طلاق

اس نے اپنی بیوی سے کہا:مجھے پیسے نکال کردو،میں فلاں جگہ جارہاہوں،بیوی نے منع کیا،تم مت جاؤ ، شوہرنے اصرارکیا،لیکن بیوی اسے روکتی رہی،شوہرکوغصہ آیا،اورکہدیا:جاؤمیں نے تمہیں چھوڑدیا،ایک طلاق،دوطلاق،تین طلاق،چارطلاق،دس تک کاپہاڑاپڑھ کراس نے اپنی بیوی کو سنادیا،جب غصہ ٹھنڈاہوااوراپنی غلطی سمجھ میں آئی تو دوڑا،دوڑامیرے پاس آیا،اوراس کے ساتھ ایک جم غفیربھی تھی،سبھی کی زبان پربیوی کی نیک سیرت اورمتانت وسنجیدگی کے چرچے تھے،اورشوہرکے بارے میں سبھی کاخیال تھاکہ یہ بدزبان ہے،بات بات پرگالم گلوج کرتاہے،اپنی بیوی کو مار دھاڑ کرتاہے،جان سے مارنے کی دھمکیاں دیتاہے،اوربے چاری بیوی ان کی ہربات پرصبر کرتی ہے، ہوسکتاہے کہ کل میرے شوہرکی زندگی میں سدھارآجائے،مگرہوایہ کہ آج شوہرنے تو حدوں کو ہی پارکردیا،اورطلاق دیکراسے زندگی سے الگ کردیا۔

ابھی دس دن بھی نہیں گذرے تھے کہ ایک جم غفیرمیرے پاس اورآئی،کہنے لگی:زید اپنے باپ سے جھگڑرہاتھا،بیٹانے باپ سے کہا:آپ اس طرح گالیاں نہ بکیں،توباپ نے کہا:تمہاری بیوی بھی تو تمہیں گالیاں دیتی ہیں،بس بیٹے کے رگوں میں جوانی کاخون دوڑنے لگا،اوریہ غصہ سے بے قابوہوگیا،کہنے لگا: چلومیں نے چھوڑدیااپنی بیوی کو،ایک طلاق،دوطلاق،تین طلاق۔

یہ دوسراواقعہ بھی عجیب حیران کن تھا،میاں بیوی میں کوئی جھگڑانہیں،دونوں میں کوئی بات چیت اور توتو ، میں میں نہیں،دونوں کی زندگی اچھی گذررہی ہے،دونوں ایک دوسرے کو چاہتے ہیں،اورایک دوسرے سے بے پناہ پیارکرتے ہیں،دونوں ایک مقصدکے تحت جی رہے ہیں،اورگھرکی زینت کیلئے ان کے پاس دوچھوٹے چھوٹے بچے بھی ہیں،لیکن کسی نے کہدیا:کہ تمہاراکان کوالیکربھاگ رہاہے ،توکواکے پیچھے دوڑنے لگا،جب دوڑتے دوڑتے تھک کرچورہوگیاتو سوچاکہ دیکھوں اپناکان؟معلوم ہواکہ کان تومیرے پاس ہے،اورمیں یونہی کسی کے کہنے پر فالتودوڑرہاہوں،یہی ہوااس بے چارے نواجوان کے ساتھ۔
ابھی اس واقعہ کاتصفیہ بھی نہیں ہواتھا،لڑکی کے گھروالے،اس کے خاندان کے لوگ،اورلڑکے والے ایک جگہ بیٹھ کر مسئلہ پرسنجیدگی سے غورکررہے تھے ،اورڈھائی سوکی اس جم غفیرمیں مجھے بھی بلایاگیاتھا، معلوم ہواکہ قریب ہی اسی شہریاگاؤں میں طلاق کا ایک اورواقعہ پیش آیاہے۔اﷲ کی پناہ

