فیس بک کے دیوارِ گریہ پر وزیراعظم کا بوسہ امتیاز

مودی جی نے گوگل کے دفتر میں جاکر سب سے پہلے تاج محل کو دیکھا لیکن پھر انہیں خیال آیا ہوگا کہ یہ تو مسلم بادشاہ کی تعمیر کردہ یادگار ہے اس لئے وہ بولے مجھے بنارس کے گھاٹ دکھلاؤ۔

نریندر مودی اور مارک زوکر برگ

ٹیکنولوجی کا زمانہ ہے۔ بچہ بچہ انٹر نیٹ کا دیوانہ ہے۔ وزیراعظم بھی اس شمع کے پروانے ہیں ( اس لئے کہ وہ بھی بچوں کی مانند ناپختہ کار ہیں)۔ لیکن نسل کا فرق توبہرحال ہوتا ہی ہے۔ اگر آپ کسی ۸۰ سال کے بزرگ کو ایپل کا ایس ۶ فون بھی تھما دیں تو وہ اس سے بات چیت کرنے کے علاوہ کوئی اور کام نہیں لے سکے گا۔ اس کےبرعکس نوعمر طالب علم نوکیا کےنیم جدید فون سے نہ صرف فیس بک پر چلا جائیگا بلکہ یوٹیوب ، ٹویٹر اور واٹس اپ وغیرہ ڈاؤن لوڈ کرنے کے بعد اپنی پسند کے ویڈیو گیمس بھی کھیلنے لگے گا۔ ایسا ہی کچھ مودی جی کے ساتھ ہورہا ہے جسے ایک مثال کی مدد سے سمجھا جاسکتا ہے۔

فرض کیجئے کہ ایک امیر کبیر داماد کا خسر جیٹھالال پٹیل اپنے نواسے نانو پٹیل سے کہتا ہے بیٹے میں تاج محل دیکھنا چاہتا ہوں ۔ تیز طرارنا نو جواب دیتا ہے ناناجی اس میں کون سی مشکل ہے ۔ آپ احمدآباد سے دہلی کی فلائیٹ لیجئے اور وہاں سے کار میں بیٹھ کر آگرہ نکل جائیے۔ میں گھر بیٹھے آپ کیلئے انٹر نیٹ پرہوائی جہاز کاٹکٹ مختص کروادیتا ہوں۔ آپ کو اگر کھڑکی کے پاس بیٹھنا ہے تو وہ نشست یا اگر آپ راہداری کے قریب بیٹھنا چاہتے ہیں تووہ سیٹ بھی آن لائن بک ہو جائیگی ۔ بورڈنگ کارڈ میں چھاپ دوں گا آپ کو لائن میں لگنے زحمت بھی نہیں کرنی پڑے گی۔ آپ کی پسند کا کھانا یہاں بیٹھے بیٹھے آرڈر کردیا جائیگا۔آپ ہوائی جہاز میں بیف کٹلیٹ بھی کھا سکتے ہیں اس لئے کہ زمین کی پابندیاں آسمان کی بلندیوں پر نافذ نہیں ہوتیں۔ ائیر پورٹ پر ٹیکسی سروس کی ادائیگی کردوں گا تاکہ ایک ڈرائیور نام کی تختی لے کرآپ کا انتظار کرے۔ وہ آپ کو آگرہ کی پانچ ستارہ ہوٹل میں پہنچا دے گا ۔ کمرہ میں بک کردوں گا اور پھر آپ کو تاج محل کی سیر کروانے کے بعد وہی ڈرائیور دہلی ہوائی اڈے لے آئیگا۔ آپ جیسے جائیں گے ویسے ہی ہشاش بشاش لوٹ آئیں گے۔

جیٹھا بھائی توقع کررہا تھا کہ نواسہ ساتھ چلے گا لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ وہ کنی کاٹ رہا تو بولےبیٹا یہ تو خاصہ پیچیدہ کام ہے ۔یہ سب مجھ سے نہیں ہوگا ہم لوگ تو ایک جھولے میں کپڑے بھر کر ٹرین میں سوار ہوجاتے تھے اور راستے میں ڈھوکلا پھاپڑا کھاتے ہوئے آگرہ پہنچ جاتے تھے ۔ اس کے بعد کسی سرائے میں رات گزاری دن میں رکشا پر بیٹھ کر تاج محل دیکھا اور پھرواپس ریلوے اسٹیشن آگئے۔ نواسے کو یہ جواب سن کر بہت مایوسی ہوئی وہ بولا لیکن نانا اب زمانہ بدل گیا ہے۔ اس وقت آپ میری طرح کڑیل جوان تھے اب نہیں ہیں۔ ٹرین میں ایسی بھیڑ بھی نہیں ہوتی رہی ہوگی جیسے کہ اب ہوتی ہے۔ اس لئے آپ اس مہم جوئی سے گریز فرمائیں اور اپنے آپ کوخطرات میں نہ ڈالیں۔ اس میں آپ کی عافیت اور ہماری بھلائی ہے۔

