مستقبل کے حیران کُن منصوبے٬ دنیا بدل جائے گی

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بڑے پیمانے پر بنائے گئے منصوبے بنی نوع انسان کی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔نہ صرف تاریخ بلکہ نئے زمانے میں بھی اس کی کئی مثالیں ملتی ہیں۔سعودی عرب کے شاہی خاندان نے ایک کلومیٹر فضا میں بلند دنیا کی بلند ترین عمارت بنوائی تو چین نے بھی دنیا کا سب سے بڑا ڈیم بنانے کا سہرا اپنے سر سجایا اور ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کر دیا کہ یہ ہائیڈرو الیکٹرک ڈیم زمین کے گھومنے کی رفتار پر بھی اثر پذیر ہوگا اور اسے کم کر دے گا۔ اس ڈیم کے بنانے کے مقاصد میں یہ بھی شامل تھا کہ یہ علاقے میں سیلاب کو روکنے میں مددگار ثابت ہوگا اگرچہ اس ڈیم کے بعد چین میں شدید نوعیت کا سیلاب آیا اور اس نے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی۔اگرچہ ایسے بڑے منصوبے ہتھیلی پر سرسوں جمانے کے مترادف ہوتے ہیں لیکن دوسری جانب ایک ہی منصوبے پر حد سے زیادہ سرمایہ کاری لگا دینا بعض اوقات خسارے کا سودا ہی ثابت ہوتا ہے۔ ہم آپ کو دنیا میگزین کے توسط سے مستقبل کے چند ایسے بڑے حیران کن منصوبوں کے بارے میں بتانے جا رہے ہیں جو بے عملی کی واضح مثال ہیں لیکن پھر بھی ان پر کام جاری ہے اور امید کی جا رہی ہے کہ وہ نہ صرف مکمل ہوں گے بلکہ دنیا کا نقشہ ہی بدل دیں گے۔
 

چین کا کئی ممالک سے بھی بڑا شہر
790مربع کلومیٹر کے رقبے اور 20ملین سے زائد رہائشی علاقے کے ساتھ نیویارک کو دنیا کا سب سے بڑا شہر کہا جاتا ہے، جبکہ جینگ جین منصوبے کے مطابق یہ اعدادو شمار کچھ خاص حیثیت نہیں رکھتے،جس کے تحت بیجنگ،تنجنگ ،شینجن ،فوشان،اور ہیبی جیسے نو سے زائد شہروں کے ملاپ سے ایک بڑا شہر بنایا جائے گا، جس میں 130ملین سے زائد افراد رہائش پذیر ہو سکیں گے۔اس شہر کو تعمیر کرنے والوں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ یہ شہر نیویارک اور کینساس کی ریاست سے بھی بڑا ہوگا۔ ایک اندازے کے مطابق اس کا رقبہ16,000مربع کلو میٹر ہوگا۔اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے انفراسٹرکچر کے 150سے زائد منصوبوں کا آغاز کیا جائے گا جو اس وسیع و عریض شہر کو ٹرانسپورٹ، بجلی، پانی اور مواصلات کی سہولیات سے آراستہ کریں گے۔اس شہر کے دیگر علاقوں کو آپس میں جوڑنے کیلئے ہانگ کانگ کے قریب ایکسپریس ریل لائن بھی بچھائی جائے گی۔اس شہر کے حوالے سے چینی ترجمان کا کہنا ہے یہ شہر ایک نئے انقلابی نظریے کا ترجمان ہے کہ کس طرح جدید شہری مراکز میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ یہ شہر جنوبی چین کی معیشت میں فشار گر ثابت ہوگا۔اگرچہ سننے میں اس شہر کی تخلیق ایک افسانہ محسوس ہوتی ہے،پھر بھی اس کی تعمیر کا سفر رواں دواں ہے۔اس میگا پراجیکٹ پر کام کا آغاز 2013ء میں کیا گیا جبکہ 2020ء تک اس کی ریلوے کا ذیلی منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچ جائے گا۔

