نینو ٹیکنالوجی رحمت یا زحمت

 تحریر :عاصمہ عزیز‘راولپنڈی
دنیا نے جتنی بھی ترقی کی منا زل طے کیں وہ سب سائنسی ترقی کی بنا پر ممکن ہوئیں ۔نینو ٹیکنا لوجی نے سائنس کی دنیا میں قدم رکھ کر اس ترقی کو چار چاند لگا دیے۔نینو ٹیکنا لوجی کی بدولت سائنسی ایجادات کمپیوٹر ‘ٹیلی ویژن اور موبائل فون وغیرہ جہاں جدید سمارٹ شکل میں دیکھنے کو ملے وہیں انکی کارکردگی میں خاطرخواہ اضافہ ہوا۔اس کے علاوہ توانائی کو محفوظ کرنے کے لئے بنائی جانے والی بیٹریز ‘فیول سیلز اور سولر سلز سائز میں چھوٹے اور کارآمد بنائے گے وہیں اس ٹیکنالوجی کی مد د سے د نیا بھر کے ڈیفنس سسٹم میں انقلاب برپا ہوا۔مختلف قسم کے سنسرز ‘بلٹ پروف جیکٹس ‘ہلکے وزن کے ملٹری کے ہتھیار وں اور ڈرون حملوں میں نینو ٹیکنالوجی استعمال ہوتی ہے۔اس کے علاوہ ایسی چپس بھی ایجاد کی جارہی ہیں جنھیں کسی بھی پرندے یا جانور کے ساتھ لگا کر جاسوسی کے مقاصد کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔میڈ یکل کی دنیا میں بھی اس کے باعث بہت ترقی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ایسی سمارٹ ڈرگز استعمال کی جارہی ہیں جن کی مدد سے کینسر ‘ذیابطیس اور دیگر جان لیوا امراض کا علاج ممکن ہے ۔غرض یہ کہ ہمار ی انڈ سٹریل ‘میڈیکل ‘ملیٹری اور ہمار ی روزمرہ زندگی نے نینو ٹیکنالوجی کی بدولت ترقی کی منازل طے کی ہیں وہیں اس کے انسانی زندگی اور ماحول پر منفی اثرات بھی پیدا ہو رہے ہیں جن کا نظرانداز کیا جانا ممکن نہیں۔
نینو ٹیکنالوجی کی مدد سے بنائے جانے والے ذرات سائز میں اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ وہ آسانی سے سانس کے ذریعے انسان کے پھیپڑوں اور جلد میں جذب ہو جاتے ہیں۔ایسے ذرات آجکل بنائے جانے والے کا سمیٹکس کی اشیاء جیسا کہ سن سکرین اور اینٹی ایجنگ کاسمیٹکس میں استعمال ہوتے ہیں۔ان ذرات سے سب زیادہ خطرہ عام انسان کی بہ نسبت ایسی کاسمیٹکس کی اشیاء تیار کرنے والے افراد کو ہوتا ہے۔یہ ذرات پھیپڑوں میں گھس کر کینسر ‘استیھمااور دیگر کئی بیماریوں کا باعث بن سکتے ہیں۔ناک کے راستے سے ہمارے دماغ میں داخل ہوکر یہ ذرات بہت سی اعصابی بیماریوں کاسبب بن سکتے ہیں۔اور خون کی گردش میں شامل ہوکر دل کی بہت سی بیماریاں پیدا کرنے کا موجب بنتے ہیں۔غرض یہ کہ نینو ٹیکنالوجی کی مدد سے بننے والے ایک میٹر کے ایک اربویں حصے جتنے ذرات جہاں میڈیکل سمیت دیگر شعبوں میں ترقی کا باعث بن رہے ہیں وہیں ان میں سے بہت سے انسان کے اندر جان لیوا بیماریوں کا موجب بھی ہیں۔

نینوٹیکنالوجی ایک ابھرتی ہوئی صنعت ہے جس کی 2015 میں متوقع سالانہ مارکیٹ تقریبا ایک کھرب امریکی ڈالررہی۔سائنس اور ٹیکنالوجی نے جہاں انسانی زندگی کو سہل بنایا ہے وہیں ماحول اور انسانی صحت پر اس کے مضر اثرات بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اس ابھرتی ہوئی صنعت کو ایسے مواد اور عناصر پر کام کرنے سے روکنا ہوگا جو انسانی زندگی اور ماحول کے لئے غیر محفوظ ہیں ۔ ٹیکنالوجی چاہے کسی قسم کی ہواسکا مقصد انسانی زندگی کو سہل بنانا ہے۔جب ٹیکنالوجی انسان کے لئے رحمت کے ساتھ ساتھ زحمت بھی بنتی جائے تو پھر ایسی ٹیکنالوجی ا ور اس سے ملنے والی ترقی انسان کے لئے کس کام کی ؟
Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1013608 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.