زمانہ جاہلیت میں عورتوں کے زخم پرمرہم پٹی کرنے والاکوئی نہیں تھا،وہ بازارمیں بیچی اورخریدی جاتیں،نہ انہیں آزادی تھی اورنہ آزادی ان کا حق سمجھاجاتاتھا،وراثت میں ان کا کوئی حصہ نہیں تھا ، مردوں کی طرح ان کے حقوق نہیں تھے،وہ غلامی کی زندگی گذارتی تھیں،یہی ان کا حق جانا جاتا تھا، یہاں تک کہ شادی بیاہ میں بھی ان کی کوئی مرضی نہیں تھی،وہ خوف اورڈرکے سہارے جیتی تھی،اچانک عبداﷲ کے گھرمیں آمنہ کے بطن مبارک سے ایک آفتاب طلوع ہوا،دیکھتے ہی دیکھتے عرب کی ظلمت وتاریکی میں روشنی آگئی،ظلم کی گھنگھورگھٹاؤں میں عدل ومساوات کادرس ہونے لگا،عورتوں کاکھویا ہوا وقارواپس آگیا،اسے عزت و عظمت کی دولت نصیب ہوئی،انہیں ان کا مقام مل گیا،وراثت میں بھی ان کو حصہ دیاگیا،اورآزادی کی دولت سے وہ مالامال ہوگئی،جومائیں زمانہ جاہلیت میں منحوس تصورکی جاتی تھیں، اسلام نے کہا:ان کے قدموں تلے جنت ہے،جوبیٹیاں پیداہوتے ہیں زندہ درگورکردی جاتی تھیں،اسلام نے کہا؛جس گھرمیں کوئی بچی پیداہوئی،اوراس نے جاہلیت کے طریقہ پر اسے زندہ دفن نہیں کیا،نہ اسے حقیرجانااورنہ لڑکوں کے مقابلے میں ترجیح دی تو اﷲ تعالیٰ ایسے شخص کوجنت میں داخل کردیگا۔

بچیوں کاپیداہونامعیوب سمجھاجاتاتھا،اس لئے کہ ان کے اخراجات کون برداشت کریگا، مگراسلام نے کہا:جس شخص نے تین لڑکیوں یاتین بہنوں کی سرپرستی کی،اورانہیں تعلیم وتربیت دی،ان کے ساتھ ر حم کا سلوک کیا،یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ نے اسے بے نیازکردیا،توایسے شخص کیلئے اﷲ نے جنت واجب کردی ہے۔
ہمارے نبی کریمﷺ اس دنیامیں عورتوں کیلئے رحمت بن کرتشریف لائے،اورہم اپنی عورتوں کیلئے زحمت بن رہے ہیں،ہمارے نبی ﷺنے عورتوں کوعزت وعظمت کی دولت عطاکی تھی،اورہم انہیں ذلت کی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں،ہم دم بھرتے ہیں اسی نبی کا ،اوراسی نبی کی الفت ومحبت کے قصیدے پڑھتے ہیں، جنہوں نے فرمایاتھا:یہ دنیاساری کی ساری فائدہ اٹھانے کی چیزہے،اوردنیاکی بہترین متاع نیک اورصالح عورت ہے۔نبی ﷺنے دوسرے موقع پرارشادفرمایا:تمہاری دنیامیں سے مجھے تین چیزیں بہت زیادہ محبوب ہیں، ایک عورت ،دوسری خوشبو،اورمیری آنکھوں کی ٹھنڈک نمازمیں ہے۔

نبی ﷺ نے آج سے ساڑھے چودہ سوسال پہلے ہمیں بتادیاتھا،سکھادیاتھا،کہ اے لوگو!محمدکے گھرمیں بہت سی خواتین چکرلگاتی ہیں،اوروہ اپنے شوہروں کی شکایات کرتی ہیں،کہ شوہران کے ساتھ بدسلوکی کرتے ہیں ،ان کو بری طرح مارتے ہیں،سن لواچھی طرح سن لو!وہ تم میں اچھے لوگ نہیں ہیں،اچھے مومن اورمسلمان کاکام یہ نہیں کہ اپنی بیویوں کومارپیٹ کرے،امہات المومنین رضی اﷲ عنہن فرماتی ہیں :کہ آنحضرت ﷺ نے ساری عمرکبھی بھی کسی عورت پرہاتھ نہیں ا ٹھایا۔