نانا نے کہا اگر واقعی زمانہ بدل گیا ہے تو کیا کوئی ایسی صورت نہیں بن سکتی ہے کہ میں آگرہ جائے بغیر یہیں بیٹھے بیٹھے تاج محل دیکھ لوں ؟نا نو بولا کیوں نہیں یہ بھی ممکن ہے ۔ ہمارے گوگل بابا کو آپ کیا سمجھتے ہیں وہ اس کمرے میں بیٹھے بیٹھے آپ کو تاج محل کے درشن کروادیں گے۔ جیٹھا بھائی نے پوچھا وہ کیسے؟ نانوچہک کر بولامیں گوگل ارتھ پر تاج محل ٹائپ کروں گااور سیٹیلائیٹ کیمرہ آگرہ پہنچ جائیگا ۔ اس طرح آپ یہیں اس کمپیوٹر کے پردے پر تاج محل کا نظارہ کرلیں گے ۔ وہاں جو کچھ ہورہا ہے وہ سب آپ کو دکھائی دینے لگے گا۔ جیٹھا بھائی نے سوچا یہ تو زبردست بات ہے پھر انہیں خیال آیا کہ ان کے مٹھائی کی دوکان کے پڑوس میں جو لڑکا چائے بیچا کرتا تھا وہ آج کل وزیراعظم بنا ہوا ہے اور سنا ہے وہ بھی خاصہ کمپیوٹر سیوی ہے۔ جیٹھا بھائی نے اپنے نواسے نانو کو حکم دیا کہ وہ مودی جی کے خاص فون کا نمبر ملائے۔

جیٹھا بھائی پٹیل کی گرجدار آواز مودی جی فوراً پہچان گئے اور بولے جیٹھا سیٹھ کیم چھو؟ جیٹھا بولا یہ تمہاری آواز کو کیا ہو گیا؟ مودی جی بولےیاربڑے اچھے وقت پر تم نے فون کیا ۔ وہ اپنے ہاردک کو سمجھاؤ اس کی وجہ سےپٹیل سنتے ہی میرے دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں دورے نہ پڑنے لگیں ۔ جیٹھا بھائی بولے ارے نرو تیرے پاس دل ہی کہاں ہے جو دھڑکے یا اس پر دورہ پڑیں تیری تو بس ۵۶ انچ کی چھاتی ہے جس میں ہوا بھری رہتی ہے۔ مودی جی نے جواب دیا وہ بھی ٹھیک ہے کہیے کیسے یاد کیا؟ کہیں تجھے میرے کی ہاتھ مسالے والی چائے تو نہیں یاد آگئی ۔ جیٹھا لال نے کہا نہیں بھائی اب وہ چائے ہمارے نصیب میں کہاں جسے اوبامہ نوش فرماتےہیں ۔ مودی جی بولے وہ بھی درست ہے مگر میں تیرےلئے وہ زحمت کرسکتا ہوں بشرطیکہ کہ تو ۰۰۰۰ میں سمجھ گیا جیٹھا لال نے کہا میں ہاردک کو سمجھا دوں گا ۔مودی جی بولے اچھا تو بول کیسے یاد کیا؟

