مستقبل کی چند انقلابی ایجادات٬ تصور بھی مشکل

سائنس کے میدان میں ہر روز ہی کوئی نہ کوئی پیشرفت ہوتی ہے اور سائنسدان تیزی سے ایسی ایجادات کررہے ہیں جن کا تصور دس یا بیس سال پہلے بھی کسی نے نہیں کیا ہوگا مگر کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ مستقبل میں ہمارے سامنے کیا کچھ ہوگا؟ ٹیکنالوجی کی دنیا میں جس تیزی سے ترقی ہورہی ہے وہ آپ کے خیال سے بھی زیادہ تیز ہے مگر مستقبل کا جو نقشہ یا جھلکیاں سامنے آرہی ہیں وہ تو کسی طلسم ہوشربا سے کم نہیں۔ تو ڈان کی رپورٹ کے توسط سے مستقبل کی ایسی ہی چند ٹیکنالوجیز کے بارے میں جانیں جو ہوسکتا ہے کہ دنیا کو ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دیں اور یہ وہ شعبے ہیں جن میں ابھی بھی کافی کام ہورہا ہے۔
 

عمر کو واپس پلٹنا
ممکنہ طور پر 2025 میں ہم حقیقی معنوں میں حیاتیاتی طور پر عمر کو واپس ریورس یا ایج ریورسل ہوتے دیکھ سکیں گے۔ یہ ہوسکتا ہے کہ بہت زیادہ مہنگا، پیچیدہ اور خطرناک عمل ہو مگر جو لوگ گھڑی کی سوئیوں کو پلٹ دینا چاہتے ہیں ان کے لیے یہ بہت اہمیت رکھتا ہے، سننے میں چاہے سائنس فکشن فلم کا حصہ لگتا ہو مگر سائنسی دنیا میں اس پر کام جاری ہے۔ حال ہی میں ایک جریدے نیچر سائنٹیفک رپورٹ میں شائع ایک تحقیق کے مطابق انسانی خلیات کی عمر کو واپس پلٹنے پر کام جاری ہے۔ آسٹریلین اور امریکی محققین کی ایک اور تحقیق میں تو محققین نے چوہے کے مسلز میں عمر کے اضافے کے اثرات کو کامیابی سے ریورس کرنے کا دعویٰ بھی کیا ہے اور ان کے بقول بوڑھے چوہے میں نیوکلیئر نیڈپلس کو بڑھانے سے عمر بڑھنے سے مرتب ہونے والے اثرات کو ریورس کیا جاسکتا ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ اس تجربے کے بعد معلوم ہوا کہ دو سال کی عمر کا چوہا چھ ماہ کی عمر میں پہنچ گیا یا یوں سمجھ لیں کہ ایک ساٹھ سالہ شخص اچانک بیس سال کا ہوجائے۔ اگر یہ ٹیکنالوجی اگلے دس برسوں میں سب کے سامنے آگئی تو یہ ہماری دنیا کو ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دے گی۔

image


مصنوعی عام ذہانت
ایسے روبوٹ اب عام بننے لگے ہیں جو لوگوں کی ملازمتوں کے لیے بہت بڑا خطرہ ہیں اور 2015 میں ہی ایسے صنعتی روبوٹس کی تعداد دو لاکھ سے تجاوز کرجانے کی پیشگوئی کی گئی ہے مگر یہ تو صرف آغاز ہے۔ اگلے سال سے گھروں، دفاتر اور ہوٹلوں میں ایسے روبوٹ نظر آنے لگیں گے جو عام ملازمین، دفتری معاون اور سپروائزر وغیرہ کے بھی کام کرنے کے اہل ہوں گے۔ معروف کمپنی آمیزون نے ایک نیا مصنوعی ذہانت پر مبنی اسسٹنٹ ایکو متعارف کرایا ہے جو انسانی معاون کی ضرورت کو ختم کردے گا۔ امکان ہے کہ 2020 تک دنیا بھر میں کارخانوں، ہسپتالوں، ریسٹورنٹس اور ہوٹلوں میں مصنوعی ذہانت سے لیس روبوٹس پیزا بنا رہے ہوں گے، کھانا مہمانوں کو پیش کررہے ہوں گے، نئے مضامین تحریر کریں گے، چہروں کو اسکین کر کے امراض کی تشخیص اور گاڑیوں کو ڈرائیو کررہے ہوں گے۔

