سرمایا داروں کا محنت کشوں کیخلاف دہشتگردانہ رویہ

غربت ہمیشہ سے لوگوں کی دامن گیر رہی ہے۔ جسے سرمایا داروں نے ایک خاص تیکنیک اور استحصالی حربے استعمال کرکے عام لوگوں کو اسکے چنگل میں پھنسا دیا ہے اور سرمایا دار نے ہر میدان میں محنت کشوں کو اپنی بھونڈی چالوں اور گھناؤنے کردار سے محنت کشوں کی وہ محنت جسکو استعمال کرکے وہ اپنے سرمائے کو دوگنا بلکہ کئی گنابڑھاکر اسکی محنت پر ہاتھ صاف کرکے اسے غربت کی دلدل میں دھکیل رہا ہے۔منافع کی پرتشدد، دہشت ناک اور ظالمانہ روش اور لالچ سرمایا دارکے دامن گیر ہو کر اسے محنت کش کے مقابلے میں ایک جابر، بے رحم اور سفاک جبکہ ایک محنت کش اس جابر اور سفاک سرمایا دار کے ہاتھوں نہ صرف غربت کی ذلت سے دوچار ہے بلکہ اپنی ضروریات زندگی جن میں روزمرہ کی اشیائے صرف، صحت اور تعلیم جیسی ناگزیر حقیقتیں جن پر زندگی کا دارو مدار ہے ان سے بھی محروم ہے۔منافع کی اس ظالمانہ روش نے جہاں سرمایا دار کو تقویت بخشی ہے اور اسکے سرمائے کو بکثرت بڑھاوا دیا ہے وہیں محنت کش کے معاوضے میں اتنی کمی کر دی ہے کہ وہ خود کشی کرنے پر مجبور ہے۔جھوٹا اور فرضی سرمایا دارانا نظام جو محنت کشوں کو کچلنے کیلئے معرض وجود میں لایا گیا ہے اس نظام میں سب کچھ سرمایا دار کیلئے تو ہے مگر محنت کش کیلئے دو وقت کی روٹی بھی نہیں ہے۔ سرمایا داروں کے مالی ہتھیار جن میں منافع خوری، بلیک مارکیٹنگ، خود ساختہ مہنگائی، اشیائے خوردو نوش اور دوسری اشیائے ضرورت کی ذخیرہ اندوزی ایسے عوامل ہیں جو غربت کو جنم دینے اور محنت کشوں کو تیزی سے موت کی جانب دھکیلنے میں اپنا ظالمانہ کردار ادا کر رہے ہیں۔سرمایا دارانا نظام میں دولت کے ارتکاز اور ہوس زر نے محنت کش طبقے سے اسکی صحت، تعلیم اور معیار زندگی پر ایسا ڈاکہ ڈالا ہے کہ اسکے جانبر ہونے کے دور دور تک کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے۔ پرائیویٹ اسکولوں کی اجارہ داری، دہرا نظام تعلیم، صحت کے میدان میں پرائیویٹ کلینکس اور وی آئی پی ہسپتالوں کا قیام اور سرکاری ہسپتالوں میں ادویات کا مہیا نہ ہوناپوری قوم کو جہالت کے اندھیروں میں دھکیل کر غریبوں اور محنت کشوں کا اپنی صحت کو قائم رکھنے میں صحت کا استحصالی نظام اور سرمایا دارانہ دہشت گردی جس میں جعلی ، ناقص اور بوگس ادویات کے علاوہ کھانے پینے کی چیزوں میں ملاوٹ تیزی سے اس معاشرے کے غریب اور محنت کشوں کو موت کی دہلیز کی جانب گھسیٹ رہی ہیں اور آنے والی نسل کیلئے بیمار اور لاغر ہونے کی نشاندہی کر رہی ہے۔ غریب اور محنت کش سرمایا دارنہ مظالم کا شکار ہو کر کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے اور یہ گردش ہماری آنکھوں کے سامنے نہ جانے کتنے محنت کشوں کا خون کر چکی ہے اور نہ جانے کتنے محنت کش اور غریب اسکے استحصال کا شکار ہو کر مختلف مسائل جن میں ملاوٹ ایسے محرکات ہیں جس سے محنت کش اور غریب جسمانی طور پر لاغر ہو رہا ہے اور اسکی زندگی کے امکانات معدومیت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