جیٹھا لال نے کہا میرا ایک نواسہ ہے بالکل تمہاری طرح ،جو من میں آئے کہہ دیتا ہے۔ آج کہہ رہاتھا کہ میں گوگل پر تاج محل دیکھ سکتا ہوں؟ کیا یہ سچ ہے یا بس یوں ہی انتخابی جملہ ہے؟ مودی جی بولے جیٹھا لال پٹیل تمہارا نواسہ بہت ذہین ہےاور سچ بولتا ہے اسے میرے پاس بھیج دے ۔ جیٹھا لال نے کہا اگر ایسا ہے تو میں اسے نہیں بھیج سکتا ۔ مودی جی نے چونک کر پوچھا کیوں؟ میں اسے چائے کی دوکان پر نہیں بلارہا ہوں ۔ تجھے تو پتہ ہی ہے میں وزیراعظم بن گیا ہوں۔ جیٹھا نے جواب دیا نہیں وہ دوسری بات جو تم نے کہی نا کہ سچ بولتا ہے، میں چاہتا ہوں کہ آگے بھی سچ بولنے کا سلسلہ جاری رہے اس لئے روک رہا ہوں۔ مودی بولے خیر کوئی بات نہیں لیکن یہ سچ ہے کہتم گوگل ارتھ کی مدد سے آگرہ جائے بغیر تاج محلدیکھ سکتے ہو۔ گوگل کا سربراہ سندر پچائی میرا بہت بڑا مداح ہے۔ میں تمہیں سیدھےگوگل کے نیویارک دفتر میں بھیج دوں گا بلکہ اگر ایک مہینہ رک سکو دہلی سے براہِ راست سان فرانسسکو فلائیٹ بھی روانہ کرسکتا ہوں۔ میں نےپہلی بار یہ خدمت شروع کروائی ہے ۔ میں اس کا تمہیں پہلا مسافر بنا دوں گا جو مفت میں سفر کرے گا۔ ہمارا سفیر ہوائی اڈے سے تمہیں گوگل کے دفتر میں لے جائیگا اور تم وہاں پر تاج محل کو دیکھ سکو گے۔

اس مثال سے سمجھا جاسکتا ہے کہ آج کل حکومتی سطح پر ٹکنالوجی کا استعمال کس طرح ہو رہا ہے ۔ جو کام گھر میں بیٹھ کر کرنا چاہئے اس کیلئے دنیا بھر کی سیر کی جارہی ہے۔ یہی بات عاپ کے اروند کیجریوال نے مودی جی کے دورے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہس دی لیکن ان سے پہلے بی جے پی کے یشونت سنگھ بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ اگر ہم ’’میک ان انڈیا‘‘ کے بجائے ’’میک انڈیا ‘‘ پر توجہ دیں تو ہمیں کسی کے دروازے پر جاکر ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں پیش آئیگی بلکہ لوگ از خود لائن لگا کر ہمارے ملک میں سرمایہ کاری کرنے کیلئے آئیں گے لیکن اگر ہم نے تعلیم ، صحت، مواصلات اور دیگر اصلاحات کی جانب توجہ نہیں کی تو لاکھ دوروں اور ملاقاتوں کے باوجود ایک اضافی پھوٹی کوڑی نہیں آئیگی ۔ وزیراعظم کے محنت و مشقت کے بغیر جوسرمایہکاریہونیہے ہو تی رہےگی۔

مودی جی نے گوگل کے دفتر میں جاکر سب سے پہلے تاج محل کو دیکھا لیکن پھر انہیں خیال آیا ہوگا کہ یہ تو مسلم بادشاہ کی تعمیر کردہ یادگار ہے اس لئے وہ بولے مجھے بنارس کے گھاٹ دکھلاؤ۔ یہ سوال مودی جی کی ذہانت کا غماز ہے۔ مودی جی کے وارانسی دورے سے قبل ان کے حلقۂ انتخاب کی آرائش و زیبائش کا کام شروع ہوجاتا ہے اس لئے انہیں نہ پانی میں تیرتی لاوارث لاشیں نظر آتی ہیں اور نہ کچرے کے ڈھیر ۔ گوگل میپ پر اچانک مودی جی نے بنارس دیکھنے کی فرمائش کرکے سوچھّ بھارت ابھیان کی قلعی کھول دی لیکن بھول گئے کہ اس وقت جو کچھ انہوں نے دیکھا اس کا نظارہ دنیا بھر کے بہت سارے لوگوں نے کیا اور سب کو پتہ چل گیا کہ کیوٹو کے طرز پر تعمیر ہونے والے خواب کی تعبیر کیا ہے؟