image


سان فرانسسکو سے لاس اینجلس تک ہائپر لُوپ کا سفر
ایلون مسک کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ 28 جون 1971 کو پیدا ہونے والے ایلون مسک کینڈین امریکن بزنس مین، انجینئر، موجد اور سرمایہ کار ہے۔کئی بڑے بڑے انقلابی منصوبوں کے پیچھے ایلون کا ہی انقلابی ذہن کار فرما ہے۔ ایلون SpaceX اور Tesla Motorمیں سی ای او ہے۔ سولر سٹی کا چیئرمین اور پے پال، زپ 2 کا شریک بانی بھی ایلون مسک ہی ہے۔ ان سب منصوبوں سے بڑھ کر ایلون نے ہائپر لوپ کے نام سے ایک نئے تصوراتی ٹرانسپورٹ سسٹم کا منصوبہ پیش کیا ہے، جس کی کامیابی کے بعد سفر کی دنیا کا نقشہ ہی کچھ اور ہوگا۔ ہائپر لُوپ ایسا نظام ہے جس میں ویکیوم ٹیوبز کی مدد سے مسافر 750فی کلومیٹر کی رفتار سے سفر کر سکیں گے۔ یعنی لاس اینجلس سے سان فرانسسکو کے مابین پانچ گھنٹوں پر محیط سفر کو مکمل کرنے کیلئے محض آدھا گھنٹہ درکار ہوگا۔ اگرچہ شروع میں جب مسک نے اس ٹرانسپورٹ کا منصوبہ پیش کیا تو اسے رد کر دیا گیا لیکن چند ماہ قبل کیلفورنیا کی ایک ٹرانسپورٹ کمپنی نے ہائپر لُوپ کیلئے ٹیسٹ ٹریک تعمیر کرنے کیلئے پیش قدمی کا آغاز کر دیا ہے۔اگرچہ یہ منصوبہ ناممکن سا لگتا ہے لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مستقبل قریب میں ہم اس منصوبے کے پایہ تکمیل تک پہنچنے کے بعد آواز کی رفتار سے زمین پر سفر کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔ ہائپر لُوپ پر تجرباتی سفر کا آغاز 2016ء میں کیا جائے گا۔ اگر یہ تجربہ کامیاب رہا تو 2025ء تک لوگوں کے زیر استعمال ہوگا

image


بحرالکاہل اور بحر اوقیانوس کے مابین نہر کھودنے کا منصوبہ
نکاراگوا وسطی امریکہ میں واقع ہے جس نے ایک چینی کمپنی کے ساتھ مل کر 40 بلین ڈالر کے انوکھے پراجیکٹ کا آغاز کیا ہے۔ جس کے تحت بحر الکاہل اور بحر اوقیانوس کو ملانے کیلئے پانی کے اندر ہی ایک نہر کھودی جائے گی۔نکاراگوا کی اسمبلی کی جانب سے ایک چینی کمپنی کو اس منصوبے پر پچاس برس تک کام کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اگرچہ چین میں اس منصوبے کی حوصلہ افزائی کی گئی لیکن انجینئرنگ کے ماہرین،تجزیہ کاروں کے مطابق اس منصوبے میں کئی شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔اس نہر پر کام کا آغاز دسمبر 2014ء میں کیا گیا ۔اس منصوبے کے ماحول پر کس قسم کے اثرات مرتب ہوں گے اس حوالے سے سائنس دانوں نے بھی عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ان کے مطابق اس طرح کے زیر زمین منصوبے سے سمندری آبی حیات کے تلف ہو جانے کا خطرہ ہے۔ یاد رہے، براستہ وسطی امریکہ پانی کے اندر راستہ بنائے جانے کا یہ پراجیکٹ نیا نہیں ہے بلکہ ماضی میں بھی اس پر ہزارہا بار کام کیا گیا اور روکا گیا ہے لیکن اب سوال یہ ہے کہ کیا اس بار چینی کمپنی اس راستے کو بنانے میں کامیاب ہوگی یا نہیں؟