ملاوٹ سے پاک اشیائے خور دو نوش ، پینے کا صاف پانی اور صاف ستھرا ماحول اور بجلی کی بلا تعطل فراہمی سر فہرست ہیں اور آنے والا وقت پاکستان میں غریبوں اور محنت کشوں کیلئے نہ صرف دشوار ہوگا بلکہ یہ وقت انکی موت کیلئے ایک ایسا پیغام ہے جو دیوار پر لکھا ہو ا ہے مگر ہمارے پالن ہار اسے نظر انداز کرکے خود گلچھڑے اڑا رہے ہیں اور غریب اور محنت کش ان بنیادی ضرورتوں کیلئے مارا مارا پھر رہا ہے۔ سرمایا درانا دوڑ ایک ایسا قدرتی عمل ہے جس سے ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کی دوڑ شروع ہوتی ہے اور اس دوڑ میں جہاں سرمایا داور اپنے مد مقابل کو مات دینے میں مختلف حربے استعمال کرتا ہے وہیں یہ دوڑ ایک غریب اور محنت کش کیلئے موت کا باعث بن جاتی ہے۔ مارکس جانتا تھا اور اسکا یقین تھا کہ جیسے جیسے محنت کشوں کی محفوظ فوج یعنی وہ بے روزگار جو ایک ایک پائی کو ترس رہے ہونگے جب انکی زندگی کے لالے پڑ رہے ہونگے تو وہ اپنی محنت کو انتہائی کم داموں پر فروخت کرنے کو تیار ہو جائینگے کیونکہ بے روزگاری میں کچھ ہونا نہ ہونے سے بہتر ہوتا ہے چلو کچھ تو مل رہا ہے۔ سرمایا دارانہ نظام میں لوگوں کو بے روزگار کرکے ان سے اپنی مرضی کی اجرت دیکر انکا استحصال کیا جا سکتا ہے اور اسطرح سرمایا دار جہاں اپنے سرمائے کو محنت کشوں کا استحصال کرکے بڑھاوا دیتا ہے وہیں وہ اپنی پیداوار میں بے ایمانی کرکے اسکی کوالٹی کو منافع کمانے کیلئے کم سے کم کردیتا ہے۔ ظاہر ہے مارکیٹ میں جب بے روزگاری عام ہوگی تو ایک مزدور کا استحصال کرنا آسان ہو جائیگا ۔ اسے اپنی مرضی سے اجرت دینا، سالانہ ترقی نہ دینا، اجرتوں میں اضافہ نہ کرنا، مزدوروں کا استحصال کرتے ہوئے انکی ترقیاں روک لینا، لولے لنگڑے لیبر قوانین کو پاؤں تلے کچل کر قوانین کے بے حرمتی کرنا، اوور ٹائم کی ادائیگیاں نہ کرنا، 8گھنٹوں سے زیادہ مزدوری لینا روز مرہ کا معمول بن چکا ہے مگر مزدور کے اس استحصال پر کوئی توجہ دینے کو تیار نہیں ہے کیونکہ ہمارے حکمران اور نام نہاد سیاستدان بڑی بڑی صنعتوں کے مالک ہیں اور وہ حکومتوں میں آتے ہی سرمایہ دارانہ نظام کو بچانے کیلئے ہیں۔آئے روز مزدوروں کا معاشی قتل کرکے انہیں بے روزگار کرنا روز مرہ کا معمول بن چکا ہے، لیبر قوانین اور ان پر عملدرآمد کروانے والی عدالتیں بھی مزدوروں کا استحصال کرنے میں پیش پیش ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مزدور اپنے روزگار سے خوفزدہ ہے اور وہ بے روزگار ہونے کے خوف سے سرمایا دار اور صنعت کار کا ہر ظلم خاموشی سے برداشت کر رہا ہے اور سرمایا دار اور فیکٹری مالک سے کسی قسم کا بھاؤ تاؤ کرنے سے گھبراتا ہے اور خوفزدہ ہے۔ جب محنت کش کا یہ خوف بڑھ کر اپنے درجہ کمال تک پہنچ جائیگا تو اسکا انجام سرمایا دار کیساتھ جنگ کی صورت میں سامنے آئیگا جو انتہائی خطرناک ثابت ہوگا۔