آج ہم پھراسی گڈھے میں جاگرے ہیں جہاں سے ہمارے نبی نے ہمیں نکالاتھا،ظلم وہاں بھی ہوتا تھا اورظلم یہاں بھی ہورہاہے،مردعورتوں پروہاں بھی حق جتاتھا،اوریہاں بھی جتاتاہے،عورتیں وہاں بھی خوف اورڈرکے سایے میں اپنی زندگی گذارتی تھی،اوروہی خوف اورڈریہاں بھی ہے،وہاں بھی جب کسی گھرمیں بیٹی پیداہوتی تو وہ گھرماتم کدہ بن جاتا، باپ کے چہرہ میں اداسی چھاجاتی،کوئی اسے کسی بیٹی کاباپ کہہ کر پکار دے ،یہ اس کیلئے ایک بڑی رسوائی سے کم نہ تھی،اس لئے وہ اپنی بیٹیوں کوزندہ درگورکردیتے تھے،اورہمارے ظلم نے تو ہمارے سماج کوبھی اسی موڑپرلاکھڑاکردیاہے،بیٹی ہوناآج بھی معیوب ہے، اس لئے کہ ظالموں کو تِلکْ کے نام پرلاکھوں روپئے بیٹی کا باپ کہاں سے لاکردیگا،اس لئے مشین کے ذریعہ حمل کاجانچ ہوتا ہے ، بچہ ہے ،یابچی ہے،اگربچی ہے تو دنیامیں آنے سے پہلے ہی ہماراظالم سماج اسے درگور کردیتا ہے، پھر کیا فرق ہوا ؟ہمارے مسلمان ہونے میں،اورزمانہ جاہلیت کے کفارومشرکین میں،دونوں برابر،دونوں ایک ہی صف میں،بلکہ ہم اس سے ایک قدم آگے،ہم نے ظلم بھی کیا،اورمنافقانہ چال بھی چلی،اپنااسلام ظاہربھی کیا، اور نبی کی سنت کی اطاعت بھی نہیں کی۔

اورشادی کے بعدان معصوم کلیوں کو وہی معصوم خوف اوروہی ڈر ،انہیں ہروقت اورہرلمحہ یہی خطرہ دامن گیررہتاہے کہ میراشوہرہمیں طلاق،طلاق ،طلاق کہہ کر ہمیشہ کیلئے رخصت نہ کردے۔

میرے مسلمان بھائیو!یادکیجئے،نبی کریم ﷺ نے آج سے ساڑھے چودہ سوسال پہلے ارشاد فرما یا تھا: روئے زمین پر کوئی ایسی چیزپیدانہیں کی جوطلاق دینے سے زیادہ اﷲ تعالیٰ کومبغوض اورناپسندیدہ ہو۔

ایک بارایک شخص کے بارے میں نبی کریم ﷺ کواطلاع ملی کہ اس نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی، توآپ ﷺ غصہ کی حالت میں کھڑے ہوگئے،اورارشادفرمایا:ابھی جبکہ میں تمہارے درمیان موجودہوں کیا کتاب اﷲ سے کھیلاجائیگا؟کیاکتاب اﷲ اوراس کی تعلیم سے مذاق کیاجائیگا؟حضورﷺسخت غصہ میں تھے، ایک صحابی کھڑے ہوگئے یارسول اﷲ ﷺ!میں اس آدمی کو قتل ہی نہ کردوں جس نے یہ حرکت کی ہے ۔ (نسائی )
حضرت عبداﷲ بن عمرصنے حالت حیض میں ایک باراپنی بیوی کو طلاق دے دی،ان کے والدمحترم حضرت عمرفاروق ص نے اس کی اطلاع حضورﷺ کو دی،توآپ بہت سخت ناراض ہوئے اورحکم دیاکہ عبداﷲ بن عمرکوچائیے کہ وہ اپنی بیو ی سے رجوع کرلیں۔

ایک حدیث میں ہے کہ ابلیس اورشیطان کبھی کبھی سمندرمیں پانی کے اوپراپناتخت بچھاتا ہے ، اور اپنا دربارمنعقدکرتاہے،اس کے تمام چیلے دربارمیں حاضرہوتے ہیں ،اوراپنی کارکردگی کی رپورٹیں پیش کرتے ہیں،ایک چیلاآتاہے اوراپنی کارگذاری سناتاہے کہ ایک شخص نمازپڑھنے کے ارادہ سے مسجدکی طرف جارہا تھا،میں نے اسے کسی کام میں پھنسادیا،جس سے اس کی نمازچھوٹ گئی،ابلیس سن کر خوش ہوتاہے کہ تم نے اچھاکام کیا،لیکن بہت زیادہ خوشی کا اظہارنہیں کرتاہے،دوسراچیلاآتاہے اورکہتاہے کہ فلاں شخص فلاں عبادت کی نیت سے جارہاتھامیں نے اسے عبادت سے روک دیا،ابلیس سن کرخوش ہوتاہے کہ تم نے اچھاکام کیا،ایک چیلااورآتاہے اورکہتاہے کہ دومیاں بیوی باہمی اتحادواتفاق سے زندگی گذاررہے تھے، میں نے جاکرایساکام کیاجس کے نتیجہ میں دونوں کی لڑائی ہوگئی اورلڑائی کے نتیجہ میں دونوں میں جدائی واقع ہوگئی ، ابلیس یہ سن کر بہت خوش ہوتاہے،اوراپنے تخت سے کھڑاہوجاتاہے اوراس چیلے سے معانقہ کرتاہے،اسے گلے لگاتاہے، اورکہتاہے حقیقت میں تومیرانمائندہ ہے۔(مسلم شریف)

