مغلِ اعظم فقیر کے در پر(1)

ہندوستان کے رہنے والے محو حیرت اور مبہوت ہو کر حیران کن منظر دیکھ رہے تھے، جس نے بھی یہ منظر دیکھا اُس کی سانس رُک گئی آنکھیں پتھراگئیں اور وہ سنگی مجسمے کی طرح ساکت ہو گیا، دل و ماغ اور نظر یہ منظر اور اِس کی حقیقت تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھے، منظر واقعہ ہی بہت حیران کن اور دل و دماغ کو مفلوج کرنے والا تھا کیونکہ کوئی بھی ذی روح یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھا کہ کل تک جو خود کو مشکل کشا ‘ان داتا اور شہنشاہ ہند سمجھتا تھا وہ خود آج سوالی بن کر اپنا خالی دامن پھیلائے اپنی عظیم سلطنت کا ولی عہد وارث مانگنے اجمیر شریف میں ایک ایسے مرد حق فقیر کے در پر جارہاتھا، جو سالوں پہلے اس فانی دنیا سے پردہ کر کے آسودہ خاک ہو چکا تھا ‘روحانیت اور تصوف کے مخالفین نے شہنشاہ کو بہت سمجھانے کی کو شش کی کہ آپ کے فقیر کے در پر جانے سے عوام کے ذہن خراب ہو جائیں گے کہ لوگ تو آپ سے مرادیں مانگتے ہیں اور آپ ایک قبر سے اپنی مراد مانگنے جا رہے ہیں‘بادشاہ سلامت آپ تو خود روزانہ ہزاروں حاجت مندوں کی خالی جھولیاں بھرتے ہیں اور اگر آج آپ اپنا دامن کسی فقیر کی قبر پر جاکر پھیلائینگے تو آپ کی بادشاہت کی عظیم عمارت زمین بوس ہو جائے گی کیونکہ یہ وہی بادشاہ تھا جو دین الٰہی کا موجد تھا مخلوق کا مشکل کشا مغلیہ خاندان کا وہ عظیم بادشاہ جس نے برصغیر پاک و ہند پر تقریباً پچاس سال حکومت کی جس نے جو چاہا وہ کیا لیکن آج بے بسی کی تصویر بنا ننگے پاؤں اجمیر شریف جارہا تھا۔مغلیہ سلطنت کے عظیم ترین بادشاہ اکبر اعظم کا یہ سفر کوئی افسانہ نہیں بلکہ حقیقت ہے کیونکہ اِس سفر کی گواہی خود اکبر اعظم کے بیٹے شہنشاہ جہانگیر نے دی ہے ‘جہانگیر نے اپنی خود نوشت میں اِس تاریخی واقعہ کوبیان کیا ہے کہ میرے والد صاحب نے میری ولادت کے لیے فتح پور سے اجمیر تک پیدل سفر کیا تھا، یہ فاصلہ ایک سو بیس کوس ہے سینکڑوں کلو میٹر پیدل ننگے پاؤں سفر کرنے کی وجہ سے شہنشاہ کے پاؤں میں چھالے پڑگئے تھے ‘آغازسفر پر وزیروں مشیروں اور خدمت گزاروں نے بادشاہ سلامت کو بہت سمجھایا کہ راستہ بہت مشکل پتھریلا ہے اِس لیے بادشاہ سلامت سواری استعمال کریں تو آسانی ہوگی لیکن اکبر اعظم نے کیا خوب کہا کہ ہم اصل سلطان الہند کے دربار سوالی بن کر جارہے ہیں اِس لیے ادب و احترام کا تقاضہ یہی ہے کہ ننگے پاؤں سوالی بن کر جایا جائے۔دیکھنے والے حیران اِس بات پر تھے کہ یہ وہی شہنشاہ تھا جس نے نیا مذہب دین الٰہی ایجاد کیا تھا، اکبر اعظم جب تخت نشین ہوا تو ابھی کم سنِ تھادنیاوی اور مذہبی تعلیم نہ ہونے کے برابرتھی، درباری علماء مبارک اور اُس کے دونوں بیٹوں ابوالفضل اور فیضی نے اکبر کی کم عمری کا ناجائز فائدہ اٹھانا شروع کیا ‘اکبر کے مذہبی عقیدے کو کمزور اور غلط رنگ دینا شروع کردیا اِن دنیا پرستوں نے ہندو برہمنوں کے ساتھ مل کر اِس کم عقل حکمران کو اِس حد تک متاثر اور مجبور کیا کہ بادشاہ نے نیا مذہب دین الٰہی ایجاد کر لیا، اکبر کے اِس مذہب پر ہندو دھرم کا رنگ زیادہ نمایاں تھا، اکبر کے سامنے آگ جلائی جاتی اور سریلے گوئیے اپنی سریلی آواز میں حمدکے اشعار گنگناتے اِس طرح وہ آتش پرستی کا جواز فراہم کرتے‘ بادشاہ سلامت مخصوص اوقات میں سورج کے سامنے سر جھکا کر بیٹھ جاتا یہ ایک قسم کی آفتاب پرستی تھی، گنگا جمنا کا پانی مقدس بتایا گیا‘ بادشاہ سلامت گھر اور سفر میں یہی پانی استعمال کرتا‘ ملازمین کی باقاعدہ ایک جماعت تھی جو دریا کنارے مامور رہتی جو سر پر مہر کوزے بھر کر لاتی ‘تمام کھانے گنگا جل میں پکائے جاتے ‘آتش پرستی آفتاب پرستی اور گنگا جل پینے کا بعد اکبر اعظم نے تمام ہندووئں کو خدائے واحد کا پجاری قرار دیا۔