پاکستان میں جہاں ایک سرمایا دار انہ اور صنعتکار انہ حکومت قائم ہے اسنے ملک کے پورے نظام کو اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے اور وہ اور اسکے حواری صنعتکار ملک کے 74فیصد سرمائے پر قابض ہیں جبکہ غریب ترین 60فیصد لوگ جنکے پاس جو کچھ بھی تھا اسمیں کمی واقع ہوئی ہے اور وہ انہدام کیطرف جا رہے ہیں۔ آج مارکسی نظریات انتہائی شدت سے لوٹ کر واپس آ رہے ہیں اور اس بڑھتی ہوئی نا ہمواری اور دولت کی تقسیم نے محنت کشوں اور غریبوں کو جدو جہد کرنے پر مجبور کر دیا ہے جس کے نتیجے میں ساری دنیا کے محنت کشوں کے غصے میں اضافہ ہو رہا ہے جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ اب وہ مذید استحصال برداشت نہیں کرینگے۔ وہ معیشت میں اپنے جائز حصے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور پاکستان میں بڑھتے ہوئے آئے روز کے دھرنے ، مزدور ریلیاں، مزدوروں کے جلسے جلوس اور دارالخلافے کا گھیراؤ اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ اب حکومت کے ایوانوں کی طرف جانے والی سڑکوں پر مزدور اور محنت کش سرمایا دارانہ استحصال کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے سیاسی اور معاشی مقاصد کا تعین کرکے انکے حصول کی جدو جہد جاری رکھتے ہوئے انہیں حاصل کرکے رہینگے۔تمام محنت کشوں کو متحد ہو کر اپنے حقوق کیلئے جدہ جہد کرتے ہوئے سرمایا دارانہ نظام کو شکست دینا ہوگی ۔ ہمیں موجودہ سرمایا داران نظام میں اصلاحات کی تمنا نہیں ہے بلکہ ہمیں تو اس دہشت گردانہ نظام کے تختہ الٹنے کیلئے اور اس نظام کی تباہی کا مطالبہ کرتے ہوئے اپنے جائز حقوق کی جنگ لڑتے ہوئے اس نظام سے یکسر جان چھڑوانا ہے تاکہ دولت کی منصفانہ تقسیم ہو سکے اور خوشحالی کا دور دورہ ہو سکے۔ محنت کشوں اور غریبوں کے مسائل کا حل سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے نا ممکنات میں سے ہے۔ سرمایادارانہ نظام جس میں تمام دولت چند سرمایا داروں کے ہاتھوں میں ہے اور وہ اپنی دولت کے بل بوتے پر عوام کش اور محنت کش پالیسیاں لاگو کرکے 75فیصد محنت کش کلاس کو اپنے زیر نگیں رکھنا چاہتے ہیں اور اس نظام کو تبدیل ہونے سے روکنے میں سرکاری طاقت کا بھرپور استعمال کرکے اپنے ذاتی اور مذموم مقاصد حاصل کرکے محنت کشوں کو زندہ درگور کرنا چاہتے ہیں اور تاریخ کے پہئے کو پیچھے کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں جو نا ممکن ہے۔ اگر مزدوروں اور عام محنت کش عوام کیلئے درپیش مسائل کیلئے پالیسیوں کا اجراء نہ کیا گیا تو محنت کش عوام کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہو کر اپنے حقوق کیلئے ایک ایسی خونی جنگ کیلئے تیار رہنا چاہئے جس کے بعد وہ اپنی قربانیاں کے صلے میں آنے والی جوان نسل کو انکے حقوق دلانے میں کامیاب ہو سکیں۔محنت کش اور مزدور انقلابی جتھوں کو یکجا ہو کر سرمایا دارانہ جارحانہ پالیسیوں کے خلاف محنت کشوں کی موجودہ بحرانی کیفیت سے باہر نکلنے کیلئے انتہائی سرعت سے لائحہ عمل اختیار کرنے کی ضرورت ہوگی۔ محنت کش طبقے کے پاس واحد راستہ انقلاب کا ہے۔ آج کی اس دنیا میں جہاں مزدور کی آواز سننے والا کوئی نہیں ہے جہاں 85فیصد دولت پر قابض سرمایا دار طبقہ موجود ہو وہاں مزدوروں کو اکٹھا ہونا ہے اور اپنے حقوق کی جنگ لڑنا ہے کہ یہی واحد راستہ ہے۔
Syed Anees Bukhari
About the Author: Syed Anees Bukhari Read More Articles by Syed Anees Bukhari: 136 Articles with 137240 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.