image


تونُور سمشی توانائی فارم
صحرائے سہارا میں سورج ایک دن میں کتنی تپش برساتا ہے اس کا بیان الفاظ میں کرنا مشکل ہے۔اس تپش کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے محض .03فیصد حصے کو اگر قابل استعمال بنا لیا جائے تو یورپ کیلئے سال بھر کی بجلی کا سامان ہو سکتا ہے۔ توانائی کی کمپنی ’’تونُور‘‘ نے ایک تجویز پیش کی ہے جس کے تحت برطانیہ میں ڈھائی ملین گھروں کو 450 کلومیٹر دور صحرائے سہارا سے شمسی توانائی کے ذریعے بجلی فراہم کی جا سکتی ہے۔اس منصوبے کے تحت تونُور فارم پر کمپیوٹر سے قابو کئے جانے والے ہزاروں آئینوں کی مدد سے سورج کی روشنی کو منعکس کر کے ایک وسطی ٹاور پر ڈالا جائے گا جو بجلی کو نمک سے بھرے ہوئے پائپوں میں ذخیرہ کرے گا۔یہ گرم نمک پانی کو گرم کر کے بھاپ پیدا کرے گا ، جس سے ٹربائن کے ذریعے بجلی پیدا کی جائے گی۔پھر اس بجلی کی روم میں بچھی زیر زمین تاروں کے ذریعے یورپی نیٹ ورک کے راستے برطانیہ کو ترسیل ممکن بنائی جائے گی۔سننے میں یہ ناممکن لگتا ہے لیکن برطانیہ کی جانب سے اس پر عمل درآمد کا آغاز کر دیا گیا ہے جبکہ نور پاور کمپنی کی جانب سے بھی دیگر ممالک کو اس کی تجویز بھجوائی جا چکی ہے۔اگرچہ واقعی یہ ایک بڑا منصو بہ ہو گا، لیکن اسے ٹیکنالوجی سے ممکن بنانا مشکل نہیں۔

image


نیدر لینڈز کے مصنوعی پہاڑ
نیدرلینڈز ایک خوشحال ملک ہے ،قدرتی نظاروں سے مالامال،اوسط عمر بھی دیگر ممالک سے زیادہ لیکن وہاں نہیں ہیں تو پہاڑ نہیں ہیں۔لیکن وہاں کے صحافی تھجس زونیولڈ اس حقیقت کو ماننے سے انکاری ہیں ،اسی لئے انہوں نے گزشتہ برس ایک مضمون تحریر کیا جس میں انہوں نے اس بات کا اعلان کیا کہ نیدرلینڈز میں پہاڑوں کا ہونا ناممکن نہیں ہے کیونکہ وہ اپنی زندگی میں ہی خود سے پہاڑ تخلیق کر لیں گے۔ اگرچہ شروع میں تو اس نظریے کو چٹکیوں میں اڑایا گیا لیکن پھر جب سنجیدگی سے غور کیا گیا تو بہت سے لوگوں نے زونیولڈ کا ساتھ دینے کا اظہار کیا۔ مختلف انجینئرنگ کمپنیوں سے رابطہ کیا گیا ہے، یہ منصوبہ ہے تو دلچسپ لیکن اس پر عمل درآمد کرنا آسان نہیں، اس پر اگر کام کا آغاز بھی کیا جاتا ہے تو 200بلین یورو کی لاگت سے یہ پایہ تکمیل تک پہنچے گا۔اگرچہ رواں سال کے اختتام تک اس منصوبے پر کام کا آغاز ہو جائے گا،اس حوالے سے زمین کی اجازت مل چکی ہے،دیگر انجینئرنگ کمپنیوں سے بات چیت جاری ہے،سرمایہ کار سرمایہ لگانے کی حامی بھر چکے ہیں،امید کی جا رہی ہے اپنی نوعیت کے یہ پہاڑ جلد ہی تعمیر کر لئے جائیں گے۔