وہ ایک نادان لڑکی ہے ،پڑھائی لکھائی بھی نہیں جانتی ؛مگرجب اس سے نکاح کارشتہ قائم ہوگیاتواس نے دو بول کی ایسی لاج رکھی کہ اس نے اپنی ماں کو چھوڑا،باپ کو چھوڑا،بہن ،بھائیوں کو چھوڑا،اپنے خاندان کو چھوڑا،پورے کنبے کو چھوڑا،اپناگھر بار چھوڑا،اپناماحول ،اپناسماج چھوڑدیا،اور سب کو الوداع کہدیا۔
وفاداری کی اتنی بڑی مثال اس نے قائم کی کہ کل تک وہ اجنبی تھی مگرجب کہدیا:’’میں نے قبول کیا‘‘تو وہ شوہر کا ہوگئی ،اپنی عزت ،شان وشوکت سب کچھ اپنے شوہرپرنثارکردی،اسی کے لئے جینا،اسی کے لئے مرنا اپنی زندگی کا مقصد سمجھنے لگی ۔

کل تک ہمارے لئے جائز نہیں تھا کہ اس کی طرف نگاہ اٹھاکر بھی دیکھیں ،مگر جب نکاح کا رشتہ قائم ہوگیا تو اسے دیکھنا،اسے چھونا،سب کچھ جائز ہوگیا ،اس خوشی میں مذہب اسلام نے کہا کہ اپنی حیثیت کے مطابق دَین مہراداکرو؛لیکن افسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ظالم سماج میں دین مہر کی ادائیگی کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی ہے ،اور نہ اس طرف کسی کا دھیان ہوتا ہے ،الٹالڑکی والوں کی طرف سے جہیز،تِلکْ ، ہیرے جواہرات اوردنیابھرکے سازوسامان کے مطالبے ہوتے ہیں؛لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے رسول اﷲ کے اس فرمان کو : کہ جس شخص نے کسی عورت سے کم یا زیادہ مہر پر نکاح کیا اور اس کے دل میں اس حق مہرکی ادائیگی کا ارادہ ہی نہیں ہے تو قیامت میں اﷲ کے حضور میں زناکار کی حیثیت سے پیش ہوگا۔
وہ بے چاری تو دوسرے کے گھر سے ہمارے گھرمیں آئی،ہمیں خوش آمدیدکہناچائیے تھا،ان کا استقبال کرناچائیے تھا،ان کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کر نا چاہئے تھا ،اچھائی کا مظاہرہ کرنا چاہئے تھا ،نبی نے بھی تو حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایاتھا:خوب سن لو !میں تمہیں عورتوں کے ساتھ بھلائی کی نصیحت کرتاہوں ، تم اس نصیحت کو قبول کرو،اس لئے کہ وہ خواتین تمہارے گھر میں مقید رہتی ہیں۔مگرافسوس اسی نبی کے نام پر مرمٹنے کی قسمیں کھانے والے لوگوں کے سماج میں یاتو جہیزنہ لانے کے جرم میں ان پر پٹرول چھڑک دیا جاتا ہے ،یاپھر طلاق،طلاق،طلاق کہہ کر گھرسے بے گھرکردیاجاتاہے۔

میرے مسلمان بھائیو!یہ ظلم ہے،ظلم ہے،ظلم ہے،اورظلم کواﷲ کبھی معاف نہیں کرتے،ظالموں کاانجام بہت براہوتاہے،اس پراﷲ کی لعنت ہوتی ہے،آخرت میں اس کا ٹھکانہ جہنم ہے،اوردنیامیں بھی اس کوسزامل کر رہتی ہے۔

آئیے!ہم بھی سوچیں ،آپ بھی سوچیں اورطلاق کے بڑھتے ہوئے سیلاب کے روک تھام کیلئے کوئی لائحہ عمل مرتب کریں،گاؤں ،گاؤں،قریہ ،قریہ،شہر ،شہر،ضلع ،ضلع ،اس پیغام کو عام کریں!!!
Khalid Anwar
About the Author: Khalid Anwar Read More Articles by Khalid Anwar: 22 Articles with 26233 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.