بنارس کے بعد مودی جی نے کہا میں پٹنہ کے قریب میں واقع کھگول نامی گاؤں دیکھنا چاہتا ہوں ۔ یہ نام گوگل والوں نے پہلی بار سنا تھا اس لئے وہ پریشان ہوگئے۔ گوگل میں زیر ملازمت بانکے بہاری نے کہا جناب پٹنہ دیکھ لیجئے آپ وہ کھگول کیوں دیکھنا چاہتے ہیں؟ مودی جی بولے پٹنہ میں لالو کا ڈنکا بجتا ہے میں اسے سننا یا دیکھنا نہیں چاہتا ۔ تم مجھے کھگول لے چلو۔ بانکے بہار ی نے اس گاوں کا نام بھی نہیں سنا تھا اس لئے پوچھا لیکن کھگول میں ایسا کیا ہے اور جو آپ اسے دیکھنا چاہتے ہیں ؟ مودی جی بولے تم بہار کی تاریخ نہیں جانتے ۔ کسی زمانے میں وہیں آریہ بھٹ کی تجربہ گاہ تھی اور وہ اس لیباریٹری میں بیٹھ کر ستاروں کی چال دیکھا کرتے تھے ۔ بانکے بولا لیکن جناب یہ تو گزرے زمانے کی بات ہے۔ اب تو وہاں نہ آریہ بھٹ ہے اور نہ اس کی تجربہ گاہ ہے ۔ فی الحال تو وہاں نتیش کمار ہی نتیش کمار ہے۔

مودی جی بولے یہ تم مجھے بتا رہے ہو۔ نتیش کو ہم اچھی طرح جانتے ہیں وہ نمک حرام ہماری مدد سے ہی تو وزیراعلیٰ بناتھا لیکن اب زمانہ بدل گیا ہے۔ اب ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے ۔ ہم اپنے بل بوتے پر دوبارہ بہار میں آریہ بھٹ کی حکومت قائم کرنے جارہے ہیں ۔ گوگل کے سربراہ سندر پچائی نے حیرت سے سوال کیا۔کیا آپ آریہ بھٹ کو چتا کے اندر سے نکال کر لائیں گے؟ مودی جی بولے تم امریکہ میں آکر اپنے عقائد و نظریات بھول گئے ۔ تم نہیں جانتے ہم لوگ پونر جنم میں وشواس کرتے ہیں ۔ مجھے یقین ہے کہ آریہ بھٹ پھر سےپیداہوچکا ہے اب صرف اسے تلاش کرکے اس کو بہار کی گدیّ پر بٹھانے کا کام رہ گیا ہے سو میں کردوں گا۔

فیس بک کا مارک زوکربرگ جو بڑی دیر سے خاموش بیٹھا تھا درمیان میں بول پڑا۔ جی ہاں اگر ایسا ہے تو آپ اس کے ساتھ ایک سیلفی نکال کر فیس بک پر ڈال دیجئے۔ اس کا بھی کام ہوجائیگا، آپ کا اور میرا بھی۔ سندر پچائی بولا لیکن اس کے ساتھ سیلفی لینے کیلئے اس کو ڈھونڈنا بھی تو ضروری ہےوہ کام کیسے ہوگاَ؟ مودی جی بولے آسمان میں اڑنے والے زمینی حقائق سے واقف نہیں ہوتے۔ بہار کے ریاستی انتخابات کا اعلان ہو چکا ہے ۔ میں ہر ہفتہ دو مرتبہ بہار جاوکر وہاں کے گلی کوچوں میں یہ اعلان کرتا پھروں گا کہ دیکھو میں امریکہ میں جاکر بھی بہاریوں کو نہیں بھولا۔میں نے وہاں بھی آریہ بھٹ کی تجربہ گاہ کوگوگل کے نقشے پر دیکھا اور انتخاب کے بعد میں وہاں عبدالکلام کے نام پر ایک تجربہ گاہ قائم کروں گا ۔ مجھے یقین ہے کہ اس اعلان کو سن کر کئی آریہ بھٹ ٹکٹ کی لائن میں لگ جائیں گے۔ بانکے بہاری کو یہ بات ناگوار گزری وہ بولا عبدالکلام کے نام پرکیوں؟ آریہ بھٹ کے نام پر کیوں نہیں؟