ہندووئں کو مزید خوش کر نے کے لئے گائے کا ذبیحہ حرام قرار دے دیا گیا، بادشاہ ہر قسم کے گوشت پر پابندی لگا نا چاہتا تھا ہندووئں کو خوش کرنے کے لئے ایک فرمان جاری کیا گیا کہ قصابوں اور ماہی گیروں کے گھروں کو عام آبادی سے علیحدہ کر دیا جائے اور معاشرے کے باقی لوگ اگر اِن سے مراسم رکھیں تو اِن سے تاوان لیا جائے، اسلام نے سورکے گوشت کو حرام قرار دیا ہے اکبر کو اِس پر بھی اعتراض تھا کہ اگر سور کو بے غیرتی کی وجہ سے حرام قرار دیا گیا ہے تو شیر یا اِس طرح کے دوسرے جانوروں کو حلال ہونا چاہیے، اکبر اپنی بدتمیزیوں اور گستاخیوں میں تمام حدود کراس کرتا جارہا تھا کہ اب وہ سرعام مذہب اسلام کی تعلیمات اور عقائد کا مذاق اڑاتا، ایک دن تو اِس تک گرگیا کہ سرعام درباریوں سے مخاطب ہو کر بولا ’’ملت اسلامی کا سارا سرمایہ بد عقلی کا مجموعہ ہے‘‘ (معاذ اﷲ) حقیقت میں مبارک اُس کے بیٹے اور چالاک عیار برہمنوں نے اکبر کے دل و دماغ پر پوری طرح غلبہ پا لیا تھا اب اکبر کی زبان سے وہی الفاظ ادا ہوتے جو یہ مکار اور عیار ٹولہ چاہتا تھا، دیوان خانے میں کسی کو جرات نہ تھی کہ وہ اعلانیہ نماز پڑھ سکے۔صاحب نصاب لوگوں پر زکوٰۃ معاف کردی اِس کی وہ کمزور دلیل یہ دیتا کہ وہ لوگوں کے معاشی حالات بہتر بنانا چاہتا ہے، اور پھر سجدہ تعظیمی کا اجراء کیا گیا اب جو بھی بادشاہ سے ملنے یا دیدار کے لئے آتا تو وہ اکبر کو سجدہ کرتا پھرسجدہ کی رسم اتنی زیادہ ہو گئی کہ سجدہ کرنے والااپنی دستار کو سرسے اتار کر ہاتھ میں پکڑ لیتا اور ننگا سر بادشاہ کے پاؤں پر رکھ دیتا اور زبان سے یہ کہتا ’’میں اپنے دل کی توجہ بادشاہ کی اطاعت کی طرف مبذول کرتا ہوں‘‘، تعظیمی سجدہ دین اسلام کی کھلم کھلا خلاف ورزی تھی کیونکہ اسلام میں قیامت تک کے لئے خدا کے علاوہ تمام سجدوں کو حرام قرار دیا ہے، ملاقات کے وقت ’’اسلام علیکم‘‘ کی بجائے ایک دوسرے کو ’’اﷲاکبر‘‘ کہا جاتا، درباری فتنہ گر مبارک اُس کے بیٹے بادشاہ کو نبوت کے بعد خدا بنانے کے چکر میں تھے۔بادشاہ اِن حماقتوں میں غرق تھا کہ اچانک ایک واقعہ نے اُس کے ہوش اڑا دیئے، اکبر نے اپنی سلطنت کو مضبوط کرنے کے لیے راجہ مان سنگھ کی بہن جودھا بائی سے شادی کی تھی ملکہ ہندو دھرم پر قائم تھی اُس نے محل میں ہی ایک چھوٹا سا مندر بنا رکھا تھاجس کے اندر ہندو دیوتاؤں کی مورتیاں رکھی ہوئی تھی، اکبر اعظم لوگوں کا داتا بن کر بیٹھا تھالیکن اپنا مسئلہ دیکھ کر دہل گیا کہ مغل شہنشاہ کے کئی بیٹے ہوئے مگر جلدی ہی مر گئے جودھابائی نے اپنے دیوتاؤں کے سامنے بہت ماتھا رگڑا لیکن وہ ماں نہ بن سکی، اکبر اکثر سوچتا کہ کیسا مشکل کشا ہے کہ اپنا مسئلہ تو حل نہیں کر سکا لہٰذا بادشاہ پریشان رہنے لگا ایک دن ایک درباری نے بادشاہ سے کہا کہ جناب آپ کی پریشانی کا حل فتح پور میں ایک فقیر حضرت سلیم چشتی کے پاس ہے، جو آپ کو ہندوستان کا وارث دینے میں مدد کر سکتا ہے (جاری ہے)
 
Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 801 Articles with 654548 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.