image


مکہ کا دیو ہیکل ہوٹل
مکہ معظمہ میں ہر سال دنیا بھر سے پندرہ ملین سے زائد مسلمان حج کی نیت سے آتے ہیں یوں سعودی حکومت حاجیوں کے آنے سے ہی بڑی تعداد میں زرمبادلہ کما لیتی ہے۔’’ابرج کُودائی‘‘دنیا کا سب سے بڑا ہوٹل، سعودی عرب کے شہر مکہ معظمہ میں تعمیر کیا جائے گا، 44 منزلہ اس ہوٹل میں 10,000 کمرے ہوں گے۔ اس تعمیراتی منصوبے پر 2.25بلین پاؤنڈز کی لاگت سے کام کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ پانچ فلور شاہی خاندان کی رہائش اور استعمال کیلئے ہوں گے۔اس ہوٹل میں 70 سے زائد ریستوران، دیگر ہیلی پیڈز، دس ٹاور چار ستارہ ہوٹلوں کیلئے مختص ہوں گے جبکہ دیگر پانچ ستارہ ہوٹل ہوں گے۔ گراؤنڈ فلور پر ہزاروں دوکانوں پر مشتمل شاپنگ مال ہوگا، اگرچہ سننے میں یہ تمام اعدادو شمار خیالی محسوس ہوتے ہیں لیکن ’’ابرج کُودائی‘‘2017ء تک پایہ تکمیل کو پہنچ جائے گا۔اس کے ساتھ ہی سب سے بڑی مسجد کی تعمیر کی توسیع کیلئے 40 بلین پاؤنڈ کی لاگت کے منصوبے کا بھی آغاز کیا جائے گا جس میں 2040ء تک سات ملین سے زائد لوگ ایک ہی وقت میں نماز ادا کر سکیں گے۔ لیکن ستم ظریفی اس کی تکونی شکل کے باعث حاجی جو اتنی دور دور سے مکہ کی زیارت کو آتے ہیں وہ اتنے فاصلے سے مکہ کو دیکھ نہیں پائیں گے۔

image


چین کے عمودی شہر
ذرا سوچئے، آپ ایک بلندو بالا مضبوط عمارت میں کھڑے ہیں،جیسے ہی آپ کی نظر اس کی بنیاد پر پڑتی ہے تو آپ دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں کہ آپ دو مربع کلومیٹر کے ستون پر تعمیر عمارت میں موجود ہیں،جو زندگی سے بھرپور ہے ،جسے دیکھتے ہی ایک بھرے ہوئے شہر کا گمان ہوتا ہے۔یہ صرف خیالی باتیں ہی نہیں ،بلکہ ایسے ہی سائنسی عجوبہ بنانے کی تیاریاں چینی شہر شینجن میں کی جا رہی ہیں۔جسے ہوائی شہر کا نام دیا گیا ہے۔ دبئی کے بُرج خلیفہ سے تھوڑے ہی چھوٹے تین بلند ترین ٹاور آپس میں مثلث کی شکل میں جڑیں ہوں گے۔جبکہ زمین پر یہ محض 2 مربع کلومیٹر محیط ہوں گے۔لیکن ان کی حقیقی خوبصورتی اندر ہوگی جو شہری فن تعمیر کے انداز کو بدل کر رکھ دے گی۔یہ شہر کے اندر بذات خود ایک شہر ہوگا۔ عمودی عمارتوں کی ترقی سے زمین پر بوجھ کم ہوگا،جبکہ اس پر کی گئی سرمایہ کاری مارکیٹ کے اصولوں کے عین مطابق ہو گی۔ میگا سٹی کے منظر نامے پر 2025 تک 40 فیصد، یعنی 20ملین چینی باشندے ان شہروں میں رہائش پذیر ہو سکیں گے۔ عمودی شہروں کی تعمیر کیلئے چین سال بھر میں 4 ہزار سے زائد ایسی عمارتیں تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اگرچہ اس منصوبے پر مکمل انداز میں کام کا آغاز نہیں کیا گیا ہے البتہ چین کی مقامی حکومتوں کی جانب سے اس میں بھرپور دلچسپی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔حال ہی میں انجینئرنگ کے مقابلوں میں اس منصوبے نے کامیابی حاصل کی ، دیگر انجینئرنگ کمپنیاں اور سرمایہ کار اس میں دلچسپی کا اظہار کر رہے ہیں۔