مودی جی بولے تم نہیں سمجھو گے ۔ آریہ بھٹ کا وارث براہمن سماج فی الحال ہماری مٹھی میں ہے اب ہمیں مسلمانوں کو قریب کرنا ہے ۔ شاہنواز حسین اس کام کو بڑی تندہی سےکررہا ہے۔ اسی نے عبدالکلام کے نام پر تجربہ گاہ قائم کرنے کانادر مشورہ دیا ہے ۔سندراس دوران گوگل سائٹ پرآریہ بھٹ کے بارے میں پڑھ چکا تھا وہ بولا آریہ بھٹ کی ایجاد صفر بھی تو آخر صفر ہی ہے۔ یہ سن کر بانکے بہاری کی بہاریت جاگ اٹھی ۔ قومی حمیت سے سرشار بانکے بہاری نے جواب دیا یہ بات درست ہے کہ مجرد صفر کی کوئی قدروقیمت نہیں ہے۔اس کی دائیں جانب والے ہندسوں پر بھی وہ اثر انداز نہیں ہوتا ۔ لیکن فی الحال اس کے دائیں جانب گوگل ہے اس لئے ہر صفر کا اضافہ ہماری قدرو قیمت میں دس گنا کے اضافہ کا سبب بن سکتا ہے۔ بانکے بہاری کی منطق سے خوش ہو کر سندر بولا بانکے میں تو تمہیں بھی مودی جی کی طرح سمجھتا تھا لیکن تم تو بڑے ذہین آدمی نکلے۔
مودی جی نے کہا یہی تو میں کہہ رہا ہوں ہم اس تجربہ گاہ کو قائم کرکے اس کے بائیں جانب یکے بعد دیگرے صفر کا اضافہ کرتے چلے جائیں گے جس سے بہار کا نام بھی گجرات کی مانند ساری دنیا میں روشن ہو جائیگا۔زوکربرگ بولا لیکن جناب گجرات کا نام کہاں روشن ہے؟ وہاں تو صفر تک ایجاد نہیں ہوا۔میں نے جب سے آپ کے ساتھ مصافحہ کیا ہے لوگ مجھے ہاتھ صاف کرنے والی جراثیم کش دوائیں بھیج رہے ہیں تاکہ میں اپنی آستین پر لگے گجرات کے معصوموں کا خون دھو سکوں ۔ مودی جی مسکرا کر بولے تم ان فسادات کو بھول جاؤ جیسا کہ میں بھول چکا ہوں ہوں اور اگر کوئی پوچھ لے کہ ہاتھ پر کیا لگا ہے تو کہہ دینا یہ خوبصورت مہندی مودی جی لگا کر گئے ہیں ۔ زوکربرگ نے کہا لیکن جناب یہ امریکہ ہے ؟ مودی جی بولے اس سے کیا فرق پڑتا ہے ۔ یہ محبوب کی مہندی ہے جو ہر جگہ رنگ لاتی ہے۔ زوکربرگ نے سوچا ان کو سمجھانا مشکل ہے میں ٹٹو کہہ دوں گا۔

احمدآباد میں نانو پٹیل اپنے نانا کے ساتھ ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھا یہ مناظر دیکھ رہا تھا ۔ جیٹھا بھائی نے پوچھا نانو تم کیا کررہے ہو؟نانو بولا مودی جی تقریر دیکھ رہاہوں؟ جیٹھا لال نے بگڑ کر کہا تقریر تو سننے کی چیز ہوتی ہے۔ نانو بولا جی نہیں نانا ۔ مودی جی کے دل کی بات ضرور سننے کیلئے ہوتی ہے لیکن امریکہ میں جاکر وہ جو کچھ کرتے ہیں وہ تو دیکھنے لائق ہوتا ہے یہ دیکھئے وہ کیا کررہے ہیں ؟ مودی جی کہہ رہے ہیں میں تمہارے درمیان کھڑا ہوں ۔ آپ لوگ مجھے سرٹیفکیٹ دیجئے۔ جیٹھا بولا اس میں حیرت کی کیا بات ہے نانو یہ تو فطری تقاضہ ہے۔ نانو نے کہا کیسی بات کرتے ہیں نانا جی سرٹیفکیٹ کون مانگتا ہے استاد یا طالب علم؟ مودی جی اپنے ملک میں یوم اساتذہ کے موقع پر استاد بن جاتے ہیں اور پردیس میں ہاتھ پسار کر اپےہ جاہل بھکتوں سے سرٹیفکیٹ طلب فرماتے ہیں۔ جیٹھا بولا جیسے چائے اسی کوتو پلائی جاسکتی ہے جو اس کا طالب ہو اسی طرح سرٹیفکیٹ بھی اسی سے مانگا جاسکتا ہے جو اسے مرحمت فرمائے ۔ ہم لوگ اپنی مٹھائی کی دوکان اسی میلے میں لگاتے تھے جہاں وہ بکتی تھی۔ کسی زمانے میں ہم دونوں دسہرہ کے موقع پر رام لیلا بھی ہم اسی محلے میں کھیلتے تھے جہاں دکشنا ملتی تھی ۔ کبھی میں رام بن جایا کرتا تھا اور نریندر راون تو کبھی نریندر رام کا کردار نبھاتا تھا اور میں راون بن جایا کرتا تھا ۔ یہ دنیا ہے دنیا۔ یہاں یہی سب چلتا ہے۔

