراہ مجھے ان بڑے لوگوں کے ساتھ کھانا کھانے کی خواہش تھی مگر مجھے بتایا گیا ایسا ممکن نہیں، بڑے لوگ آرام کررہے ہیں، آپ کے ساتھ کھانے کی میز پر نہیں آسکتے، کچھ دیر بعد میرے ارد گرد ارسطو، ٹالسٹائی، ورڈزورتھ، جان کیٹس، سائرس اعظم اور نیلسن منڈیلا گھیرا بنائے بیٹھے تھے۔ارسطو، منڈیلا اور ٹالسٹائی کی طرح امام شافعی، امام احمد بن حنبل، امام ابنِ جوزی، امام بخاری بھی چھوٹی عمر میں باپ کی شفقت سے محروم ہوگئے تھے پھر ایسے بنے کہ دنیا کے لیے رہنمائی کا زریعہ بن گے ۔ یتیم بچوں کو معاشرتی اور سماجی محرومیوں، اور بے راہ روی سے بچالینے کے لیے راولاکوٹ میں آغوش کے نام سے ایک ادارہ قائم ہے ، یہی ہے نئی دنیا ہے۔ الخدمت فائونڈیشن نے آغوش کے نام سے یتیم بچوں کو اپنا گھر دے کر ان کا مستقبل سنوارنے کا بیڑا اٹھالیا ہے، باپ کی شفقت سے محروم بے سہارا بچوں کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے الخدمت فائونڈیشن نے یتیم بچوں کی کفالت کا ایک منصوبہ شروع کر رکھا ہے ۔ منصوبے کے تحت یتیم بچوں اور بچیوں کی کفالت کا اہتمام آغوش سینٹر زمیں کیا جا رہا ہے۔آغوش ایک نام ہے خدمت کا ، جہاں یتیم بچوں کا سہارا بن کر انہیں تعلیم اور دیگر بنیادی ضروریات کے یکساں مواقع فراہم کیے جاتے ہیں تاکہ وہ بااعتماد اور صحت مند شہری کے طور پر ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکیں۔ آغوش راولاکوٹ میں 50 بچوں کے رہنے کی گنجائش ہے مگر منتطمین کہتے ہیں اور بھی بچے آنا چاہتے ہیں انہیں آغوش میں لینے سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ آغوش کا نظام کیڈٹ کالج کی طرز پر ہے۔ راولاکوٹ کی آغوش عمارت میں بچوں کے لیے اعلی تعلیم یافتہ انتظامی عملہ موجود ہے۔ بچوں کے قیام و طعام، تعلیم و صحت، ذہنی و جسمانی نشوونما ، ان کی نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں کے لیے صحت مند ماحول کا اہتمام کیا گیا ہے۔ عمارت میں کمپیوٹر لیب، کھیل کود کا میدان بھی ہے، بچوں کی اخلاقی تربیت کے لیے مختلف لیکچرز کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔بدھ 25 مئی کی سہہ پہر کو آغوش میں مقیم بچے جب میرے ارد گرد تھے میں سوچ رہا تھا میرے ساتھ مستقبل کے ارسطو، ٹالسٹائی اور منڈیلا ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ ان بڑے لوگوں کی خدمت بھی میرے شہر کے حصے میں آئی ہے ۔ ہمارے ہمسفر سی بی آر ہاوسنگ سوسائٹی کے چیرمین جناب الطاف بٹ کی تجویز معقول ہے کہ آغوش راولاکوٹ کے ساتھ کمرشل گیسٹ ہاوس بنایا جا سکتا ہے ۔ اس کے زریعے ادارے کے مالی معاملات بہتر کیے جا سکتے ہیں۔ دورہ راولا کوٹ میں ہمارے ساتھ کراچی کی کاروباری شخصیات تھیں ان میں طارق محمود احمد بھی شامل تھے ۔طارق محمود احمد کا ادارہ BEAL پاکستان میں ادویات سازی کے لیے کمیکلز ( مرکبات ) فراہم کرتا ہے۔ اسی طرح شیخ محمد طلحہ،اور فہیم احمد کراچی کے نامی گرامی کاروباری شخصیات ہیں۔ یہ شخصیات کشمیر کی آزادی اور کشمیر میں ہونے والی فلاحی سرگرمیوں میں گہری دلچسپی رکھتی ہیں،مظفر آباد سے راولاکوٹ تک کے سفر میں مجھے محسوس ہوا ان کے دل میں انسان دوستی کی ہل چل مچی ہوئی ہے ۔ یہی ہلچل انہیں کراچی سے مظفر آباد اور راولا کوٹ لے آئی تھی ۔ آغوش راولاکوٹ کے منتظم جناب سجاد احمد خان نے بتایا کہ الخدمت فائونڈیشن پاکستان کے تحت آغوش کا سلسلہ 2002 میں اٹک سے شروع ہوا تھا۔ الخدمت فائونڈیشن کے آرفن سپورٹ پروگرام کے تحت چاروں صوبوں بشمول آزاد کشمیر، گلگت و بلتستان اور فاٹا میں 3 ہزار سے زیادہ یتیم بچوں کی کفالت کا آغاز کردیا گیا ہے۔ سجاد احمد کے مطابق ان کے سینٹر میں ایک بچے کی کفالت پر 8500 روپے ماہانہ خرچ ہورہے ہیں جس میں تعلیم، خوراک، صحت اور عملے کے اخراجات شامل ہیں۔ آغوش راولاکوٹ میں مقیم بچوں کی پڑھائی کے لیے تیس فیصد رعایت پر ریڈ فاونڈیشن سے معائدہ ہے۔ صبح آٹھ بجے تمام بچوں کو ریڈ فاونڈیشن سکول بھیج دیا جاتا ہے، دو بجے تک یہ بچے واپس آغوش پہنچ جاتے ہیں۔آغوش راولاکوٹ میں بچوں کے میس ( طعام خانہ) کے شاندار ہال ، اچھی میزیں اور کرسیاں،اچھے برتن اور ہال کی سامنے والی دیوار پر لگے ایل سی ڈی ٹیلی وژن سیٹ نے مجھے خوشگوار حیرت میں مبتلا کر دیا۔ یہ چیزیں بچوں کے لیے یتیم خانے کے مروجہ تصور کو ختم کرنے کا باعث ہیں، انشاء اللہ بچوں کی خود اعتمادی میں اضافے کا باعث بھی بنیں گئیں۔ آغوش کا منصوبہ دیکھ کرمجھے اطمینان سا ہورہا ہے کہ اللہ نے چاہا تو پاکستان کے 42 لاکھ سے زائد یتیم بچے کسمپرسی کے عالم میں زندگی گزاریں گے اور نہ ان کو دھتکارا جائے گا۔ راولاکوٹ کے تاجروں کو اس ادارے کا ضرور دورہ کرنا چاہیے تاکہ انہیں معلوم ہو کہ ان کے شہر میں اچھے کام بھی ہورہے ہیں ان اچھے کاموں میں تعاون اور حوصلہ افزائی سے محرومی کی زندگی گزارنے والوں کے دکھ درد بانٹے جاسکتے ہیں، اب وقت ہے،، آیئے یتیموں کے سر پر دستِ شفقت رکھیں، کیونکہ کفالت ِیتیم سے جنت کا حصول بھی ممکن ہے رفاقت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی۔ آغوش سے رخصت ہونے پر مولانا غلام نبی نوشہری (مقبوضہ جموں وکشمیر اسمبلی کے سابق رکن )بھی میری اس سوچ سے متفق تھے، کہہ رہے تھے والد کی سرپرستی سے محروم بچوں کی خدمت کے کارِ خیر میں خلوص ِ نیت اور عزم ِ مصمم سے شریک ہونا دنیا و آخرت کی فلاح اور نجات کا سامان اکٹھا کرنے کا ایک بہترین موقع ہے ۔ دوستو۔۔آغوش یتیم بچوں کے لیے محبت کا ایک دیا ہے اسے جلائے رکھنا۔
Sardar Ashiq Hussain
About the Author: Sardar Ashiq Hussain Read More Articles by Sardar Ashiq Hussain: 58 Articles with 50577 views
The writer is a Journalist based in Islamabad. Email : [email protected]
سردار عاشق حسین اسلام آباد میں مقیم صحافی ہیں..
.. View More