image


بھارت کے سمارٹ شہر
سننے میں یہ کسی ہالی ووڈ فلم کا سکرپٹ محسوس ہوتا ہے جس میں ایک شہر کے اندر ہر چیز انٹرنیٹ کے ساتھ مربوط ہے ،جہاں ہر شہری اپنا الگ سے ڈیجیٹل لنک رکھتا ہے۔اگرچہ یہ سائنسی افسانوی کہانی وہ دن دور نہیں جب ایک حقیقت کا روپ دھار لے گی،وہ بھی کسی بڑے ترقی یافتہ ملک میں نہیں بلکہ بھارت میں۔ ’’دھولیرا ‘‘نامی یہ تعمیراتی منصوبہ آئندہ آنے والے چند برسوں میں قابل عمل ہو گا۔یہ منصوبہ دہلی سے بمبئی صنعتی راہداری کا حصہ ہے،ٹیکنالوجی کے اس بڑے منصوبے کے تحت سمارٹ گرڈ کے ذریعے ہر گھر کو انٹرنیٹ،گیس،پانی اور بجلی فراہم کی جائے گی۔یہ شہر قابل تجدید توانائی استعمال کرے گا،جبکہ ایک سنٹرل کمانڈ کے ذریعے ٹریفک کے نقل و حمل اور آلودگی کو قابو میں کیا جائے گا۔اس شہر میں ناگورار بو،شور ،دھول مٹی اور لوگوں کے ہجوم کا نام تک نہیں ہوگا،یہ ایک مثالی شہر ہوگا۔ ماہرین کا کہنا ہے ،بھارت میں دن بدن بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر اسے نئے رہائشی منصوبوں پر عمل درآمد کرنا ہوگا۔ بھارت مستقبل میں اس جیسے مزید 23 منصوبوں پر کام کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

image

آذربائیجان کا مصنوعی بحر الجزائر
آذر بائیجان کو سرکاری طور پر جمہوریہ آذر بائیجان کہا جاتا ہے، یوریشیا کا سب سے زیادہ آبادی رکھنے والا ملک ہے۔اسی لئے جہاں بھارت اور چین نئے شہر تعمیر کر رہے ہیں، نیدرلینڈ میں مصنوعی پہاڑ بن رہے ہیں وہاں آذر بائیجان نئے ممالک بنانے کا خواب دیکھ رہا ہے۔کیسپئین سی میں باکو کے ساحل پر پہاڑوں کے پہاڑ ڈالے گئے تاکہ نئے جزائر تعمیر کئے جائیں۔ان جزیروں کو ’’خضر آئی لینڈز ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔یہ نیا جزیرہ ایک ملک جیسا ہو گا،جو مزید 55 جزیروں پر مشتمل ہو گا۔اس جزیرے کا علیحدہ ہوائی اڈہ، کشتی رانی کے کلب،اس کے ہزاروں بلاکس میں 800,000 سے زائد لوگ رہائش اختیار کر سکیں گے۔ سب سے حیران کن بات یہ کہ اس جزیرے پر آذربائیجان کے نام سے دنیا کا بلند ترین ٹاور بھی تعمیر کیا جائے گا۔اس منصوبے کی تکمیل کیلئے 100بلین ڈالرز کی لاگت کا تخمینہ لگایا گیا۔اس منصوبے کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ آذر بائیجان کا ایک کاروباری شخص ابراہیم ابراہیمو 2010ء میں دبئی سے اپنے وطن لوٹ رہا تھا ،سفر کے دوران اسے ایسے کسی جزیرے کی تعمیر کا خیال آیا ،اس کے پاس کاپی نہیں تھی،تو اس نے ٹشو پیپر پر اس کا نقشہ بنا لیا،خیر مزید حیران کن بات یہ کہ اس نے یہ نقشہ ماہرین تعمیرات کو دکھایا تو وہ اس کو بنانے کیلئے راضی ہو گئے۔اگرچہ سننے میں یہ ناممکن لگتا ہے لیکن اس پر کام جاری ہے اور امید کی جارہی ہے کہ آنے والے چند برسوں میں یہ منصوبہ مکمل ہو جائے گا۔

image
YOU MAY ALSO LIKE:

Bigger is better. That’s the logic our species seems to function on, whether it’s the Saudi Royal family and their kilometer-high Kingdom Tower or China trying to build a dam so big it will literally slow the rotation of the Earth. But it’s one thing to dream big and quite another to invest in superstructures so massive they defy all sense, logic, and reason. We told you recently about some architectural wonders deemed too impractical to ever build.