نانو نے دیکھا مودی جی ٹی وی کے پردے پر مارک زوکربرگ سے معانقہ فرمارہے ہیں ۔ اس نے پوچھا نانا جی یہ آپ کے دوست مودی جی بدیس جاتے ہیں تو ہر ایرے غیرے نتھو خیرے گورے سے لپٹ جاتے ہیں ۔ میں نے انہیں کسی ہندوستانی سے گلے ملتے نہیں دیکھا اس کی کیا وجہ ہے؟ جیٹھا اس سوال پر سنجیدہ ہوگیا اور خلاء میں دیکھنے لگا۔ نانو نے کہا معاف کیجئے ناناجی شاید آپ کو میری بات بری لگی اس لئے معذرت چاہتا ہوں۔ جیٹھا نے کہا نہیں بیٹے ایسی بات نہیںمجھے پتہ ہے اب یہ جادو کی جھپی ّ میرا مقدر نہیں بن سکتی۔ نانو نے پوچھا وہ کیوں؟جیٹھا نے جواب دیا بیٹے بات یہ ہےکہ ہمارے عقائد و نظریات زمان و مکان کے پابند ہیں ۔ ہمارا سلوک اوررویہ وقت اور مقام کے ساتھ بدل جاتا ہے۔ ایک زمانے میں نریندر مجھ کو چائے پلاتا تھا اب اوبامہ کو پلاتا ہے۔ گئو کشی ہمارے ملک میں حرام ہے لیکن وہی گوشت دیگر ممالک کو برآمدکر کے اجنبی لوگوں کو کھلانا نہ صرف حلال بلکہ مستحب ہے۔

نانو بولا لیکن وکی پیڈیا میں تو میں نے یہ سب نہیں پڑھا۔ نانو اور نانا کی گفتگو بتدریج مائل بہ سنجیدگی تھی ۔ جیٹھا نے کہا بیٹے یہ علم وحکمت کی معرفت تمہیں گوگل بابا نہیں کرا سکتے اس کیلئے تمہیں منو بابا کے آشرم میں جانا ہوگا۔ نانو نے پوچھا منو بابا؟ ان کا نام تو میں نے کبھی نہیں سنا جبکہ آئے دن ٹیلی ویژن پرآسا رام باپو کی طرح کے کسی نہ کسی بابا بلکہ بابی کا نام بھی سنائی دیتا ہے۔ جیٹھا نے چونک کر پوچھا پروین بابی تو کب کی مر کھپ گئی یہ نئی بابی کہاں سے آگئی۔ نانو بولا بابی کا مطلب بابا کی دھرم پتنی۔ آج کل تو ان کا چرچا کچھ زیادہ ہی ہے کبھی رادھے ماں تو کبھی سادھوی پراچی جب ٹی وی والوں کو کوئی نہیں ملتا تو وہ ان کے پیچھے پڑ جاتے ہیں خیر آپ منو بھائی کے بارے میں بتا رہے تھے۔ جیٹھا لال نے کہا یہ منو بھائی تمہارے منا بھائی کی مانند فرضی ایم بی بی ایس کی ڈگری والا نہیں ہے بلکہ اس عالم فاضل ودوان نے شہرہ آفاق صحیفہ منو سمرتی تصنیف کیا ۔اس کاگیان پراپت کرنےکیلئے تمہیں افلاطون کے بجائے چانکیہ کے آگے زانوئے تلمذ طے کرنا پڑے گااوریہسنسکار تمہیں سنگھ کی شاکھا میں ملیں گے جہاں سےتربیت حاصل کرکے مرکا دوست وزیراعظم بن گیا۔
(جاری ،ان شا اللہ)

(اس مضمون کے واقعات و مکالمے فرضی ہیں ، حقیقت سے ان کا تعلق اتفاقی ہے)
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1222083 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.