image


عمودی گلابی فارم
اقوام متحدہ نے پیشگوئی کی ہے کہ 2050 تک دنیا کی اسی فیصد آبادی شہروں میں مقیم ہوگی جبکہ موسمیاتی تبدیلیاں خوراک کی روایتی پیداوار کو مستقبل قریب میں مشکل تر بنا دیں گے اور یہاں سے شروع ہوتا ہے ٹیکنالوجی پر مبنی زرعی دور جس کی ایک مثال عمودی گلابی فارمز ہیں جو اس شعبے کو بدل کر رکھ دیں گے۔ دنیا بھر میں متعدد کمپنیوں اس طرح کے عمودی فارمز میں خوراک کو کاشت کررہی ہیں اور اس کے نتائج زبردست رہے ہیں، ان فارمز میں نیلی اور سرخ ایل ای ڈی روشنی کو کیڑے مار ادویات سے پاک نامیاتی خوراک کی پیداوار کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ چار دیواری کے اندر کام کرنے والے ان فارمز مین فصلوں کے لیے پانی، توانائی کی ضرورت کم ہوتی ہے اور لوگ کسی بھی موسم میں کوئی بھی فصل اگا سکتے ہیں۔ ایل ای ڈی لائٹس دن بدن سستی ہورہی ہیں اور توقع ہے کہ مستقبل قریب میں دنیا کے اکثر بڑے شہروں میں بلند و بالان ورٹیکل پنک فارمز قائم ہوں گے جبکہ ہمارے گھروں میں بھی اس طرح کے چھوٹے چھوٹے فارمز کے قیام کا امکان ہے۔

image


فوق انسانی
2035 تک اگر انسانوں کی اکثر کی شناخت ٹرانس ہیومین کی حیثیت سے نہ بھی ہوئی تو بھی تیکنیکی طور پر وہ فوق البشر ہوں گے، اگر ہم حیاتیاتی اپ گریڈ یا انسانی اضافے کو ٹرانس ہیومین ازم قرار دیں تو اس حوالے سے پہلے ہی بہت کچھ ہوچکا ہے اور ایسا بہت تیزی سے ہورہا ہے۔ اقوام متحدہ کی ٹیلی کام ایجنسی کی ایک رپورٹ کے مطابق چھ ارب افراد موبائل فونز استعمال کرتے ہیں اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ٹیکنالوجی ہمارے جسم کے آس پاس کس طرح رہتی ہے۔ انسانی حیاتیاتی اضافے (bio-enhancement) مزید سستا ہونے سے اربوں افراد ٹرانس ہیومین میں بدل جائیں گے، ڈیجیٹل امپلانٹس، مائنڈ کنٹرول اپ گریڈ، ایج ریورسل ادویات، ہائپر انٹیلی جنس دماغ اور بایونک مسلز وغیرہ یہ وہ چند ٹیکنالوجیز ہیں جو ارتقاء پا رہی ہیں۔

image


ویئر ایبل اور امپلانٹ ایبل
اسمارٹ فونز لگتا ہے جلد ڈیجٹیل تاریخ کا حصہ بن جائیں کیونکہ ہائی ریزولوشن کانٹیکٹ لینس اور پہننے کے قابل کمپیوٹرز یا اسمارٹ ملبوسات وغیرہ ان کی جگہ لے لیں گے۔ ڈیجیٹیل دنیا کا مشاہدہ ہم براہ راست اپنی آنکھ سے کرسکیں گے، بیلجیئم کی جھینٹ یونیورسٹی نے حال ہی میں ایک کروی شکل کی ایل سی ڈی تیار کی جس میں کانٹیکٹ لینسز میں نظر آنے والے مناظر کو دیکھا جاسکتا ہے۔ اسمارٹ لینس، اسمارٹ گلاسز، ورچوئل رئیلٹی ہیڈ سیٹس اور ہاں اسمارٹ واچ جیسے ایپل واچ وغیرہ کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ ویئرایبل ٹیکنالوجیز بہت تیزی سے وسعت پارہی ہیں۔ گوگل گلاس یا دیگر اسمارٹ گلاسز تو بس آغاز ہے درحقیقت اس وقت مارکیٹ میں اسمارٹ ویژن یا بنیائی کی مانگ ہے اور ٹیکنالوجی کمپنیوں کو میدان میں رہنا ہے تو انہیں ہاتھوں میں پکڑے جانے والی ڈیوائسز سے جان چھڑانا ہوگی۔

image


ہوا سے جذب کر کے پانی حاصل کرنا
کیلیفورنیا اور جنوب مغربی امریکا کے مختلف علاقوں کو اس وقت ایک غیر متوقع قحط کا سامنا ہے اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو عالمی زرعی نظام غیرمستحکم ہوسکتا ہے۔ مگر اس پر قابو پانے کے لیے ایک ٹیکنالوجی ابھر رہی ہے جسے Atmospheric Water Harvesting کا نام دیا گیا ہے جو کیلیفورنیا اور دنیا کے دیگر قحط سالی سے متاثر خطوں کو بچانے کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی پر مبنی زراعت کے منظرنامے کو ہمیشہ کے لیے بدل سکتی ہے۔ دنیا بھر میں مختلف کمپنیاں زرعی پیداوار میں کمی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے اس ٹیکنالوجی کو استعمال کررہی ہیں اور ہر ایک کا طریقہ کار مختلف ہے مگر یہ خشک سالی سے متاثرہ علاقوں کو پانی کی قلت سے نجات دلانے میں مددگار ثابت ہونے والی ٹیکنالوجی ہے۔ Atmospheric Water Harvesting کی سب سے عام اور قابل رسائی قسم وہ ہے جس میں پانی اور نمی کو فضاءسے مائیکرو نیٹنگ استعمال کرتے ہوئے حاصل کیا جاسکتا ہے، یہ مائیکرو نیٹس یا جال جو پانی جمع کرتے ہیں وہ ایک چیمبر میں جمع ہوجاتا ہے، اس تازہ پانی کو ذخیرہ کیا جاسکتا ہے یا گھروں اور فارمز وغیرہ کو ضرورت کے مطابق سپلائی کیا جاسکتا ہے۔ ایک کمپنی فوگ کوئیسٹ ان مائیکرو نیٹس کو کامیابی سے استعمال کرتے ہوئے ایتھوپیا، گوئٹے مالا، نیپال چلی اور مراکش وغیرہ میں فضاء سے پانی جمع کررہی ہے۔

image


تھری ڈی پرنٹنگ
آج ہم تھری ڈی پرنٹرز کی مدد سے لباس، سرکٹ بورڈز، فرنیچر، گھر اور چاکلیٹ وغیرہ پہلے ہی پرنٹ کررہے ہیں تو مستقبل میں اس کا کیا کردار ہوگا؟ تھری ڈی پرنٹڈ گاڑیاں جی ہاں واقعی ڈائیورجنٹ مائیکروفیکٹریز نامی کمپنی نے حال ہی میں ایسا تھری ڈی پرنٹر تیار کیا جس کی مدد سے ایک زبردست گاڑی بلیڈ کو پرنٹ کیا گیا۔ اس کے چیسس کا وزن پچاس کلو بھی نہیں اور یہ صرف 2.2 سیکنڈ کے اندر صفر سے ساٹھ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑ سکتی ہے۔

image
YOU MAY ALSO LIKE:

How will we live in the future? How will emerging technologies change our lives, our economy and our businesses? We should begin to think about the future now. It will be here faster than you think. Let’s explore seven current emerging technologies that I am thinking about that are set to change the world forever.